حضرت سعدالاسود اس حقیقت کا جیتا جاگتا ثبوت تھے کہ کالی صورت اور حسن و رعنائی سے محروم جسم کے اندر بھی ایک جگمگاتی ہوئی انسانی سیرت موجود تھی۔ عام انسانی نگاہوں نے اب تک انہیں حقارت کے ساتھ دھتکارا تھا۔ زمانے کی سطحیت پسندی نے اب تک ان کی شخصیت کی بے قیمتی کا مایوسانہ احساس ہی دلایا تھا، عام دنیا کے لیے ان کے اندر کوئی کشش موجود نہ تھی، انسانی آبادیوں میں ایک انسان اس ناکردہ گناہ کی درد ناک سزا پا رہا تھا کہ وہ بدصورت کیوں پیدا ہوا تھا، لیکن قدرت کا ہاتھ اس بدصورتی کا پردہ ہٹا کر ان کے اندر چھپی ہوئی ان روحانی رعنائیوں کو آشکارا کرنے والا تھا جن کی خبر اس سیاہ فام انسان کو خود بھی نہ تھی۔
اپنی بدصورتی سے خائف اور مایوس انسان نے خدا کے آخری رسول ﷺ کے حضور یوں فریاد کی:’’اے محمد! میں ایمان لاناچاہتاہوں مگر ڈرتا ہوں کہ مجھے جنت کے دروازے پر اندر جانے سے روک دیا جائے گا۔‘‘
انتہائی دلسوزی کے ساتھ وہ نظر سعد الاسود کی طرف اٹھی جس میں انسانیت کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، یہ رحمۃ للعالمینؐ کی نظر تھی ہمیشہ سچ بولنے والی زبان سے درد میں ڈوبے ہوئے الفاظ نکلے اور سننے والے کی سماعت پر آب حیات کے ٹھنڈے ٹھنڈے قطرے ٹپکا گئے۔
’’نہیں اے سعد! خدا کی جنت کا دروازہ تمہارے لیے کھلا ہوا ہے، وہاں جانے سے تمہیں روکنے والا کوئی نہیں۔‘‘
’’اچھا!‘‘ سعد الاسود کا منہ حیرت اور خوشی سے کھلا کا کھلا رہ گیا اور بے اختیار کلمہ توحید کا پاکیزہ نعرہ ان کے سیاہ ہونٹوں سے بلند ہوگیا۔ سعد مسلمان ہوگئے تھے انسانیت نے ایک مایوس انسان کو سینے سے لگالیا تھا۔ لیکن کچھ دن بعد ایک دن پھر یہی انسان خدا کے رسول کے پاس کھڑا ہوا دیکھا گیا۔ ایک بار پھر اس کے چہرے سے خونچکاں مایوسی ٹپک رہی تھی۔
’’اے خدا کے رسول!‘‘ سعد الاسود نے دل ریشی کے ساتھ عرض کیا ’’اسلام نے مجھ سے جنت کا وعدہ تو کیا ہے مگر دنیا بدستور تاریک ہی ہے۔ میں شادی کا آرزو مند ہوں۔ مگر کوئی شخص مجھے اپنی بیٹی دینے کے لیے تیا رنہیں۔‘‘
’’کیا کہہ رہے ہو؟ آنحضرت ﷺ نے ٹوٹے ہوئے دل کی آواز کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:
’’جاؤ! قبیلہ بنو ثقیف کے نو مسلم سردار عمرو بن وہب کو خدا کے رسول کا یہ فیصلہ سنادو کہ اس کی بیٹی سعد الاسود کے نکاح میں دے دی گئی۔‘‘
سعد الاسود حیرت سے شل ہوگئے، یہ کیسے ممکن ہے کہ جس شخص کو کوئی معمولی سے معمولی خاندان اپنے اندر جذب کرنے کو عار سمجھتا ہو اس کو ایک معزز سردار اپنے گھرانے کا فرد بنانے پر آمادہ ہوجائے۔ مگر سعد جو اپنی صورت سے مایوس تھے رسالت کی عظمت کا یقین رکھتے تھے۔ یہ رسالت کی آواز تھی جو اسلامی معاشرہ میں اٹل فیصلہ کا درجہ رکھتی تھی۔ سعدامیدو بیم کے شدید اضطراب کے عالم میں گرتے پڑتے روانہ ہوئے اور معزز سردار کے دروازہ پر دستک دے کر اپنی شادی کی یہ پیشکش کردی۔ معزز سردار یہ بات سنتے ہی آپے سے باہر ہوگیا۔ غیظ و غضب کے ابال نے اس کو یہ سوچنے کا موقع ہی نہ دیا کہ اس پیشکش کے پس منظر میں رسالت کی آواز ہے اس کے سامنے محض ایک کالا بھجنگ انسان کھڑا تھا جس نے قبیلہ ثقیف کے خاندانی وقار کو للکارا تھا۔ سعد اس در سے ٹھکرادئے گئے مگر ابھی وہ چند قدم بھی جانے نہ پائے تھے کہ انتہائی بے باکی سے پکارا، اے جانے والے، اے خدا کے بندے! اگر یہ فیصلہ محمد عربی کا فیصلہ ہے تو مجھے منظور ہے۔ یہ آواز عمرو ابن وہب کی صاحبزادی کی آواز تھی۔ عورت نسلی وقار اور سماجی بندشوں کو اور اس کی جھوٹی عظمتوں کوٹھکراتی ہوئی دین کی قربان گاہ پر اپنے جذبات کی قربانی پیش کررہی تھی۔ بیٹی کے ایمان افروز فیصلہ نے باپ کو جیسے گہری نیند سے چونکا دیا تھا۔ سعد جن کو حقارت کے ساتھ ابھی نکالا گیا تھا انتہائی اعزاز کے ساتھ واپس لائے گئے، دنیا جس شادی کا تصور بھی نہ کرسکتی تھی۔ وہ شادی طے ہوگئی اور سعد اس تقریب کا ضروری سامان خریدنے کے لیے بازار پہنچے۔ خوشی اور آرزوؤں کے جذبات میں تلاطم بپا تھا۔ زندگی کی ایک کچلی ہوئی حسرت ایک حسین ترین تکمیل آرزو کی سمت بڑھ رہی تھی کہ اچانک ایک نئی عظیم آزمائش کا موڑ سامنے آگیا۔ انھوں نے بازاروں کو اس پکار سے گونجتا ہوا پایا کہ ’’اے خدا کے بندو! میدان جہاد کے لیے تیار ہوجاؤ۔‘‘
سعد چلتے چلتے رک گئے، جذبات کا طوفان اچانک رک گیا، نفس کی ساری دنیا اس ایک پکار میں گم ہوگئی، جذبات کے نشیلے خواب ایک لافانی حقیقت میں جذب ہوگئے۔ نئی نویلی دلہن کے خوابوں سے کھیلنے والا اب اپنی موت کو سینے سے لگانے پر تیار کھڑا تھا، دنیا کی لذیذ فرصتوں کی طرف بڑھنے والے قدم رکے اور خدا کی طرف بڑھ گئے۔ شادی کے سامان کی جگہ انھوں نے جہاد کا سامان خریدنا شروع کیا۔ پھر راہ جہاد پر وجد کرتے ہوئے چل پڑے، اب ان کے سامنے شبستان عروسی نہیں، اس جنت کا تصور تھا جس میں خدا سے زیادہ حسین تر کوئی چیز نہیں۔ اب ان کی زندگی اس مقام پر تھی کہ جہاں موت ہی سب سے حسین آرزو ہوتی ہے جہاں انسان سرخیٔ حنا کے بجائے شہادت کی مقدس آغوش میں اپنی سرخیٔ خون سے کھیلنا پسند کرتا ہے۔ جذبات کے خوبصورت محل ہر گام پر ان کو پکار رہے تھے مگر جانے والا قبر کی تنہائیوں کی طرف کھنچا جارہا تھا، حسن و عشق کی خلوتیں بازو پھیلا رہی تھیں مگر شہادت کا جذب بیتاب تلواروں کی خوں آشام پرچھائیوں کی طرف لپکتا جارہا تھا، خدا کا بندہ اپنے خدا سے ملاقات کے لیے بیقرار تھا، میدان جہاد میں خوبصورت عمامہ باندھے ہوئے ایک مجاہد جان دینے کے لیے بیتاب نظر آرہا تھا مگر کوئی پہچان نہ سکا، کہ وہ کون ہے؟ آج سعد کی صورت نہیں، ان کی سیرت کا حسن دنیا کے سامنے تھا ان کا جذبۂ جاں نثاری ایک ایسا دلفریب منظر پیش کررہا تھا کہ دیکھنے والے رشک اور حیرت سے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہے تھے، یکایک ان کے ہاتھ کی سیاہی لباس کے اندر سے ظاہر ہوئی اور سب سے پہلے رسولِ خداؐ نے پہچان لیا کہ یہ سعد ہیں آپ نے ان کو بے اختیار آواز دی مگر آج خدا کے رسول کی آواز بھی ان کو شہادت کی سرمستی سے نہ چونکا سکی وہ بڑھتے رہے لڑتے رہے، لڑتے رہے اور بڑھتے رہے اور عبودیت کی نامعلوم گہرائیوں میں ڈوبتے چلے گئے۔ دنیا پس منظر میں دھندلارہی تھی۔ کائنات پسپا ہورہی تھی زمین و آسمان سمٹ رہے تھے، وہ بڑھتے گئے لڑتے گئے یہاں تک کہ شہادت سے ہمکنار ہوئے۔ ان کی شادی نہیں ہوسکی تھی۔ لیکن اللہ کا رسول فرمارہا تھا ’’سعد کو عمر ابن وہب کی بیٹی سے زیادہ خوبصورت دلہن عطا ہوئی ہے۔‘‘