مغربی تہذیب کے عریاں اور ننگے کلچر کے اس دور میں خواتین کے لباس کا مسئلہ خاص اہمیت کا حامل ہوگیا ہے۔ کیونکہ آج کے نام نہاد ترقی یافتہ کلچر میں ستر پوشی کے بجائے ستر کی نمائش عام ہوتی جارہی ہے اور اس نے بے شمار سماجی اور معاشرتی برائیوں، نت نئے جرائم اور خواتین سے متعلق ان گنت مشکلات کو جنم دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہمارے ملک کے بعض دانشوران خواتین اور لڑکیوں کے لیے شائستہ لباس کی وکالت کرنے لگے ہیں۔ گذشتہ دنوں دہلی کے پولس کمشنر نے دہلی میں بڑھتے ہوئے خواتین کے خلاف جرائم کی اہم وجہ طرز لباس کو قرار دیتے ہوئے اس بات کی طرف توجہ دلائی تھی کہ ملک کی خواتین اور لڑکیاں مناسب لباس پہنیں۔ اس سے بہت سی مشکلات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ دور کے جنسی جرائم اور لڑکیوں سے چھیڑ چھاڑ کے جو بھی واقعات ہوتے ہیں ان میں اکثر اوقات لباس ہی کلیدی سبب ہوتا ہے۔ ملک کے دانشوران نے اس بات کو اب آکر سمجھا ہے جبکہ اسلام بہت پہلے سے اپنے ماننے والوں کو ساتر اور شائستہ لباس کی تلقین کرتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم معاشرہ اور مسلم ممالک میں خواتین کے خلاف اس قسم کے جرائم کی تعداد تقریباً نا کے برابرہے۔اسلام کی تعلیمات ہمیں بتاتی ہے کہ لباس کا اصل مقصد ’’سترپوشی‘‘ ہے قرآن میں فرمایا گیا:
یٰا بَنِیْ آدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاساً یُّوَارِیْ سَوْاٰتِکُمْ وَرِیْشاً۔ (الاعراف:۲۶۰)
’’اے اولاد آدم ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے تاکہ تمہارے جسم کے قابل شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمہارے لیے زینت و حفاظت کا ذریعہ ہو۔‘‘
یُوَارِیْ سَوْاٰتِکُمْ: یہ تمہارے جسم کے قابل شرم حصوں کو ڈھاکنے کے لیے ہے۔وریشاً ’’ریش‘‘ دراصل پرندے کے پروں کو کہتے ہیں۔ پرندے کے پر اس کے لیے حسن و جمال کا ذریعہ ہیں اور جسم کی حفاظت کا بھی۔ عام استعمال میں ’’ریش‘‘ کا لفظ جمال و زینت اور عمدہ لباس کے لیے بولا جاتا ہے۔ (بحوالہ آداب زندگی)
آج اگر ہم بازار میں خواتین کے لیے دستیاب لباسوں پر نظر ڈالیں تو ہمیں کہیں بھی لباس کا اصل مقصد نظر نہیں آتا ہے۔ وجہ ظاہر ہے کہ آج کل خواتین کے لیے جو لباس تیار کیے جارہے ہیں وہ مقصد ’’سترپوشی‘‘ کے لیے نہیں بلکہ فیشن پرستی اور مغربی تہذیب کی اندھی تقلید میں جسم کے حصوں کو نمایاں کرنے کے لیے تیار کیے جاتے ہیں۔ اور دنیا کی پوری فیشن کی صنعت اسی سوچ کو لے کر چل رہی ہے۔ نتیجتاً خواتین باریک سے باریک اور مختصر ترین لباس میں ملبوس نظر آتی ہیں اور دنیا میں اس سے پیدا ہونے والے مسائل سے لا پرواہ اور اللہ کے عذاب سے غافل ہوکرزندگی گزار رہی ہیں۔
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ’’لباس ایسا بھی باریک اور چست نہ ہو جس سے ستر کے مقامات اور بدن کے حصے جھلکیں یا بدن کی ساخت پرکشش اور نمایاں محسوس ہو ایسی خواتین کے لیے حضور ﷺ نے عبرت ناک انجام بلکہ جنت کی خوشبو سے بھی محرومی کی سخت وعید سنائی ہے۔ (ریاض الصالحین)
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ایک حدیث میں آتا ہے کہ ’’وہ عورتیں جو لباس زیب تن کرنے کے باوجود عریاں رہتی ہیں غیر مردوں کو رجھاتی ہیں اور خود بھی ان کی جانب مائل ہوتی ہیں وہ جنت میں داخل نہ ہوسکیں گی بلکہ اس کی ہوا تک نہ پاسکیں گی۔ جنت کی ہوا تو ان سے پانچ سو سال کی مسافت کی دوری سے گزر جائے گی۔‘‘
خواتین اسلام کے لیے ازواج مطہراتؓ اور صحابیاتؓ کے حالات زندگی سب سے بہترین مشعل راہ ہیں۔ امت مسلمہ کی ہر خاتون کو انؓ کی حیات مطہرہ کی روشنی میں خود کو مثالی خاتون کی حیثیت سے تیار کرنا چاہیے۔ ذرا دیکھیں کہ حضرت عائشہؓ کا لباس کے معاملے میں کیا طرز عمل تھا۔
’’ایک روز حضرت حفصہؓ بنت عبدالرحمنؓ ان کے پاس آئیں۔ ان کے سر پر باریک دوپٹہ تھا۔ آپؓ نے ان کے سر سے وہ دوپٹہ کھینچ کر اتارا اور موٹے کپڑے کا دوپٹہ اڑھادیا۔ (مؤطا امام مالک کتاب اللباس)
لباس کے معاملے میں دختران اسلام کو خاص احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ کیوںکہ موجودہ دور میں اچھے اور معیاری لباسوں کی خوبی ہی یہ رہ گئی ہے کہ وہ نہایت ہی باریک ہوتے ہیں۔ ایسا لباس بھی استعمال کیا جاسکتا ہے، لیکن اس باریک کپڑے کے نیچے ایک اور موٹے کپڑے کا استر لگاکر مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے۔
ایک بار رسول اللہ ﷺ کے پاس مصر کی باریک ململ آئی آپؐ نے اس میں سے کچھ حصہ پھاڑ کر دحیہ کلبی کو دیا اور فرمایا اس میں سے ایک حصہ پھاڑ کر تم اپنا کرتہ بنالو اور ایک حصہ اپنی بیوی کو دے دو مگر ان سے کہہ دینا کہ اس کے نیچے ایک اور کپڑا لگالیں تاکہ جسم کی ساخت اندر سے نہ جھلکے۔ (بحوالہ ابوداؤد)
یہ تھا اللہ کے رسول کا لباس کے معاملہ میں طرز فکر اور عمل اور یہ ہیں اسلام کی ہدایات جو خاص طور پر خواتین کو دی گئی ہیں۔ یہ وہ ہدایات ہیں جن کو اپنا کر عورت اپنے وقار اور اپنی عزت میں اضافہ کرسکتی ہے۔ ستر پوش خواتین اور باحجاب عورتیں محض اپنے لباس کے سبب عام زندگی میں بھی بہت زیادہ احترام کی نظر سے دیکھی جاتی ہیںدوسری طرف وہ عریاں خواتین کے مقابلے حالات کی نظر بد کا بھی شکار نہیں ہوتیں۔
عورتوں کو کم لباسی کی ترغیب دینا دراصل ہوس پرست اور مفاد کے غلام زمانے کا طرز عمل ہے جورنگ برنگے اور نت نئے لباس تراش کر دولت کمانے میں لگا ہے۔ سرمایہ دار اور مغرب پرستوں کو نہ تو عورتوں کی عزت و وقار سے کچھ لینا دینا ہے اور نہ ان کی فلاح و بہبود سے کوئی تعلق۔ وہ تو دنیا کو فیشن کا غلام بناکر دولت سمیٹنے کے لیے فکرمند ہیں۔ خواہ اس سے سماج میں عریانیت بڑھے یا جرائم پیداہوں۔
موجودہ حالات میں مسلم خواتین کو اسلام کا لباس اختیار کرکے دنیا کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ان کا وقار اور ان کی عزت کی حفاظت اسی لباس میں ہے۔ اور اب یہ لوگ اس کا اعتراف بھی کرنے لگے ہیں۔ مگر اس حقیقت کو خود بھی سمجھنے اور دوسروں کو بھی بڑے پیمانے پر سمجھانے کی ضرورت ہے۔