حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ علم ظاہری کے ماہر تھے۔ فقہ، حدیث، تفسیر، علم کلام، منطق، حکمت، فلسفہ، ریاضی ہیئت وغیرہ میں کمال حاصل کیا تھا۔ اتنے سارے علوم حاصل کرنے کے بعد بھی ان میں نہ فخر و غرور آیا اور نہ ہی انہوں نے خود کو علامہ، شمس العلماء، مولانا مولوی کہا، نہ کسی سے کہلوایا۔ ان میں عاجزی تھی، انکساری تھی، طبیعت میں سادگی تھی وہ چٹکیوں میں مسائل کو حل کردیتے تھے او رایسے پتے کی باتیں بتاتے تھے کہ ہزارہا کتابوں کی ورق گردانی کے بعد بھی معلوم نہ ہوں۔ چند ایک باتیں ملاحظہ فرمائیے۔
صدقہ
صدقہ کے متعلق فرمایا کہ صدقہ اسی وقت قبول ہوتا ہے جب کہ اسے حلال کمائی کے مال سے دیا جائے۔ جس کو دیا جائے وہ ایسا ہو جو اسے برے کاموں میں استعمال نہ کرے۔ خوش دلی اور تواضع سے دے۔ دے کر بھول جائے اور اس کا ذکر کسی سے نہ کرے۔
صبر و رضا
فرمایا کہ صبر اصل میں یہ ہے کہ جب طبیعت کے خلاف کوئی بات ہوجائے تو اس کی شکایت یا غم نہ کرے۔ بلکہ اسے اللہ کی طرف ہونی بات سمجھ کر خاموش رہ جائے۔ رضا یہ ہے کہ جب مصیبت آئے تو اس پر کراہت نہ ہو اور یوں برداشت کرے کہ یہ کوئی چیز نہیں ہے۔
توکل
فرمایا کہ توکل کے تین درجے ہیں۔ اس کی مثال یوں ہے۔ ایک شخص اپنا مقدمہ کسی اچھے وکیل کے سپرد کر دیتا ہے اور مطمئن ہو جاتا ہے کہ وہ ہر کام پوری ذمہ داری اور ایمان داری سے کردے گا۔ یہ اطمینان اس لیے پیدا ہوتا ہے کیوں کہ وہ وکیل کو سب سے اچھا، سب سے لائق اور سب سے دانا سمجھتا ہے۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ ایک ماں اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہے تو اطمینان کرلیتی ہے کہ بچے کو پیٹ بھر کر دودھ پلا چکی ہے۔ اب وہ نہیں روئے گا۔ جب بچہ نہیں روتا تو ماں کو مزید اطمینان ہو جاتا ہے کہ اس کا بچہ بھوکا نہیں ہے۔ تیسرا درجہ اللہ پر توکل کا ہے۔ اسے یوں سمجھئے کہ جب آپ وکیل کو لائق و دانا مان کر اپنا مقدمہ اس کے حوالے کردیتے ہیں اور اسے مختار کل بنا دیتے ہیں اور اس کے ہر فیصلے کو مان لیتے ہیں۔ اس کے کہنے پر عمل کرتے ہیں تو کیا آپ سب سے بڑے دانا، سب سے اچھے اور کائنات کے مختار کل پر توکل نہیں کرسکتے، جس کے ہاں نا انصافی اور زیادتی بالکل نہیں۔ جس اللہ کے بارے میں آپ کو یقین ہے کہ وہ ستر ماؤں کی محبت رکھتا ہے تو کیا آپ اس پر توکل نہیں کرسکتے کہ ایک ماں کی طرح آپ کو سب کچھ دے گا اور آپ کی بھلائی چائے گا۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ پر توکل کرنے والوںنے اپنا سب کچھ دے دیا۔ کچھ نہیں رکھا تو اللہ نے انہیں اتنا دیا کہ وہ اس کا شمار بھی نہیں کرسکے۔
اطاعت
فرمایا کہ اطاعت دو قسم کی ہے۔ لازمی اور متعدی، لازمی اطاعت وہ جس کا نفع اطاعت گزار کو ملتا ہے۔ جیسے نماز، روزہ، حج، زکوۃ، ذکر، تسبیح وغیرہ۔ متعدی وہ ہے جس سے دوسروں کا فائدہ پہنچتا ہے۔ جیسے صدقہ، انفاق، خیرات اورنیکی کے کام۔ اللہ پاک نے عبادات کی جو تاکید فرمائی ہے اس کا بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اطاعت میں خود انسان کی، اس کے خاندان کی، اس کے پڑوسی، گاؤں اور شہر کی بھلائی ہے۔ لوگ اطاعت کے معنی ٹھیک طور پر نہیں سمجھتے اس لیے اس کے فوائد سامنے نہیں آتے۔
رزق
فرمایا کہ رزق چار قسم کا ہے۔ رزق مضمون وہ ہے جو کھانے پینے کی چیزوں اور آمدنی سے ہو۔ اس کا ضامن اللہ ہے۔ رزق مقسوم وہ ہے جو ازل سے انسان کے حصے میں آتا ہے یعنی لوح محفوظ پر لکھا جاچکا ہے۔ رزق مملوک وہ ہے جو اپنی کمائی سے ذخیرہ کیا جائے۔ مثلاً کھانے پینے کا سامان، روپے پیسے، زیور کپڑا اور گھریلو ساز و سامان۔ رزق موجود وہ ہے جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے کیا ہے اور جو اپنے نیک بندوں کو غیب سے فراہم کرتا ہے۔lll