وہ تھکی تھکی سی گھر میں داخل ہوئی۔ پتہ نہیں اس نے اس خوابوں کے سفر میں کیا کھویا تھا اور کیا پایا تھا۔ وہ سیدھے اپنے کمرے میں آئی اور بیڈ پر گر کر بے تحاشا رونے لگی۔ کل تک دنیا اسے بہت خوشگوار لگ رہی تھی وہ سارے گھر میں اڑی اڑی پھر رہی تھی اور خود کو دنیا کی خوش قسمت ترین لڑکی سمجھ رہی تھی۔ اس کے ذہن میں ایک ایک کرکے ماضی کی فلمیں چلنے لگیں۔
وہ یعنی تحریم مراد علی کالج کی ہر دلعزیز طالبہ تھی جسے اللہ نے حسن سے نوازا تھا اور اسے اس کا احساس بھی بہت تھا۔ اس نے جیسے ہی اپنا ماسٹرز مکمل کیا اس کے والدین اس کی شادی کی فکر میں پڑگئے اور اس کے لیے ایک سے بڑھ کر ایک رشتے آنے لگے۔ ایک دن اس کے پاس اس کی امی چند لڑکوں کی تصاویر لے کر آئیں اور کہا: دیکھو بیٹا! یہ چند لڑکوں کی تصاویر ہیں اور یہ ہر لحاظ سے اچھے ہیں۔ مجھے اور تمہارے ابو کو تو پسند ہیں ان میں جو بھی تمہیں پسند آئے بتادینا۔ اس نے بہت شوق سے تصاویر اٹھائیں اور ایک کے بعد ایک تصویر مع کوائف دیکھتے ہوئے ہر ایک میں نقص نکالتی گئی۔ کسی کے لیے کہتی رنگ دبتا ہوا ہے ، کسی کے لیے کہتی یہ تو صرف بی اے پاس ہے اور کسی کے لیے کہتی چہرا بہت کرخت ہے۔ ماں نے اس کے تمام کمنٹس صبر سے سنے اور کہا تو بس اتنا کہ ’’اللہ کی تخلیق پر کسی کو مذاق اڑانے کا کوئی حق نہیں ہے، بہرحال ہم تمہاری پسند کے بغیر کچھ نہیں کریں گے۔ زندگی تمھیں گزارنی ہے۔ دیکھتے ہیں کوئی دوسرا رشتہ…‘‘
لیکن اس نصیحت کا اس پر کہاں اثر تھا، اسے تو ایک آئیڈیل کی تلاش تھی، جو بہت زیادہ امیر ہو اور جو اس کا دنیا گھومنے کا خواب پورا کرے اور ساتھ ساتھ ہینڈسم ہو، چارمنگ ہو، گڈ لکنگ ہو، خوش مزاج ہو، براڈ مائنڈڈ ہو ، دقیانوسی خیالات کا مالک نہ ہو۔ پھر بہت دن تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ اس کے لیے کئی اچھے اچھے رشتے آئے۔ اور اس نے ہر ایک کو اپنے آئڈیل پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے ریجیکٹ کردیا کیونکہ اسے تو خوب سے خوب تر کی تلاش تھی۔
وہ آنکھیں موندے تصورات کی دنیا میں کھوئی ہوئی تھی۔ اس کے ہونٹ آپ ہی آپ مسکرا رہے تھے تبھی کسی نے آکر اسے ڈرا دیا۔ وہ اچھل پڑی دیکھا تو سامنے اس کی خالہ زاد بہن ربیعہ تھی۔ ’’اسٹوپڈ تم نے تو مجھے ڈرا دیا۔‘‘ اس پر تکیہ پھینکتے ہوئے اس نے کہا۔ تو ربیعہ نے جواب دیا: ’’ہاں بھئی! تم خوابوں کی نگری میں سفر کررہی تھیں۔ تمہیں ہوش کی دنیا میں لانا بہت ضروری تھا۔ ویسے سنا ہے کہ تمہاری شادی خانہ آبادی کی مہم چل رہی ہے۔ تحریم نے کہا: ہاں تم نے ٹھیک سنا ہے۔ ربیعہ نے کہا: ویسے کس بے چارے کی شامت آنے والی ہے۔ ’’ابھی کہاں کسی کی شامت آئی ہے کوئی دل کو اچھا لگتا ہی نہیں اور رابی تم تو جانتی ہو ناکہ میرا آئیڈیل کیا ہے۔ بس وہ مجھے مل جائے تو میں فوراً ہاں کردوں گی۔‘‘
ربیعہ نے اسے سمجھانے کے انداز میں کہا: ’’لیکن تحریک تم اپنے آئیڈیل کی تلاش میں کتنے رشتوں کو ٹھکراؤگی؟ جہاں تک میرا خیال ہے جو شخص اعلیٰ کردار کا ہو اور زندگی کی ضرورتوں کو مہیا کرنے والا ہو اس کے ساتھ شادی کرلینی چاہیے کہ ہمارا دین بھی یہی کہتا ہے کہ رشتہ کی بنیاد حسنِ اخلاق پر ہونی چاہیے۔‘‘
’’تمہارے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ میں جو اتنی خوبصورت ہوں کسی بھی کم صورت یا بدصورت انسان سے شادی کرلوں جس کی انکم صرف گزارے لائق ہو اور اپنے سارے خوابوں کو رہن رکھ دوں۔‘‘اس نے تیز آواز میں کہا۔
’’تحریم بات سمجھنے کی کوشش کرو۔ حسن، دولت، جائیداد یہ سب چیزیں عارضی ہیں۔ اصل چیز انسان کا اخلاق و کردار ہوتا ہے۔ اس کی انسانیت ہوتی ہے۔ اس کے بغیر تمام مال و متاع بے کار ہوتا ہے۔ فرض کرو اگر تمہیں بے پناہ امیر اور خوبصورت لڑکا مل جاتا ہے لیکن وہ اخلاقی طور پر کمزور ہو تو تم کیا کرو گی؟‘‘
’’میں اتنے دور کی نہیں سوچتی اور ویسے بھی جہاں دولت ہو وہاں انسان کے بہت سے عیوب چھپ جاتے ہیں۔ خیر چھوڑو اس بات کو اب تم بتاؤ کہ کیا تم سچ مچ اپنے اس پھٹیچر تایا زاد سے شادی کررہی ہو؟‘‘
رابعہ نے سنجیدگی سے جواب دیا:’’تم پہلے تصحیح کرلو وہ کالج میں ایک لیکچرار ہیں۔ او کے سوری ویسے رابی تم بھی بڑی دقیانوسی نکلیں۔ ماں باپ نے جس کھونٹے سے باندھا بندھ گئیں۔ حالانکہ تمہارے لیے اس سے اچھے رشتے آئے تھے۔‘‘ تحریم نے سنجیدگی سے کہا: اس میں دقیانوسیت کہاں سے آگئی؟ اور والدین کبھی اپنے بچوں کا برا نہیں چاہتے۔ ہم ان کی پسند کو اپنا کر انہیں خوشی دے دیں تو کیا حرج ہے۔ اور یہ بات میں تمہیں بتادوں کہ امی ابو نے مجھ سے میری پسند پوچھی تھی اور میں نے اپنی پسند سے ہی ظفر کے لیے ہاں کی ہے۔‘‘ رابعہ نے وضاحت کی۔ خیر چھوڑو ہم بھی کس خشک ٹاپک پر بات کرنے لگے چلو امی نے کھانا لگادیا ہوگا، چل کر کھاتے ہیں۔
آخر کار تحریم مراد علی کی دلی مراد برآئی۔ اس کے لیے اس کی پسند کا ایک رشتہ آہی گیا۔ لڑکا خوبصورت تو تھا ہی ساتھ میں بہت مالدار بھی تھا۔ اس نے دل و جان سے ہاں کی۔ اس دن وہ رشتہ طے ہوجانے کی خوشی میں اڑی اڑی پھر رہی تھی۔ انہی دنوں اس کے ہونے والے منگیتر فاران صدیقی کا اس کے لیے فون آیا اور وہ اس سے کہیں اکیلے میں ملنے کی فرمائش کررہا تھا۔ تحریم کا دل بلیوں اچھلنے لگا اس نے فوراً ہامی بھرلی وقت اور جگہ بھی طے ہوگئی۔ اگلے دن اس نے زبردست انداز میں تیار کی اور اپنے حسن کو دو آتشہ بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی وہ اپنی امی سے سہیلی کے گھر جانے کا بہانہ کرکے فاران سے ملنے آگئی۔ اسے اس نے صرف تصویر میں دیکھا تھا اور اب سامنے دیکھ رہی تھی تو لگ رہا تھا کہ وہ تصویر سے کہیں زیادہ ہینڈسم اور گڈ لکنگ ہے اسے خود پر ناز ہونے لگا کہ یہ شاندار پرسنالٹی کا مالک اس کا ہونے والا شوہر ہے۔ پھر دونوں ایک ٹیبل پر آکر بیٹھ گئے کہ فاران نے اس سے اچانک پوچھا: کیا آپ اپنی امی کو بتا کر آئی ہیں کہ آپ مجھ سے ملنے جارہی ہیں؟ تو اس نے نفی میں جواب دیا۔ فاران نے کہا: سنا ہے کہ آپ نے کئی رشتے ٹھکرادیے ہیں، صرف اپنے آئڈیل کی تلاش میں۔ تحریم کو اس موضوع پر بات کرنے سے گھبراہٹ ہورہی تھی۔ وہ موضوع بدلنا چاہتی تھی۔ لیکن فاران گھوم پھر کر اسی موضوع پر آجاتا تھا۔ پھر فاران نے سنجیدگی سے کہا: دیکھئے مس تحریم مراد علی صاحبہ میں آپ سے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں محسوس کررہا ہوں کہ آپ میری آئیڈیل کے خاکے پر پوری نہیں اتر رہی ہیں۔ مجھے تو خوبصورت لڑکی سے زیادہ خوب سیرت لڑکی کی تلاش ہے، جو اسلامی روایات کی پاسدار ہو۔ پتہ ہے میں نے آج یہاں آپ کو آپ کا امتحان لینے کے لیے بلایا تھا۔ میں سمجھ رہا تھا کہ آپ یہاں آنے سے انکا رکردیں گی، اس لیے کہ میں ابھی تک آپ کے لیے نامحرم ہوں مگر آپ نے ایسا نہیںکیا بلکہ میرے ایک بار بلانے پر ہی بن سنور کر اپنی والدہ سے جھوٹ بول کر آگئیں۔ اب میں مستقبل میں آپ پر کس طرح بھروسہ کرسکتا ہوں؟ معاف کیجیے گا کہ میں یہ رشتہ ختم کرتا ہوں۔ وہ اسے آئینہ دکھا رہا تھا اور اس آئینے میں اسے اپنی شکل بڑی مکروہ نظر آرہی تھی۔ وہ اٹھ کر جارہا تھا اور جاتے جاتے یہ کہنا بھی نہیں بھولا:’’ہر انسان کو صرف دولت یا خوبصورتی کے معیار پر پسند مت کیجیے۔ اس سے بھی آگے ایک چیز ہوتی ہے وہ ہے حسنِ اخلاق اور انسانیت۔ امید ہے کہ آپ یہ بات یاد رکھیں گی۔ اللہ حافظ‘‘
اس نے ماضی کی اس کتاب کو بند کیا۔ اسے ایک اچھا سبق مل گیا تھا، ایسا لگ رہا تھا کہ کسی خواب سے بیدار ہوئی ہے۔ اس نے دل میں یہ مصمم ارادہ کرلیا کہ وہ ان بے کار کے خوابو ںسے دامن چھڑالے گی جو ذلت و رسوائی کے علاوہ کچھ نہیں دیتے۔