خواتین کے سماجی و معاشرتی مسائل

مریم اطہر علی

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اور اسلام نے عورتوں کو بڑی فضیلت دی ہے۔ عورت کو ماں، بیوی، بہن اور بیٹی جیسے بڑے اہم اور محترم رشتوں کی حیثیت دی ہے۔ لیکن ہمارے یہاں عورتوں کے ساتھ بہت تحقیر اور تضحیک آمیز سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ ان پر ہر طرح کا تشدد کیا جاتا ہے ، یہاں یہ سوچ عام ہے کہ پہلی اولاد بیٹا ہی ہونا چاہیے کیونکہ وہ بڑا ہوکر ماں باپ کا سہارا بنے گا۔ یہ غیر اسلامی طرزِ فکر ہے۔ اسلام میں تو لڑکی کو رحمت قرار دیا گیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں لڑکی کی پیدائش پر لوگوں کے منہ اترجاتے ہیں مگر لڑکے کی پیدائی پر شادیانے بجائے جاتے ہیں۔ جبکہ خالقِ کائنات نے صاف بتادیا ہے کہ ہم جس کو چاہیں لڑکا دیں، جس کو چاہیں لڑکی دیں اور جسے چاہیں کچھ بھی نہ دیں۔ لیکن افسوس کہ خود مسلمان اپنے رب کے فرمان کو تسلیم نہیں کرتے اور لڑکی کی پیدائش پر ماں کو قصور وار ٹھیراتے ہیں۔ جاہل ہی نہیں پڑھے لکھے لوگ بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ دوسری طرف بعض والدین کم عمری میں اپنی لڑکیوں کی شادی کردیتے ہیں۔ نو عمر لڑکی اتنی سمجھ بوجھ نہیں رکھتی کہ وہ ایک گھر کو منظم طریقے سے چلاسکے اور اسے سسرال میں طعنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اس سے بڑھ کر ستم یہ ہے کہ جہیز کم لانے، لڑکا نہ پیدا کرنے یا کسی اور وجہ سے سسرال میں لڑکی کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بہوؤں کو جلانے کے ہولناک واقعات بھی عام ہونے لگے ہیں۔ یہ سب ہمارے معاشرے میں کیوں ہے؟ لڑکی کے بچپن سے ہی اس کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی جاتی ہے کہ وہ ظلم سہنے کے لیے پیدا ہوئی ہے اس پر آواز بلندنہیں کرنی چاہیے بلکہ صبر اور برداشت سے کام لینا چاہیے۔ والدین شادی کے وقت ہی بیٹی کو یہ باور کروادیتے ہیں کہ اب شوہر کا گھر ہی اس کا اصل گھر ہے، یہاں سے ڈولی جارہی ہے وہاں سے ڈولہ (جنازہ) ہی اٹھے گا۔ سسرال میں کچھ بھی سلوک ہو اسے شکایت نہیں کرنی ہے۔
یہ صحیح ہے کہ عورت کے لیے شوہر کا گھر ہی اس کا اپنا گھر ہوتا ہے۔ لیکن شوہر کی بھی ذمہ داری ہے کہ اپنے وسائل کے اندر بیوی کے تمام حقوق ادا کرے اور اس کو عزت و پیاردے، پاؤں کی جوتی نہ سمجھے۔ بیوی پر بھی یہ لازم ہے کہ وہ شوہر کے گھر کو اپنا گھر سمجھتے ہوئے اسے سلیقے سے چلائے اور حکم خداوندی کے مطابق امانت کی حفاظت کرے۔
عورت کی سب سے بڑی ذمہ داری اولاد کی تربیت ہے۔ اس کی گود پہلا مدرسہ ہے اور اس پر نئی نسل کا انحصار ہے۔ نپولین مسلمان تو نہیں تھا مگر اس نے کہا تھا کہ تم اچھی مائیں دو میں تمھیں اچھی قوم دو ںگا۔
ایک بات یہ بھی ہے کہ جس طرح امورِ سلطنت کو چلانے کے لیے کسی ایک حاکم و امیر کا ہونا ضروری ہے اسی طرح گھریلو نظام چلانے کے لیے بھی ایک سربراہ کا وجود ضروری ہے۔ مرد چونکہ اپنی فطری استعداد جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں میں عورت پر فائق ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ منصب اسی کو عطا فرمایا ہے۔ چنانچہ یہ عورت پر قوام و نگراں ہے۔ کوئی بھی عورت مرد کے سہارے کے بغیر اچھی اور محفو ظ زندگی نہیں گزارسکتی۔ مگر اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ مرد عورت کا مقام ہی بھول جائے اور اس کو وہ حیثیت نہ دے جو عورت کے لیے اللہ تعالیٰ نے مقرر کی ہے۔ وہ اگر قوام ہے،گھر کا حاکم ہے تو رعایا کی دیکھ بھال اور اس کی آسائش کا خیال رکھنابھی اس کی بنیادی ذمہ داری ہے۔معاملات میں اللہ تعالیٰ نے عورت و مرد میں کوئی تفریق نہیں رکھی۔ لیکن ہمارے معاشرے میں بہت سے مرد عورتوں کو برابری کا درجہ دینے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ صرف مشرق میں ہی عورتوں کے ساتھ ظلم و تشدد ہوتا ہے لیکن دیکھا گیا ہے کہ مغرب میں بھی جہاں بظاہر عورتوں کے حقوق کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور انھیں ہر طرح کی آزادی حاصل ہے۔ وہاں عورتوں کوجسمانی و جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کو ذہنی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے، یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جب اسلام عورتوں کو حقوق دے رہا تھا، رسول اللہ عورتوں سے اچھے سلوک کی تاکید کررہے تھے، اس وقت مغرب میں عورت کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اب بھی مغرب میں عورت کو نمائش اور مردوں کے دل بہلانے کی چیز سمجھا جاتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں جب تک مذہبی اقدا ر اور مشرقی روایات سلامت تھیں عورتوں کے ساتھ برا سلوک نہیں کیا جاتا تھا، عو رتوں کو گھر کی زینت سمجھا جاتا تھا لیکن جب سے مغرب کی سوچ نے یہاں قدم رکھے اور عورتوں میں آزاد کے نام پر بے حیائی کو فروغ کو ملا تب سے یہاں بے حرمتی کے واقعات تواتر سے ہورہے ہیں۔ عورت نے خود اپنے اپنے کو اشتہار بنادیا ہے اور مرد کے ہاتھوں کھلونا بن گئی ہے۔
اسلام میں عورتوں کو جتنے حقوق حاصل ہیں، کسی اور مذہب نے نہیں دیے، اسلام نے عورت کو تقدس عطا کیا ہے، ماں، بہن، بیوی، بیٹی کے روپ میں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہماری خواتین خود اپنی تقدیس کے پیچھے پڑی ہیں۔ وہ بے حیائی کو ترقی سمجھتی ہیں مغرب کی عورت اسلام قبول کرکے پردہ اختیار کرنے میں اپنا تحفظ سمجھتی ہے اور جدی، پشتی مسلمان خواتین بے حجاب ہوتی جارہی ہیں۔ پردے میں رہنے والی عورت بھی باصلاحیت ہے اور بے پردہ عورت کے مقابلے میں اسے زیادہ عزت و احترام حاصل ہوتا ہے اور وہ زیادہ پر اعتماد ہو کر ترقی کرسکتی ہے۔ ایسا ہو بھی رہا ہے۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں