خواتین کی ملازمت اور شریعت کی ہدایات

تحریر: عبدالحلیم ابوشقہ

ترجمہ: فہیم اختر ندوی

شرعی ہدایات کی تفصیل میں جانے سے پہلے دو اہم باتیں ہمارے ذہن میں رہیں۔ ایک موجودہ دور میں رائج بعض غلط خیالات اور دوسری ملازمت پیشۂ خواتین کی ترقی کے لیے مطلوبہ علمی معیار۔

جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے تو ملازمت پیشۂ خواتین سے متعلق ان غلط خیالات کی تردید ضروری ہے۔ جو مغرب زدہ لوگوں نے پھیلا رکھی ہیں، مثلاً یہ خیال کہ شادی شدہ خاتون کے لیے اقتصادی خود کفیلی ضروری ہے تاکہ وہ اپنے ارادہ میں آزاد ہو۔ یہ خیال خاندان کے اس بنیاد ہی کو ڈھا دیتا ہے جس پر کسی بھی صالح ڈھانچہ کی تعمیر، اس کے افراد کے باہمی تعاون اور ذمہ داریوں کی باہمی تقسیم سے ہوتی ہے اور جوہر ایک کی خود کفیلی اور کشمکش کی صورت میں قائم ہی نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح یہ خیال بھی کہ عورتوں کے لیے ملازمت سے وابستگی ضروری ہے تاکہ وہ اپنی انفرادی شخصیت کی تعمیر و ترقی کا سامان کرسکیں غلط ہے ۔ عورت اپنے کام میں گھر کی ملکہ رہ کر سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں اپنے تعاون کے ساتھ اپنی شخصیت کی بھر پور تکمیل کرسکتی ہے۔ اس سے اس بات کی نفی نہیں ہوتی کہ ملازمت سے وابستگی کی وجہ سے زندگی کے بہت سے مفید تجربات بھی حاصل ہوجاتے ہیں۔

اسی طرح شدت پسندوں کے اس خیال کی تردید بھی کی جانی چاہیے کہ عورتوں کے لیے ملازمت سے وابستگی بالکل ممنوع اور صرف بوقت ضرورت ہی جائز ہے کیونکہ ضرورت کے وقت تو ممنوعات کی اجازت ہوہی جاتی ہے، لیکن ضرورت کے وقت بقدر ضرورت ہی پر اکتفاء کرنا ضروری ہے۔ اس خیال کے نتیجہ میں عورتوں کی ملازمت سے وابستگی ہلاکت کے وقت مردار کھانے کی اجازت کی مانند بن کر رہ جاتی ہے۔ نہیں معلوم یہ ممانعت کہاں سے آئی؟ گھر سے عورت کی وابستگی ایک سماجی مسئلہ ہے جو عورت اور گھر کے حالات کے فرق سے بدلتا رہے گا، یہ کوئی اللہ کی جانب سے طے شدہ حکم قطعی نہیں ہے۔

جہاں تک دوسری بات یعنی پیشۂ خواتین کی ترقی کے لیے مطلوبہ علمی صلاحیتوں کا تعلق ہے تو عرض ہے کہ : شرعی دائرے میں رہتے ہوئے ملازمت سے خواتین کی وابستگی کو موجودہ دور میں ایک اہم اور نازک ترقی شمار کیا جاتا ہے، جس کے آثار اقتصادی اور سماجی زندگی کے بیشتر گوشوں میں خصوصاً خاندان میں جو سماج کی بنیادی اینٹ ہے مرتب ہوتے ہیں۔ اس ترقی کی صحیح حد بندی، نقصانات سے حفاظت اور اچھے نتائج کے حصول کے لیے ضروری ہے۔ ذہنی، فکری اور عملی تربیت کے ساتھ ساتھ سماجی، اقتصادی اور تنظیمی میدانوں میں بھی عورت کی شخصیت یکساں ترقی کرے، کیونکہ زندگی کے یہ میدان باہم مربوط اور ایک دوسرے سے متاثر ہوتے ہیں۔

ہماری دعا ہے کہ اللہ رب العزت مخلص اسکالروں کو وسیع علمی تحقیقات کی توفیق عطا فرمائے، جو مردوزن کے بنیادی فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے تمام گوشوں اور ہر مرحلۂ عمر کے لیے تعلیم اور اس کے مناہج سے لے کر ہر دو صنف کے مناسب ملازمتوں تک کے لیے تحقیقی کام انجام دیں۔ یہی تحقیقات زندگی کے ہر میدان کے لیے راہ عمل طے کرنے کی ضروری تمہید ہو گی اور ان کے بعد ہی ہم اپنے معاشرہ کی صحیح و بامقصد ترقی کی توقع کرسکیں گے۔

اہم شرعی ہدایات:

(۱)عورت کی مناسب تعلیم کا انتظام ضروری ہے تاکہ اسلامی تربیت کے عمومی مقاصد کے علاوہ ان بنیادی مقاصد کی بھی وہ تکمیل کرسکے جو شریعت اور سماج نے اس کے سپرد کی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ شادی کے بعد اپنی ذمہ داریوں کو پوری طرح اٹھانے، گھر کی تنظیم اور بچوں کی بہترین نگہداشت کی صلاحیت و قدرت سے آراستہ ہو۔ کیونکہ ارشاد نبویؐ ہے: ’’عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں کی نگہبان ہے۔ ان سب کے متعلق اس سے باز پرس ہوگی۔‘‘ دوسرے کسی مناسب پیشہ کی بوقت ضرورت خواہ یہ ضرورت انفرادی ہو یا خاندانی و سماجی، کی انجام دہی کی وہ صلاحیت رکھتی ہو۔

حضرت ابوہریرہؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ : ’’جس شخص کے پاس کوئی باندی ہو، وہ اسے اچھی تعلیم و تربیت سے آراستہ کرے پھر آزاد کرکے اس سے شادی کرلے تو اسے دوہرا اجر ملے گا۔‘‘ (بخاری)

باندی و لونڈی کی تعلیم و تربیت کا جب یہ مقام ہے تو بچیوں کی تعلیم کتنی اہم ہوگی، اس پر ہم کم ہی غور کرپاتے ہیں۔

(۲) عورت اپنے تمام اوقات کو کارآمد اور مفید بنائے تاکہ وہ معاشرہ کا ایک بار آور اور نفع بخش عنصر بن سکے۔ زندگی کے کسی بھی مرحلے (جوانی، پیری) میں اور کسی بھی حیثیت و حالت، (بیٹی، بیوی، مطلقہ اور بیوہ ہونے) میں وہ اپنے لیے بے کاری پسند نہ کرتی ہو، گھریلو کام کاج سے جو بھی وقت بچے اسے پیشہ ورانہ یاغیر پیشہ ورانہ کسی بھی مفید کام میں صرف کرتی ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

مَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنثـٰی وَہُوَ مُوْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیَاۃً طَیِّبَۃً وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ اَجْرَہُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۔

’’جو کوئی بھی مرد یا عورت نیک عمل کرے گا بشرطیکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے ضروری ایک پاکیزہ زندگی عطا کریں گے اور ہم انہیں ان کے اچھے کاموں کا ضرور اجر دیں گے۔‘‘

(۳) شوہر اپنی بیوی کے لیے شرعی فریضہ کے مطابق اخراجات کا ذمہ دار ہے۔ بیٹی کے اخراجات کی ذمہ داری باپ پر ہے اور دونوں کی تنگدستی یا بغیر کچھ چھوڑے ہوئے انتقال کی صورت میں حکومت کی ذمہ داری ہے۔

(۴) مرد خاندان کا ذمہ دار ہوتا ہے، اس لیے کسی پیشہ سے وابستگی کے لیے بیٹی یا بیوی کو مرد سے اجازت لینی ضروری ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ … مرد اپنے گھروالوں پر ذمہ دار اور ان کے بارے میں جواب دہ ہے۔…‘‘ (بخاری و مسلم)

بیوی یا بیٹی کو ملازمت سے وابستگی کی اجازت دینے میں مرد کے پیش نظر شرع اور عرف رہنا چاہیے۔ شرعی جواز ہونے کے باوجود کسی مفید کام سے نہ تو زبردستی روکنا چاہیے اور نہ ہی بلا ضرورت کسی کام سے وابستہ ہونے پر مجبور کرنا چاہیے۔

(۵) مسلم خاتون کی شادی جلد انجام دینی چاہیے تاکہ اسے اور معاشرہ کو عفت و پاکیزگی میسر ہو اور مرد و عورت دونوں اچھی نفسیاتی صحت اور بہترین اخلاق سے بہرہ ور ہوں۔ کسی ضرورت و حاجت کے بغیر صرف ملازمت سے وابستگی شادی میں رکاوٹ یا تاخیر کا سبب بن رہی ہو تو یہ کبھی مکروہ اور کبھی حرام ہے۔ اگر شادی کی تکمیل میں پیشہ معاون بن رہا ہو تو اس سے وابستگی پسندیدہ ہے۔

(۶) مسلم عورت کو خاندان کی استطاعت اور معاشرہ کی ضرورت کے دائرے میں بچوں کی خواہش رکھنی چاہیے۔ پیشہ اور کام کااس راہ میں رکاوٹ بننا درست نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَاللّٰہُ جَعَلَ لَکُمْ مِنْ اَنْفُسِکُمْ أَزْوَاجاً وَجَعَلَ لَکُمْ مِنْ أَزْوَاجِکُمْ بَنِیْنَ وَ حَفَدَۃً۔ (النحل:۷۲)

’’ اور اللہ نے تم ہی میں سے تمہارے لیے بیویاں بنائیں اور تمہاری بیویوں سے بیٹے اور پوتے پیدا کیے۔‘‘

اور رسول اللہ ﷺ نے اولاد کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: ’’خوب محبت کرنے والی اور بکثرت بچے جننے والی عورت سے شادی کرو، تمہاری وجہ سے میری امت کی تعداد زیادہ ہوگی۔‘‘ (نسائی)

(۷) عورت اپنے گھر اور بچوں کی صالح نگہداشت کی ذمہ دار ہے۔ ملازمت کی وجہ سے اس ذمہ داری سے گریز بالکل جائز نہیں ہے۔ شادی شدہ عورت کی یہ اولین ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَمِنْ آیَاتِہٖ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجاً لِّتَسْکُنُوْا اِلَیْہَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَوَدَّۃً وَّ رَحْمَۃً۔ (الروم: ۲۱)

’’اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس کی بیویاں بنائیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت و ہمدردی پیدا کردی۔‘‘

(۸) دو حالتوں میں عورت کو ملازمت سے وابستہ ہونے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ایک گھر چلانے والے (والد، شوہر، حکومت) کے نہ ہونے یا اس کے تنگدست ہونے کی صورت میں اپنی اور اپنے خاندان کی کفالت کے لیے اور دوسرے معاشرہ کی حفاظت اور اس کے ارتقاء کے لیے عورتوں پر جو فرض کفایہ ہے اس کی ادائیگی کے لیے۔ ان دونوں صورتوں میں عورت کی ذمہ داری اور گھر و بچوں کے تئیں اپنی ذمہ داری دونوں کے مابین حتی الامکان ہم آہنگی برقرار رکھنی چاہیے اور ملازمت کے سبب خاندان اوربچوں کو متاثر نہیں ہونے دینا چاہیے۔

(۹) عورت کے لیے ملازمت سے وابستگی خاندانی ذمہ داری سے ہم آہنگ ہونے کی شرط کے ساتھ ہی درج ذیل مقاصد کے لیے مستحب ہے : (الف) تنگدست شوہر، والد یا بھائی کی معاونت (ب) مسلم معاشرہ کے بڑے مفاد کی تکمیل (ج) نیک کاموں میں خرچ۔

٭ حضرت عبداللہ کی زوجہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ … بلال ہمارے پاس سے گزرے تو ہم نے کہا: حضور ﷺ سے دریافت کیجیے کہ کیا میں اپنے شوہر اور اپنے زیر پرورش یتیم بچوں پر خرچ کرسکتی ہوں؟ ہم نے ان سے یہ بھی کہا کہ: ہمارا نام مت بتائیے گا۔ انھوں نے جاکر دریافت کیا۔ آپؐ نے پوچھا: یہ دونوں کون ہیں؟ انھوں نے کہا: زینب ہیں۔ دریافت فرمایا: کون سی زینب؟ انھوں نے بتایا: عبداللہ کی زوجہ۔ آپؐ نے فرمایا: ہاں اسے دوہرا اجر ملے گا، رشتہ دار کا اجر اور صدقہ کا اجر۔ ایک روایت میں ہے تمہارے شوہر اور تمہارے بچے اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ تم ان پر صدقہ کرو۔ (بخاری و مسلم)

٭ کچھ خواتین کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی صلاحیتوں اور خوبیوں سے نوازا ہے مثلاً قوت گفتار، حسن تکلم، زبردست تحریری و شعری صلاحیت یا غیر معمولی ذہانت و عقل جن سے وہ بڑے کام انجام دے سکتی ہیں اور اچھی تعلیم حاصل کرکے اچھے نتائج برپا کرسکتی ہیں، ایسی خواتین کی تربیت اور ان کے جوہر قابل کو جلا بخشنے کا عمل بہت ضروری ہے۔ یہ اپنے میدان عمل میں بہت سے مردوں پر فائق ثابت ہوتی ہیں۔

٭ ام المومنین حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، فرماتی ہیں: ہم میں سب سے زیادہ دراز ہاتھ حضرت زینب (بنت جحش) کا تھا، وہ اپنے ہاتھوں سے کام کرکے صدقہ کرتی تھیں۔ (مسلم)

(۱۰) کسی اہم و مناسب ملازمت میں عورت کی مصروفیت زیادہ ہو تو گھریلوں کاموں میں مرد کو اس کی معاونت کرنی چاہیے اور اگر عورت کا کام ضروری حیثیت رکھتا ہو تو مرد کے لیے اس کی معاونت بھی ضروری ہوگی۔

حضرت اسود بن یزیدؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہؓ سے پوچھا: آنحضرت ﷺ گھر میں کیا کرتے تھے؟ فرمایا: گھر کے کام میں مصروف رہتے، جب اذان کی آواز سنتے، باہر نکل جاتے۔ (بخاری)

’’رسول اللہ ﷺ اپنی بکری دوہتے اور اپنا کام خود کرتے تھے۔‘‘ (مسند احمد)

’’آپﷺ اپنے کپڑے سلتے، جوتے گانٹھ لیتے اور وہ سارے کام کرتے جو دوسرے مرد اپنے گھروں میں کرتے ہیں۔‘‘ (مسند احمد)

نیز مسلم معاشرہ کو بھی ایسا ماحول و اسباب فراہم کرنے چاہئیں کہ کام کرنے والی خواتین اپنی ملازمت اور خاندان دونوں کی ذمہ داریاں بحسن و خوبی انجام دے سکیں۔ ارشاد قرآنی ہے:

وَالْمُوْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَائُ بَعْضٍ۔ (توبہ)

’’ اور ایمان والے اور ایمان والیاں ایک دوسرے کے (دینی) رفیق ہیں۔‘‘

(۱۱) عورت کسی ملازمت سے وابستہ ہو اور اپنے کام کی اجرت حاصل کرتی ہو تو شوہر و بیوی باہمی رضا مندی سے اس آمدنی کا مصرف طے کریں۔

(۱۲) عورت کو ایسے پیشوں سے وابستہ نہ کیا جائے جو اس کی طبیعت و مزاج اور اس کے جسمانی و نفسیاتی خصائص سے جوڑ نہ رکھتے ہوں۔ اس طرح کے کاموں کی دو قسمیں ہیں: ایک وہ جسے شریعت اسلامیہ نے بالکلیہ ممنوع قرار دیا ہے، دوسری وہ جسے علمائے امت اپنے اجتہاد سے طے کریں گے۔

(۱۳) اگر پیشہ وارانہ کام مردوں کے ساتھ عورتوں کے میل جول کے متقاضی ہوں تو مردوزن دونوں کے لیے میل جول کے آداب کی رعایت ضروری ہے مثلاً لباس بھر پور ہو، نگاہیں نیچی رکھی جائیں، تنہائی اور اختلاط سے گریز کیا جائے، اسی طرح طویل اور بار بار میل جول سے گریز کیا جائے، یعنی مردوعورت دونوں کے علاحدہ علاحدہ کاموں کے باوجود کام کے پورے اوقات میں ایک ہی جگہ اکٹھے بیٹھنے سے احتیاط برتی جائے۔ البتہ کام کی نوعیت، تعاون، تبادلۂ خیالات یا دیگر مصالح کے لیے بار بار ملاقات کی متقاضی ہو تو شدید ضرورت کی موجودگی تک کوئی حرج نہیں ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں