بچہ کو جنم دینے کے بعد کمر کے بل لیٹ کر سیدھا اٹھ کر بیٹھنے کا عمل کرنا بڑا مشکل محسوس ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے اپنے بچے کو جنم دینے کے بعد میں اپنی شکل آئینہ میں دیکھ کر بدمزاجی سے تیور چڑھاتی تھی۔ میرا پیٹ ابھی تک آگے کی طرف بڑھا ہوا تھا۔ اور میرا چہرہ میرے احساس کی طرح بے جان و بے رنگ سا دکھائی دیتا تھا۔
لیکن بچہ جننے کے چھ ہفتے بعد میں نے ورزش کرنے کی کوشش کی اور میں یہ دیکھ کر حیران ہوئی کہ ورزش سے نہ صرف میرا پیٹ نیچے ہوگیا بلکہ میرے اندر ایک نئی خود اعتمادی پیدا ہوگئی۔ورزش نے مجھے کمزور کرنے کی بجائے میری توانائی میں اضافہ کیا۔
جسمانی صحت و تندرستی کے ماہرین کی رائے ہے کہ بچہ کو جنم دینے کے بعد عورتیں جس ورزش سے خائف ہوتی ہیں اس کی دراصل انھیں ضرورت ہوتی ہے۔ ورزش ہماری مدد کرتی ہے تاکہ ہم جسمانی جذباتی اور سماجی اعتبار سے خود کو پہلے جیسا ہی پائیں۔
کیلیفورنیا، امریکہ کی ایک نرس ایلین کہتی ہیں، ورزش حاملہ عورتوں اور خاص طور پر پہلی دفعہ ماں بننے والی عورتوں کو ان کے مشکل مرحلہ کے لیے بہتر طور پر تیار ہونے میں مدد دیتی ہے۔ یہ پیٹ کے اور پشت کے پٹھوں کو بھی مضبوط کرتی ہے تاکہ جھکنے میں اور بچہ کو اٹھانے میں مدد مل سکے۔ یہ بدن کو توانا کرتی ہے تاکہ جسم جلدی تھکاوٹ محسوس نہ کرے، ورزش بدن کے تمام اعضاء کو اپنی اپنی جگہ پر زیادہ مضبوط کرتی ہے اور پہلی دفعہ ماں بننے والی خواتین کو خاص طور پر کھیل کود کی سرگرمیوں میں حصہ لینے میں مدد دیتی ہے۔
ایلین کہتی ہیں کہ ورزش انسان کو زیادہ حوصلہ مند بناتی ہے اور انسان کی شبیہ کو خوبصورت بناتی ہے۔ یہ تمام عوامل عورتوں کو بچہ جننے کے بعد کے مسائل پر قابو پانے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں، عورتیں خود کو جتنا پراعتماد محسوس کریں گی اتنا ہی وہ جلد اپنے آپ کو اپنے نئے جسمانی حالات میں ڈھال سکیں گی۔
مگر اپنی ڈاکٹر کی اجازت کے بعد اس سلسلہ میں کچھ مزید راہنمائی طلب کریں۔ تمام خواتین کے لیے جو کہ بچہ کو جنم دے چکی ہوں کوئی ایک پروگرام وضع نہیں کیا جاسکتاکیونکہ ہر عورت کی اپنی مخصوص جسمانی ضرورت کے مطابق ہی کوئی پروگرام مرتب کیا جاسکتا ہے ایک بھاری بھرکم خاتون، جو کم یا زیادہ تر بیٹھ کر کام کرتی ہے اور جو زیادہ چلنے پھرنے والی سرگرمیوںمیں حصہ نہیں لیتی، کی نسبت جسمانی طور پر تندرست اور چاق و چوبند خاتون کی ورزش کا پروگرام زیادہ سخت ہوگا۔
ورزش و نفسیات کے ماہر گریگ فلپس ایم ایس خبردار کرتے ہیں کہ اگر بچہ کی پیدائش کے عمل میں پیچیدگیاں واقع ہوئی ہوں تو دورانِ حمل اپنائے گئے ورزش کے معمول کو فوراً دوبارہ شروع نہ کیا جائے۔
حمل کے بعد عورتوں میں مختلف خطرات کی وجہ سے آہستہ اور سہل حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ذیل میں کچھ رہنما اصول پیش کیے جارہے ہیں:
٭ حمل کے بعد جسم میں زائد ہارمون پٹھوں اور ہڈیوں کو نرم کردیتے ہیں اور حمل کے دوران پیدا ہونے والی لچک کم ہونا شروع ہوجاتی ہے لیکن اس سے گوشت اور جوڑ ملائم اور ڈھیلے ہوجاتے ہیں۔ آپ اپنے جوڑوں کو زیادہ سے زیادہ حد تک موڑنے یا ان میں زیادہ سے زیادہ تناؤ پیدا کرنے سے اجتناب کرکے اپنے جوڑوں اور ہڈیوں کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔
گریگ فلپس جو کہ Speaking of Fitnessادارے کے صدر ہیں عورتوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ حمل کے بعد عورتوں کو جسم میں درد پیدا کرلینے کی حد تک ورزش نہیں کرنی چاہیے، زیادہ اچھلنے کودنے اور جھٹکوں والی ورزش سے اجتناب کرنا چاہیے۔ لکڑی کے تختہ پر یا دری یا قالین بچھے فرش پر ورزش کرنے سے بھی زیادہ جھٹکا نہیںلگتا۔
٭ گرنے کا امکان اس لیے پیدا ہوتا ہے کیونکہ بچے کی پیدائش کے بعد عورت کے جسم کی ساخت میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہوجاتی ہیں۔ چھاتیاں بڑھ جاتی ہیں اور رحم بھی بڑا ہوجاتا ہے، جس کے نتیجے میں توازن میں بھی فرق آجاتا ہے اور جسم کا مرکزِ ثقل بھی بدل جاتا ہے۔ پیڑو (Pelvic) اور کولہے کے جوڑ حمل کے بوجھ کی وجہ سے کمزور اور کم مستحکم ہوجاتے ہیں اس لیے فرش پر سے سیدھا اٹھنے اور کھڑا ہونے کے عمل میں احتیاط برتیں اور اچانک یا تیزی سے ادھر ادھر مڑنے سے اجتناب کریں۔
٭ دل کی رفتار ۱۴۰ دھڑکنیں فی منٹ سے کم رکھیں۔ نومولود بچے کی ماں کی دھڑکن کی رفتار آرام کی حالت میں بھی بلند ہوتی ہے کیونکہ اس کے خون کا حجم حمل کے دوران ۳۰؍فیصد اوسط سے زیادہ درجہ سے بھی کم ہوچکا ہوتا ہے۔
وہ خواتین جن کی آکسیجن لینے کی صلاحیت یا جن کا کام زیادہ بیٹھنے کا ہو اور موٹی بھی ہوں انھیں خاص طور پر محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ (ACOG) کے مطابق ایسے مریض ہلکی پھلکی ورزش سے بھی منفی اثرات سے دوچار ہوسکتے ہیں۔
٭کم تصادم والی ورزشیں کریںجن میں Aerobicورزشیں بھی شامل ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک پاؤں ہر وقت زمین پر لگا رہنا چاہیے مثال کے طور پر مارچ کرنے کے انداز میں چلنا اچھلنے کودنے کے انداز میں چلنے سے بہتر ہے۔ ڈاکٹر فلپس کے مطابق ننھے بچوں کو پالنے والی عورتوں کو ورزش کرتے وقت خواتین کھلاڑیوں والا انگیا پہننا چاہیے۔
٭ کھیل کود سے لطف اندوز ہونا اور کھیلوں کے مقابلوں میںحصہ لے کر جیتنے کی خواہش جسم کو ایک مناسب حد سے زیادہ تھکا سکتی ہے۔ بیرونی طور پر اگر جسم نارمل دکھائی دینے لگے لیکن اندرونی عناصر ابھی تک معمول پر نہیں آتے تاہم ورزش کے مثالی راہنما اصولوں پر ابھی بھی عمل کیا جاسکتا ہے مثال کے طور پر ہفتہ میں تین بار باقاعدہ ورزش کرنا کبھی کبھار ورزش کرنے سے بہتر ہے۔
٭ جسم میں پانی کی کمی واقع ہوجانے کے امکان کو ختم کرنے کے لیے ورزش شروع کرنے سے پہلے اور ورزش کرنے کے بعد پانی پینا ضروری ہے۔
ورزش کا معمول
ڈاکٹر فلپس کے مطابق ورزش کا روایتی نمونہ بچہ کی پیدائش کے بعد عورتوں کے لیے کارآمد ثابت ہوتا ہے۔۔
٭ ورزش شروع کرنے سے پہلے پانچ منٹ کا Warm up کا سہل دور اس میں آہستہ آہستہ چلنا یا ساکن سائکلنگ شامل ہے۔
٭ دل کی دھڑکن کی رفتار کے موافق 30-15 منٹ تک مستقل انداز میں Aerobic سرگرمیاں اس میں چہل قدمی، سائیکل چلانا، کشتی چلانا اور پیراکی وغیرہ شامل ہیں۔
٭ سخت ورزش کے بعد جسم کو بتدریج اور مرحلہ وار ٹھنڈا ہونے دینا۔
٭ پیٹ، پشت اور ٹانگوں کے پٹھوں کی مضبوطی مختلف ورزشیں۔ اگرچہ ہم پیٹ کی ورزشوں کو نظر انداز کرنا چاہیں، لیکن پھر بھی یہ اہم ہیں کیونکہ یہ پیٹ اور پیٹھ کے پٹھوں کو تندرست و توانا کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔
یہ ورزشیں آہستہ اور احتیاط سے جسمانی تربیت دینے والے کسی ماہر کی راہنمائی میں کریں۔ اگر آپ کا بچہ آپریشن سے پیدا ہوا ہے تو پھر ورزش کی شدت کا بخوبی اندازہ کریں۔ پیٹ کے پٹھوں کی ورزش کو حمل کے بعد از سر نوشروع کرتے وقت آپ کو یاد رکھنا ہوگا کہ بچہ کی پیدائش کے بعد پیٹ کے پٹھے پہلے جیسی آسانی سے نہیں سکڑتے۔
اگر کمر کے بل لیٹ کر اٹھ کر بیٹھنے والی ورزش کی جائے تو یہ عمل آہستہ آہستہ کرنا چاہیے اور گھٹنوں میں خم لاکر اٹھنا چاہیے اگر لیٹ کر ٹانگیں سیدھی رکھتے ہوئے اور پاؤں کو ایک جگہ جما کر اٹھنے کی ورزش کی جائے تو یہ عمل کمر کے نچلے حصہ پر زبردست دباؤ پڑنے کا سبب بنتا ہے۔ (یہ بات ہر ورزش کرنے والے کے لیے یکساں اہمیت رکھتی ہے کہ صرف ماں بننے والی خواتین کے لیے) ہر اس ورزش سے اجتناب کیجیے جس میں کمر کو پورے طور پر محرابی حالت میں یا کسی اور بے ڈھنگے انداز میں بغیر کسی ٹیک یا سہارے کے موڑنے کا عمل شامل ہو۔ لیٹ کر دونوں ٹانگوں کو ایک ساتھ اٹھانا بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ اس لیے ایک وقت میں صرف ایک ٹانگ کو اٹھانا چاہیے۔
ورزش کی تربیت دینے والے ماہرین کی ایک پسندیدہ ورزش ہوتی ہے جس میں پیڑو کو جھکایا یا موڑا جاتا ہے جس سے پشت یا کمر کا درد ختم ہوجاتا ہے۔ ایک ماہر ڈاکٹر صاحبہ مشورہ دیتی ہیں کہ عورتوں کو ٹانگوں کے درمیان مناسب سا وقفہ دے کر اور ہلکے سے خم کے ساتھ ہاتھوں کو دونوں طرف کولہے پر رکھ کر کھڑا ہونا چاہیے۔
تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ سخت ورزش شروع کرنے کے لیے حمل کے بعد کا وقت مناسب نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی ممکن ہے کہ کچھ عورتیں اپنے بڑھے ہوئے وزن کو کم کرنے کے لیے اس آزمائش میں پڑیں۔ اس لیے کم محنت اور سہل ورزش کے پروگرام سے شروع کریں اور بتدریج اسے بڑھاتے جائیں۔ ACOGکے انتباہ کے مطابق مندرجہ ذیل علامات سے خبردار رہیں۔ درد، خون بہنا، سر چکرانا، سانس میں بے اعتدالی دل کی دھڑکن میں تیزی،غشی، کمر کا درد یا چلنے میں دشواری۔ ان میں سے کوئی ایک بھی واقع ہو تو اپنے ڈاکٹر سے دریافت کریں۔ ورنہ کسی میٹرنٹی کلینک یا خاندانی مرکز صحت یا کسی ہیلتھ کلب سے رابطہ کریں۔ آپ مندرجہ ذیل آرا میں سے کوئی انتخاب کرسکتی ہیں۔
٭ اپنی صحت کے علاوہ بچہ کی صحت کے بارے میں بھی محتاط رہیں۔ اپنے بچے کے ساتھ خاص طور پر وقت صرف کریں۔
٭ مختلف معمولات کے ساتھ باقاعدہ ورزش کی کلاسیں۔ ورزش کی تربیت دینے والا کوئی ماہر آپ کو بتاسکتا ہے کہ ورزش کے معمول میں کیسے تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔
٭ جب آرام کی ضرورت ہو تو مناسب آرام کرنے سے گریز نہ کریں۔ پیٹ کی ورزشیں سہل انداز میں کریں اور ورزش کے معاملے میں اپنا دوسروں کے ساتھ موازنہ نہ کریں۔
٭ورزش سے متعلق گھریلو وڈیو اور رسالے وغیرہ حاصل کریں۔ اگر ممکن ہو تو خریدنے سے پہلے مختلف ویڈیو کیسٹ کرایہ پر حاصل کرلیں تاکہ اپنی ضرورت کے مطابق خرید سکیں۔
٭یہ ضرور دیکھیں کہ آیا ان کیسٹوں میں ماہرڈاکٹروں اور نرسوں، ماہرینِ نفسیات کی آرا شامل ہیں کہ نہیں۔ اگر آپ محسوس کریں کہ ورزش کرنے کے لیے آپ بہت تھک چکی ہیں تو محض چلنے پر اکتفا کریں۔
٭اپنے بچہ کو سٹرولر میں ڈال کر سیر وتفریح کے لیے باہر کھلی فضا میں نکلیں۔ ایک دفعہ آپ کا چلنے کا سلسلہ آپ کی توانائی کے موافق بہتر ہوجائے تو آپ اس میں بتدریج اضافہ کرسکتی ہیں۔
——