سماجی بیداری اور فکری نفوذ کا سب سے موثر ذریعہ صحافت کو مانا گیا ہے۔ آج جہاں صحافت نے ترقی یافتہ شکل اختیار کرلی ہے وہیں اس صحافت میں عام افراد کا عمل دخل بڑھایا جارہا ہے۔ کوشش کی جارہی ہے کہ ہر صحافتی گروپ اپنے اعتماد کو عوام کے درمیان بنائے رکھنے کے لیے عوام کے بڑے حصے کو کسی نہ کسی طرح خود سے جوڑے رکھے۔ اسے انٹریکٹو جرنلزم کہہ سکتے ہیں۔ اسی صحافت نے تہذیبی کشمکش کا ایجنڈہ بڑھایا اور اسی صحافت نے سماجی اقدار کو پوری طرح بدل دینے کی تحریک بھی چلائی۔ اس لیے آج صحافت دوست بھی ہے دشمن بھی۔ میدان جنگ بھی ہے اور دفاعی قلعہ بھی۔ سارے جھگڑوں کی جڑ بھی ہے اور خود مسیحا بھی! اس لیے موجودہ دنیا کی کوئی بھی جدوجہد کوئی بھی تحریک اس راستے سے گزرے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی۔
گذشتہ سالوں میں میڈیا کو مسلم خواتین اور ان کے مسائل سے کافی دلچسپی رہی ہے۔ شاہ بانو کیس، عمرانہ، گڑیا اور دوسرے ایشوز نے اب تک یہی تاثر دیا ہے کہ میڈیا مسلمانوں کے خلاف خصوصاً علماء اور ان کی متحدہ تنظیموں کے خلاف مدعی بننے کی کوشش کررہا ہے۔ واقعات یہی بتاتے ہیں کہ صحافتی ادارے بعض مخصوص انتہا پسند تحریکوں کے آلۂ کار کے طور پر کام کررہے ہیں۔ لہٰذا اس ملک کا مسلمان میڈیا کی عدالت میں پوری خاموشی سے کٹگھرے میں کھڑا کردیا گیا ہے۔ اس سے صفائی طلب کی جارہی ہے مگر اسے اپنی بات کہنے کا مناسب موقع نہیں مل رہا ہے۔ اگر مل بھی رہا ہے تو اسے یہ شعور نہیں کہ وہ اس حق کو کیسے استعمال کرے۔
مسلم خواتین اپنے فرضِ منصبی کے اعتبار سے اس بات کی ذمہ دار ہیں کہ وہ معاشرے کے منکرات کے خلاف اپنی آواز بلند کریں۔ اور معروف کی دعوت دینے کے لیے اپنی صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کریں۔ اس لحاظ سے میدانِ صحافت، مسلم خواتین کے لیے ایک مؤثر ذریعہ ہے۔
ایک طرف صورتحال یہ ہے کہ غیر مسلم خواتین میدانِ صحافت میں سرگرم ہیں اور معاشرتی اقدار کو بدلنے کے لیے مغربی ذرائع کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بن گئی ہیں۔ معاملہ صرف عمرانہ، گڑیا اور شاہ بانو کا ہی نہیں بلکہ فیشن پرستی، مقابلہ حسن، تفریح اور معاشقے بازی کی تحریک انھیں خواتین کے کاندھوں پر بندوق رکھ کر چلائی جارہی ہے۔ ایسے میں اسلام پسند خواتین کی خاموش زبانی اس بات کا اعلان ہے کہ میدان خالی ہے جسے فتح کرنا ہے کرلے۔
مسلم خواتین میدان صحافت میں اہم رول ادا کرسکتی ہیں اور اپنے دائرے کار سے بہت دور جائے بغیر بھی اپنی رائے کا اظہار کرسکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے کچھ تیاری، کچھ محنت اور کچھ ایسی خود اعتمادی اپنے اندر پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ آپ کے اندر اپنی بات کو ڈنکے کی چوٹ پر کہنے اور اسے منوانے کا حوصلہ پیدا ہوجائے۔ علم بھی اور یقین بھی ہے کہ اسلام نے عورت کو بے مثال عزت و تکریم دی ہے، مگر ہماری شخصیت اتنی مضبوط، بااعتماد او رمستحکم نہیں کہ اعتراض کرنے والوں کا پورے اعتماد سے جواب دے سکے۔ اس سلسلے میں ہماری بہنیں درج ذیل کام کرسکتی ہیں:
٭ مطالعہ اخبا رو رسائل سب سے پہلی ضرور ہے کہ خواتین اپنے اپنے علاقوں کے معیاری روزناموں پر نگاہ رکھیں کہ وہ کیا واقعات پیش کررہے ہیں اور ان واقعات پر کیا ردعمل ہورہا ہے، اس پر بھی نگاہ رکھی جائے کہ بعض اہم اخبارات، ٹائمز آف انڈیا، پائینر اور دی ہندو اور رسائل مثلاً: فرنٹ لائین، آؤٹ لک، سنڈے اور انڈیا ٹوڈے مسائل کو اہم بنانے میں ایک رول ادا کرتے ہیں۔ قومی اخبارات و رسائل کے علاوہ اردو کے اخبارات میں سہ روزہ دعوت، اور ملی گزٹ کا مطالعہ اس سلسلہ میں مفید ہے۔
٭ اخبارات و رسائل کا مطالعہ تبھی بہتر ہوگا ، جب اپنی دلچسپی کا ایک گوشہ بطور خاص مطالعہ کیا جائے مثلاً خواتین کے ایشوز، بچوں کے مسائل، اسلامی ممالک کے حالات، حقوق نسواں، حقوق انسانی کی خبروں میں سے کسی ایک کو خصوصی توجہ سے پڑھا جائے۔ اس سلسلے میں اہم معاملوں کو یاد رکھا جائے۔
٭ اخبارات و رسائل، مضامین،اداریوں پر اپنی رائے ظاہر کرنا میڈیا کا مسلسل عمل ہے۔ عموماً لوگ ایک مضمون بہت خراب اور غلط اثر ڈالنے والا، غیر حقیقی مانتے ہیں لیکن اس بات کی زحمت نہیں کرتے کہ اس اخبار یا رسالے کو ایک لیٹر ٹو دی ایڈیٹر، یا اس کو فون کرکے توجہ دلائیں، جس کی وجہ سے یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ خصوصاً مسلم خواتین کی صورتحال عام خواتین کی حالت زار پر رپورٹیں چھپتی رہتی ہیں لیکن مسلم خواتین کا اس پر ردعمل کبھی ظاہر نہیں ہوتا۔
٭ خبر نویسی اور مضمون نگاری بھی ایک اہم صحافتی عمل ہے۔ جو خواتین اپنی رائے اور علم کو الفاظ کی شکل دے سکتی ہیں انھیں چاہیے کہ اپنی دلچسپی کے میدان سے کبھی کبھی مضمون نگاری کریں۔ اپنے آس پاس کے حالات و واقعات، جلسے جلوس اور تقریبات کی خبریں تیارکرکے اخبارات کو ارسال کریں۔ اخبارات میں ایسی خبریں عموماً جگہ پاجاتی ہیں۔
٭ اس وقت غیر اسلامی خواتین کے رسائل کی بھر مار ہے جو اپنے اپنے نظریات کے مطابق ملک کی خواتین کو ذہنی و فکری غذا فراہم کررہے ہیں، اس کے مقابلے میں مسلم خواتین کے لیے صحافتی پلیٹ فارم موجود نہیں ہے۔ اگر چند ایک تربیتی رسائل کو چھوڑ دیا جائے تو پورا میدان خالی پڑا ہوا ہے۔ ایسی صورتحال سے اندازہ لگانا آسان ہے کہ ہماری ملت کی خواتین میں صحافتی بیداری کس قدر ممکن ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہماری خواتین گھر بیٹھے اپنے قلم کو جنبش دیں اور مسلم خواتین کو درپیش چیلنجز کا جواب دیں۔
٭ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ بڑے شہروں میں مسلم خواتین کے لیے میڈیا ورکشاپ منعقد کی جائیں۔ اور انھیںپروفیشنل تربیت دے کر اخبارات ورسائل میں اپنی رائے بھیجنے اور اسے شائع کروانے کے طریقے بتائے جائیں۔ ساتھ ہی اہم ایشوز سے متعلق برین اسٹارمنگ سیشن لیے جائیں۔
٭ صحافتی سرگرمیوں کا آسان ترین راستہ اب انٹرنیٹ بن گیا ہے جہاں آپ مختلف اخبارات کو چند منٹوں میں اپنے خطوط، مضامین ارسال کرسکتے ہیں۔ اپنے بلاکس بناکر بھی اپنے مضامین کو دنیا بھر کے سامنے پیش کرسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں چند احتیاطوں کے ساتھ بڑی موثر کارکردگی انجام دی جاسکتی ہے۔