عورت، مرد کو ظالم، جابر، نا انصاف، سخت گیر، بے رحم، ڈکٹیٹر قرار دیتی ہے اور اسے اپنا حریف تصور کرتی ہے۔ وہ مرد کے برابر ہونے، اپنا بنیادی حق حاصل کرتے رہنے، آزادی کے لیے کا دعویٰ کرتی ہے اور کہتی ہے کہ وہ کسی بھی معاملے اور کسی بھی میدان میں مرد سے کم نہیں ہے۔ لہٰذا وہ مردکی حکومت چلنے نہیں دے گی اور آخری دم تک اس کا مقابلہ کرے گی۔ یہ وہ بنیادی نظر یہ ہے جس کی بنیاد پر آج کی فیمسٹ تحریکات کام کررہی ہیں۔ عورت مرد کو جو چاہے سمجھے اور جس دم تک چاہے مقابلہ کرے اور جن جن کو چاہے اپنی تائید و حمایت کے لیے طلب کرے مگر پہلے یہ بتائیے کہ وہ مرد کو اپنا دشمن کیوں تصور کرتی ہے۔ مرد نے اس سے دشمنی کب کی اور مرد کو کیا پڑی ہے کہ خواہ مخواہ عورت سے دشمنی مول لے۔ اگر دنیا بھر کی عورتیں ٹھنڈے دل سے انصاف کے ساتھ غور کریں تو وہ خود اس نتیجے پر پہنچیں گی کہ عورت کی دشمن عورت ہے۔ مرد نہیں۔ اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے والی خود عورت ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔ عورت بن سنور کر بازاروں میں، دفتروں میں، پارکوں، ہوٹلوں اور اشتہاروں میں کیوںآتی ہے؟ جہیز کم لانے پر جلانے والی ساس ہے۔ یعنی عورت۔ ماں کے خلاف مرد کے کان بھر کر گھر توڑنے والی عورت ہے۔ نند سے لڑنے والی یا نند کے مظالم کے خلاف آواز بلند کرنے والی عورت ہی ہے۔ ایک عورت کے سہاگ پر ڈاکہ ڈالنے والی دوسری عورت ہے۔ سوکن کو برا سمجھنے والی عورت ہے۔ یعنی عورت ہی سارا کھیل بگاڑ رہی ہے۔ عورتوں کے حقوق کی خاطر لڑنے کے لیے جو ادارے بنتے ہیں ان میں تمام کی تمام عورتیں ہی ہوتی ہیں۔ یہ عورتیں ایرکنڈیشنڈ مکانات میں رہتی ہیں اور ان عورتوں کے حق میںتقریریں اور جلسے کرتی ہیں جو دن بھر چلچلاتی دھوپ میں محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ بھرتی ہیں۔ وہ عورتیںجو عورت کے حق میں نعرے بلند کرتی ہیں۔ ان کے ہاتھ سے کاڑی بھی نہیں ٹوٹتی۔ وہ دن بھر میک اپ کرتی ہیں اور خود کو سنوارتی رہتی ہیں۔ یہ ساری راحتیں اور آسائشیں جو خواتین لیڈروں کو فراہم ہیں وہ اپنے شوہروں کی محنت کا نتیجہ ہیں۔ دنیا میں اب تک ہزارہا ادارے بن گئے اور عورتوں کے حقوق کی لڑائی جاری ہے مگر کیا عورتوں کو ان کا حق مل گیا۔ یہ حق آخر کیا ہے اور کس کے پاس ہے؟ اس کا علم کس عورت کو نہیں ہے؟ معاشرتی زندگی میں گھر کی عورتوں کی باہمی چپقلش تنازعات اور جھگڑوں میں مرد کی پوزیشن بے حد نازک ہوتی ہے۔ ماں کی بات سنتا ہے تو نا انصاف، عورت کی بات سنتا ہے تو زن مرید، بہن کی بات سنتا ہے تو خراب اور کسی کی نہ سنے تو بے حس و بے کار ہر صورت میں گنہگار۔ اگر عورت عدل و انصاف پر قائم رہے، گھر کے تمام لوگوں کے حقوق کی رعایت کرے اور اپنی ذمہ داریاں اور اپنے فرائض کو سمجھ کر کام کرے اور مرد عورت کو اس کا جائز حق دے تو کوئی شکایت نہیں رہے گی۔ عورت اور مرد ایک گاڑی کے دو پہئے ہیں، دونوں ساتھ ساتھ چلیں تو گرہستی کی گاڑی چلتی ہے۔ اس کے برخلاف اگر ذاتی مفاد اور حرص و ہوس کی راہ اختیار کرے تو مسائل اسی طرح پیچیدہ اور مشکل ہوجاتے ہیں جس طرح کے مسائل آج ہم اپنی گھریلو زندگی میں دیکھتے ہیں۔
جہیز کا مطالبہ کرنے والی اور اس کے سبب دلہنوں کو ستانے والی ساس اور نندیں ہی ہوتی ہیں جو خود عورت ہیں نہ کہ مرد۔ جہیز کے لیے دلہنوں کو جلانے والی بھی اکثر خواتین ہوتی ہیں۔ جلنے والی اور جلانے والی سازش کرنے والی اور سازش کا شکار دونوں خواتین ہی ہیں۔ پھر شکایت کس کی اور کس سے؟
وجہ صاف ہے کہ ہمارے معاشرے کی خواتین کی سوچ میں خرابی پیدا ہوگئی ہے۔ جب تک اس سوچ کی اصلاح نہیں ہوگی، معاشرے میں خواتین کا وقار بلند نہیں ہوسکتا۔ اس کے برخلاف اگر خواتین اصلاح باہمی اور مل جل کر رہنے کافن سیکھیں تو ہمارے گھروں میں سکون قائم ہوسکتا ہے۔ گھر پورے سماج اور معاشرے کی مضبوط اکائی ہے اس لیے اگر گھر میں عورتوں کے مسائل حل ہوجائیں تو سماج سے اس کے مسائل کا خاتمہ یقینی ہے۔