خواتین کی جسمانی تزئین سے متعلق چند احکام

ترجمہ: ساجدہ فلاحی،بلریا گنج، اعظم گڑھ

دور حاضرمیں خواتین جسمانی تزئین اور زیب وزینت کی طرف کچھ زیادہ ہی متوجہ ہیں اوراس کے لئے مختلف وسائل و ذرائع اختیار کررہی ہیں۔ یہ امر قابلِ توجہ ہے کہ اسلام خواتین کے لئے کس طرح کی تزئین و زینت کو پسند کرتاہے اور وہ کون سی چیزیں ہیں جن کو وہ مسلم خواتین کے لئے ناجائز ٹھہراتا ہے۔
۱- زیب و زینت اختیارکرنا عورت کی فطرت اور اس کا بنیادی حق ہے یہاں تک کہ اس میں ناخن تراشنا بھی شامل ہے جس کے سنت ہونے میں اہل علم کا اجماع ہے اور یہ فطری ضرورت بھی ہے۔ فی الحقیقت اسی میں صفائی اور حسن ہے۔ ناخنوں کو بڑھاکر باقی رکھنا اسے بدشکل بنادیتا ہے اور یہ درندوں کے مشابہ ہوجاتا ہے گویاکہ خونخوار درندہ کسی وقت بھی حملہ کرسکتا ہے۔ مزید برآں اس کے نیچے تہ بہ تہ میل جمنے کا احتمال رہتاہے۔ آج بہت سی مسلم خواتین بھی سنت سے عدم واقفیت اور غیرمسلموں اور مغرب سے مرعوب خواتین کی تقلید کرتے ہوئے ناخن بڑھانے کے مرض میںمبتلا ہیں۔
۲- سر اور ابرو کے بالوں کے سلسلے میں ممانعت اور خضاب و دیگر چیزوں کے رنگنے کے سلسلے میں دین کے احکام حسب ذیل ہیں:
(الف) ایک مسلمہ کو سر کے بالوں کو باقی رکھنے کا حکم دیا گیاہے اور بلاضرورت ان کو کاٹنا ممنوع ہے جیساکہ نسائی نے اپنی سنن میں حضرت علیؓ سے اور بزارؔ نے اپنی مسند میں حضرت عثمانؓ سے اور ابن جریر نے حضرت عکرمہؓ سے روایت کیاہے کہ
نہی رسول اللہ أن تحلق المرأۃ راسہا
ترجمہ: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایاہے اس بات سے کہ عورت اپنے سر کے بالوں کو منڈوائے‘‘
پس جب نبی کریمؐ سے کسی چیز کی ممانعت ثابت ہواور حکم کسی دوسری حدیث سے معارض نہ ہوتو حرمت پر محمول کیاجائے گا۔ ملاعلی قاریؒ مشکوٰۃ کی شرح المرقاۃ میں خواتین کے بالوں کو کاٹنے کی ممانعت کے ساتھ تحریر فرماتے ہیں کہ ’’خواتین کی چوٹی خوبصورتی و جمال میںوہی حیثیت رکھتی ہے جو مردوں کے لئے داڑھی۔‘‘
اگر عورت کابال کاٹنا وتراشنا غیرمسلم خواتین کی تقلید میں ہو یا مردوں سے مشابہت اختیار کرنے کے لئے ہوتو بلاکسی شک کے حرام ہے اس لئے کہ ہمیں کفار کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیاگیا ہے۔ نیز خواتین کو مردوں کی مشابہت اختیارکرنے کی بھی ممانعت آئی ہے اگرچہ یہ مشابہت تزئین کی خاطر ہی کیوں نہ ہو پھر بھی راجح قول کے مطابق جائز نہیں ہے۔
شیخ محمد بن ابراہیم مفتی مکرم سعودی عربیہ فرماتے ہیں کہ ’’دورحاضر میں بعض مسلم خواتین یورپی خواتین کے اس طرز عمل کو اختیار کررہی ہیں۔ درانحالیکہ ایسا کرنا ان کے لئے جائز نہیں ہے۔
اس سلسلے میں آپؐ کی جانب سے سخت وعید وارد ہوئی ہے۔ جب معراج کے موقع پر آپؐ کو اہل جہنم کامشاہدہ کرایاگیاتو دوقسمیں جہنمیوں کی ایسی تھیں جن کے ہولناک اور کریہہ منظر کی وجہ سے آپؐ کو ان کامشاہدہ نہیںکرایاگیابلکہ ان کی بابت علم دے دیا گیا۔ حدیث مبارکہ کچھ اس طرح ہے:
صنفان من اہل النارلم أرھما: قوم معہم سباط کأذناب البقریضربون بہا الناس ونساء کاسیات عاریات، حائلات ممیلات، رؤوسہن کأسنمہ البخت المائلۃ، لایدخلن الجنۃ ولایجدن ریحہا وان ریحہا لیوجد من سیرۃ کذا وکذا (عن ابی ہریرۃ- رواہ مسلم)
’’جہنمیوں کی دوقسمیں مجھے نظرنہ آئیں۔ کچھ جہنمی ایسے ہوںگے جن کے پاس گائے کی دم جیسے کوڑے ہوںگے جن سے وہ لوگوں کو ماریںگے۔ کچھ عورتیں بالباس ہوںگی پھر بھی عریاں ہوںگی، وہ مروں کو مائل کرنے والی اور ان کا دل لبھانے والی ہوںگی۔ ان کے سر اونٹ کے کوہان کی طرح اٹھے ہوئے ہوںگے۔ وہ نہ جنت میںجائیںگی اور نہ اس کی خوشبو پائیںگی، درانحالیکہ وہ خوشبو بہت دور سے محسوس ہوگی۔‘‘
بعض علماء نے حدیث میں مذکور’’مائلات ممیلات‘‘ کی تفسیر یہ کی ہے کہ وہ بالوں میں کنگھی کرکے ٹیلے کی مانند بنالیتی ہیں۔ یہ فیشن زدہ مغربیت سے متاثر خواتین کی روش ہے۔
جس طرح مسلم خواتین کے لئے سر کے بالوں کو بلاضرورت کاٹنا ممنوع ہے۔ اسی طرح اس کو لمبا کرنے کے لئے اس میں دوسرے بالوں کو ملانا بھی ممنوع ہے جیساکہ صحیحین میں فرمان رسولؐ مذکورہے۔
لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الواصلۃ والمستوصلۃ
’’رسولؐ نے لعنت فرمائی ہے بال جوڑنے والی پر اور اس پر جو اس کو جڑواتی ہے۔‘‘
’’واصلۃ‘ سے مراد وہ عورت ہے جو اپنے بالوں میں دوسرے کے بالوں کو ملاتی ہے۔
’’مستوصلۃ‘‘ سے مراد وہ عورت جو یہ عمل انجام دیتی ہے۔
لعنت اسی لئے کی گئی ہے کہ اس میں تزویر یعنی بناوٹی چیزوں سے آراستگی اختیارکرنا ہے۔
اسی طرح مصنوعی بالوں کااستعمال بھی حرام کردہ چیزوں میں سے ہے۔ بخاری مسلم میں مذکور ہے کہ حضرت معاویہؓ جب مدینہ آئے تو انہوںنے بالوں کاایک گچھا نکالا، پھر فرمایا:
’’تمہاری عورتوں کا کیا معاملہ ہے، وہ اس جیسی چیز کو سر میں لگاتی ہیں۔ میں نے رسولؐ کو یہ کہتے ہوئے سناہے:
مامن امراۃ تجعل فی راسہا شعراً من شعر غیرہا الا کان زوراً
’’جو عورت اپنے بالوں میں کسی دوسری کے بالوں کو لگاتی ہے تو اسے جھوٹ پر محمول کیاجائے گا۔‘‘
(ب) مسلم خواتین کے لئے ابرو کے بالوں کو زائل کرنا بھی حرام ہے۔ خواہ مکمل طور سے یا اس کے کچھ حصہ کو صاف کیاجائے۔ خواہ کاٹنے یا اکھیڑنے کے ذریعہ ہو یا کسی مادہ کے استعمال کے ذریعہ ہو۔ اس لئے کہ حدیث مبارکہ ہے:
لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم النامصۃ والمتنمصۃ
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ابرو کے بالوں کو زائل کرنے والی پر اور جو زائل کروائے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔‘‘
’’النامصۃ‘‘ وہ عورت جو اپنے خیال کے مطابق زینت کے لئے ابرو کے بالوں کو زائل کرتی ہے
’’متنمصۃ‘‘ وہ عورت ہے جو زینت کی خاطر یہ عمل کرواتی ہے۔
فی الحقیقت یہ اللہ کی خلقت میں تبدیلی کرنا ہے جس کے لئے شیطان نے انسانوں کو بہکانے کا عہد کر رکھا ہے اور جس سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم میں انسانیت کو آگاہ بھی کردیا ہے۔
وَلآمُرَنَّہُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰہ۔
(النساء آیت:۱۱۹)
’’ اورمیں ان کو حکم دونگا، پس وہ اللہ تعالیٰ کی خلقت میں لازماً تبدیلی کریںگے۔‘‘
اور حدیث میں عبداللہ بن مسعود ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لعن اللہ الواشمات والمستوشمات والنامصات والمتنمصات والمتفلجات للحسن‘‘ المغیرات خلق عزوجل
’’اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے گود نے والیوں پر اور ان پر جو گودواتی ہیںابرونوچنے والیوں پر اور جو آبرو نچواتی ہیں اور حسن کے لئے دانتوں میں کشادگی کراتی ہیں یہ سب اللہ عزوجل کی خلقت میں تبدیلی کرنا ہے۔‘‘
پھر آپؓ نے فرمایا:
ألاالعن من لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہو فی کتاب اللہ عزوجل
’’کیا میں لعنت نہ کروں اس پر جس پر اللہ کے رسولؐ نے لعنت فرمائی ہے جب کہ کتاب اللہ میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان موجود ہے۔‘‘
وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانتَہُوا (الحشر:۷)
’’رسولؐ جو تم کو دیں، اسے لے لوا ور جس سے منع فرمائیں، اس سے بازآجائو ۔‘‘
ابن کثیر نے اس کو اپنی تفسیر (۲-۳۵۹) میں نقل کیا ہے۔
یہ فیشن جس میں آج بکثرت خواتین مبتلا ہیں، کبیرہ گناہوں میں سے ہے، حتی کہ روئیں نوچنا روزانہ کی ضرورت بن گیا ہے۔ حالانکہ یہ ایسی معصیت ہے جس کے لئے شوہر کی اطاعت بھی جائز نہیں ہے۔
(ج) مسلم عورت کے لئے بطور حسن دانتوں میں کشادگی پیداکرنا بھی جائز نہیں ہے۔ اس لئے کہ یہ خلقت میں تبدیلی کرنا ہے۔ البتہ اگر طبی ضرورت کے تحت ہو، یا دیکھ بھال اور بغرض اصلاح ودرستگی کسی ڈاکٹر کے ذریعہ ہوتو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (واضح رہے کہ یہ عمل غالباً ماضی میں ہوتا رہا ہے)۔
(د) عورت کے لئے جسم میں گدوانے کے عمل کو بھی حرام قرار دیاگیا ہے۔ جیساکہ حدیث سے ثابت ہے:
لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الواشمۃ والمستوشمۃ
’’رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے گودنے والی پر اور جو گودوائے دونوں پر لعنت بھیجی ہے۔‘‘
’’الواشمۃ‘‘ وہ عورت جو ہاتھ اور چہرے پر سوئی سے گودتی ہے پھر اس میں روشنائی یا سرمہ وغیرہ بھردیتی ہے۔
’’مستوشمۃ‘‘ وہ عورت جو اس کو کرواتی ہے۔
(ہ) خواتین کے لئے خضاب کاحکم اور بالوں کارنگنا اور سونے کے زیور پہننا۔
خضاب- امام نوویؒ (المجوع) (۱/۳۲۴) میں رقمطراز ہیں کہ:
’’مشہور حدیث کی روسے ہاتھوں اور پیروں کو مہدی سے رنگنا شادی شدہ خواتین کے لئے مستحب ہے جس کی دلیل نسائی اور ابودائود میں مذکور حدیث کایہ ٹکڑا ہے جس میں ایک عورت کے تعلق سے آپؐ نے فرمایا:
ماادری ایدرجل ام ید امراۃ؟
’’ میں نہیں جانتا کیا یہ مرد کا ہاتھ ہے یا عورت کا ہاتھ ہے) اور جب معلوم ہواکہ عورت کا ہاتھ ہے تو آپؐ نے اس سے فرمایا:
لوکنت امراۃً لغیرت اطفارک
’’اگرتم عورت تھیں تو اپنے ناخنوں کو تبدیل کرلیتیں یعنی مہندی سے رنگ کر‘‘
البتہ یہ کہ ناخنوں کو ایسی چیز سے نہ رنگاجائے جو اس پر جم جانے والی ہو اور طہارت میں مانع ہو۔
۲- رہا عورت کاسر کے بالوں کو رنگنا تو بڑھاپے کو چھپانے کی خاطر خضاب سے کالے کرنے کی حدیث میں ممانعت آئی ہے۔ البتہ بڑھاپے کو چھپانا مقصود نہ ہو تو کسی دوسرے رنگ میں رنگنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
امام نوویؒ (ریاض الصالحین، صفحہ:۶۲۶) باب نہی الرجل والمرأۃ عن خضاب شعرہما بالسواد کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سفید بالوں کو سیاہ کرنے کی ممانعت میں مرد اور عورت دونوں یکساں ہیں۔ حدیث مذکور کچھ اس طرح ہے کہ حضرت ابوبکرصدیقؓ کے والد ابوقحاذ فتح مکہ کے دن آپؐ کے پاس لائے گئے، اور ان کے سر اور داڑھی کے بال ثِفامہ (درخت کا سفید پھول) کی طرح سفید تھے تو آپؐ نے ان سے فرمایا:
غیرواہذا واجتنبوا السواد (رواہ مسلم عن جابر)
’’یعنی ان کو تبدیل کرلو اور سیاہ کرنے سے بچو‘‘
مزیدیہ کہ دوسری حدیث میں آپؐ نے بالوں کو سرخ یازرد وغیرہ رنگنے کی ترغیب بھی دلائی ہے جیساکہ حدیث شریف میں ہے کہ رسولؐ نے فرمایا:
ان الیہود والنصاریٰ لا یصبغون فخالفوہم (متفق علیہ- عن ابی ہریرہ)
’’ یہود ونصاریٰ (بالوں کو) نہیںرنگتے پس تم ان کی مخالفت کرو (یعنی رنگ لیا کرو، سیاہ کے علاوہ سے)۔‘‘
رہا یہ کہ عورت اپنے سیاہ بالوں کو کسی دوسرے رنگ میں رنگ کر تبدیل کرے تو غیرضروری عمل ہونے کی وجہ سے ناجائز کی فہرست میں شمار کیاجائے گا اس لئے کہ (بالوں کی سیاہی میں ہی اصلاً خوبصورتی ہے، کسی دوسرے کلر میں کرنا اس کی اصل ہیئت کو تبدیل کرنا ہے اور اس لئے کہ یہ غیرمسلم خواتین کی مشابہت اختیار کرنا ہے۔
۳- عورت کے لئے مباح ہے کہ وہ سونے اور چاندی کے زیور پہنے اس پر علماء کااتفاق ہے اس لئے کہ یہ عورت کی فطرت میں شامل ہے۔ لیکن اس کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اس کو نامحرم مردوں کے سامنے ظاہر کرے اس کو چاہیے کہ وہ ان زیورات کو غیرمردوں کی نگاہوں سے پوشیدہ رکھے بالخصوص گھروں سے نکلتے وقت اس لئے کہ یہ فتنہ ہے اور عورتوں کو منع کیاگیاہے کہ وہ مردوں کو اپنے زیورات کی آواز سنائے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے:
وَلَا یَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِہِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِن زِیْنَتِہِنَّ (النور:۳۱)
’’اور وہ اپنے پیروں کو زمین پر مارتی ہوئی نہ چلاکریں کہ اپنی جو زینت انھوںنے چھپارکھی ہے اس کا لوگوں کو علم ہوجائے۔‘‘
پس خواتین کے لئے نامحرم مردوں کے سامنے زیورات کے ذریعہ اظہار زینت کا عدم جواز یہاں سے ثابت ہے؟
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146