تعلیم ایک ایسا عمل ہے جس سے ایک نسل اپنا معلوماتی تہذیبی اور تمدنی ورثہ اگلی نسل کو منتقل تو کرتی ہی ہے۔ساتھ ہی نئی نسل کو نئے زمانے کے مطابق زندگی گزارنے اور وقت و حالات کے تقاضوں کو سمجھنے کا شعور اور انسانی تہذیب و تمدن میں بہتری اور انسانی زندگی کو بہتر بنانے کے قابل بناتی ہے۔ نبی اخر الزماں ﷺکا ارشاد ہے کہ ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مرد و عورت) پر فرض ہے۔‘‘
خواتین کی تعلیم آج کے دور میں تو بہت اہمیت اختیار کرگئی ہے۔ عام کہاوت ہے کہ مرد اور عورت ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں، دونوں میں یکسانیت اور برابری لازمی ہے۔ اگر علم مرد کی عقل کو روشن کرتا ہے تو عورت کی عقل کو بھی علم سے جلا ملتی ہے۔ کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا جب تک مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کو بھی زیورِ تعلیم سے آراستہ نہ کیا جائے۔ فرانس کے مشہور بادشاہ نپولین نے کہا تھا : ’’آپ مجھے اچھی مائیں دیں میں آپ کو بہترین قوم دوں گا۔‘‘
عورت کی معاشرتی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ وہ معاشرے کی تعمیر و تشکیل میں اپنا ایک مقام رکھتی ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ دنیا کے تمام قدیم اور جدید معاشروں کی ترقی میں عورتیں بھی مردوں کے شانہ بشانہ شریک رہی ہیں۔دنیا کی آبادی کا تقریبا نصف حصہ خواتین پر مشتمل ہے اورمعاشرے میںان کی متوازن شرکت کے بغیر مطلوبہ ترقی نہیں ہو سکتی اور یہ صرف تعلیم نسواں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
کسی بھی مہذب معاشرے کی اساس عورت سے وجود میں آتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ عورت تعلیم یافتہ ہو۔یوں تو ہر انسان کا پڑھا لکھا ہونا بے حد لازمی ہے لیکن ماں کا تعلیم یافتہ ہونا انتہائی ضروری ہے کیوں کہ اس پر اقوام کی آنے والی نسلوں کی زندگی کا انحصار ہے۔ باپ اگر تعلیم یافتہ ہوگا تو اپنے خاندان کی کفالت بہترین انداز میں کر سکتا ہے لیکن ماں اگر تعلیم یافتہ ہوگی تو وہ پورے خاندن کو بلکہ آنے والی نسلوں کو تعلیم و ترتیب کے ذریعے مہذب بنا سکتی ہے۔ایک تعلیم یافتہ عورت گھر کا نظام خوش اسلوبی سے چلا سکتی ہے۔ اس کے لیےاپنے بچوں کو تعلیم دینا، ان کے تعلیمی معاملات پر نظر رکھنا اور ان کی مدد کرنا مشکل نہیں رہتا۔ وہ اچھی طرح ان کی خامیوں کو خوبیوں میں بدل سکتی ہے۔ماں کی گود بچے کی پہلی تربیت گاہ ہوتی ہے۔ اس لیے اس کی اہمیت واضح ہے۔ بچہ سب سے پہلے اپنی ماں سے سیکھتا ہے۔ اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ بچے اپنے گھر سے جو بنیادی اخلاقی اقدار سیکھتے ہیں،وہ عمر بھر ان کے ساتھ رہتی ہیں۔
یہ بات بالکل درست ہے کہ صرف وہی قومی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتی ہے جس کی عورت تعلیم یافتہ ہو۔ تاریخ بھی ہمارے سامنے اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ انھی قوموں نے کامیابیاں سمیٹیں جن کی عورتیں سلیقہ شعار اور تعلیم یافتہ تھیں۔ یہی عورتیں قوم کا اصل سرمایہ ہوتی ہیں۔
قدیم تہذیبوں میں تعلیم نسواں کی اہمیت نہ ہونے کے برابر تھی۔ اس سے غلاموں کی طرح برتاؤ کیا جاتا تھا۔ یورپ اور امریکہ میں تو بیسویں صدی تک عورتوں کو بنیادی حقوق تک حاصل نہ تھے۔ مرد ہی تمام حقوق کا مالک تھا اور عورت کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ ان کے ساتھ جانوروں سا سلوک کیا جاتا تھا۔ اہل یونان اسے سانپ سے زیادہ خطرناک سمجھتے تھے، اسے جھوٹ کی بیٹی اور امن کی دشمن کہا جاتا تھا۔
اسلام کے آمد سے عورت کا مقام اور حقوق متعین ہوئے، اسے انسان سمجھا گیا اور جینے کا حق دیا گیا۔ دوسرے حقوق کے ساتھ ساتھ تعلیم بھی ایک لازمی فریضہ قرار پایا۔ تاریخ کے اس موڑ پر انسانی تہذیب اپنے درجہ کمال تک پہنچ گئی۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا، حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا، حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا، رضیہ سلطانہ،جیسی بلند کردار عورتیں ہماری تاریخ میں موجود ہیں جنہوں نے علم و دانش کی بنا پر انسانیت کی فلاح کے لئے بےانتہا خدمات انجام دیں۔
عورت کی تعلیم کا مقصد یہ نہیں کہ وہ بھی مردوں کی طرح فیکٹریوں میں ملازمت کرے۔اونچے عہدوں پر فائز ہو، حالانکہ وہ ایسا کرسکتی ہے اور کر بھی رہی ہے۔ تعلیم نسواں کا بنیادی مقصد عورت میں وہ قابلیت پیدا کرنا ہے جس کے ذریعہ وہ انسانی تمدن و تہذیب اور نسل انسانی کی معماری کا عظیم کام بہتر انداز میں کرسکے۔
وہ معاشرہ جس کی عورت زیورِ تعلیم سے آراستہ نہ ہو کبھی بھی خرافات، توہمات اور جاہلانہ رسوم و رواج سے پیچھا نہیں چھڑا سکتا۔ کیونکہ اس کی نسلیں معقولیت،عقل و فہم اور غوروتدبر سے محروم رہ کر پرورش پاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اس وقت کے عرب معاشرے میں جہاں ذہنی و فکری انقلاب برپا کیا وہیں تعلیمی انقلاب بھی برپا کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے لوگ زیورِ علم و فن سے آراستہ ہوگئے، جن میں خواتین کی تعداد بھی کم نہ تھی۔