یعنی ’’عالمی یوم خواتین‘‘ کو گزرے ابھی چند روز ہوئے ہیں۔ اس دوران ہم نے دیکھا کہ حکومتی اور غیر حکومتی اداروں کی جانب سے اس موقع پراخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات شائع ہوئے،کانفرنسوں اور ریلیوں کی تصاویر بھی دیکھنے کو ملیں، خواتین کے حقوق پر مضامین شائع ہوئے اور ان سے متعلق مختلف النوع اعداد و شمار بھی دیکھنے کو ملے۔ ایسا اس وجہ سے ہے کہ یہ دن پوری دنیا میں خواتین کے دن کی حیثیت سے منایا جاتا ہے۔ کیا کبھی آپنے غور کیا کہ اس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کا ایک طویل تاریخی پس منظر ہے جو خواتین کی اس جدو جہد کو بھی یاد دلاتا ہے جو انہوں نے خواتین کے خلاف امتیازی رویوں اور اپنے اوپر کئے جانے والے ظلم و ستم کے خلاف کی ہے۔
اس سلسلے کی سب سے پہلی جدوجہد امریکہ میں شروع ہوئی تھی جہاں گارمنٹس فیکٹریوں میں کام کرنے والی خواتین نے اپنے اُوپر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم، صنفی امتیاز اور ہراسانی کے خلاف احتجاج اور ہڑتال کرکے استحصالی قوتوں کے خلاف خواتین کو متحد کرنے اور معاشرے کو بیدار کرنے کوشش کی تھی۔ اس کے بعد امریکن سوشلسٹ پارٹی نے اِن مزدور خواتین اور معاشرے کی دیگرمجبور و مظلوم خواتین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے طور پر 28 فروری 1909ء کو پہلی مرتبہ پورے امریکہ میں’’خواتین کا دن‘‘ منانے کی صدا لگائی اور بڑے اہتمام سے نہ صرف امریکہ میں بلکہ پوری دنیا میں خواتین کے حقوق کے حصول کے لیے منایا جانے والا یہ پہلا دن اور پہلا واقعہ تھا۔ اس کے بعد سوویت یونین میں بھی روسی خواتین نے 1917ء میں فروری کے آخری اتوار کو خواتین پرجبر اور ان کے استحصال، صنفی امتیاز، جنسی ہراسانی اور عدم مساوات کے خلاف ہڑتالیں اور احتجاجات کئے۔ اس وقت “روٹی اور امن” ان خواتین کا نعرہ تھا۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ اور سوویت یونین میں خواتین کے حقوق و تحفظ کے لیے بلند ہونے والی اِن آوازوں کے ذریعہ خواتین کے خلاف امتیازی سلوک، عدم مساوات اور جبر و استحصال کے بارے میں شعور و آگہی بڑھنے اور پھیلنے لگی، یہاں تک کہ 1945ء میں عالمی ادارے اقوام متحدہ کی تشکیل کے وقت ہی سے اس کے آئین میں خواتین کے حقوق کے تحفظ و مساوات کو تسلیم کرتے ہوئے باقاعدہ طور سے آئین میں شامل کرلیا گیا۔
بعدازاں اقوام متحدہ کی جانب سے باضابطہ طور پر 1975ء میں 8 مارچ کو ’’انٹرنیشنل وومن ڈے‘‘ یعنی خواتین کے عالمی دن کے طور پرمنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اب یہ دن دنیا بھر میں خواتین کے غیر معمولی متحرک و فعال اور تعمیری و مثبت رول کو تسلیم کرتے ہوئے نہ صرف انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہے بلکہ اُن کے خلاف ہر طرح کے ظلم وناانصافی، جبر و تشدد اور صنفی امتیاز کے خاتمے کے لیے مزید جدوجہد کے عزم و ارادے کے اظہار کا دن بن گیا۔
اسی تاریخی پس منظر میں فیمینسٹ موومنٹ یا نسائی تحریک چلی جس نے دنیا بھر میں خواتین کو مردوں کے ’مظالم‘ کے خلاف متحد و مجتمع کیا اور پھر یہ تحریک پوری دنیا میں پھیل گئی۔ یہ تحریک مغرب سے اٹھی، وہیں پروان چڑھی اور پھر وہیں سے پوری دنیا میں پھیلی۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ وہاں کے اس وقت کے حالات عورت کے لئے ناقابل برداشت ہوگئے تھے اوراس سے تنگ آگر مغرب کی عورت نے علم آزادی و مساوت بلند کیا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ مغرب کا عروج شروع ہوچکا تھا اور اور وہاں لوگوں کے ذہن و فکر نے اس حقیقت کو بہت جلد تسلیم کرلیا کہ ان کے یہاں عورت واقعی مظلوم ہے اور پھر اس کے مطالبات کی حمایت بھی کی۔ یہ ایک اچھا پہلو تھا۔
اقوام متحدہ کے بنتے ہی اور خواتین کے اس ایجنڈے کے اس کے منشور میں آتے ہی اس میں نئی جان آگئی اور پھر دنیا بھر میں کانفرنسوں اور سیمیناروں کے ذریعہ خواتین کے حقوق اور مساوات کی بات کو بڑے پیمانے پر عوام اور حکومتوں کے سامنے پیش کیا جانے لگا، حکومتوں سے منشور پر دستخط کرائے جانے لگے اور انہیں اس بات کے لئے مجبور کیا جانے لگا کہ وہ اس سلسلے میں اپنے یہاں نئے طرز کی قانون سازی کریں۔
اب جبکہ ایک صدی سے زیادہ کا عرصہ اس تحریک کو گزر گیا ہے اس نے مشرق سے مغرب تک پوری دنیا کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس تحریک نے عرب اور اسلامی دنیا کو بھی متاثر کیا ہے اور وہاں کے مرد و خواتین کے ذہن و فکر کو متاثر کر کے ان کی سوچ اور رویوں کو بھی تبدیل کیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ عورت چاہے مشرق کی ہو یا مغرب کی صدیوں سے مظلوم و مجبور رہی ہے اور آج کے اس دور میں بھی جب اس کے حقوق اور مساوات کا بڑا غلغلہ اور شور سنائی دیتا ہے، اسے اپنی آزادی اور مساوات کے لئے ایک لمبا راستہ طے کرنا باقی ہے۔
اس بات کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ نہ صرف مشرق میں بلکہ مغرب میں بھی ابھی تک عورت کو عملا وہ احترام اور مرتبہ حاصل نہیں ہوسکا جس کی وہ حقدار ہے۔ دوسرے یہ کہ تمام تر کوششوں اوردعووں کے باوجود ابھی تک اس کا استحصال بھی ختم نہیں ہو پایاہے۔ اس کے برخلاف آزادی اور مساوات کے نام پر استحصال کی نئی شکلیں سامنے آئی ہیں جن کا ادراک و احساس مغرب کے ماہرین سماجیات کو بھی ہے اورحکومتوں کو بھی، چنانچہ اس موضوع پر آئے دن بحثیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ دنیا بھر میں خواتین کے خلاف جرائم کا سیلاب اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ دنیا کے وہ معاشرے جہاں عورت کے حقوق اور آزادی کا شور سب سے زیادہ سنائی دیتا ہے، وہ حقیقت میں ذہنی اور فکری اعتبار سے کتنے کمزور بلکہ بیمار ہیں۔
خواتین کے حقوق کا ہم سے بڑا پیامبر کوئی نہیں ہو سکتا کہ ہم نے چودہ سو سال پہلے ان کے حقوق کا وہ منشور دیا تھا جو آج کی اقوام متحدہ کے منشور سے بھی کئی قدم آگے ہے،ساتھ ہی ہم خواتین کے لئے مساوات کے نہیں بلکہ خصوصی ترجیح کے قائل ہیں اور دنیا بھر میں خواتین کے خلاف جاری امتیازی سلوک اور استحصال کے خلاف خواتین کی جدو جہد کی حمایت کرتے ہیں۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ خواتین کی آزادی اور مساوات کی اس جدو جہد کو اور زیادہ فعال، مثبت، تعمیری اور کمزور خواتین کا حامی بنایا جانا چاہئے اور ساتھ ہی اسے سرمایہ داروں کےاستحصالی چنگل سے بھی نکالا جانا چاہئے کیونکہ دنیا بھر کے سرمایہ داروں نے عورت کی عزت و وقار، حقوق و مساوات اور سرمایہ داروں کے جبر سے چھٹکارے کی اس تحریک کو بڑی ہوشیاری کے ساتھ اچک کرمساوات کے نام پراس کا رخ نوکری و روزگار کے مواقع کی طرف موڑ کر اپنے لئے سستے ہیومن رسورس کی دستیابی کی راہ تلاش کرنے کی کوشش کی ہے اور استحصال کی نئی شکلوں کو جنم دیا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ کارپوریٹ نے آزادی اور مساوات کے نام پر اپنے یہاں ایسا کلچر تشکیل دیا ہے جو خواتین کے استحصال کی مختلف النوع صورتون کو ان کے کام کی جگہوں پر پیدا کرتا ہے۔ اسی طرح سرمایہ داروں نے اپنی مصنوعات کو بیچنے اور ان کو رواج دینے کے لئے سماج میں اخلاقی قدوں کو جس تیزی سے پامال کیا ہے اس نے دنیا کے مختلف معاشروں میں ،خصوصا مشرقی معاشروں میں خواتین کے خلاف جرائم کے تناسب کو فروغ دیا ہے۔
موجودہ صورت حال میں نسائی تحریک کی تشکیل جدید یا’ ری اسٹرکچرنگ‘ کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو یہ سرمایہ دار عورت کے استحصال کی نئی نئی شکلوں کے جال بچھاکر اسے اپنے دام فریب میں قید کرکے رکھیں گے اور عورت وہ عزت وقار پانے سے محروم رہے گی جس کی وہ اپنے خالق کی طرف سے حقدار بناکر اس دنیا میں بھیجی گئی ہے۔ 8؍مارچ