خواتین کا دائرۂ کار

مریم جمال

عورت اور مرد کا تعلق، دونوں کا دائرئہ کار اور ان کے اختیارات و فرائض انسانی تہذیب و تمدن کے بنیادی سوالات رہے ہیں اور آج بھی ہیں۔ کسی بھی تہذیب یا معاشرہ میں عورت کی حیثیت اور اس کے رول کو دیکھ کر بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی سمت سفر کیا ہے اور وہ درست بھی ہے یا نہیں۔ اس موضوع پر اہلِ مذہب نے بھی اپنی رائے دی ہے اور ماہرین سماجیات نے بھی طرح طرح کے فلسفے پیش کیے ہیں مگر اکثر صورتوں میں انھوں نے معاشرے کی صحیح سمت سفرتعین کرنے کے بجائے اسے گوناگوں مسائل سے دوچار کیا ہے۔ اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ ان کی فراہم کردہ رہنمائی خود انہی کی سوچ اور فکر کی تخلیق کردہ تھی اور دوسرے یہ کہ وہ بنیادی صنفی تفریق کا لحاظ کیے بنا محض جذباتی اور مفاد پرستانہ سوچ پر مبنی تھی۔ اس کی مختصر وضاحت یوں کی جاسکتی ہے کہ ان ماہرین کی سوچ کسی الٰہی رہنمائی سے دور اور ان کی اپنی انسانی سوچ کا نتیجہ تھی اور یہ کہ وہ جس سوچ و فکر کے نمائندے تھے اسی کے مطابق انھوں نے عورت کو دیکھنے، اس کا رول اور دائرئہ کار متعین کرنے کی کوشش کی۔ نظریاتی طور پر اشتراکیت نے عورت کو پروڈکشن میں اضافے کا اسی طرح ذریعہ تصور کیا جس طرح مرد کو تصور کیا تھا اور اس طرح بنیادی صنفی اور فطری تقاضوں کو پروڈکشن بڑھانے کے لالچ میں یکسر نظر انداز کردیا۔ اسی طرح موجودہ مغربی تصور نے جو سرمایہ دارانہ نظام کا علم بردار ہے، عورت کو ایک فرد کا درجہ دینے کے بجائے اسے ایک جنس (Commodity) بناکر پیش کیا۔ دفتروں اور ہوٹلوں کے استقبالیہ کاؤنٹرس پر اس کی خوبصورتی اور مسکراہٹ کی قیمت وصول کی جانے لگی اور پروڈکٹ بیچنے کے لیے اس کے حسن اور اداؤں کا بھر پور استعمال شروع ہوگیا۔ اب یہی سکہ رائج الوقت بھی بن گیا ہے اور عوت کے حقوق، اس کی آزادی اور اس کے رول کی بات کو اور اس کی پوری ذات کو اسی تناظر میں دیکھا جانے لگا ہے جو آج مغربی تہذیب کے سبب عام ہوگیا ہے۔ مسلم عورت کیونکہ نظریاتی اور عملی طور پر اس تہذیب کے فریم میں فٹ نہیں ہوتی اس لیے اسے بیک ورڈ اور پسماندہ کہا جاتا ہے اور اس کا پوری طرح ذمہ دار اس مذہب کو تصور کیا جاتا ہے جس کو وہ مانتی ہے اور جو نظریاتی طور پر اس تہذیب کے تصور عورت کو رد کرتا ہے۔

تمدن انسانی کے اس بنیادی مسئلہ پر اسلام نے بالفاظ دیگر اللہ اور اس کے رسولﷺ نے بڑی واضح اور محکم ہدایات دی ہیں اور مرد و عورت کے تعلق اور دائرئہ کار کو جو اس پورے معاملے میں بنیادی حیثیت کا حامل ہے نہایت حسین انداز میں حل کیا ہے۔

مرد و عورت کے تعلق، رول اور دائرئہ کار کے سلسلہ میں اسلام کی ہدایات براہِ راست قرآن مجید سے ملتی ہیں، اسی طرح عورت کا سماجی اور معاشرتی زندگی میں کیا رول ہوگا اور ہونا چاہیے اس کی بھی وضاحت اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں واضح انداز میں فرمادی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

’’مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے ولی ہیں۔ وہ نیکیوں کا حکم دیتے اور برائیوں سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ یقینا رحم فرمائے گا بے شک اللہ تعالیٰ قدرت والا اور حکمت والا ہے۔‘‘

(توبہ: ۷۱)

اسلام کا امتیاز یہ ہے کہ اس نے مرد و عورت کی سماجی و معاشرتی زندگی اور دونوں کے رول اور حدود کار کی تعیین میں صنفی اور فطری خصوصیات کو پیشِ نظر رکھا ہے اور اسی انداز میں دونوں کو ذمہ داریاں تفویض کی ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام میں مرد و عورت کے اس آزادانہ اختلاط کی کوئی گنجائش نہیں جو مغربی سماج میں رائج ہے۔ اسی طرح وہ عورت کو ’’گھر میں قید کردینے‘‘ کا بھی مرتکب نہیں جیسا کہ مغرب پرست الزام لگاتے ہیں۔ اس کی دلیل کے لیے عہدِ رسالت اور عہدِ اسلام کے زمانوں میں عورت کی وہ سماجی و معاشرتی خدمات ہیں جن سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی دور میں خواتین، بیدار مغز عالم و فقیہہ اور مفسر و محدث، سائنس داں اور طبیب، داعی و مبلغ، شاعر و سیاسی تجزیہ کار، مجاہد و منتظم ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ درجہ کی مربی، مثالی خانہ دار اور فکر معاش میں شوہروں کی معاون و مددگار بھی نظر آتی ہیں۔ اس دور کی یہ اہم خوبی رہی ہے کہ وہاں صرف مردوں کے شخصی ارتقاء اور ان کی ہمہ جہت تربیت پر ہی زور نہیں دیا گیا بلکہ خواتین کی زندگی کو بھی ان تمام سوتوں سے جوڑا گیا جہاں سے علم وفکراور جہدو عمل کے چشمے ابلتے تھے۔ مسجدیں اور تعلیم گاہیں اس کے اہم مراکز تھے جہاں سے خواتین کا مضبوط تعلق قائم تھا۔ چنانچہ بہت سی جگہوں پر عالم و فاضل خواتین اور علم فقہ و تفسیر میں درک رکھنے والی عورتوں کے باقاعدہ حلقے قائم تھے جہا ںوہ درس دیتی تھیں اور ان کے حلقوں میں بڑے بڑے نامور علماء و محدثین اورامام وقت بھی شریک ہوتے تھے۔ ذیل میں پیش ہیں چند مختصر حوالے:

٭ حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ ﷺ کی مثالی گھریلو زندگی۔

٭ حضرت عائشہؓ کا علم و فضل کہ بڑے بڑے صحابہ ان سے استفادہ کرتے۔

٭ حضرت ام عطیہؓ کا سات جنگوں میں شریک ہونا۔

٭ حضرت جابر بن عبداللہ کی خالہ کا طلاق کے بعد (دورانِ عدت) باغ میں جاکر کھجوریں توڑنا۔

٭ نماز باجماعت، نماز جنازہ، سورج گرہن کی نماز میں شرکت اور مسجد میں اعتکاف۔

٭ دورانِ جنگ اور عام حالات میں خواتین کا حفظانِ صحت، علاج و معالجہ اور زخمیوں کی دیکھ بھال کرنا۔

٭ حضرت زینب بنت جحشؓ کا علیحدہ معاشی جدوجہد کرنا۔

٭ خواتین کا حضور اکرمﷺ سے استفادہ کے لیے ایک دن خاص کرنے کی درخواست کرنا۔

٭ جنگ احد میں ایک خاتون کی نبیؐ کے دفاع میں تلوار زنی اور جنگ خندق کے موقع پر حضرت صفیہؓ کا ایک گھڑ سوار کو قتل کرنا۔

ان مختصر حوالوں اور تاریخِ اسلام میں موجود دیگر سیکڑوں واقعات سے جو بات بہت نمایاں طور پر ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام نے عورت کی ایک ایسی مضبوط اور مستحکم شخصیت کی تعمیر کی تھی جو دینی فکر کے اعتبار سے نہایت پختہ اور ’امورِ دنیا‘ کے اعتبار سے نہایت باشعور تھی اور اسے اپنی شرعی حدود اور ’دینی و دنیاوی‘ ذمہ داریوں کا پورا شعور تھا۔ اسی لیے اس دور کی عورت کے لیے یہ ممکن ہوسکا کہ وہ دین کے لیے مطلوب جدوجہد میں اپنا پورا کردار ادا کرسکی۔

موجودہ دور کا مسلم سماج افراط و تفریط کا شکار ہے۔ ایک طبقہ وہ ہے جو عورت کی آزادی اور حقوق نسواں کے دامِ فریب میں گرفتار ہوکر اپنی ’مغرب زدہ آزاد مزاجی‘ کے لیے دین سے بنیادیں فراہم کرنے کی جوڑ توڑ میں مصروف ہے۔ دوسری طرف ’دین پسند‘ طبقہ کی خاتون کا معاملہ یہ ہے کہ وہ بنیادی دینی علم اور اپنے فرائض و ذمہ داریوں سے ناواقف ہوکر جمود و تعطل کی زندگی گزار رہی ہیں اور اس جمود و تعطل کی بنیادیں بھی وہ دین سے تلاش کرکے مطمئن ہے۔ حالانکہ نہ تو اسلام اسے مغربی معاشرہ کی طرح اختلاط مردوزن کی اجازت دیتا ہے اور نہ دین کے نام پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور شہادتِ حق کی ذمہ داری کو ادا کرنے میں رخصت دیتا ہے۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَاکُمْ اُمَّۃً وَسَطاً لِتَکُوْنُوْا شُہَدَائَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلَ عَلَیْکُمْ شَہِیْداً۔

مسلمان یا امت مسلمہ افراط و تفریط سے پاک درمیانی راہ اختیار کرنے والی امت ہے۔ اور اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ لوگوں پر حق کی گواہی دے اور حق کو ان کے سامنے واضح انداز میں پیش کردے۔ امت مسلمہ میں مرد وخواتین سب شامل ہیں اور اس حیثیت سے خواتین بھی شہادتِ حق کی مکلف اسی طرح ہیں جس طرح مرد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذمہ دار ہیں۔ شہادتِ حق اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری کوئی ایسی ذمہ داری نہیں جس کو بعد نبوت کے دور میں ان پر عائد کیا گیا ہو یا وہ خواتین پر کچھ اضافی ذمہ داری ہو۔ یہ وہ بنیادی ذمہ داری ہے جو خود اللہ رب العزت نے تمام مردوں اور خواتین پر عائد کی ہے اور دنیا میں اسلام کا غلبہ اور آخرت کی کامیابی اس سے وابستہ ہے۔ یہ اسی طرح اہم اور ضروری ہے جس طرح گھر میں بچوں کے کھانے پینے اور ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرنا۔ اور ایسے حالات میں جب کہ خواتین سب سے زیادہ دین سے دوری یا بے دینی اور مغرب زدگی کا شکار ہیں اس کی اہمیت ان لوگوں کے نزدیک اور بڑھ جاتی ہے جو امت مسلمہ کے داعی امت ہونے کا تصور رکھتے اور دین کے غلبہ کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔

سورہ توبہ کی آیت ’مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے ولی ہیں، وہ نیکیوں کا حکم دیتے اور برائیوں سے روکتے ہیں…‘‘ میں یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ مومن مرد مومن مردوں کے ولی اور دوست ہیں جبکہ مومن عورتیں مومن عورتوں کی ولی اورد وست ہیں وہ نیکیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں۔ سورہ الحج کی آخری آیت ملاحظہ ہو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَجَاہِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہٖ…… فَنِعْمَ الْمَوْلیٰ وَنِعْمَ النَّصِیْر۔

اللہ کے راستے میں جدوجہد کا حق ادا کرنے کا مطالبہ اللہ تعالیٰ نے پوری امت مسلمہ یا تمام اہلِ ایمان سے کیا ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ یہ امت حق کی گواہی اقامتِ صلوٰۃ اور زکوٰۃ کی ادائیگی کو قائم کرے۔ اور بالآخر اللہ کے راستے پر مضبوطی سے جم جائے۔ اور اللہ ہی کواپنا ولی، مددگار اور کارساز تصور کرے۔ جس طرح مردوں کو اہلِ خانہ کے لیے کسب معاش، ان کی روزی روٹی کا انتظام کرنے کے ساتھ اسے دعوت حق اور شہادت علی الناس کی ذمہ داری سے بری نہیں کیا گیا اسی طرح عورت بھی اپنی خانگی ذمہ داری کے باوجود اس ذمہ داری سے بری نہیں ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ عورت کسی بھی صورت میں تربیت اولاد اور خانگی ذمہ داری کو نظر انداز کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ معاشرتی ذمہ داریوں کا اہم ترین محاذ ہے مگر دینی اور دعوتی نقطۂ نظر سے گھر سے باہر کی اس ذمہ داری کو بھی یکسر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جو دنیا میں عدل و انصاف کے قیام، صالح معاشرہ کی تشکیل اور نصف انسانیت کی اصلاح و تربیت کے لیے اللہ اور اس کے رسول نے عائد کی ہے۔

اگر مسلم سماج کی خواتین عام خواتین کی اصلاح و تربیت اور اس فکری فساد اور بگاڑ کی طرف متوجہ نہ ہوں جو موجودہ دور میں انتہا کو پہنچا ہوا ہے تو یقینا ہم کبھی بھی غلبۂ اسلام اور صالح معاشرہ کے خواب کو شرمندئہ تعبیر ہوتے نہیں دیکھ سکتے کیونکہ مردوں کی حدود کار صرف معاشرہ کے مرد ہیں اور اگر وہ پوری جدوجہد سماجی و معاشرتی اصلاح پر صرف کربھی دیں تب بھی نصف انسانیت تک ان کی رسائی ممکن نہ ہوسکے گی۔ اس کی صرف اور صرف یہی ایک صورت ہے کہ مسلم خواتین بھی اپنی اس ذمہ داری کا فکری شعور پیدا کریں جس کا تذکرہ قرآن مجید میں جگہ جگہ کیا گیا ہے۔چنانچہ

وَلْتَکُنْ مِنْکُمْ اُمَّۃً یَدْعُوْنَ اِلٰی الْخَیْرِ وَ یَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ۔

’’اور تم میں ایک گروہ ایسا ضرور ہو جو لوگوں کو نیکیوں کا حکم دے اور برائیوں سے روکے۔‘‘

کی روشنی میں یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ خواتین میں بھی ایک گروہ ایسا ضرور ہو جو خواتین کو نیکیوں کا حکم دے اور برائیوں سے روکے ، اور یہ کام امور خانہ داری اور اولاد کی صالح تربیت کی فکرکے ساتھ ساتھ کیا جانے والا کام ہے جو اللہ تعالیٰ مسلم خواتین سے چاہتا ہے۔

عورت کے دائرۂ کار پر بحث کرتے ہوئے یہ بات قرآن و حدیث اور سیرت و تاریخ سے واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ عورت کا دائرئہ کار محض اس کا گھر ہی نہیں بلکہ معاشرے اور سماج کی وہ تمام خواتین ہیں جو گمراہی و ضلالت کے اندھیروں میں بھٹک رہی ہیں اور ان کو صحیح راستہ دکھانے کی ضرورت ہے اور یہ کام صرف خواتین ہی کرسکتی ہیں اور انہیں ضرور کرنا چاہیے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146