خوبیوں و کمزوریوں کی پہچان

بشریٰ ناہید ، اورنگ آباد

انسانی شخصیت کے دو پہلو ہیں، ایک ظاہری اور دوسرا باطنی۔ ظاہر کو دیکھ کر لوگ متاثر ہوتے ہیں لیکن باطنی خوبیاں کسی سے ملاقات یا معاملات کے وقت ہی لوگوں پر واضح ہوتی ہیں۔ ظاہر کا اثر عارضی ہوتا ہے جبکہ باطنی خوبیوں کا اثر پائیدار اور دیرپا ہوتا ہے۔ اور یہی باطنی خوبیاں فرد کو موثر یا مثالی شخصیت کا روپ دیتی ہیں۔

شخصیت کو مثالی اور پر اثر بنانے کے لیے سب سے پہلے اپنی شخصیت کے مثبت و منفی پہلوؤں کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ یہی وہ عمل ہے جس سے گزر کر شخصی ارتقاکی منزل تک پہنچا جاسکتا ہے۔ انسانی فطرت کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ اسے دوسروں کے عیب بہت جلد اور بہ آسانی نظر آجاتے ہیں مگر اپنی ذات میں موجود خامیاں دکھائی نہیں دیتیں۔ اگر ہم اپنے لیے مخلص ہیں تو انصاف کے ساتھ اپنی تمام خامیوں کی خود ہی نشاندہی کریں اور پھر مکمل توجہ کے ساتھ خامیوں سے دوری اور خوبیوں سے قربت پیدا کرنے میں لگ جائیں۔ اس طرح ہماری ذات میں تزکیہ کا عمل شروع ہوگا جسے عام اصطلاح میں شخصیت کا ارتقاء کہا جاتا ہے۔

انسانی شخصیت کی خوبیاں

سچائی، محنت و مشقت ، توجہ ویکسوئی، صفائی، چستی ومستعدی، مثبت رویہ، انصاف پسندی، ادب و احترام، قناعت، حیا، اخلاص، صبر وتحمل، خوش مزاجی، خدمت و محبت، ہمدردی، اعتدال و میانہ روی، وقت کا صحیح استعمال، نرمی و رحم دلی، کفایت شعاری، عفو ودرگزر، ایمانداری، امیدویقین، توکل علی اللہ کے علاوہ اور بھی بے شمار دیگر خوبیاں ہیں جن کاحصول ہمارا ہدف ہے۔

انسانی شخصیت کی کمزوریاں

جھوٹ، سستی وکاہلی، لاپرواہی، جھگڑالو طبیعت، بے انصافی، منفی سوچ، بے حیائی، بے صبری، عجلت، چڑچڑاپن، غیبت، بے مقصد گفتگو، وقت کا ضیاع، استہزاء، ہٹ دھرمی، خود پسندی، غرور و تکبر، حسد، شک، خوف، غصہ، بخل، بے وفائی، بے رحمی، تعصب و کینہ، خود غرضی، وعدہ خلافی، فضول خرچی، آرام پسندی وغیرہ انسانی شخصیت کی خامیاں اور کمزوریاں ہیں، جن پر قابو پانا مطلوب ہے۔

مندرجہ بالا خصوصیات کو سامنے رکھ کر سنجیدگی سے غور کریں کہ کونسی چیزیں ہمارے اندر ہیں اور کونسی نہیں ہیں۔ احتساب کرتے وقت پورے انصاف کے ساتھ اپنی غلطیوں کو محسوس کریں، خامیوں کا احساس ہوگا تب ہی دور کرنے کی خواہش اور کوشش بھی ہوگی۔ ورنہ وہ خامی آپ کی ذات سے چمٹی رہے گی۔ فرض کیجیے آپ کی طبیعت میں سستی و کاہلی ہے۔ آپ کہیں گی کہ میں تو سارا کام کرتی رہتی ہوں۔ لیکن جب آپ سنجیدگی سے غور کریں گی تو احساس ہوگا ۱۵ منٹ کے کام ہیں آپ سوا گھنٹہ لگا دیتی ہیں۔ اگر کام کرنے کی یہی رفتار رہی تو ظاہر ہے آپ سارا دن کاموں کو سمیٹنے میں ہی لگی رہیں گی۔ اس طرح آپ کو اپنی کمزوری کا احساس ہی نہیں ہوگا۔ اگر ایسا ہو تو آپ اسے دور کرنے کی جدوجہد بھی نہیں کریں گی۔ چنانچہ شخصیت کے ارتقاء اور تزکیۂ نفس کے لیے اپنی ذات کا پہچاننا جسے ’’عرفانِ ذات‘‘ کہا جاتا ہے ، نہایت کلیدی امر ہے۔ کہا گیا ہے:

من عرف نفسہ عرف ربہ۔

’’ جس نے اپنے آپ کو جان لیا اس نے اپنے رب کو جان لیا۔‘‘

عادتوں کے متعلق ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ ’’اگر وہ کسی کے اندر جڑ پکڑلیں تو ان کا دور کرنا بہت ہی دشوار ہوتا ہے۔‘‘ لیکن اگر آپ اپنی نگاہ اس کے شدید نقصان پر رکھیں تو ہر بری عادت سے آسانی کے ساتھ پیچھا چھڑا یا جاسکتا ہے۔قرآن و احادیث کی روشنی میں دیکھیں تو تمام اچھائیاںایمان کا حصہ ہیں اور خرابیاں ایمانی کمزوری کی علامت۔ تو جس کا ایمان قوی ہوگا وہ اپنے اندر تمام اچھائیوں کو جمع کرنے کی فکراور تگ ودو میں لگا رہے گا۔ اور جس کا ایمان ہی کمزور ہو تو وہ ان برائیوں کو نہ تو غلط مانے گا اور نہ ہی انہیں دور کرنے کی فکر کرے گا۔

کمزوریوں کے تدارک کے لیے یہاں مختصراً چند تدبیریں بیان کیجارہی ہیں جن پر عمل کرکے آپ کسی حد تک ان پر قابو پاکر خوبیوں میں اضافہ کرسکتے ہیں۔

(۱) اخلاص:صبح سے شام تک جو کام بھی انجام دیں اخلاصِ نیت کے ساتھ انجام دیں۔ ریاکاری کا شائبہ تک نہ آنے دیں۔ خلوصِ نیت کے ساتھ ارادہ کرنے پر بندے کو اس نیکی کا بھی ثواب مل جاتا ہے جو اس نے انجام نہیں دی اس کے برعکس ریا کاری کے ساتھ کیا گیا عمل خواہ وہ جہاد ہی کیوں نہ ہو بندے کو شہادت کے درجے سے محروم کردیتا ہے۔

(۲) اصلاح:اپنی ذات کی اصلاح کی آپ کو اتنی فکر ہو کہ اپنے والدین، بہن بھائی، شوہر، اولاد ہر کسی سے وقتاً فوقتاً پوچھتے رہا کریں کہ کوئی خامی یا خراب عادت ایسی ہے جو مجھ میں نہیں ہونی چاہیے؟ ساتھ ہی اپنے آپ کو یہ ٹارگٹ دیں کہ مجھے ان پندرہ دنوں میں ان خوبیوں کو پروان چڑھانا ہے اور ہر پندرہ دن بعد ایک نئی خوبی بطورِ ہدف لیں۔ اس طرح آپ کے اندر خوبیاں جمع ہوںگی تو خامیاں از خود رخصت ہوتی جائیں گی۔

(۳) صبر:کوئی آپ پر غصہ ہوتا ہو، برا بھلا کہتا ہو، اچھے کام میں نقص نکالتا ہو، اچھی عادتوں کا مذاق اڑاتا ہو غرض حالات کتنے ہی ناسازگار و ناخوشگوار ہوں، ان پر صبر کرتے رہیے۔ اس لیے کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

(۴) وقت کا صحیح استعمال:آپ کی شعوری کوشش یہ ہو کہ ہر اس عادت، مصروفیت اور ذرائع کو ترک کرنے میں لگیں، جو آپ کی شخصیت کو کمزور کرنے والے ہیں۔ اور وہی وقت ان کاموں میں لگائیں جو آپ کی شخصیت کو بہترین بنانے والے ہیں۔روزانہ رات کو ذاتی احتساب کرتے وقت ہی اگلے دن کی منصوبہ بندی کرلیں اور اگلے دن اس پر عمل بھی کریں ہر کام وقت پر انجام دیں۔ نمازیں وقت پر ادا کریں اس سے آپ کے ہر کام میں ڈسپلن پیدا ہوگا۔

(۵) مطالعہ:افسانوں و ناولوں کے مطالعے کے بجائے یاان کے ساتھ ساتھ، قرآن، احادیث، سیرت پاک، صحابہ و صحابیات، تاریخِ اسلام، اسلامی فقہ و اسلامی لٹریچر کے مطالعہ کا معمول بنائیں۔مطالعہ کا شوق پیدا کریں یہ روح کو تازگی عطا کرتا ہے صحیح فکر اورزندگی کو ایک رخ دیتا ہے۔ علم میں اضافہ کرتا ہے اور عمل پر ابھارتا ہے۔

(۶) سیکھنا سکھانا:ٹی وی سیریل دیکھنے اور پڑوسن کے ساتھ کسی کی غیبت و برائی کرنے سے بہتر یہ ہے کہ آپ وہی وقت کسی چیز کے سیکھنے اور سکھانے میں لگائیں۔ مثلاً اذکار و نماز کی صحت کے ساتھ ادائیگی، اس کو ترجمہ کے ساتھ یاد کرنا، اگر قرآن کی ۲۰ سورتیں یاد ہیں تو ۲۱ویں سورت یاد کرنا، گھر و محلہ کی خواتین کا ناظرہ قرآن صحیح کروانا، نیز قرآن کا ترجمہ و تفسیر، احادیث، اسلامی واقعات وغیرہ پڑھ کر سنانا، یا کوئی ہنر سیکھنا۔ آپ کو آتا ہو تو دوسروں کو بتانا۔

(۷) خوش اخلاقی:آپ کی دوست یا پڑوسن آپ کو ہر وقت برا بھلا کہہ کر تکلیف پہنچاتی ہے یا ہمیشہ روکھے لہجے میں بات کرتی ہے تب بھی آپ اس کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آتی رہیے۔ دل میں کدورت مت رکھئے۔ چھوٹا موٹا تحفہ دیجیے یہ محبت بڑھانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ خواہ پیالہ بھر شوربہ ہو یا چھوٹاسا رومال۔ آپ کی شعوری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ آپ کا رویہ کسی بھی صورت میں اس کے ساتھ منفی نہ ہو۔

(۸) حقوق کی ادائیگی:آپ چاہے ماں ہوں یا بہن، بیوی ہوں یا بیٹی ہر روپ میں ذمہ دار ہیں۔ آپ سے وابستہ ہر رشتہ آپ کی توجہ و خدمت چاہتا ہے۔ ان سے متعلق تمام ذمہ داریوں کو خندہ پیشانی کے ساتھ صحیح وقت پر ادا کریں۔ اس سلسلے میں کوتاہی و لاپرواہی نہ برتیں۔

(۹) دعا:خدا تعالیٰ سے ہمیشہ بھلائیوں کو اپنانے اور برائیوں کو ترک کرنے کی توفیق مانگا کریں۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو وہ چیزیں ضرور عطا فرماتا ہے جو وہ خلوص و یقین کے ساتھ طلب کرتے ہیں:

دل سے مانگے تو کیا نہیں ملتا

ہر دعا بے اثر نہیں ہوتی!!

ساتھ ہی عمل پر بھی توجہ دیں محض دعا سے شخصیت میں انقلاب برپا نہیں ہوگا۔ بندے کی محنت شامل ہو تو خدا کی مدد حاصل ہوتی ہے۔

یاد رکھئے! اگر آپ اپنی کمزوریوں و خامیوں پر محض جلتے کڑھتے رہے تو کبھی بھی ان سے پیچھا نہیں چھڑا پائیں گے۔ ہر انسان اپنے اندر کچھ خصوصیات و انفرادیت رکھتا ہے۔ اور اس کی انفرادیت کو چار چاند اس وقت لگ جاتے ہیں جب وہ اپنی خامیوں پر قابو پالیتا ہے اور خوبیوں کو مزید جلا بخشتا ہے۔ تب ایک مثالی، جاذب نظر، منفرد و پراثر شخصیت کے روپ میں ابھرتا ہے۔

سورہ البقرۃ میں ارشادِ ربانی ہے:

’’ہر ایک کے لیے ایک رخ ہے جس کی طرف وہ مڑتا ہے۔ پس تم بھلائیوں کی طرف سبقت کرو جہاں بھی تم ہو گے اللہ تمہیں پالے گا اس کی قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں۔‘‘

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں