خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان -وجوہ اور سدباب

عافیہ سرور

زندگی کوشش اور جدوجہد سے عبارت ہے اور زندہ دلی کا نام ہے جو مایوسی اور بے حوصلگی کو بار بار شکست دے کر مسکراتی ہے اور دوبارہ اپنا سفر شروع کرلیتی ہے، جبکہ معاشرہ افراد کے مجموعے کا نام ہے۔ سمتِ سفر درست ہو، عزم و ارادہ ساتھ ہو تو معاشرے سنورتے ہیں، بگڑتے نہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ معاشرہ اپنا سفر بگاڑ کی طرف جاری رکھے ہوئے ہے۔ معاشرے کو بنانے اور سنوارنے والے ہی اپنے مقصدِ حیات سے آشنا نہیں، غیر اخلاقی طاقتیں معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں۔ فرد ملت کی تقدیر کا ستارہ بننے کے بجائے بے راہ روی، مایوسی، بددلی اور بے حوصلگی کی دلدل میں پھنس چکا ہے۔ عزم، ارادے اور جدوجہد کی طرف راغب کرنے والے لوگ کم ہیں۔ گرتے ہوئے کو تھامنا خال خال نظر آتا ہے۔ نتیجتاً اپنی زندگیوں کو اپنے ہاتھوں ختم کرنے کا تناسب بڑھتا چلا جارہا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ خود کشی کا رجحان جو دن بہ دن ہمارے معاشرے میں فروغ پا رہا ہے۔
تعجب یہ ہے کہ عموماً مرد خودکشی بے روزگاری، غربت اور افلاس کے باعث کررہے ہیں تو عورتیں بھوک و افلاس، گھریلو تنازعات، بڑھتی ہوئی مہنگائی، احساسِ محرومی و عدم تحفظ کے سبب اپنے آپ کو حسرت و یاس کی تصویر بنارہی ہیں اور یہ تناسب روز بروز بڑھ رہا ہے۔
گھریلو جھگڑے، بے روزگاری، روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی سے گھریلو مسائل اور کشیدگی، محبت میں ناکامی، غربت و افلاس، والدین کی ڈانٹ ڈپٹ برداشت نہ کرنا وہ اسباب ہیں جن کے سبب اکثر لوگ زندگی سے لڑنے کے بجائے اپنے آپ ہی موت کو گلے لگانا پسند کرلیتے ہیں۔
دوسری طرف ایسی خواتین کی بھی کمی نہیں جو ذہنی و جسمانی تشدد سے ہراساں ہیں یا جنہیں جنسی تشدد کا شکار ہونا پڑا۔ ہر ماہ ایسی خبریں بھی آتی ہیں، ان خبروں کی وجوہ میں بھی گھریلو مسائل، جائداد کے جھگڑے، پرانی دشمنیاں اہم اسباب ہیں۔
زندگی بیش قیمت سرمایہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہر ذی روح کو عطا کیاہے اور اس کی ڈور اس نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے۔ انسان کی عظمت کا تقاضہ یہی ہے کہ وہ اس زندگی کو اس کی نعمت سمجھ کر اور اس کی پریشانیوں، آزمائشوں اور مصیبتوں کو بھی اللہ کی طرف سے مقرر کردہ آزمائش سمجھ کر برداشت کرے اور زندگی کے دھارے کو بدلنے کی جدوجہد میں مصروف رہے۔ جو زندگی کی اس جدوجہد اور پریشانیوں سے جنگ لڑنے میں شکست کھا جاتے ہیں وہ انسان سے کم درجے کے لوگ ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو عقل اور جدوجہد کی جو صلاحیت دی ہے، وہ اس کے استعمال سے قاصر رہتے ہیں۔
زندگی کے سلسلے میں انسان کا غلط تصور بھی ایک بڑی وجہ ہے جو اسے خود کشی کی طرف مائل کرتی ہے۔ اگر انسان اس دنیا کی زندگی کوہی سب کچھ تصور کرنے لگے اور اس کے بعد کی زندگی سے ناواقف ہو تو ظاہر ہے وہ یہاں عیش و آرام کے مقابلے میں پریشانیوں کو کیوں برداشت کرے۔انسانی سوچ کی یہی وہ بنیادی خامی ہے جو انسان کو خود کشی کی طرف مائل کرتی ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ معاشرہ میں خودکشی کے رحجان کو ختم کرنے کے لیے زندگی کے صحیح تصور کو عام کیا جائے اور انسانوں کو بتایا جائے کہ یہ زندگی امتحان گاہ ہی ہے اور اس زندگی میں ہم جو کچھ کرتے ہیں اس کا اچھا یا برا بدلہ اس کے بعد کی زندگی میں ملنا ہے۔ اور یہ کہ اس زندگی کا خاتمہ دراصل زندگی کا خاتمہ نہیںبلکہ ایک نئی زندگی کی ابتدا ہے۔
سد باب
یہ بات واضح ہے کہ خود کشی کے پیچھے سماجی، معاشی اور فکری اسباب ہیں۔ اگر ہم سدباب کے بارے میں سوچتے ہوئے محض سماجی و معاشرتی اسباب کے ازالے کی کوشش کریں تو کامیابی مشکل ہے۔ حالانکہ یہ بات کافی اہم ہے کہ سماجی و معاشرتی اسباب ہی انسان کو خود کشی کے لیے مجبور کرتے ہیں، لیکن اگر فکر مضبوط اور درست ہو تو یہ اسباب انسان کو خود کشی تک لے جانے میں کامیاب نہ ہوسکیں گے۔
چنانچہ ہم پورے وثوق اور اطمینان کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اول درجہ میں انسانی معاشرہ میں زندگی کا صحیح تصور عام کیا جائے اور پھر ان سماجی و معاشرتی اسباب کے ازالے کی بھی جدوجہدہو جو انسان کو اس ناپسندیدہ اور معاشرتی اعتبار سے نقصان دہ عمل کی طرف لے جاتے ہیں۔ ہماری رائے میں معاشرتی و سماجی سطح پر اس رجحان کو روکنے کے لیے درج ذیل مساعی کی جانی چاہئیں:
(۱) ذرائع ابلاغ کے ذریعے عوام میں اس آگہی مہم کو چلایا جائے کہ خود کشی مسائل کا حل نہیں۔ زندگی کے حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا نام ہے۔
(۲) یہ شعور پیدا کیا جائے کہ خودکشی حرام موت ہے، جو اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ ہے۔
(۳) میڈیا میں ڈراموں اور فلموں کا گلیمر اور تشدد کے واقعات معاشرے کے غریب اور محروم مردوں اور عورتوں میں مزید احساسِ محرومی پیدا کرتے ہیں۔ لہٰذا گلیمر کے بجائے حقائق دکھائے جائیں، تشدد کی عکاسی کے بجائے بہتر رویوں کی ترغیب دی جائے۔
(۴) بڑھتی ہوئی مہنگائی کو روکنے کے لیے فلاحی و سماجی بہبود کا انتظام کیا جائے اور بے روزگاری کے خاتمے کے لیے منصوبہ بند جدوجہد ہو۔
(۵) تعلیمی نظام میں پرائمری سطح سے ہی استاد اور نصاب تعلیم کے ذریعے نئی نسل میں قوتِ برداشت، محنت اور مسلسل محنت اور حقوق و فرائض سے آگہی کی تعلیم دی جائے۔
(۶) جہالت کے خاتمے کے لیے سرکاری و نجی تعلیمی سیکٹر واضح اہداف کے ساتھ کام کریں۔
(۷) عورتوں کی غربت و افلاس کو دور کرنے اور ان کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے حکومتی ادارے باقاعدہ جدوجہد کریں اور غریب خواتین کی خاص طور پر مالی مدد کا انتظار ہو۔
(۸)سیاسی، سماجی اور معاشرتی انصاف فراہم کرنے والے ادارے (جہاں اگرچہ مردوں کو بھی انصاف نہیں ملتا) عورت کو معاشرے کا نصف سمجھتے ہوئے اس کی حیثیت اور مقام کو پہچانیں اور اسے جلد اور فوری انصاف فراہم کریں۔
(۹) علم و آگہی اور اچھے اخلاقی رویوں کے ساتھ خاندان کے افراد ایک دوسرے کا سہارا بنیں تاکہ انھیں مایوسی اور خود کشی سے بچایا جائے۔
(۱۰) خود کشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکنے کے لیے ریاستی سطح پر اقدامات کے ساتھ ساتھ فلاح و بہبود کے اداروں، مذہبی تنظیموں، علمائے کرام اور مشائخ اور سوشل ورکرز کو عوامی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ انسانی جانوں کو بچا کر ہر فرد کو ملت کے مقدر کا ستارہ بنایا جائے۔
——

 

 

 

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں