سوراج نائٹ شفٹ کرکے جب کام سے لوٹا تو صبح کے سات بج رہے تھے۔ گھر سے تقریباً آدھے کلومیٹر کی دوری پر اس نے ایک بہت بڑی بے چین بھیڑ کو دیکھا، جو لاتعداد پولیس والوں سے بحث کررہی تھی اور ان جھگیوں کی طرف اشارے کررہی تھی جن میں اس کا بھی گھر تھا، قریب آیا تو دیکھا کہ جہاں کل تک زندگی سے بھر پور ایک بستی تھی، وہاں سے اونچے دھول کے بادل اٹھ رہے تھے۔ بلڈوزر چلنے کی گڑگڑاہٹ اور گرتی اور چرمراتی ہوئی جھگیوں کا شور برپا تھا۔ ساری بستی ایک ملبے کے چٹیل میدان میں تبدیل ہوتی جارہی تھی۔ جیسے اس میں زندگی کی ایک رمق بھی باقی نہ ہو۔ ہر طرف تباہی ہی تباہی تھی۔ بھیڑ میں متعدد چہرے اس کے جاننے والوں اور پڑوسیوں کے تھے۔ انھیں دیکھ کر وہ بھی بے چین ہو اٹھا اور اس افراتفری کی وجہ جاننے کی کوشش کرنے لگا۔ کچھ ہی لمحوں میں اس پر یہ عیاں ہوگیا کہ جھگی کالونی جس میں وہ رہتا ہے کورٹ کے آرڈر کی وجہ سے توڑی جارہی تھی۔ یہ سن کر اس کا دماغ چکرانے لگا اور اس کو اپنی جوان بیٹی اورننھی سی نواسی کی فکر ستانے لگی۔
سوراج کی سمجھ میں یہ نہیں آرہا تھا کہ پچھلی رات نو بجے وہ ڈیوٹی کرنے کے لیے جھگی سے نکلا تھا تو سب کچھ نارمل تھا۔ اس کی بیٹی انجو جس پر اس کے شرابی شوہر کے مرجانے کے بعد مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا، اپنی تین سالہ بچی کو سلانے کی کوشش کررہی تھی۔ پڑوس سے بچوں کے رونے ، برتنوں کے کھڑکھڑانے اور زور زور سے باتیں کرنے کی روز کی طرح آوازیں آرہی تھیں، سب کچھ روز جیسا ہی تھا۔ اب صبح کو اس بھیڑ میں رہ کر اس کی سمجھ میں یہ نہیں آرہا تھا کہ رات میں ایسا کیا ہوا کہ سب کچھ اجڑ گیا۔ پولیس فورس بالکل دیوار کی طرح سب کو روکے ہوئے کھڑی تھی اور جھگیوں کی طرف جانے کی کسی بھی کوشش کو پوری طاقت سے ڈنڈوں اور لاٹھیوں کی مدد سے ناکام بنارہی تھی۔ اس نے اس بھیڑ میں اپنی بیٹی انجو اور ننھی انیتا کو تلاش کرنے کی پوری کوشش کی۔ پڑوسی اور دیگر جھگی کالونی والے جو بھی ملے اُن سے اُن دونوں کے بارے میں جانکاری حاصل کرنے کی کوشش کی مگر کوئی اس کی مدد نہ کرسکا۔ سب نے یہ بتایا کہ جب تین بڑے بڑے بلڈوزر تیزی سے علاقے کی طرف آتے ہوئے دکھائی دیے تو ان کی آواز سن کر بہت لوگ نیند سے بیدار ہوئے اور باہر نکل کر یہ دیکھنے آئے کہ معاملہ کیا ہے۔ یہ علی الصبح کا وقت تھا مگرہزاروں پولیس والے اور سرکاری کرمچاری جھگی کالونی کو اپنے گھیرے میں لے چکے تھے۔ کچھ ہی منٹوں میں لاؤڈ اسپیکر پر سرکاری افسروں نے یہ اعلان کرنا شروع کردیا کہ ’’کچھ ہی لمحوں میں اس غیر قانونی جھگی کالونی کو ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق توڑ دیا جائے گا۔ آپ سب لوگوں کو حکم دیا جاتا ہے کہ کالونی فوراً خالی کردیں۔‘‘ پہلے تو کسی کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آیا۔ لیکن لوگوں کو حالات سمجھنے میں دیر نہ لگی۔ ایک افراتفری مچ گئی اور ہر شخص نے اپنے گھر کا سامان اور بچوں کو لے کر نکلنے کی کوشش کی۔ مگر وقت اتنا کم تھا اور گھبراہٹ اتنی زیادہ کہ بہت کچھ وہیں رہ گیا۔ کچھ لوگوں نے اس کارروائی کو لڑ کر یا بلڈوزروں کے سامنے لیٹ کر روکنے کی بھی کوشش کی۔ عورتوں نے اپنی بھڑاس گالیوں اور کوسنوں سے نکالی۔ مگر پولیس کی طاقت اتنی زیادہ تھی کہ ان کی لاٹھیوں کے سامنے کچھ بھی کارگر ثابت نہ ہوا۔ پولیس نے کسی کو نہ بخشا۔ جس طرح سے بھی مزاحمت کرنے کی کوشش کی گئی اسے زبردست طاقت سے کچل دیا گیا۔ پولیس نے گالیوں کا جواب لاٹھیوں سے اور پتھروں کا جواب ہوائی فائر سے دیا۔ جن لوگوں نے جتھا بناکر اور رکاوٹیں لگاکر بڑھتی ہوئی پولیس فورس کو اور سرکاری عملے کو روکنے کی کوشش کی انہیں پولیس نے ٹرک اور جیپوں کے نیچے کچل دینے کی دھمکیاں دے کر اور بے تحاشا پٹائی کرکے راستے سے ہٹا دیا۔ پولیس کی یلغار اتنی زبردست تھی کہ ان بے بس نہتے اور منتشر لوگوں کے لیے پسپائی کے علاوہ کوئی راستہ نہ تھا۔
سوراج کو صبح کی یہ ساری روداد سننے کے بعد انجو اورانیتا کی اور بھی فکر ہوئی۔ وہ پریشان تھا کہ اس افراتفری میں انجو اتنی چھوٹی سی بچی کو لے کر کہاں گئی ہوگی اور اس کی جھگی میں جو روز مرہ کی ضرورتوں کاسامان تھا اس کا کیا ہوا۔ وہ اسی تشویش میں مبتلا تھی کہ بھیڑ سے آواز آئی: ’’پولیس سے جوجھنا بیکار ہے آؤ نیتا جی کے پاس چلتے ہیں۔ وہی ہماری مدد کریں گے۔‘‘ باقی لوگوں نے بھی اس سے اتفاق کیا اور یہ طے پایا کہ نیتا جی سے ہی مدد مانگی جائے۔ ’’ہم نے پچھلے الیکشن میں نہ صرف ان کو ووٹ دیے تھے بلکہ سارے علاقے میں ان کے لیے پرچار کا کام بھی مل جل کیا تھا۔ کیا وہ ہمارے اس آڑے وقت میں کام نہیں آئیں گے؟‘‘
یہ ساری گفتگو سن کر سوراج کے دماغ میں ایک امید کی کرن پیدا ہوئی۔ وہ پچھلے دس سالوں سے نیتاجی کو جانتا تھا ۔ پہلے وہ قریب کی پکی بستی میں ایک چھوٹے سے مکان میں رہتے تھے اور سائیکل کی مرمت کی دکان چلاتے تھے، کسی جاننے والے کے ذریعہ اُن کی رسائی علاقے کے ایم ایل اے تک ہوئی اورانہیں ایم ایل اے کا مصاحب بننے میں فائدہ نظر آیا۔ کچھ ہی دنوں میں وہ پارٹی ورکر بن گئے اور پارٹی کی ’’نیتیوں کے سمرتھک‘‘ اگرچہ حقیقتاً اُن کی سمجھ میں نہ تو پارٹی کی ’نیتیاں‘ آتی تھیں اور نہ ہی ان کی وجہیں۔ اس زمانے میں نیتا جی رام پرکاش، سوراج کے بہت قریب رہے۔ انھوں نے بہت کوشش کی کہ سوراج بھی پارٹی کا سرگرم رکن بن جاتا۔ وہ پارٹی کے ایجنڈے اور پالیسی کے مطابق مندر تحریک میں لوگوں کو ایک جٹ کرنے کاکام کرتے تھے۔ مگر اس کام کے لیے وہ سوراج کو راضی نہیں کرپائے کیونکہ اس کے سوالوں کا جواب نیتا جی کے پاس نہیں تھا۔ سوراج یہ کہتا تھا کہ ’’رام جی کے لاکھوں مندر ہندوستان کے ہر حصے میں موجود ہیں۔ ایک اور مندر بنالینے سے ملک کا کیا بھلا ہوسکتا ہے۔‘‘ دوسری بات یہ کہ بھگوان تو من میں بستے ہیں، مندروں میں نہیں۔ رام پرکاش کو یہ سب باتیں ناگوار لگتی تھیں۔ مگر اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ خاموش ہوجاتا۔ ویسے بھی سوراج سے جھگڑنے کی کوئی وجہ نہیں تھی، کیوںکہ دوستی اور اپنے پن میں وہ رام پرکاش کی بات ٹالتا نہیں تھا اور رام پرکاش کے لیے بھی یہ فائدے کا سودا تھا۔
مندر تحریک میں جذبات کوابھار کر پارٹی نے بھر پور سیاسی فائدہ اٹھایا۔ پارٹی آگے بڑھی تو رام پرکاش کی بھی قسمت جاگی۔ وہ جلد ہی علاقے کی پارٹی یونٹ کا صدر بن گیا اور آنے والے الیکشن میں، اسے الیکشن لڑنے کا موقع بھی ملا، جو اس نے پارٹی کے جذباتی نعروں کی مدد سے بآسانی جیت لیا۔ اس کی اِس کامیابی میں پرانے ساتھیوں اور دوستوں کا بڑا ہاتھ تھا۔
ایم ایل اے بننے کے بعد رام پرکاش کو بڑی سرکاری کوٹھی ملی اور وہ علاقہ چھوڑ کر اس میں منتقل ہوگئے۔ اب وہ ایک کامیاب اور مصروف نیتا تھے۔ ان کے پاس علاقے کے چھوٹے چھوٹے مسائل اور روز مرہ کی پریشانیوں کو حل کرنے کے لیے فرصت نہیں تھی۔ اب وہ علاقے میں صرف تب آتے تھے جب ان کے اعزاز میں کوئی جلسہ یا تقریب کی جاتی یا مرکزی پارٹی کے کسی بڑے لیڈر کی ریلی کے لیے بھیڑ جمع کرنی ہوتی۔
ان تمام حقیقتوں سے سوراج بخوبی واقف تھا مگر یہ یقین ضرور تھا کہ رام پرکاش اتنی بڑی مصیبت میں پرانے تعلقات کی بنا پر اس کی مدد ضرور کرے گا۔
بھیڑ کے ایک بڑے حصہ نے جس میں عورتیں بھی شامل تھیں، سوراج اور چار پانچ دوسرے لوگوں کی رہنمائی میں نیتا جی رام پرکاش کے گھر پر جانے کا فیصلہ کیا۔ یہ تمام لوگ الگ الگ بسوں میں بمشکل نیتاجی کی کوٹھی پر پہنچے۔ اس وقت صبح کے دس بج رہے تھے۔ سیکورٹی گارڈ نے بتایا کہ اس وقت نیتا جی کسی سے نہیں ملیں گے۔ انہیں اسمبلی پہنچنے کی جلدی ہے۔ آپ لوگ شام کو آئیے گا اگر انہیں فرصت ہوگی تو آپ لوگوں کو بلالیں گے۔ یہ سن کر پریشان حال سوراج جیسے پھٹ پڑا۔
’’نیتا جی سے کہو، سوراج ان سے ملنا چاہتا ہے۔‘‘
شوروغل سن کر کوٹھی کے اندر سے دو نوکر نکل آئے اور زور سے بولے: ’’آپ لوگ آہستہ بولیں، نیتاجی ناراض ہورہے ہیں۔‘‘
سوراج کی بات سن کر سیکورٹی گارڈ پر کوئی اثر نہ ہوا۔ بھیڑ بے چین ہونے لگی۔ سب کو امید تھی سوراج کی بات کو نیتا جی تک پہنچایاجائے گا، مگر نیتا جی کے اسٹاف کے لیے یہ روز مرہ کی بات تھی۔ ہر روز دسیوں آتے تھے اور نیتا جی سے اپنے رشتے کی گہرائی بیان کرکے ان سے فوراً ملنے کے خواہش مند ہوتے تھے۔ اس پس منظر میں سوراج اور سوراج کے ساتھ بھوکی ننگی بھیڑ کی کیا اوقات تھی۔ نیتا جی سے ملنے کی امید ختم ہونے سے بھیڑ میں بے چینی بڑھ گئی اور اسی کیفیت میں ایک نوجوان نے پتھر اٹھا کر کھڑکی کے شیشے پر پھینکا اور شیشہ چکنا چور ہوگیا۔ اتفاق سے یہ نیتاجی رام پرکاش کا اپنا کمرہ تھا۔ جہاں پر وہ اسمبلی جانے کے لیے تیار ہورہے تھے۔ پتھر اور ٹوٹتے شیشے کے اچانک شور نے ان کے پارے کو آسمان پر پہنچادیا اور وہ آپے سے باہر ہوکر اپنے ملازمین اور اسٹاف پر چلانے لگے۔ کچھ ہی لمحوں میں گھر کا نوکر بھاگا ہوا آیا۔ بھیڑ اور اس کے رویے کے بارے میں ایک مختصر سی رپورٹ دی۔ یہ سن کر نیتا جی کا غصہ اور بڑھ گیا اور وہ چلاتے ہوئے باہر آئے۔ سامنے سوراج اور دوسرے جانے مانے چہروں کو دیکھ کر ایک لمحے کو ٹھٹکے اور اپنی آواز کو دھیمی کرتے ہوئے کہاکہ ’’یہ کوئی وقت اور طریقہ ہے آنے کا۔‘‘ پچھلے کچھ گھنٹوں کے حالات اور شب بیداری کی وجہ سے سوراج کا دماغ ہانڈی کی طرح ابل رہا تھا۔ اس سے رام پرکاش کا رویہ برداشت نہ ہوا اور چلا کر بولا:
’’ہمارے لیے یہ زندگی اور موت کی گھڑی ہے اور آپ کو آنے کے وقت اور طریقے کی شکایت ہے۔ کیا ہم نے ہر اچھے برے وقت میں آپ کا ساتھ نہیں دیا تھا؟ دن رات کی انتھک محنت جو ہم نے بغیر کسی معاوضے کے کی، جو آپ کی کامیابی کی اس سیڑھی تک پہنچانے کے لیے ذمہ دار ہے۔ آج جب ہم بے گھر کردیے گئے ہیں، ہمارے گھروں کو توڑ دیا گیا ہے، ہماری بستی کو اجاڑ دیا گیا ہے، ہمارے بچے لاپتہ ہیں اور ہمارا سب کچھ لٹ چکا ہے اور پولیس نے ہمارے اوپر مظالم کیے ہیں۔ کیا آپ ہماری مدد نہیں کریں گے۔‘‘
یہ سن کر رام پرکاش نے دھیمی آواز میں کہا: ’’سوراج اپنے دو تین ساتھیوں کے ساتھ میرے آفس میں بیٹھو اور باقی بھیڑ بنگلے سے باہر جاکر سڑک پر انتظار کرو۔‘‘
یہ سن کر نوکر نے آفس کا دروازہ کھولا۔ سوراج اور اس کے تین ساتھیوں کو آفس میں بٹھا دیا۔ سیکورٹی گارڈ نے ڈنڈے کے اشارے سے باقی لوگوں کو بنگلے کے گیٹ سے باہر نکل جانے کا اشارہ کیا۔ نیتا جی اندر چلے گئے۔ سوراج اور اس کے ساتھی تقریباً پندرہ بیس منٹ تک بے چینی سے نیتا جی کے آنے کا انتظار کرتے رہے۔ ہر لمحے کا انتظار ان کے لیے بہت بھاری تھا۔ مگر وہ کیا کرسکتے تھے۔ تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد انتظار ختم ہوا اور اندر والے دروازے پر نیتاجی نمودار ہوئے۔ نیتا جی کے چہرے پر غصہ، جھنجھلاہٹ اور بے بسی کے ملے جلے تاثرات نظر آرہے تھے۔ انھوں نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے پوچھا:
’’بتائیے میں آپ لوگوں کے لیے کیا کرسکتا ہوں؟ جو کچھ بھی آپ لوگوں کے ساتھ ہوا ہے، اس کا تعلق ہماری کیندریہ سرکار اور اس کا انتظامیہ سے نہیں ہے۔ یہ تو ہائی کورٹ کے آرڈر کے تحت ہوا ہے۔ جس کو روکنا یا اس بارے میں کچھ کرپانا ہماری پارٹی کے بس سے باہر ہے، کیونکہ سرکار ہماری پارٹی کی نہیں ہے اور یہ سب کچھ کانگریس کی جن ورودھی پالیسیوں کی وجہ سے ہورہا ہے۔ اس معاملے میں ہمارے ہاتھ پوری طرح بندھے ہوئے ہیں۔ اس کارروائی کو روکا نہیں جاسکتا۔ میں اگر آپ لوگوں کی کسی اور طرح سے مدد کرسکوں تو بتائیے۔‘‘ نیتا جی کی مختصر سی تقریر سن کر ان چاروں کا دماغ گھومنے لگا اور ہر طرف تاریکی ہی تاریکی دکھائی دینے لگی۔ اس بے بسی کے عالم میں سوراج نے دھیمی آواز میں کہا:
’’میری بیٹی انجو اور نواسی لاپتہ ہیں۔ میں نے انھیں ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی مگر تلاش نہ کرسکا۔‘‘ رام پرکاش نے دلاسہ دیتے ہوئے کہا: ’’فکر مت کرو، مل جائیں گے۔ میں علاقے کے اے سی پی سے بات کرتا ہوں۔ شام تک کچھ نہ کچھ پتہ چل ہی جائے گا۔‘‘
سوراج کے تینوں ساتھی جو بنا کسی حل کے میٹنگ کا خاتمہ ہوتے دیکھ رہے تھے ان کی بے چینی بڑھ گئی۔ رمیش نے بہت تشویش کے ساتھ پوچھا:’’مگر ہمارے گھروں کا کیا ہوگا؟ ہم کہاں جائیں گے؟ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ آپ لوگ ووٹ مانگنے تو آتے ہیں مگر چنے جانے کے بعد ہمارے رہن سہن کو بہتر بنانے کے بجائے اپنی زندگی سنوارتے ہیں۔‘‘
یہ سن کر نیتا جی بولے: ’’دیکھو بھائی میں تمہارے بیچ سے آیا ہوں اور تمہارے مسائل اور پریشانیوں کوبخوبی جانتا ہوں مگر کیا کیا جائے، ہر سال لاکھوں لوگ دلی کا رخ کرتے ہیں اور دلّی شہر ملک کی راجدھانی ہونے کے باوجود گندگی، کثافت اور بھیڑ بھاڑ سے برباد ہوا جاتا ہے۔ ہماری سرکار اور پارٹی نے اربوں روپے خرچ کرکے دلّی شہر کو خوبصورت اور دنیا بھر کے لیے نمونہ بنانے کی بھر پور کوشش کی، مگر ہم لوگ اس میںکامیاب تبھی ہوسکتے ہیں، جب آپ لوگ ہماری مدد کریں۔‘‘
سریندر یہ سن کر بہت برہم ہوا اور تیز لہجے میںبولا: ’’آپ لوگ دلّی شہر کوسندر بنانے کی بات تو کرتے ہیں مگر لاکھوں عوام اس کا سکھ بھوگنے کی بجائے اپنی روزی اور سرپر کی چھت تک گنوادیتے ہیں۔‘‘
سوراج جو ابھی تک یہ گفتگو خاموشی سے سر جھکا کر سن رہا تھا، تقریباً اکھڑے ہوئے لہجے میں بولا: ’’نیتا جی! آپ کو معلوم ہے میرا نام سوراج کیوں ہے؟‘‘ جواب کا انتظار کیے بغیر اپنے ہی خیالوں میں گم لگاتار بولنے لگا: ’’میرے پتا جی بستی ضلع کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں اپنی تھوڑی سی زمین جوتا کرتے تھے، جب گاندھی جی نے ملک کی آزادی کے لیے آندولن چلایا تو جاہل اور غریب ہونے کے باوجود وہ گاندھی جی کی آواز پر آزادی کی لڑائی میں شامل ہوگئے تھے۔ لاٹھیاں کھائی تھیں اور جیل بھی گئے تھے۔ ’’سمپورن سوراجیہ کا سندرسپنا‘‘ ان کے لیے اتنا میٹھا تھا کہ اسی دوران میرا جنم ہوا تھا اور انھوں نے میرا نام سوراج رکھا تھا۔ جب دیش آزاد ہوا تو میں مشکل سے چھ سات سال کا رہا ہوں گا۔ مگر مجھے آج بھی یاد ہے کہ وہ جذباتی ہوکر اور جوش میں آنے والے آزاد ہندوستان کی کتنی خوبصورت تصویر کھینچا کرتے تھے اور آس پڑوس کے سبھی لوگ اس سندر سپنے کے پورا ہونے کا بے چینی سے انتظار کرتے تھے۔ جب میں یہ سب کچھ یاد کرتا ہوں اور آزادی کے ۶۰ سال بعد اپنی حالت پر نظر ڈالتا ہوں تواپنے پتا جی کی سادگی اور کم عقلی پر بہت دکھ ہوتا ہے۔ ان کے اس وقت کے سپنوں اور آج کی حقیقت کے بیچ کا فیصلہ شاید اتنا ہی ہے جتنا سورگ اور نرک کے بیچ کا۔‘‘
نیتا جی نے سوراج کی بات میں مداخلت کرتے ہوئے کہا: ’’آپ لوگ دھوکہ کھاگئے، یہ سب دوسری موقع پرست پارٹیوں کی پچھلی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ اس نے عوام کو دھوکا دیا، دیش کا بٹوارہ کرایا اور مسلمانوں کو خوش رکھنے کے لیے ہندوؤں کے ساتھ زیادتی کی۔ اس دیش میں اکثریت ہونے کے باوجود بھی ہندو غیر محفوظ ہیں اور مسلمان بدمعاشی پر اتارو رہتے ہیں۔ جب انھیں پاکستان مل گیا تھا تو اس دیش کی کروڑوں نوکریوں پر ان کو قبضہ کرنے کی اجازت کیوں دی گئی۔ آپ لوگ ہماری پارٹی کا ساتھ دیں تو ہم ہندوؤں کو ’سمان‘ اور پہچان کے ساتھ ’گورو‘ کی زندگی بتانے کا موقع دیں گے۔‘‘
رمیش بولا: ’’کیوں دھوکہ دیتے ہیں۔ مسجد توڑنے میں ہم نے آپ کا بھر پور ساتھ دیا اس بات کو پندرہ سال ہوگئے۔ آپ نے اپنا کون سا وعدہ پورا کیا؟ چھ سال تو مرکز میں آپ کی بھی سرکار رہی۔ ہماری زندگی کے حالات پہلے سے کہیں زیادہ خراب ہیں۔ اگر سڑکیں بنی ہیں تو ہم اس پر چلانے کے لیے گاڑی کہاں سے لائیں؟ اگر ٹیلی فون کی تعداد ملک میں کئی گنا بڑھی ہے تو اس سے ہمیں کیا فائدہ؟ ہمارے پاس تو دو وقت کی روٹی اور سر پر چھت کا انتظام کرنے کے لیے بھی پیسہ نہیں ہے۔ کمپیوٹر ہمارے کس کام کا؟‘‘
نیتا جی اس بات پر ناراض ہوئے اور بولے: ’’آپ لوگ بہت سوارتھی ہیں۔ صرف اپنا سوچتے ہیں، ارے بھائی کچھ دیش کا بھی سوچو۔ اس ترقی سے دنیا میں ’بھارت کا گورو‘ کتنا بڑھا ہے آپ لوگوں کو کیا معلوم۔ بھارت کی ترقی کے دنیا میں ہر طرف چرچے ہیں۔ اٹل جی کی جے جے کار ہورہی ہے۔‘‘
سوراج یہ گفتگو سن کر جل بھن گیا اور چڑ کر بولا: ’’آپ کا مطلب ہے کہ ۲۲؍غریب بے سہارا عورتوں کوایک ساڑی کے لیے اپنی جان گنوانی پڑتی ہے، شاید یہ بھی بھارت کی عظمت کی نشاندہی کرتا ہے۔ ملک کے وزیر اعظم اتنے عرصے سے اس علاقے سے چنے جارہے ہیں اگر وہاں پر عوام کی بدحالی کا یہ عالم ہے تو باقی ملک میں کیا ہورہا ہوگا؟ اگر دیش کی راجدھانی میں پولیس ہمارے اوپر اتنے ظلم کرسکتی ہے تو باقی ملک کا تو اوپر والا ہی مالک ہے۔ نیتا جی آپ سے صرف اتنی سی گزارش ہے کہ یہ بڑی بڑی باتیں جو ہم سالہا سال سے سنتے آرہے ہیں، چھوڑ کر چھوٹے چھوٹے موجودہ مسئلوں کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ اس وقت جو مسئلہ ہمارے سر پر چھت اور ہماری بنیادی ضروریات زندگی حاصل کرنے اور پانے کا ہے اور میرے لیے تو میری بچی اورنواسی کی تلاش، زندگی اور موت کا سوال ہے۔ میں سمجھ نہیں پارہا ہوں کہ کیا کروں ہمیں آپ کی مدد چاہیے۔ بھگوان کے لیے ہمارا ساتھ دیں۔‘‘
نیتاجی کو جو اب تک بنیادی مسئلوں پر گفتگو کرنے سے بچنے کی کوشش کررہے تھے اتنے سیدھے سوال سننے کے بعد اپنے دن کی مصروفیات یاد کرانے میں ہی فرار کا راستہ نظر آیا، بولے: ’’بھائی اسمبلی میں میری بہت اہم میٹنگ تھی، جس کے لیے آپ لوگوں کی وجہ سے میں ڈیڑھ گھنٹہ لیٹ ہوچکا ہوں۔ ابھی آپ لوگ چلیں۔ میں شام تک آپ لوگوں کے لیے کچھ کرنے کی کوشش کروں گا۔‘‘ نیتا جی ان لوگوں کو بھیجنے کے بعد اپنی کرسی پر آنکھیں بند کرکے حالا ت کا جائزہ لینے لگے۔ ان کے سیاسی دماغ نے بہت جلدی اس واقعے سے جڑے ہوئے فائدے اور نقصان کا حساب پلوں میں لگالیا تھا۔ ان حالات کا فائدہ اٹھا کر وہ پارٹی میں اپنی سیاسی پوزیشن کو مستحکم کرسکتے تھے اور جیب بھرنے کے راستے بھی نکال سکتے تھے۔ مگر اس نازک وقت میں اپنی سیاسی بساط پر سوچ سمجھ کر چالیں چلنے کا وقت تھا۔ ورنہ مخالف پارٹی والے ساری ملائی لے اڑیں گے۔ ان حالات میں انھوں نے پولیس اور افسر شاہی سے مل کر موقع سے فائدہ اٹھانے کا منصوبہ تیار کرنا شروع کردیا۔
نیتا جی رام پرکاش نے دن کی دوسری مصروفیات کو ملتوی کرکے اپنا وقت اس معاملے سے جڑی سیاسی بساط پر صرف کرنے کے لیے سوچنے میں لگایا۔ ان حالات میں علاقے کے پارٹی ورکروں سے بات کرنا فضول نظر آیا۔ اس لیے سب سے پہلے انھوں نے حالات کی تفصیل جاننے کے لیے علاقے کے تھانے کے ایس ایچ او کو فون کیا۔ ان سے حالات جاننے اور دوسرے پارٹی کے پروگرام کی تفصیل حاصل کرنے کے بعد ان کی تشویش کئی گنابڑھ گئی۔ انھوں نے فوراً ریاست کے پارٹی صدر سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی۔ مگر وہ شہر میں نہیں تھے۔ اس کے بعد اسمبلی میں اپنی پارٹی کے لیڈر کو ٹیلی فون کرکے حالات کی جانکاری دی اور فوراً کچھ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ مگر پارٹی کے لیڈر کی اس معاملے میں زیادہ دلچسپی نہ پاکر وہ خاصے نا امید ہوگئے۔ انھوں نے اپنی پارٹی کے کئی دوسرے ایم ایل اے کو فون کرکے صورتِ حال اور پارٹی کی عدم دلچسپی کی شکایت کی، ساتھ ہی یہ سمجھانے کی کوشش بھی کی کہ ایسے حالات میں اُن سب کی پوزیشن بھی اپنے اپنے علاقے میں خراب ہوسکتی ہے۔ شام تک وہ اپنے پانچ ساتھی ایم ایل اے کو اس بات پر راضی کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ وہ ایک وفد بناکر مرکزی شہری ترقیاتی وزیر سے ملیں گے مگر اس تمام کوشش کے بعد جب انھیں پتہ چلا کہ وزیر موصوف ہندوستان سے باہر چھٹی منانے تشریف لے گئے ہیں تو ان کی جھنجھلاہٹ دیکھنے لائق تھی۔
سوراج اور سریندر وغیرہ نیتاجی کے بنگلے سے نکل کر جب باہر آئے تو ان کے چہرے لٹکے ہوئے تھے اور باہر انتظار کرتی ہوئی بھیڑ کو سنانے کے لیے ان کے پاس کوئی اچھی رپورٹ نہ تھی۔ اس پریشانی کے عالم میں واپس اپنے علاقے میں جانے کا اور اپنے باقی ساتھیوں سے صلاح مشورہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ جب یہ لوگ واپس پہنچے تو دوپہر ہوچکی تھی۔ وہاں پہنچنے پر انھیں حالات کچھ بدلے بدلے نظر آئے۔ پولیس پہلے کی ہی طرح علاقے کو گھیرے کھڑی تھی اور ٹوٹی ہوئی جھگیوں کے پاس کسی کو جانے کی اجازت نہ تھی، مگر دوسری پارٹی والوں نے باہر ایک ریلیف کیمپ قائم کردیا تھا، جہاں مفت کھانا تقسیم کیا جارہا تھا۔ واپس آنے والی بھوکی پیاسی بھیڑ کے لیے یہ بہت بڑے انعام سے کم نہ تھا۔ کیمپ کے چلانے والوں نے ان سب کو خوش آمدید کہا اور پیٹ بھر کے کھانا دیا۔ کھانا ختم ہونے کے بعد کچھ پارٹی کے لیڈر آئے اور ان سے کہا کہ : ’’بھائیو! آپ لوگوں کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور ہم آپ لوگوں کا دکھ سمجھتے ہیں۔ اگرچہ پچھلے الیکشن میں آپ کی کالونی کے زیادہ تر لوگوںنے ووٹ دوسری پارٹی کو دیا تھا مگر پھر بھی ہم آپ کی مدد کو پہلے آئے۔ آپ کے گھر توڑے جانے میں ہماری ریاستی سرکار کا کوئی ہاتھ نہیں ہے کیونکہ یہ سب کچھ ہائی کورٹ کے آرڈر سے ہوا ہے مگر ہماری سرکار یہ کوشش کررہی ہے کہ آپ لوگوں کی پوری طرح سے مدد کی جائے۔ ہمارے وزیر اعلیٰ اور شہری ترقیاتی وزیر آپ لوگوں سے ملنا چاہتے ہیں تاکہ آپ کے مسائل کو حل کیا جائے۔‘‘ اس ساری گفتگو کا بستی کے لوگوں پر بہت ہی زبردست اثر ہوا اورپارٹی زندہ باد کے نعرے فضا میں بلند ہونے لگے۔
سوراج کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اپنی بیٹی اور نواسی کو کس طرح تلاش کرے۔ اس نے بڑی بددلی سے ریلیف کیمپ میں کچھ لقمے ’زہر مار‘ کیے۔ کیونکہ اسے کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ اس نے سوچا کہ ’’کم سے کم انجو اور انیتا کی گمشدگی کی رپورٹ پولیس اسٹیشن میں تو کر ہی دوں۔‘‘ وہ یہ سوچ کر علاقے کی پولیس چوکی میں گیا اور دونوں کی گمشدگی کے بارے میں ڈیوٹی افسر سے رپورٹ لکھنے کی درخواست کی۔ ڈیوٹی افسر اس سے انجو کی عمر اور دوسری ذاتی باتوں کے بارے میں سوالات پوچھنے کے بعد ہنس کر بولا:
’’جاگھر جا، یار کے ساتھ بھاگ گئی ہوگی۔ کچھ دن میں واپس آجائے گی۔‘‘
جب سوراج نے ان باتوں پر اعتراض کرنے کی کوشش کی تو اس نے گالیو ںکی بوچھار کرنے کے بعد کہا: ’’ایسے معاملے ہمارے پاس روز آتے ہیں، کیا پولیس فورس تمہاری بستیوں کی آوارہ لونڈیوں کو تلاش کرنے کے لیے ہی رہ گئی ہے۔ بھاگ جا یہاں سے۔‘‘ یہ سن کر سوراج کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے اور وہ دل برداشتہ ہوکر واپس ریلیف کیمپ آگیا۔
تقریباً چار بجتے بجتے سامنے کے میدان میں ایک اسٹیج بنادیا گیا اور ہزاروں کی تعداد میں پارٹی کے جھنڈے ہر طرف لہرانے لگے۔ آس پاس کی جھگی جھونپڑی کالونیوں سے بھی کافی تعداد میں لوگوں کو جمع کیا گیا اور پانچ بجے تک ایک بڑی سیاسی پبلک میٹنگ کی تیاری مکمل ہوچکی تھی۔ وزیر اعلیٰ اور شہری ترقیاتی وزیر کے پہنچنے میں بھی دیر نہ لگی۔ دھواں دھار تقریریں شروع ہوگئیں۔ ہر مقرر اس بات پر زور دے رہا تھا کہ یہ شہر کے غریب عوام کے خلاف مرکزی سرکار خاص طور پر اس میں شہری ترقیاتی وزیر اس سازش میں ملوث ہیں اوروقت آگیا ہے جب شہر کے غریب عوام اس سازش کو ناکام بنائیں۔ وزیرِ اعلیٰ، شہری ترقیاتی وزیر اور دوسرے لیڈروں نے عوام کی لڑائی میں اپنی جان تک قربان کرنے کے وعدے کرڈالے اور آخر میں وزیر اعلیٰ نے تالیوں کی گونج میں یہ اعلان کیا: ’’ان سارے لوگوں کو جو یہاں سے اجاڑے گئے ہیں، ریاست کی سرکار کی طرف سے دس دس گز زمین دی جائے گی۔‘‘
یہ ساری کارروائی دیکھنے کے بعد ان سب لوگوں کی بہت امیدیں بندھی تھیں کیونکہ یہاں پر زندگی اور موت کا سوال تھا۔ اگلے وقت کی روٹی اور شام کو سر چھپانے کے لیے سر پر چھت کی ضرورت تھی۔ جو بھی اس فوری ضرورت کو پورا کرنے کی امید دلادے اسی کو اپنا مائی باپ بنانے میں عافیت ہے۔ یہا ںمعاملہ بیوقوف بننے کا نہیں تھا بلکہ زندہ رہنے کی جدوجہدکا تھا۔ اسی لیے جئے جئے کار اور نعرے کی گونج میں زندگی کی رمق نظر آئی۔ پچھلے ۶۰ سال کے تجربے یاد کرکے دل پریشان کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوسکتا تھا۔
جلسے میںاعلانات سننے کے بعد سوراج کو کچھ سکون کا احساس ہوا کہ کم سے کم سر چھپانے کی جگہ تو میسر ہوجائے گی۔ مگر ایک تناؤ کے کم ہوتے ہی اس کو اپنی بیٹی اور نواسی کی فکر کئی گنا شدت سے ستانے لگی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے؟ کہاں جائے؟ کہا ںجائے انہیں تلاش کرنے؟ اور اس کے لیے کس کی مدد لے؟ اسی دوران ریلیف کیمپ اور جلسے کے منتظمین میں سے ایک سے اس کا سامنا ہوا اور اس نے اپنی پریشانی اس سے بیان کردی۔ کچھ ہی لمحوں میں وہ علاقے کے پارٹی صدر کے سامنے کھڑا تھا جو پورے جذبات کے ساتھ اپنی ہمدردیوں کا اظہار کررہا تھا۔ جلد ہی لوگوں کا ایک ہجوم جمع ہوگیا اور لاپتہ ’’ماں بیٹی‘‘ کی تلاش نہ کرپانے کے لیے ’’پولیس ہائے ہائے‘‘ کے نعرے بلند ہونے لگے اور یہ بھیڑ نعرے بازی کرتی ہوئی پولیس اسٹیشن کی طرف روانہ ہوئی۔ پولیس اسٹیشن پر پہنچ کر پارٹی صدر صاحب اپنے کچھ چمچوں اور سوراج کو لے کرایس ایچ اوکے کمرے میں چلے گئے۔ ایس ایچ اوبڑی گرمجوشی اور اپنائیت سے ملا۔ فوراً چائے وغیرہ کا انتظام کیا گیا اور ایس ایچ اونے بہت ادب سے کہا: ’’جناب اتنی بھیڑ لانے کی کیا ضرورت تھی، مجھ کو بلوالیا ہوتا۔ خیر میںاس سلسلے میں کچھ کرتا ہوں۔‘‘
پولیس اسٹیشن کے اسٹاف نے سوراج کا بیان لیا اور رپورٹ درج کی۔ سوراج کا دل بہت بے چین تھا۔ اس نے کہا : ’’میں اپنی ٹوٹی ہوئی جھگی دیکھنا چاہتا ہوں۔ شاید میری بیٹی اور نواسی وہاں کہیں پھنس گئے ہوں۔ پولیس والوں نے اس کا مذاق اڑایا اور کہا: ’’وہاں کوئی کیسے ہوسکتا ہے؟ وہ علاقہ تو خالی کرالیا گیا تھا۔‘‘
یہ تمام کارروائی چل ہی رہی تھی کہ اچانک ایس ایچ اوصاحب کے ٹیلی فون کی گھنٹی بجی اور دوسری طرف سے ان کے ماتحت پولیس والوں نے بتایا کہ ٹوٹی ہوئی جھگیوں کے ملبے سے ایک عورت اور ایک چھوٹی سی بچی کی لاش برآمد ہوئی ہے۔ ایس ایچ اوکے دماغ میں اچانک بجلی کوند گئی اور وہ پریشان ہوگئے۔ اس لیے نہیں کہ دو مظلوم انسانوں کی لاشیں برآمد ہوئی تھیں بلکہ اس لیے کے اس کی صفائی کون کون اور کیسے کیسے دے گا تاکہ اپنی اپنی نوکریاں بچائی جاسکیں۔ ٹیلی فون رکھنے کے بعد ایس ایچ اوپارٹی لیڈر کو ایک دوسرے کمرے میں لے گیا اور لاشوں کے بارے میں اطلاع دی۔ اس کے چہرے پر پریشانی صاف جھلک رہی تھی اور اسی حال میں وہ پارٹی صدر سے بار بار یہ کہہ رہا تھا: ’’میں نے ہمیشہ آپ کا ساتھ دیا ہے۔ آج آپ کو مجھے اس مصیبت سے نکالنا ہوگا۔‘‘
صدر صاحب نے بھی اسے یقین دلایا کہ ’’اگر وہ اس کے کہے پر چلتا رہے گا تو وہ اس کی ضرور مدد کرے گا۔‘‘
وہ دونوں لاشیں واقعی انجو اور انیتا کی تھیں۔ انجو کرن پھوٹنے سے قبل جب بیت الخلاء کے لیے دور میدان میں گئی تو ننھی انیتا گہری نیند میں سورہی تھی۔ انجو کے واپس آنے سے پہلے ہی جھگیاں توڑنے کا کام شروع ہوچکا تھا۔ سرکاری افسران اور پولیس لاؤڈ اسپیکر پر اعلان کرنے کے بعد اس بات سے مطمئن ہوگئے کہ جھگیاں خالی ہوچکی ہیں۔ ننھی انیتا گہری نیند میں اپنے بچپن کا لطف اٹھا رہی ہوگی، اس کا کسی کو خیال نہ تھا۔ مگر انجو نے واپس آتے وقت جب بڑھتے ہوئے بلڈوزر کو اپنی جھگی کی طرف آتے ہوئے دیکھا تو اس کی ممتا بے چین ہو اٹھی اور وہ چلاتے اور روتے ہوئے اپنی جھگی میں گھس کر اپنی بچی کو بچانے کی کوشش کرنے لگی۔ بڑھے ہوئے بلڈوزر کی آواز ٹوٹتی دیواروں اور گرتی ہوئی چھتوں کا شور اتنا زیادہ تھا کہ چلاتی اور بلبلاتی انجو کی آواز کوئی نہ سن سکا ۔ دو معصوم جانیں سرکاری لاپرواہی کی نذر ہوگئیں۔
بلبلاتے روتے سوراج کو رسمی دلاسہ دینے والوں کے علاوہ کوئی نہ بچا تھا۔ اس واقعے کی جانچ کے لیے ایک کمیشن مقرر کیا گیا۔ جس نے پانچ سال کے بعد یعنی سوراج کی موت کے ڈیڑھ سال گزر چکنے پر سرکار کو اپنی رپورٹ پیش کی، جس میں کہا گیا تھا : ’’یہ محض ایک حادثہ تھا اور اس کے لیے کسی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔‘‘ بستی ایک بار پھر سے آباد تھی۔