خواتین کی نماز سے متعلق شرعی احکام

عربی سے ترجمہ :ساجدہ فلاحی

نمازدین کا ستون ہے اوراس کی حفاظت کی ذمہ داری اس کی تمام شرطوں اور ارکان کے ساتھ امت مسلمہ کے تمام مردوں اور خواتین کی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے:
’’نماز درحقیقت ایسا فرض ہے جو پابندی وقت کے ساتھ اہل ایمان پر لاز م کیاگیا ہے۔‘‘ (النساء :۱۰۳)
نیز امہات المومنین کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’اورنماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔‘‘ (الاحزاب:۳۳)
نماز اسلام کی بنیاد ہے اور علماء نے نماز چھوڑنے کو ایسے کفر سے تعبیرکیاہے جو ایک مسلمان کو ملت سے خارج کردینے والا ہے۔ مردوںاورعورتوں میں سے جو نمازکی پابندی نہ کرے، وہ ایسا ہی ہے گویاکہ اس کے پاس دین اسلام نہیں ہے۔ اسی طرح نماز بغیر کسی عذر شرعی، تاخیر سے ادا کرنا، اس کو ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’پھر ان کے بعد ان کے جانشین وہ ناخلف لوگ ہوئے جنھوںنے نماز کو ضائع کردیا اور خواہشات نفس کی پیروی کی۔ پس قریب ہے کہ وہ گمراہی کے انجام سے دوچار ہوں البتہ جو توبہ کرلیں اور ایمان لے آئیں اور نیک عمل اختیار کرلیں وہ جنت میں داخل ہوںگے اور ان کی ذرّہ برابر بھی حق تلفی نہ ہوگی۔‘‘ (تحریم:۵۹)
حافظ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں ’’أضاعوا الصلاۃ‘‘ کامفہوم یہ بیان کیا ہے کہ اس سے مراد نماز کے اوقات کو ضائع کرنا ہے، اس طورپر کہ نماز کا وقت نکل جانے کے بعد نماز کی ادائیگی کرے اور ’’یلقون غیاً‘‘ کامفہوم ان کے نزدیک یہ ہے کہ وہ آخرت میںخسارہ سے دوچار ہوںگے، اس لئے کہ ’’غی‘‘ جہنم کی ایک وادی ہے۔
خواتین کے لئے نماز کے حسب ذیل احکام مردوں سے مختلف ہیں:
۱- عورت کے لئے اذان واقامت نہیں ہے، اس لئے کہ ان دونوں میں بلند آواز استعمال کی جاتی ہے اور عورت کے لئے آواز بلند کرنا درست نہیں ہے۔ اس لئے بلاکسی اختلاف یہ دونوں عمل عورت کے لئے درست نہیںہوںگے۔
۲- عورت اپنی نمازمیں مکمل سترپوشی اختیار کرلے، سوائے چہرہ، ہتھیلی اور قدموں کے،بشرطیکہ نامحرم مرد اسے نہ دیکھے۔ اگرنامحرم مرد کی نظرپڑنے کا احتمال ہو تو اس کے لئے اسی طرح سترپوشی واجب ہے جس طرح کہ نماز کے علاوہ میں واجب ہے۔ پس خواتین کے لئے نماز میں سر،گردن اورپورے بدن حتیٰ کہ قدم کے اوپری حصّہ کو بھی ڈھانکنا ضروری ہے۔ جیساکہ حدیث میں آیا ہے:
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ انھوںنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاکہ ’’کیا عورت قمیص اور دوپٹہ میں بغیر ازار کے نماز پڑھ سکتی ہے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’عورت بغیر ازارکے اس وقت نماز پڑھ سکتی ہے جب کہ قمیص اس قدر مکمل ہوکہ عورت کے قدموں کے اوپری حصہ کو بھی ڈھانک لے۔‘‘ (ابودائود)
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ ]مجموع الفتاوی[ (۲۲؍۱۱۳؍۱۱۴) میں تحریر فرماتے ہیں کہ عورت اگر تنہا بھی نماز پڑھے تو بھی دوپٹہ اس کے لئے لازم ہے، البتہ نماز کے علاوہ میں اپنے گھر میں سر کھول لینا اس کے لئے جائز ہے۔ اس لئے کہ نماز میں زینت کا (سترپوشی) اختیار کرنا اللہ تعالیٰ کاحق ہے ، لہٰذا کسی کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ گھر میں بھی عریاں رہے اگرچہ وہ رات کے وقت تنہا ہو،تو پھر نیم عریاں ہوکر بھی نماز پڑھنا اس کے لئے کیسے جائز ہوسکتا ہے۔ مزید انھوںنے ’’المعنی:: (۲؍۲۵۰) میں درج فرمایا:
۳- عورت رکوع وسجودمیں اپنے اعضاء کو بچائے الگ الگ رکھنے کے سمیٹ کر رکھے گی (اور اگر گھٹنے موڑکر بیٹھنے میں عذر ہو تو پیر پھیلا کر بچھانے اور پیر پھیلاکر گھٹنے اٹھانے کے بجائے دونوں پیروں کو داہنے جانب نکال لے یا لٹکالے، یا پالتی مارکر بیٹھے، اس لئے کہ اس میں زیادہ سترپوشی ہے۔
امام نوویؒ نے ]المجموع[ (۳؍۴۵۵) میں اور امام شافعیؒ نے ]المختصر[میں لکھا ہے کہ ’’مردوں اور عورتوں کے درمیان نماز کے اعمال میں کوئی فرق نہیں ہے۔ البتہ اس کے لئے مستحب ہے کہ وہ اپنے اعضاء کو سمیٹے، سجدے میں پیٹ کو رانوں سے ملالے، اس لئے کہ حالت نماز میں بھی مکمل سترپوشی ہی اس کے لئے زیادہ پسندیدہ ہے۔
۴- خواتین کی امامت میں جماعت سے نماز پڑھنے کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس لئے کہ نبی کریمؐ نے ام ورقہؓ کو حکم دیاتھا کہ وہ اپنے گھروالوں کی امامت کریں (ابودائود) لیکن بعض علماء اس کو غیرمستحب سمجھتے ہیں، بعض کے نزدیک مکروہ ہے اور بعض نفل نمازوں میں جواز کے قائل ہیں۔ راجح قول استحباب کا ہے۔ عورت قرأت بالجہر (آواز کے ساتھ) بھی کرسکتی ہے جب کہ نامحرم مردوں کے سننے کا اندیشہ نہ ہو۔
۵- خواتین کے لئے مسجد میں مردوں کی جماعت میں شامل ہوکر نماز پڑھنا جائز ہے۔ البتہ ان کا اپنے گھروں میں نماز پڑھنا زیادہ بہترہے نبی کریمؐ نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ کی بندیوں کو اللہ کی مساجدمیں آنے سے منع نہ کرو‘‘ (مسلم)
’’خواتین کومسجد جانے سے منع نہ کرو البتہ ان کے گھر ان کے لئے زیادہ بہتر ہیں۔‘‘ (احمد ابودائود)
دونوں حدیثیں اس بات پر دلالت کررہی ہیں کہ خواتین کااپنے گھروں میں نماز پڑھنا، سترپوشی کے لحاظ سے زیادہ بہتر ہے البتہ اگر وہ مسجد کے لئے نکلیں تو چند چیزوں کالحاظ کرنا ان کے لئے ضروری ہے۔
(الف) لباس ساتر ہو اور مکمل پردے کا اہتمام ہو حدیث میںہے کہ
’’حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ عورتیں اللہ کے رسول کے ساتھ نماز پڑھتی تھیں، پھروہ اپنی چادروں کو لپٹے ہوئے نکلتی تھیں اس طرح کہ وہ تاریکی کی وجہ سے پہچانی نہیں جاتی تھیں۔‘‘ (متفق علیہ)
(ب) وہ خوشبو لگاکر باہر نہ نکلیں۔
’’حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ کوئی عورت جس نے خوشبو کا استعمال کیا ہو، ہمارے ساتھ عشاء کی نماز میں شامل نہ ہو۔ (مسلم، ابودائود، احمد، نسائی)
صحیح مسلم کی دوسری حدیث حضرت زینبؓ سے مروی ہے :
’’جب تم عورتوں میں سے کوئی مسجد میں حاضر ہوتو وہ خوشبو کا استعمال نہ کرے۔ امام شوکانی نے اپنی کتاب نیل الاوطار (۳؍۱۴۰؍۱۴۱) میں لکھاہے کہ :
’’حدیث اس بات پر دلالت کررہی ہے کہ خواتین کا مساجد میں نماز پڑھناصرف اسی صورت میں جائز ہوسکتا ہے جب کہ وہ جملہ فتنہ میں ڈالنے والی چیزوں سے محفوظ ہوں یعنی وہ خوشبو، زیورات اور دیگر زیب وزینت کی اشیاء سے آراستہ نہ ہوں۔‘‘
اسی لئے ام المومنین حضرت عائشہؓ ایسی خواتین کے تعلق سے فرماتی ہیں:
’’اگر رسولؐ عورتوں کی ان چیزوں کو دیکھتے جو آج کل ہم دیکھ رہے ہیں تو آپؐ خواتین کو مسجد جانے سے روک دیتے جس طرح بنی اسرائیل کی خواتین کو روک دیاگیا۔‘‘ (متفق علیہ)
امام شوکانی اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیںکہ:
’’اس سے مرادبہترین لباس، خوشبو، زینت وآرائش اور تبرج اختیار کرنا ہے جب کہ خواتین کو موٹی، مکمل جسم ڈھانکنے والی چادر (یعنی برقع) میں باہر نکلناچاہیے۔‘‘
امام ابن قیم الجوزی نے اپنی کتاب احکام النساء میں لکھاہے کہ:
’’عورت کو جہاں تک ممکن ہوباہر نکلنے سے بچنا چاہیے، اس لئے کہ وہ اپنے نفس کے تعلق سے اگرچہ خود کو محفوظ سمجھتی ہو لیکن لوگوں کے لئے اس سے اپنے آپ کومحفوظ رکھنا مشکل ہوتا ہے۔ اگرنکلنے کی شدیدحاجت ہوتو اپنے شوہر اور سرپرستوںکی اجازت سے گھرکے معمولی کپڑے میں باہر نکلے اور عام سڑکوں اور بازاروںمیں چلنے کے لیے خالی راستوں کو اختیار کرے۔ بیچ میں چلنے کے بجائے خالی راستے سے چلے، نیز بلاضرورت اپنی آواز مردوں کو سنانے سے احتراز کرے۔
(د) خواتین جماعت میں شریک ہوں تو مردوں کے پیچھے صف بنائیںگی، آپؐ مردوں کی صف کو مقدم رکھتے تھے، ان کے پیچھے بچے، ان کے پیچھے عورتیں ہواکرتی تھیں۔ (احمد)
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مردوں کی سب سے بہترین صف پہلی صف ہے اور سب سے کم ترین صف ان کی آخری ہے۔ اور عورتوں کی سب سے بہترین صف ان کی آخری صف ہے اور سب سے کم ترین ان کی پہلی صف ہے۔‘‘
اسی طرح صرف اگرایک عورت ہوتو بھی مردوں کے پیچھے ہی کھڑی ہوگی جیساکہ انسؓ سے مروی ہے جب کہ حضورؐ نے ان کو نماز پڑھائی:
’’میں اور یتیم آپ کے پیچھے کھڑے ہوئے اور بوڑھی عورت ہمارے پیچھے کھڑی ہوئی‘‘
دوسری حدیث ہے:
’’میں نے اور یتیم نے اپنے گھر میں نبیؐ کے پیچھے نماز پڑھی اور میری ماں ہمارے پیچھے تھیں۔‘‘ (بخاری)
درج بالا حدیثوں سے ثابت ہوتاہے کہ خواتین جب مساجد میں حاضر ہوںتو متفرقانہ نمازنہ پڑھیں بلکہ مردوں کے پیچھے اپنی صف بنائیں، خواہ نماز فرض ہو یا نماز تراویح ہو۔
(ھ) اگر امام نماز میں بھول جائے تو خواتین (تصفیق) یعنی ہاتھ پر ہاتھ مارکر امام کومتوجہ کریںگی اس لئے کہ نبیؐ کا فرمان ہے:
’’اگر نماز میں امام بھول جائے تو مرد سبحان اللہ کہیں اور عورتیں تالی بجائیں‘‘ (احمد)
حدیث مبارکہ اگرچہ نماز میں امام کو مفاسد اور سہوہوجانے پر عورت کو تنبیہ کرنے کی اجازت دیتی ہے لیکن چونکہ آواز میں فتنہ ہے، اس لئے اسے زبان سے کلام کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔
(و)جب امام سلام پھیرلے تو خواتین مسجد سے نکلنے میں جلدی کریں اور مرد حضرات بیٹھے رہیں تاکہ راستے میں اختلاط سے محفوظ رہ سکیں جیساکہ حضرت ام سلمہؓ سے مروی ہے، فرماتی ہیں:
’’خواتین جب فرض نماز سے فارغ ہوجاتیں تو کھڑی ہوجاتیں اور رسولؐ جلوہ فرمارہتے ساتھ میں مرد حضرات بھی بیٹھے رہتے پس جب رسولؐ کھڑے ہوتے تو مرد حضرات بھی کھڑے ہوجاتے۔‘‘
امام زہریؒ کہتے ہیں:
’’ہم سمجھتے ہیں کہ آپؐ ایسا اس لئے کرتے تھے کہ جو خواتین نماز سے فارغ ہوکر لوٹ رہی ہیں وہ آگے نکل جائیں۔‘‘ (بخاری)
امام شوکانی نیل الاوطار (۳؍۳۲۶) میں فرماتے ہیں:
’’حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ امام کے لئے مقتدیوں کے احوال کالحاظ کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح جو امور ناجائزچیزوں کا سبب بن سکتے ہوں ان سے احتیاط واجتناب بھی ضروری ہے، تہمتوں کے مواقعوں سے بچنابھی ناگزیر ہے۔‘‘
مزید یہ کہ حدیث مبارک سے مردوں اور عورتوں کے اختلاط کی حرمت بھی سامنے آتی ہے۔ لہٰذا مساجد کے علاوہ بازاروں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور دیگر مجالس میں بھی خواتین کو اختلاط سے اجتناب کی کوشش کرنی چاہئے۔
(ز) خواتین کو عید کی نمازکے لئے نکلنے کی اجازت دی گئی جیساکہ ام عطیہؓ سے مروی ہے:
’’ہم کو رسولؐ نے حکم دیاہے کہ عیدالفطر اور عیدالاضحی میں دوشیزائیں،حائضہ اور پردے میں رہنے والیوں کو نکالیں۔ رہیں حائضہ تو وہ نماز سے الگ رہیں۔‘‘
امام شوکانیؒ فرماتے ہیں:
’’یہ اور دیگر احادیث خواتین کے لئے عیدالفطر اور عیدالاضحی میں عیدگاہ کی طرف جانے کو مشروع قرار دیتی ہیں اور اس سلسلے میں نوجوان،بوڑھی، شادی شدہ، غیرشادی شدہ میں کوئی فرق نہیں کرتیں۔ جب کہ وہ عدت میں نہ ہوں، یا اس کا نکلناباعث فتنہ نہ ہو، اس کو کوئی عذر لاحق نہ ہو۔‘‘ (نیل الاوطار:۳؍۳۶۶)
اور شاید کہ اس کی اجازت چند اسباب کی بناء پر ہے (واللہ اعلم)
۱- صلاۃ العید صرف سال میں دو مرتبہ ہے۔ پس جمعہ اور جماعت کے برعکس اس کو قبول کرلیاگیا۔
۲- اس کاکوئی بدل نہیں ہے جب کہ جمعہ اور جماعت کا بدل اس کے گھر میں ظہر کی نماز ہے۔
۳- عیدکی نماز میں اللہ کے ذکر کے لئے صحرا کی طرف نکلنا پڑتا ہے اور یہ بعض اسباب سے حج کے مشابہ ہے۔ اسی لئے عیدالاضحی حجاج کرام کے لئے موسم حج میںاس کی موافقت کرتی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ خواتین کونماز عید کے لئے نکلنے کی شرعاً اجازت دی گئی ہے مگر یہ کہ شرم و حیا کا پیکر بن کر اور جو باتیں ذکر کی گئی ہیں ان کا عملاً التزام کرتے ہوئے ،نیز اللہ کا تقرب حاصل کرنے کی غرض سے اور مسلمانوں کی دعا ومناجات میں شرکت کی غرض سے نکلیں، مزید یہ کہ ان کا مقصد نام ونمود، اظہارِ زینت اور نعوذباللہ فتنہ وتعرض نہ ہو بلکہ اسلام کے شعار کااظہار ہو۔
مزید یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ مساجد میں عبادت کے لئے نکلنے کی اگر خواتین کو جملہ حدود و قیود کاپابند بناکر اجازت دی گئی ہے تو پھر ان کا حدود و قیود کی پابندیوں سے آزاد ہوکر سڑکوں، بازاروںاور تفریح گاہوں میںجانا، گھومنا پھرنا کس بنیاد پر جائزہوسکتا ہے؟ جب کہ محمدؐ نے فرمایا:
’’خواتین کے لئے سب سے بہترین جگہ ان کاگھرہے اور سب سے بدترین جگہ ان کے لئے بازار ہے۔‘‘
لہٰذا مسلم خواتین کو اس ناحیہ سے بھی غورکرنے کی ضرورت ہے۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146