ہستی کے گلشن کی خوشحالی و خوشگواری کے لیے مرد اور عورت دونوں جزئِ لازم ہیں، اسی لیے جب اللہ نے زمین کے ویرانے کو آباد کرنا چاہا تو آدمؑ کے ساتھ ساتھ ماں حواؑ کو بھی پیدا فرمایا۔ کیونکہ خالقِ کائنات جانتا ہے کہ انسانی معاشرہ کی بقا، تعمیر و ترقی کی ذمہ داری صنفی لحاظ سے کسی ایک سے پوری نہیں ہوسکتی تھی۔ اس لحاظ سے دونوں ایک دوسرے کا جزئِ لاینفک ہیں۔
مغربی تہذیب کے دلدادہ مساوات مردو زن کا بڑا شور مچاتے ہیں، مگر نتیجہ عورت پر ظلم در ظلم کے سوا کچھ نہیں۔ آج عورت مارکیٹ کی زینت بنی ہوئی ہے، اس کی قوت کار سے زیادہ بوجھ لاد کر اس کے دائرۂ کار سے نکال باہر کرنا ظلم ہی تو ہے۔عورت بھی اس مساوات کے جھانسے میں آکر خود کو تباہ کربیٹھی۔ نہ آج اس کی عزت محفوظ ہے نہ احترام قائم ہے۔ جنسی استحصال نے ایک وبائی صورت اختیار کرلی ہے، کیا کبھی عورت نے اس پر غور کیا آخر ایسا کیوں؟
ہماری نظر میں اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے اپنی ذمہ داری اور دائرئہ عمل کو تیاگ کر غلط راہ اپنائی، جو اس کی فطرت کے برخلاف ہے۔ جس کا خمیازہ اس کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔آئے دن جہیز کے نام پر جلتی ہے، بڑھاپے میں جب سہارے کی ضرورت ہوتی ہے تو old houseمیں ڈال دی جاتی ہے، پھر کہاں چلا جاتا ہے مساوات کا نعرہ، کہاں چلا جاتا ہے وہ مال و دولت جس کے لیے ساری عمر پہیہ بن کر عورت مسلسل گردش میں رہتی ہے؟
صالح سماج اور مہذب سوسائٹی کی تشکیل کے لیے گھر کا درست ہونا نہایت ضروری ہے۔ تمام مفکرین کہتے چلے آئے ہیں کہ ’’ماں کی گود بچے کا پہلا اسکول ہے۔‘‘ مگر آج یہ اسکول بری طرح اجڑ چکا ہے، آج کی ماں علی الصبح آفس جاتے ہوئے اپنے لختِ جگر کو Kids Care Centreکے حوالہ کرجاتی ہے۔ اس طرح پلنے والا آج کا یہ بچہ کل کا کیسا شہری اور بیٹا /بیٹی ہوگا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ چند سکوں کے عوض اپنی متاع گراں مایہ کو برباد کرنا کوئی عقلمندی تو نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ایک غلطی کرکے جب آدمی اس کو درست ثابت کرنے لگتا ہے تو غلطیوں پر غلطیاں کرتا چلا جاتا ہے۔ اندھی تقلید کے باعث آج کا سماج اسی راہ پر گامزن ہے۔ اس کلچر کی خرابیوں سے پورا ملک پریشان ہے، پولیس تک عورتوں کی حفاظت سے جیسے خود کو لاچار محسوس کرتی ہے۔ میٹرو شہروں کی دوڑتی بھاگتی زندگی میں لڑکیوں کو self defenceکے مختلف طریقے بتاتی رہتی ہے۔ اگر پولیس و انتظامیہ چاہے تو جرائم پر بخوبی قابو پایا جاسکتا ہے۔
آج تعلیمِ نسواں کا بڑا چرچہ ہے اور اس میدان میں خواتین نے واقعی پیش رفت بھی خوب کی ہے جو قابلِ تحسین ہے۔ مگر یہ علم وہ علم نہیں جس سے نور پھیلتا ہے۔ بلکہ اس نے تو جیسے انسانی سماج میں جہالت کا اندھیرا اور گہرا کردیا ہے۔ ۲۰۱۱ء کی تازہ مردم شماری کے اعداد وشماراس کے گواہ ہیں۔ ملک کو صنفی عدم توازن پر تشویش ہے، مجموعی لحاظ سے جو چیز سامنے آئی ہے، اس کی روشنی میں ایک ہزار لڑکوں کے مقابلہ میں ۹۴۰ لڑکیاں ہیں۔ اگرچہ یہ تناسب ۲۰۰۱ء کے مقابلے میں بڑھا ہے۔ پہلے ۱۰۰۰ اور ۹۳۳ کا تناسب تھا۔ مزید تشویش کی بات یہ ہے کہ ۲۰۰۱ء میں صفر سے ۶ برس کی بچیوں کا تناسب ۹۲۷ تھا، جو ۲۰۱۱ء میں گھٹ کر ۹۱۴ ہوگیا ہے۔
اس صورت حال میں مسلم خواتین کیا کرسکتی ہیں؟ جواب یہ ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات کو عملاً پیش کرکے اس تہذیب کو غلط ثابت کرسکتیں ہیں، کیونکہ اسلام نے عورت کی صحیح پوزیشن واضح کردی ہے۔ اسلام مرد و عورت میں بحیثیت انسان تفریق کا قائل نہیں ہے۔ عمل اور جزا کے لحاظ سے اللہ کی میزان میں دونوں یکساں ہیں، ہاں اپنی کارکردگی اور ذمہ داریوں کے لحاظ سے دونوں کا میدانِ کار جدا ہے۔ اسی لحاظ سے اللہ نے مرد و عورت کے جذبات، احساسات اور صفات میں بھی نمایاں فرق رکھا ہے۔
اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے :
الدنیا کلہا متاع وخیر متاع الدنیا المرأۃ الصالحۃ۔ (مسلم)
’’پوری دنیا ایک متاع یعنی ایک چیز (سامان) ہے اور اس دنیا کی بہترین چیز نیک و صالح عورت ہے۔‘‘
اندازہ لگایا جاسکتا ہے اسلام نے عورت کو کس اعلیٰ مقام پر فائز کیا ہے۔ اس سے زیادہ قدردانی عورت کی نہ کسی مذہب میں ہے نہ تھی۔
لیکن یوں ہی تو عورت کو ’’دنیا کی بہترین چیز‘‘ کا نشانِ امتیاز عطا نہیں کیا جاسکتا، اس کے استحقاق کے لیے کچھ عظیم ذمہ داریاں بھی ہوں گی، جن کو نبھانا پڑھے گا، اپنے دائرۂ کار کو خوب سمجھ کر اور اس میں رہ کر تعمیرِ نسل کے عظیم فریضہ کو انجام دینا ہوگا۔ اگر مسلمان عورت نے اس بات کو سمجھ کر اس پر عمل آوری کا عزم مصمم کرلیا تو پھر آئندہ پروان چڑھنے والی نسل ان شاء اللہ صالح اور نیک معاشرہ کی تشکیل کا باعث ہوگی۔ جو شیطان کو شکست دے کر دنیا میں رحمن کے احکام کو عام کرے گی۔ ہمارے سامنے حضرت ہاجرہؑ جیسی مربیہ سے لے کر بی اماں (آبادی بیگم مادر محمد علی جوہر) جیسی ماؤں کی تاریخ ہے۔ صالح خواتین ہی ہیں جو قوم و ملت کو بہترین افرادی قوت (men power) فراہم کرسکتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنی لایعنی مشغولیات سے دستبردار ہوکر بچوں کی تعلیم و تربیت اور ان کی ضروریات پر توجہ مرکوز کی جائے۔ گھر کے اندر ایک اچھے ٹیچر اور مربی کا رول ادا کیا جائے تو صالح معاشرہ کی تعمیر وتشکیل کا عمل مفید، مستحکم اور آسان ہوجائے گا۔ان شاء اللہ جلد اس کے مثبت نتائجبرآمد ہوں گے۔ بچے ہمارے مستقبل کا عظیم سرمایہ ہیں۔ مسلمان ہونے کے ناطے ہماری ذمہ داری بھی ہے کیونکہ اللہ کا حکم ہے:
یایہا الذین آمنوا قوا انفسکم و اہلیکم ناراً۔ (التحریم:۶)
’’اے اہلِ ایمان خود کو اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔
اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
ما نحل والد ولدہ من نحل افضل من ادب حسن۔ (ترمذی)
’’کوئی باپ اپنی اولاد کو عمدہ تعلیم و تربیت سے بہتر تحفہ نہیں دے سکتا۔‘‘
اگر یہ ذمہ داری پوری کی گئی تو ماں کے قدموں تلے جنت تلاش کرنے والی نسل معاشرہ کو بھلائیوں سے بھردے گی۔ جو انسانیت کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔ وما توفیق الا باللہ۔
دلشاد حسین اصلاحی