اسلام نے جہاں عورت کو بنیادی حقوق کی ضمانت دی ، وہیں محسنِ انسانیت نے عورت کو بلند مرتبہ اور اس کا جائز مقام دلایا اور اسے وہ عزت بخشی جو آج تک کسی دوسرے معاشرے میں عورت کو نہیں دی گئی ۔ اس کی معاشی کفالت ہر صورت میں مرد کے ذمہ کی گئی ہے۔ لیکن مادہ پرستی کے اس دور میں جہاں معیارِ زندگی کو اونچا اٹھانے کے شوق نے عورت کو گھر سے نکل کر دولت کمانے کی طرف راغب کیا ہے وہیں غربت اور مہنگائی نے بھی مفلس خاندانوں کی خواتین کو اس بات کے لیے مجبور کردیا ہے کہ وہ گھر سے نکل کر روزگار تلاش کریں۔ سماج میں جاری معاشی ناہمواری اور دولت کی تقسیم کا غلط انداز اور اس پر ہمارے سماج میں عورت کی سماجی بدحالی وہ اسباب ہیں جن کے چلتے، آج کی عورت خاص طور پر غریب عورت اپنے وقار اور عزت کی بقاء کے لیے جنگ لڑ رہی ہے۔ آج عورت کو معاشی مسائل کی بدولت حالات کے ہاتھوں مجبور ہوکر گھر سے باہر نکلنا پڑا۔ کیونکہ وہ اپنے پیاروں کو یوں بلکتا ہوا نہیں دیکھ سکتی۔ آج کے جدید دور میں خواتین تعلیم حاصل کرنے کے بعد کہیں نہ کہیں ملازمت کی تلاش میں نکل کھڑی ہوتی ہیں کیونکہ ایک تو وہ اپنی عملی زندگی میں قدم رکھ چکی ہوتی ہیں اور دوسرے مہنگائی نے انسان کو مجبور کردیا ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کو خوشحال زندگی بسر کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ روپئے کمائے تاکہ اسے اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے ترسنانہ پڑے اور اپنے اخراجات پورے کرسکے۔
ہمارے ہاں بعض گھروں میں ایسے حالات ہیں کہ دس افراد کھانے والے اور ایک کمانے والا ہے۔ اور افرادِ خانہ کو قدم قدم پر اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ وہ گھر کے انتظام میں مالی تعاون کا ذریعہ بنیں۔ عورت کیونکہ فطری طور پر نرم دل واقع ہوئی ہے، اس لیے اپنی زندگی کا آرام و سکون تج دے کر وہ اپنے اہلِ خانہ اور بچوں کے باہر نکل کر روزی روٹی کمانے کے لیے بھی آمادہ ہوجاتی ہے۔
کہیں کہیں ایسا بھی ہوتا ہے کہ گھر میں بوڑھے والدین، بہن بھائی اور کمانے والی صرف ایک عورت ۔ ایسے میں وہ ایک بیٹی یا بہن ہی نہیں ہوتی بلکہ بیک وقت ماں کا کردار بھی نبھاتی ہوتی ہے جو چھوٹی چھوٹی خواہشات کے لیے بچوں کو ترستا ہوا نہیں دیکھ سکتی۔ جب عورت کو اندازہ ہوتا ہے کہ سماج اور معاشرہ اور حکومت کا نظام اس کے تعاون کا اہل نہیں تو وہ معاشی مسائل، بھوک اور افلاس سے بچنے کے لیے زمانے کی رسم و رواج کی زنجیروں سے آزاد ہوکرملازمت کے لیے باہر آجاتی ہے۔ بعض خواتین جب ایسے حالات کا سامنا نہیں کرسکتیں اور حوصلہ ہار جاتی ہیں تو اپنے بچوں سمیت خود کشی کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔ ان واقعات کو اخبارات میں شہ سرخیوں کی جگہ تو دی جاتی ہے لیکن ان کی روک تھام کے لیے اقدامات نہیں کیے جاتے۔
حکومتی رفاہی اسکیمیں یا تو بنتی نہیں ہیں یا پھر فساد کی نذر ہوکر دم توڑدیتی ہیں اور ان غریب و بے سہارا خواتین کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہ پاتا کہ وہ محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں اور اہلِ خانہ کو دو وقت کی روٹی فراہم کریں۔ عورت کی بے بسی کی تصویر کچھ روز قبل ایک ٹی وی چینل پر بھی دکھائی گئی۔ یہ ایک مجبور اور بے بس ماں تھی جو اپنے بچوں کو غربت کے ہاتھوں فروخت کرنے نکلی تھی۔ اس نے بتایا تھا کہ وہ اپنے معاشی مسائل کی وجہ سے ایسا کرنے پر مجبور ہوئی۔
ہمیں چائیے کہ اپنے ذہن اور فکر کو وسعت دیں۔ اور سماجی اور دینی اعتبار سے اس طرح کی مجبور خواتین اور بے سہارا خاندانوں کی فلاح کو بھی سامنے رکھیں۔ کیونکہ خواتین ہمارے معاشرے کا ایک اہم حصہ ہیں، انہیں نظر انداز کرنا یا ان کی دل آزاری کرنا درست نہیں۔ ایسی خواتین بعض اوقات ماں اور باپ کی دوہری ذمہ داریاں نبھا رہی ہوتی ہیں اور وہ اس صورت میں بخوبی ذمہ داریاں نبھاتی ہیں۔ یوں تو ہمارے معاشی مسائل بے پناہ ہیں مگر معاشرے کی شریف خواتین اور باعزت گھرانوں کی عزت کو بچائے رکھنے کی فکر کرنا ایک طرف تو حکومتوں کی بنیادی ذمہ داری ہے دوسری طرف ہم مسلمانوں کی دینی ذمہ داری ہے۔ حکومتوں کا سارا کھیل تو سیاسی ہوتا ہے اور اگر سیاسی نہ بھی ہو تو بھی وہ نوکر شاہی نظام کی دفتری کارروائیوں کی نذر ہوکر اپنی افادیت کھودیتا ہے۔
ایسے میں جو کچھ امید کی جاسکتی ہے وہ غیر سرکاری تنظیموں، دینی جماعتوں اور رفاہی اداروں سے ہی ہوسکتی ہے۔ ان اداروں کو چاہیے کہ ایک طرف تو وہ اس طرح کی خواتین اور خاندانوں کے لیے مناسب اسکیمیں تیار کریں دوسری طرف سرکاری اسکیموں سے فائدہ اٹھانے میں بھی اس طرح کے افراد کی مدد کرکے اجر کی مستحق ہوسکتی ہیں۔ اگر یہ کام چھوٹی سطح پر مستحکم اور منظم انداز میں پڑھی لکھی خواتین اور باشعور افراد لے کر اٹھیں تو سماج کو بڑا فائدہ پہنچایا جاسکتا ہے۔
——