اس امر میں کوئی اختلاف نہیں کہ دینی تعلیمات اور احکام اسلامی جاننے کی جتنی ضرورت مسلمان مردوں کو ہے، اتنی ہی مسلمان عورتوں کو بھی ہے۔ دوسرے لفظوں میں دین کے اصول و کلیات کا احترام یا اتباع احکام کا مطالبہ صرف مسلمان مرد سے نہیں بلکہ عورت سے بھی کیا گیا ہے۔ اور اس مطالبہ کی تکمیل کی سوائے اس کے لیے اور کوئی شکل نہیں کہ وہ قرآن و سنت اور دینی تعلیمات سے پوری طرح واقف ہو۔
سورۃ الممتحنہ کی آیت نمبر ۱۲ میں مومن عورتوں سے جن باتوں (شرک، چوری، زنا، بہتان تراشی اور اولاد کو قتل نہ کریں گی وغیرہ) کا اقرار کرایا گیا ہے ان میں ایک چیز ہے وَلاَ یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ (وہ کسی بھی معروف حکم میں آپؐ کی نافرمانی نہیں کریں گی) یہ بظاہر ایک چھوٹا سا فقرہ ہے۔ مگر عورت کو معاشرہ میں انتہائی ذمہ دار اور جواب دہ بنا دیتا ہے اور مجبور کرتا ہے کہ وہ قدم قدم پر رسولِ مقبولﷺ کی مخالفت سے بچے اور آپﷺ کی رضا ڈھونڈے۔ یقینا اسی احساسِ ذمہ داری اور احساسِ جواب دہی نے صحابیاتؓ کو دین کے معاملے میں بڑا نڈر بنا دیا تھا۔ دینی مسائل کو سمجھنے میں عورت کی فطری شرم و حیا اس کے لیے مانع نہ تھی۔ وہ بے دھڑک حضوؐر کے پاس آتیں، سوال کرتیں اور حضورﷺ ان کی تشفی فرماتے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ صحابیات کے فہم دین کے جذبہ خیر کو یوں بیان فرماتی ہیں:
’’انصاری عورتیں کیا خوب عورتیں ہیں! دین کے سمجھنے کے سلسلے میں حیاء ان کے آڑے نہیں آتی۔‘‘
حضورﷺ مسلمانوں کو موقع موقع سے رضائے الٰہی سے آگاہ فرما رہے تھے۔ وحی الٰہی کے نازل ہونے یا آں جنابﷺ کے فرمودات و تعلیمات کا کوئی معین وقت اور کوئی خاص مقام نہ تھا۔ مسجد میں، بازار میں، میدان جنگ میں، سفر میں، حضر میں، عام مجلس میں، شادی بیاہ کے موقعہ پر، غمی اور مرگ کے موقع پر غرض دن رات میں موقع محل اور ضرورت کی مناسبت سے احکامِ الٰہی نازل ہو رہے تھے اور آں جنابﷺ ان کی تشریح فرما رہے تھے۔ ان مواقع میں بہت سے مواقع ایسے ہوتے تھے جہاں عورتیں حاضر نہیں ہوتی تھیں یا ہو نہیں سکتی تھیں۔ اس طرح عورتیں براہِ راست زبان نبویؐ سے نکلی ہوئی تعلیمات اور فرمودات کے سننے سے محروم رہتیں۔ تعلیمات سے آگاہی اپنی جگہ اور بلاواسطہ کلام نبوت سننے کا لطف و سرور اور کیف اپنی جگہ۔ بالواسطہ کوئی حکم معلوم کرنے میں لطف اور لذت کہاں جو بلا واسطہ حکم نبویؐ میں ہوسکتی تھی۔ چناں چہ صحابیات نے بارگاہِ نبویؐ میں اس امر کی شکایت کی اور مطالبہ کیا کہ آپﷺ ان کے لیے مستقل علیحدہ ایک دن تعلیم کے واسطے مقرر فرمائیں۔ رؤف و رحیم نبیﷺنے ان کی درخواست کو پذیرائی بخشی اور ایک دن مقرر فرمایا۔ بخاری شریف میں ہے: ’’حضرت ابو سعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ عورتوں (صحابیات) نے نبی اکرمﷺ سے عرض کی کہ مرد ہمارے مقابلے میں آپؐ پر غالب ہیں (یعنی آپ کا اکثر وقت مردوں ہی میں گزرتا ہے اس طرح ہم عورتیں آپ کی تعلیمات اور فرمودات سے محروم رہتی ہیں) لہٰذا ہمارے لیے آپؐ ایک علیحدہ دن مقرر فرمائیں (جس میں ہم حاضر ہوکر آپ سے مستفید ہوسکیں) آپﷺ نے ان سے ایک دن کا وعدہ فرمایا۔ وعدے کے مطابق اس دن آپؐ ان عورتوں سے ملے۔ انہیں وعظ و نصیحت فرمائی اور انہیں (صدقہ کا) حکم فرمایا۔‘‘
دین و احکام شرعیہ سے واقفیت اور اس کی ضرورت کے علاوہ یہ چیز بھی مدنظر رہے کہ جتنے اور جو اخلاقی اوصاف مردوں میں پائے جاسکتے ہیں وہ عورتوں میں بھی پائے جاسکتے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ بعض مستورات رفعت و بلندی کے اس درجہ اور مقام تک پہنچیں کہ اکثر مرد ان کی گرد راہ کو بھی نہیں چھو سکتے تھے۔
قرآن مجید کی سورہ الاحزاب آیت نمبر ۳۵میں جو اخلاقی اوصاف و خصائل مردوں کے بتائے گئے ہیں بعینہٖ وہی اوصاف و خصائل عورتوں کے بھی شمار کیے گئے ہیں۔ لہٰذا ہراعتبار سے ضروری ہے کہ جہاں مردوں کی تعلیم و تربیت کا بندوبست کیا جائے وہاں ساتھ ساتھ عورتوں کی تعلیم و تربیت کا بھی اہتمام ہوتا کہ انسانی معاشرہ مطلوبہ نتائج حاصل کرسکے۔
تعلیم عورت کا حق ہے
بقول ابن خلدون علوم و فنون کی تحصیل انسان کا فطری تقاضا ہے۔ اسلام دین فطرت ہے۔ اس نے عورت کو حصول علم کا پورا پورا حق دیا ہے۔ حضورؐ نے عورت کے اسی فطری و دینی حق کے پیش نظر متعدد مواقع پر مردوں کو حکم فرمایا اور ترغیب و تلقین فرمائی کہ وہ عورتوں کو دینی تعلیم اور قرآن و سنت سے روشناس کرایا کریں)۔
چنانچہ حضرت مالک بن حویرثؓ کہتے ہیں کہ ہم چند نوجوان حضورﷺ کی خدمت میں دین سے واقفیت حاصل کرنے کی غرض سے بیس دن رہے۔ جب آپؐ نے محسوس فرمایا کہ ہمیں گھر جانے کی جلدی ہے تو فرمایا: ’’اپنے بیوی بچوں کی طرف لوٹ جاؤ، ان ہی میں رہو، ان کو دین کی باتیں سکھاؤ اور ان پر عمل کا حکم دو۔‘‘
بعض اوقات آں جنابﷺ نے مردوں کو قرآن مجید کے خاص خاص حصوں کی طرف متوجہ کیا کہ وہ اپنی (عورتوں کو ان کی تعلیم دیں) مثلاً سورہ بقرہ کی آخری دو آیتوں میں ایمانیات اور اصولِ دین سے بحث کی گئی ہے۔ ان کے متعلق فرمایا:
’’بلاشبہ اللہ نے سورہ بقرہ کی ایسی دو آیتوں پر ختم کیا ہے جو مجھ کو اس مخصوص خزانہ سے دی گئی ہیں جو عرش کے نیچے ہے۔ پس تم خود بھی ان کو سیکھو او راپنی عورتوں کو بھی سکھاؤ۔‘‘
اسی طرح کا ایک حکم نامہ حضرت عمر فاروقؓ نے اہل کوفہ کو لکھا تھا: علموا نساء کم سورۃ النور ’’اپنی خواتین کو سورہ نور سکھاؤ۔‘‘
سورہ نور سکھانے کی خاص تاکید اس وجہ سے ہے کہ اس میں مسلمان معاشرے کو ضروری اور اہم معاشرتی ہدایات دی گئی ہیں۔
ان تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ خواتین کو خود بھی علم حاصل کرنے میں چستی اور رغبت دکھانی چاہیے۔ اس میں رسمی اور غیر رسمی تمام چیزیں شامل ہیں۔ اسی طرح مردوں کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی خواتین کو رسمی طور پر تعلیم یافتہ بنانے کے ساتھ ساتھ ان کی دینی و شرعی تعلیم سے کسی بھی صورت غافل نہ ہوں۔ ورنہ معاشرہ جہالت اور بے دینی کے دل میں دھنس جائے گا۔‘‘