موجودہ زمانہ خواتین کے امپاورمنٹ کا زمانہ ہے۔ لیکن اس کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ دورِ حاضر میں امپاورمنٹ کے نام پر عورت کو مرد کے مقابل کھڑا کر دیا گیا ہے۔ اس لیے کبھی آزادیٔ نسواں کے نام پر او رکبھی مساوات مرد وزن کے نام پر اور اب دورِ جدید میں ’’ومن امپاورمنٹ‘‘ کے نام پر کس طرح خواتین کا استحصال کیا جارہا ہے، اس کو خود خواتین سمجھ نہیں پارہی ہیں۔ عورت کی آزادی اور حقوق کی بات کرکے مرد اپنی ذمہ داری سے بری ہوگیا ہے اور عورت نے خوشی خوشی اس بار کو اپنے سر لے لیا ہے۔
اسلام نے خواتین کو ہرطرح کے حقوق دیئے ہیں وہی حقوق دیگر مذاہب کی خواتین کو دیئے جانے کے سلسلے میں کوشش ہوتی تو حقیقی معنوں میں ’’ومن امپاورمنٹ‘‘ ہوتا۔دراصل ملت کا ایک بڑا حصہ خود خواتین کے حقوق کے سلسلے میں توازن نہیں رکھ پارہا ہے۔ اکثر مسلم خواتین عدمِ واقفیت یا مغربی تہذیب، ہندوستانی باشندوں کے رسم و رواج کی نقالی و اثرات کے باعث بے اعتدالی کا شکار ہے۔اسلام عورت اور مرد کو بحیثیت انسان ان کی صنف کے اعتبار سے برابری کاحق دیتا ہے۔ مرد کو قوام ہونے کی بناپر ایک درجہ فوقیت حاصل ہے تو اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسلام میں عورت کو کمتر کیاگیا ہے۔ اسلام تو عورت کو نصف انسانیت کہتا ہے اور جس قدر حقوق اسلام میں عورت کو حاصل ہیں، کسی او ر مذہب میں عورت کو حاصل نہیں ہیں۔ اسلام عورت کو علمی، معاشی اور معاشرتی اعتبار سے امپاور کرتاہے۔ اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ اس کا استحصال نہ ہو۔
علمی صورتحال
مقصد تعلیم معلومات کے جمع کرنے کا نام نہ بن جائے بلکہ اللہ سے قرب حاصل کرنے کا ذریعہ بنے یہ تعلیم اللہ کا خوف اور اس کے احکا مات پر خو ش دلی سے عمل پیرا ہونے کا محرک ثابت ہو۔ اسلام عورت کو دینی و دنیاوی علوم حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے اور یہ وقت کی ضرورت بھی ہے کہ خواتین علمی میدان میں آگے بڑھیں۔
عصر حاضر میں خواتین کی علمی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو بہ نسبت ماضی کے علمی اعتبار سے خواتین کچھ حد تک امپاورضرور ہوئی ہیں۔ مسلم ہویا غیر مسلم، بالعموم تعلیمی نتائج میں بہ نسبت لڑکوں کے لڑکیوں کا تناسب زیادہ رہتا ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعہ جدید علوم حاصل کررہی ہیں۔ گورنمنٹ نے بھی لڑکیوں کے لیے میٹرک تک تعلیم فری کردی ہے۔
خواتین میں تعلیمی بیداری کی لہر چل پڑی ہے، لیکن اس پر زیادہ تر مغربی تہذیب کا غلبہ ہے۔ اس کے باعث دفاتر و اداروں میں، سیاست و میڈیا میں، فلمی انڈسٹریز و ایڈورٹائزنگ کمپنیوں میں ، غرض ہرجگہ عورت مردوں کے شانہ بہ شانہ ہے۔ آج کی عورت علم حاصل کرنے اور اپنی نسل کو جدید علوم سے آراستہ کرنے میں زیادہ دلچسپی لے رہی ہیں اور حصول علم کا مقصد عمدہ ملازمت، یا اپنے وسیع و عریض بزنس کو بہتر ڈھنگ سے سنبھالنے کے لائق بنانا، لڑکی ہوتو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا یا اس لیے ڈگری تعلیم دینا کہ اچھے رشتے آئیں، قابلیت و صلاحیت پیدا کرنے سے زیادہ ڈگری لینے کا رجحان پایا جارہا ہے۔ پرنٹ ، الیکٹرانک اور ویب میڈیا کے ذریعہ غیر ضروری و نقصان دہ علوم بہت آسانی سے نہ صرف نوعمر لڑکے و لڑکیوں کی اخلاقی گراوٹ کا سبب بن رہے ہیں، بلکہ جوانوں اور بزرگوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں۔ یہ فحش و غیر نفع بخش علوم تعمیری و بامقصد علم کے حصول کی راہ میں رُکاوٹ بن رہے ہیں۔ گورنمنٹ کی جانب سے لڑکیوں کے لیے جو سہولت ہے، وہ صرف ابتدائی تعلیم کی حد تک ہے اور Education Privatisation of کے باعث اعلیٰ تعلیم کے لیے مسائل آج بھی باقی ہیں۔
اسلامی نقطۂ نظر
اسلام نے خواتین کو نہ صرف علم حاصل کرنے کی اجازت دی ، بلکہ فرض کیاہے۔ اور اس کے لیے عمر کی کوئی حد نہیں رکھی۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا علم حاصل کرو گود سے گور تک ۔ کئی خواتین گزری ہیں جنہوں نے اپنے علم سے دین کو پھیلایا۔ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ اس کی بہترین مثال ہیں۔ والدین کو چاہئے کہ لڑکیوں کے پرسنل انٹریسٹ کے ساتھ یہ بھی دیکھا جائے کہ کون سی فیلڈ ہوسکتی ہے جو ان کے مستقبل میں خود ان کے لیے بھی محفوظ ہو اور دیگر خواتین و لڑکیوں کے لیے بھی زیادہ فائدہ بخش ثابت ہوسکے۔
ہمارے پاس ایسی خواتین ہونی چاہئیں جو لڑکیوں کو تعلیم دیں۔ لیڈی ڈاکٹر ہونا چاہیے جن کے پاس خواتین علاج کرواسکیں۔ دینی و دنیاوی علوم کے حصول کے لیے مطالعہ کا رجحان پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
قرآن و احادیث کے ترجمے، معیاری کتب، تاریخ اسلام، اسلامی لٹریچر ، مختلف مذاہب سے متعلق معلوماتی کتابیں، اپنے گھر کی لائبریری میں اہل خانہ کے مطالعہ کے لیے دستیاب ہوں۔
آج کے جدید ترقی یافتہ دور میں بہت سارے ذرائع و وسائل ہیں جس سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً انٹرنیٹ کا صحیح استعمال کرکے عصر حاضر کے نئے نئے چیلنجز سے آگہی رکھنا اس کے لیے اخبار و رسائل کا مطالعہ ہونا چاہیے۔ ریاستی سطح پر ہم خواتین کے لیے تعلیمی میدان میں ڈاکٹر اور ٹیچنگ فیلڈ کے لیے زیادہ نشستوں کا مطالبہ رکھ سکتے ہیں تاکہ مستقبل میں لیڈی ڈاکٹر اور ٹیچر ہوجس سے لڑکیوں کا تعلیم حاصل کرنا آسان ہوجائے۔ میٹرنیٹی ہاسپٹل وغیرہ میں لیڈی ڈاکٹر کی کمی نہ ہو۔
خواتین کی تنظیموں و مختلف تحریکات نے جس میں خواتین بھی شامل ہیں، خواتین سے متعلق ایشوز پر لکھنے اور بولنے کی مہارت پیدا کرنے اور کمپیوٹر لٹریٹ بنانے کے لیے ٹریننگ کورسیس کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اہل خیر حضرات نے لڑکیوں کے لیے پروفیشنل کورسیس کے انسٹیٹیوٹ کھولنے چاہیے۔ جہاں اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے تعلیم حاصل کرنا لڑکیوں کے لیے آسان ہوجائے۔
معاشی صورتحال
خواتین کا معاشی اعتبار سے بھی استحکام ضروری ہے۔ اسلام خواتین کو معاشی جدوجہد کی اجازت دیتا ہے۔ عورت کے کمانے کو معیوب نہیں سمجھا گیا۔ خواتین کے امپاورمنٹ کے لیے ان کی معاشی ترقی بھی ضروری ہے۔لیکن معاشی جد و جہد کی مصروفیت عورت کو اپنے بنیادی فرائض سے غافل نہ کر دے عورت کو خود بھی اللہ کے احکامات پر عمل کرنا ہے اور اپنی اولاد کی علمی و عملی تر بیت کے ذریعے انہیں بھی اس مقام بند گی پر لانا ہے ۔
بہ نسبت ماضی کے عورتوں کے حقوق کے سلسلے میں کچھ بیداری آرہی ہے جیسے والدین جہیز کے بجائے وراثت میں حق دینے کی طرف راغب ہورہے ہیں۔ حق مہر نقد ادا کررہے ہیں۔ بعض خواتین شرعی حدود میں رہتے ہوئے برسر روزگار ہیں۔
عام طور پر گمان کیا جاتا ہے کہ دیہاتوں کی بہ نسبت شہروں میں زیادہ ترخواتین جاب کرتی ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دیہاتوں میں خواتین کو زیادہ کام پررکھا جاتا ہے ، کیونکہ خواتین کو مردوں سے کم مزدوری دی جاتی ہے۔ اکثر خواتین کال سینٹر، ٹیلی ورکرس، سائبر کیفے جیسے روزگار سے وابستہ ہیں۔ یہ وہ مقامات ہیں جہاں خواتین کے بجائے مردوں کے ہی ہونا چاہیے۔ ڈاکٹری لائن میں خواتین سے جڑے امراض کے لیے بھی خاتون ڈاکٹر کی کمی پائی جاتی ہے۔گورنمنٹ خواتین کے امپاورمنٹ کے لیے اتنے پلان کرتی ہے، بجٹ بناتی ہے، لیکن اس میں سے بہت کم خواتین کے لیے خرچ کیا جاتا ہے۔ مہاراشٹر کی آدی واسی آبادی میں غذائیت کی قلت ہے۔ مرد و خواتین کی ذمہ داریوں کی غیر مساویانہ تقسیم خواتین کے ذہنی تناؤ کا سبب بن رہی ہے۔
اسلامی نقطۂ نظر
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’مرد قوام ہیں عورتوں پر، اس وجہ سے کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے خواتین کو مردوں کی کفالت میں دیا ہے، لیکن پوری طرح ان کے رحم و کرم پر نہیں رکھا ہے۔ وہ اگر چاہے تو معاشی جدوجہد میں مرد کی معاون ہوسکتی ہیں۔ اس پر اس کے لیے زور نہیں ڈالا جائیگا۔ مرد صاحب حیثیت ہو اور وہ چاہے کہ اس کی بیوی نہ کمائے تو بیوی کو شوہر کی خواہش کا احترام کرنا چاہیے۔
عورتوں کو وراثت میںبھی حق دیاگیا ہے۔ سورہ نساء میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے:
’’تمہاری اولاد کے بارے میں اللہ تمہیں ہدایت دیتا ہے کہ مردوں کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔‘‘ اس کے ساتھ مرد کی جانب سے اس کے لیے حق مہر بھی ہے جس پر اس کے سوا کسی کا حق نہیں ہے۔ ’’اور عورتوں کے مہرخوش دلی کے ساتھ (فرض جانتے ہوئے) ادا کرو، البتہ اگر وہ اپنی خوشی سے مہر کا کوئی حصہ تمہیں معاف کردیں توتم مزے سے کھاسکتے ہو۔‘‘ (النساء)
آج کے حالات میں بالخصوص درج ذیل امور پر توجہ دینے کی ضرور ت ہے۔جیسے:
(۱) خواتین کے لیے غیر سودی بچت گٹ شروع کیے جائیں۔
(۲) وقف بورڈ کی جانب سے مستحق خواتین کو ملنے والے تعاون سے ضرورت مند خواتین کوآگاہ کیا جائے۔
(۳) بیٹیوں اور بہنوں کو پورے انصاف کے ساتھ ورثہ دیا جائے۔
(۴) میڈیکل اور ٹیچنگ فیلڈ میں لڑکیوں کی جاب کوحکومت کی جانب سے جو طے شدہ ریزرویشن ہیں، اس میں مسلم خواتین کے لیے سب کوٹہ رکھا جائے۔
(۵) مسلم تنظیموں کی جانب سے مستحق خواتین کو بلا تفریق مذہب و ملت وظیفے مختص کیے جائیں۔
(۶) مسلم مردوں کو عورتوں کے مہر ادا کرنے کے سلسلے میں متوجہ کیا جائے۔ (اگر مہر ادا کرنے میں بہت عرصہ لگادیا ہے تو رائج الوقت قیمت کے حساب سے رقم ادا کی جائے)
معاشرتی صورتحال
خواتین کے دائرہ کار سے متعلق متوازن فکر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ دین و دنیا سے بے نیاز ہوکر نہ گھر میں قید کردی جائے اور نہ گھر و متعلقین کو ذمہ داریوں سے آزاد ہوکر صرف سماج سیوا میں لگی رہے۔ ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہ رنگارنگی تہذیب میں رچابسا ملک ہے اور مختلف تہذیبوں کے اثرات کو مسلمانوں نے بہت کھلے دل سے قبول کرلیا ہے۔ جس کی وجہ سے نئی نسل اس کلچر کو بھی اسلامی تہذیب کا حصہ سمجھنے لگی ہے۔ خواتین کے حقوق و فرائض اسلامی شریعت کی روشنی میں کیا ہے، اس سے مسلمانوں کو واقف کروانے کی ضرورت ہے۔
مثبت
آج کے معاشرہ میں خواتین کو بھی مردوں کے طرح ایک انسانی وجود کی حیثیت سے تسلیم کیاگیا ہے۔ کچھ جگہوں پر ان کی عزت و عصمت او ران کے تحفظ کا خیال رکھا جارہا ہے۔ ٹرینوں میں ان کے لیے علیحدہ بوگی کا اہتمام ہے۔ اسٹیشنوں، ہاسپٹلوں و دیگر پبلک مقامات پر خواتین کے لیے علیحدہ لیٹرین کا نظم ہوتا ہے۔ ملزم و مجرم خواتین کے لیے صرف لیڈیز پولیس ہی مخصوص ہے۔ اس طرح اور بھی کئی مقامات ہے جہاں خواتین کے لیے خواتین مخصوص ہیں۔ ریاستی حکومت کے تحت یہ طے ہے کہ لڑکیوں کی اسکول بس میں ہیلپر خاتون ہی رہے گی ۔ عورتوں کے حقوق اوران کے مقام کولے کر ایک بیداری سماج میں نظر آنے لگی ہے۔ خواتین کی مختلف تنظیمیںہیں جو ملک بھر میں ریاستی و مقامی سطح پر کام کرتی ہیں۔ یہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگ مقیم ہیں۔ ہر ایک کو اپنے مذہب کے مطابق عمل کرنے کی آزادی ہے۔ مسلم خواتین پردہ کا اہتمام کرتے ہوئے گھر سے باہر جاسکتی ہیں ۔ اس کے لیے اس پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ برقع پہننے والی خواتین کا برادرانِ وطن احترام کرتے ہیں۔ عورتوں کی سیکوریٹی کے لیے ان کے حق میں قوانین بنائے گئے ہیں۔ اگر کسی مدد کی ضرورت ہوتو Toll Free نمبر بھی ہے جہاں پولیس ان کے تحفظ کے لیے پہنچ جاتی ہے۔ مسلم عورتوں کے فیصلوں کے لیے مسلم پرسنل لاء، امارتِ شرعیہ ، دار القضاۃ کانسلنگ سینٹر موجود ہیں، جہاں ان کے مسائل اور گھریلو تنازعات کو حل کیا جاتا ہے۔ غرض خواتین کی سماجی پوزیشن میں بہ نسبت ماضی کے واضح تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔
منفی
خواتین کے حقوق و تحفظ کا خیال رکھنے اور مختلف قوانین ان کے حق میں بنانے کے باوجود یہ ایک کڑوی سچائی ہے کہ زمانۂ جاہلیت کی طرح خواتین آج بھی مظلومیت کی شکار ہیں۔دختر کشی، جنسی استحصال، زنا بالجبر، جہیز و ہنڈہ، گھر اور باہر کی دوہری ذمہ داری، سسرالی رشتہ داروں کی زیادتیاں، مائیکہ کی جانب سے وراثت سے محروم کیا جاناوغیرہ اور خود آج کی عورت دورِ جدید کی نئی نئی قباحتوں جیسے ہوموسیکس، لیوان ریلیشن شپ، سروگیٹ مدر، ویلنٹائن کلچر ، سنگل لیونگ کلچر وغیرہ کا شکار ہورہی ہیں۔
٭ عورتوں کے حق میں جو قوانین بنائے گئے ہیں، ان پر بھی پوری طرح سے عمل نہیں ہوتا ہے بلکہ اکثر سے بیشتر اوقات خواتین ان قوانین کا استعمال مردوں کے خلاف دوسرے معنوں میں ان پرظلم ڈھانے کے لیے کرتی ہیں، مثلاً 498A۔ مسلم گھرانے ہی نہیں، بلکہ بعض دیندار لوگوں کے یہاں بھی بیوی، بہو، ساس، جیسے سسرالی رشتوں کولے کر بے اعتدالی اور ان کے ایک دوسرے کے تئیں حقوق و فرائض میں توازن نظر نہیں آتا۔ کسی رشتہ کے ساتھ بے جارعایت اور کسی رشتہ کی حق تلفی ہوجاتی ہیں۔ مثلاً کہیں ، ہندوستانی بہو بناکر ، ساس سسر، دیور جیٹھ کی خدمت میں لگادیا جاتا ہے تو کہیں ساس سسر کی خدمت بہو پر فرض نہیں کہہ کر غیر ضروری چھوٹ دی جاتی ہے۔ اور اس میں اخلاقی فرض سے بھی بہو آزاد ہوجاتی ہیں۔ بعض لڑکیاں والدین کی ذمہ داری بیٹے پر ہے، بہو پر نہیں کہہ کر ان کی ذمہ داری سے دامن بچاتی ہیں۔
٭کنواری لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم یاپھر اچھے رشتہ کے انتظار میں خواہ مخواہ بیٹھاکر رکھنے کا کلچر پروان چڑھ رہا ہے۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ’’اے علی، تین چیزیں ایسی ہے کہ ان میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے: نماز کا جب وقت ہوجائے، جنازہ جب آجائے اور لڑکی کا نکاح جب اس کے لیے کفو مل جائے۔‘‘
٭مسلم خواتین پردہ کررہی ہیں، لیکن بالعموم اس پردہ میں بھی بے پردگی کے کئی سامان ہیں۔ آج برقع پردہ کے نام پر مذا ق بن گیا ہے۔
٭ انٹرنیٹ کے فائدے سے زیادہ اس کے غلط استعمال کی طرف خواتین و لڑکیوں کا رجحان ہے۔
اسلامی نقطہ نظر
خواتین کے مختلف مسائل کا باریکی سے جائزہ لیکر اس کی وجوہات کو جاننا اوران کا حل پیش کرنا چاہیے۔ اسلامی شریعت کے تحت اگر مسلمان عمل کرنے لگے تو بہت ساری معاشرتی برائیوں کا خاتمہ ممکن ہے۔ جیسے لڑکا لڑکی میں امتیازی سلوک نہ کرنا، تعلیم و دینی شعور سے آراستہ کرنا ، جب بالغ ہوجائے اوران کے مناسب کفو مل جائے تو ان کا نکاح کرنا، بچپن سے نماز کی تاکید کرنا، اخلاق و کردار کو اسلامی سانچے میں ڈھالنا، عورتوں نے پردہ اور مردوں نے غضِ بصر کا اہتمام کرنا، بیوہ اور مطلقہ کے نکاح کے لیے کوشش کرنا، غیر اسلامی رنگ ڈھنگ، فضول رسم و رواج ، مشترکہ خاندانی نظام، ڈے کلچرز سے اجتناب برتنا، بے جا اصرا ف اور جھوٹی شان نہ دکھانا اور ڈگری کالج کے کو ایجویشن سسٹم کو ختم کرنا، غرض زندگی کے ہر معاملے میں اسلامی حدود کا پاس و لحاظ رکھنے کی کوشش کرنا۔ارشاد ِربانی ہے: ’’مومنو! تمہاری بعض بیویاں اور بعض اولاد تمہارے دشمن ہیں، سو ان سے بچتے رہو، اگر تم عفووکرم، درگزر اور چشم پوشی سے کام لوتو یقین رکھو کہ خدا بہت ہی زیادہ رحم کرنے والا ہے۔‘‘
ملت کے ہر گھر نے اپنے گھر کو صحیح معنوں میں ’’اسلامی خاندان‘‘ بنانے کی فکر و کو شش کرنا چاہیے جس سے وہ نہ صرف اپنے رشتہ داروں، پڑوسیوں اور تحریکی و دینی حلقوں بلکہ برا دران وطن کو بھی حقیقی اور مثا لی اسلامی خاندان کی جیتی جا گتی تصویر نظر آ ئے۔ اور وہ جان لے کہ خواتین کا امپاورمنٹ اسلام میں ہی ہے ۔