معاشرتی تعلقات
دوراوّل کی خواتین معاشرہ سے غیرمتعلق اور کٹی ہوئی نہیں رہتی تھیں بلکہ اس کے رنج و راحت اور خوشی اور غم میں شریک ہوتی تھیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس با ت کو بڑی اہمیت دی کہ عورتوںکے تعلقات اپنے پڑوسیوں سے اچھے ہوں۔ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیاکہ فلاں عورت کے بارے میں کہاجاتاہے کہ وہ بکثرت نماز پڑھتی ہے، روزے رکھتی ہے اور صدقہ و خیرات بھی بہت کرتی ہے، لیکن اپنی بدزبانی کی وجہ سے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچاتی ہے۔ آپؐ نے فرمایا وہ جہنم میں جائے گی۔ اس نے کہاکہ اس کے برخلاف فلاں عورت کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ وہ نفل نمازوں اور روزوںکا کم ہی اہتمام کرتی ہے بس کچھ پنیر وغیرہ صدقہ کردیتی ہے۔ لیکن خوش اخلاق ہے اپنے پڑوسیوں کو تکلیف نہیں پہنچاتی۔ آپؐ نے فرمایا۔ وہ جنت میںجائے گی۔
اس دور کی خواتین ایک دوسرے کی مدد کرتیں، ان کے دکھ دردمیں کام آتیں،محبت اور ہمدردی کا اظہار کرتیں اور ان کی جو خدمت ممکن ہوتی کرتیں۔
حضرت اسماءؓ بیان کرتی ہیںکہ شادی کے بعدوہ حضرت زبیرؓ کے گھر آئیں تو سارا کام کاج انہی کو کرناپڑتاتھا۔ اسی سلسلہ میں فرماتی ہیں:
’’میں روٹی اچھی نہیں پکاپاتی تھی۔ میرے پڑوس کی عورتیںجن کا تعلق انصار سے تھا روٹی پکادیا کرتی تھیں۔ وہ بڑی مخلص اور سچّی عورتیں تھیں۔‘‘
خود حضرت اسماءؓ کے بارے میں آتا ہے کہ جب ان کے پاس کسی بخار والی عورت کو لایاجاتا تو وہ اس کے لئے دعا کرتیں اور گریبان کے اندر(تھوڑا سا ٹھنڈا) پانی ڈالتیں۔فرماتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم لوگوں سے فرمایاتھا کہ ہم بخار (کی حدت) کو پانی سے ٹھنڈا کریں۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک میّت کو دفن کرکے ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ واپس ہورہے تھے کہ جب آپؐ اپنے مکان کے دروازہ پر پہنچے تو دیکھاکہ ایک خاتون آرہی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ان کے انداز سے آپؐ نے انہیںپہچان لیاتھا اس لئے کہ وہ حضرت فاطمہؓ تھیں۔ جب وہ قریب آئیں تو آپؐ نے ان سے پوچھا۔ تم اپنے گھر سے کیوں گئی تھیں؟ انہوںنے عرض کیا۔ میّت والوں میں گئی تھی تاکہ تعزیت کروں اور میّت کے لئے کلمات خیر کہوں۔ آپؐ نے فرمایا۔ شاید تم قبرستان بھی گئی تھیں؟ انہوںنے عرض کیاخدا کی پناہ وہاں کیسے جاتی؟ اس سے توآپؐ نے منع فرمایا ہے۔آپؐ نے فرمایا۔ اگر تم وہاں جاتیںتو (بڑا گناہ ہوتا)
اس طرح کے تعلقات، اگر کسی اخلاقی خرابی کا اندیشہ نہ ہو تو عورتوںاور مردوں کے درمیان بھی ہوسکتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی زندگی میں اس کی مثالیں موجودہیں۔
اسماء بنت یزیدکہتی ہیں کہ ہم کچھ عورتیںمسجد میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور سلام کیا۔ ایک روایت میںہے کہ اس کے بعد آپؐ نے ان کو شوہروں کے احسانات کی ناشکری کرنے سے منع فرمایا۔
اسی طرح حضرت جریر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ عورتوں کے پاس سے گزرے تو انہیں سلام کیا۔
حضرت سہل بن سعدؓ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ جمعہ آتا تو خوش ہوتے تھے، ایک بوڑھی خاتون تھیں، نماز جمعہ کے بعد ہم ان کے ہاں جاتے اور سلام کرتے۔ وہ چقندر اور آٹا ملاکر ایک رقیق سی چیزتیارکرکے ہمیںکھلاتی تھیں۔
اس سے جہاں یہ ثابت ہوتا ہے کہ عورتوں کو سلام کیاجاسکتا ہے وہیں یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ عورتیں مردوں کی خاطر تواضع اور میزبانی بھی کرسکتی ہیں۔
ام ورقہ ؓ سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا کہ اللہ تعالیٰ ان کو شہادت سے نوازے گا۔ (اس پیشین گوئی پر سب کو یقین تھا) حضرت عمرؓ اپنے ساتھیوں سے فرماتے تھے چلو! شہیدہ سے ملاقات کر آئیں اور وہ ان کی ملاقات کے لئے جایا کرتے تھے۔
بیمار کی عیادت اورمزاج پرسی ایک اخلاقی ذمہ داری ہے۔ اسلام نے اس کی بڑی تاکید کی ہے۔ اس سے معاشرتی تعلقات خوش گوار ہوتے ہیں اور دلوں میں محبت پیداہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں مردوں کی عیادت کی ہے خواتین کی بھی عیادت فرمائی ہے۔
۱۔ حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک خاتون کے ہاں جن کا نام ام السائب یا ام المسائب تھا، تشریف لے گئے (وہ بیمارتھیں) آپؐ نے ان سے پوچھا۔ کیا بات ہے کپکی کیوںطاری ہے؟ انہوںنے کہا۔ حضور! بخار ہے، اللہ اس کابرا کرے۔ آپؐ نے فرمایا۔ بخار کو برا بھلا مت کہو اس لئے کہ اس سے بنوآدم کے گناہ اسی طرح دور ہوتے ہیں جس طرح بھٹی سے لوہے کا زنگ دور ہوتا ہے۔
حکیم بن حزام کی پھوپھی ام العلاء کہتی ہیں کہ میں بیمارہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لئے تشریف لائے۔ فرمایا، اے ام العلاء ! بشارت ہو اس لئے کہ بیماری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ایک مسلمان کے گناہوں کو اس طرح ختم کردیتا ہے جس طرح آگ لوہے کے میل کچیل کو ختم کردیتی ہے۔
فاطمہ خزاعیہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری خاتون کی عیادت کی۔ آپؐ نے ان سے حال پوچھا۔ انہوںنے عرض کیا۔ خیریت ہے ۔ ام یلدم (ایک بیماری) نے بہت تنگ کر رکھا ہے۔ آپؐ نے صبرکی تلقین کی اور فرمایا۔ بیماری سے آدمی گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاتا ہے جیسے بھٹی میں ڈالنے سے لوہے کا زنگ دور ہوکر وہ صاف ہوجاتا ہے۔
حضرت حسن بصریؓ فرماتے ہیں:
’’کُنَّ النِّسائُ یُسَلِمْنَ عَلیَ الرِّجـَالِ‘‘
’’عورتیں مردوں کو سلام کیا کرتی تھیں۔‘‘
حارث بن عبید اللہ انصاری بیان کرتے ہیں کہ ام درداء نے انصار میں سے ایک شخص کی جو مسجدنبوی کے قریب رہتے تھے، عیادت فرمائی۔
ابراہیم بن ابی عبلہ کہتے ہیں کہ میری بیوی بیمار تھی۔ اس وقت میں حضرت ام درداءؓ کی خدمت میں آیا کرتاتھا۔ وہ مجھ سے بیوی کاحال پوچھتیں۔ میںاس کی بیماری کاذکر کرتا۔وہ میرے لئے کھانا منگواتیں اور میں کھایاکرتاتھا۔ ایک مرتبہ انہوںنے حال پوچھا۔ میں نے کہا اب تقریباً ٹھیک ہے۔ انہوںنے کہا۔تمہاری بیوی بیمار تھی اس لئے ہم تمہیں کھانا کھلادیاکرتے تھے۔ اب جب وہ ٹھیک ہوگئی ہے تو کھانا نہیں کھلائیںگے۔
——