خودکشی کا عالمی رُجحان

قدسیہ ملک

عالمی اعدادوشمار کے مطابق ہردس منٹ بعد اپنی زِندگی سے مایوس ہوکر دُنیا میں ایک شخص خودکشی کرتا ہے جس میں عمر،رنگ،نسل وجنس کی کوئی قید نہیں ہے۔

اقوام متحدہ کے اِدارے یونی سیف کی رِپورٹ کے مطابق ہر پانچ منٹ بعدنوعمر لڑکے و لڑکیاں امریکا میں بہ آسانی اقدام خودکشی کرکے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیتے ہیں۔اعدادوشمار کے مطابق 40%افراد خواب آورادویات کی بڑی تعداد خون میں شامل کرکے اپنی زندگی کا خاتمہ کرتے ہیں۔اس کے علاوہ زہریلے انجکشن کے ذریعے،ٹرین کے ذریعے، دریامیں کود کر، بلندی سے گرکر،پھانسی کے پھندے کے ذریعے،پستول کے ذریعے اورڈاکٹری نسخے کے برعکس اِنتہائی کثیرتعداد میں ممنوعہ ادویات کا اِستعمال کرکے بھی اپنی زِندگی کا خاتمہ کرلیاجاتاہے۔

لوگ خودکشی کیوں کرتے ہیں؟اوراس کے پیچھے ایسے کیامحرکات ہوتے ہیں جن کے سبب لوگ زِندگی کے بجائے موت کو ترجیح دیتے ہیں۔

ماہرین نفسیات کاکہناہے کہ’’اِنسانی فطرت میں ہے کہ اگراِنسان ناکام ہوجائے تووہ اُداس ہوجاتا ہے،لیکن اگراُداسی اس حد تک بڑھ جائے کہ اِنسان اپنی زِندگی ختم کرکے اپنی ذات کو نقصان پہنچانے کے درپے ہوجائے تویہ حد درجہ مایوس، ذہنی اورنفسیاتی بیماری کو ظاہرکرتی ہے۔کیوں کہ حد درجہ مایوسی زِندگی کو ختم کرنے پر اُکساتی ہے۔ ناکامی اور رنجشوں کی صورت میں شدت پسند اورنفسیاتی عوارِض میں مبتلا لوگ ہی زِندگی کے مصائب سے فرار کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔‘‘

ظاہرہے یہ وہ لوگ ہیں جو نہ تواللہ پرایمان رکھتے ہیں نہ آخرت کے دن پر۔اورزِندگی کے سلسلہ میں ان کا نظریہ ’’عیش وعشرت‘‘کے علاوہ کچھ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عیش کی توقع میں جب تکلیفیں اورکامیابی کی توقع میں ناکامی ملتی ہے تو اس طرح کے لوگ خود کو سنبھال نہیں پاتے اورزِندگی کے خاتمہ پر ہی آمادہ ہوجاتے ہیں۔حالاںکہ اگرزندگی بعد موت کا تصور ان کے ذہنوں میں ہوتاتووہ مایوس ہونے کے بجائے جدوجہد کی نئی منزلوں کی طرف قدم اُٹھاتے۔

خود کشی کے اس رُجحان اور اس میں اِضافہ کا ایک بنیادی سبب مادہ پرستانہ زندگی کا تصوربھی ہے جس کی جڑیں خودکشی سے جاکر ملتی ہیں اور یہ وہاں ہوتا ہے، جہاں زندگی کا نظریہ محض’’عیش وعشرت‘‘ ہوتاہے۔ جہاں نظریۂ حیات اس سے بلندہو وہاں خودکشی کا رُجحان بھی واضح طورپر نظرنہیں آتا۔خودکشی کے سلسلہ کے جو عالمی اعداد و شمار اقوام متحدہ کے اِدارے یونیسیف نے جاری کیے اُنھیں دیکھ کر معلوم ہوتاہے کہ مسلم ممالک خاص طورپرعرب ممالک میں خودکشی کی شرح اِنتہائی حدتک معمولی ہے۔جب کہ یوروپی ممالک جواپنی ترقی اورخوش حالی میں اِنتہائی عروج پر ہیں اوردُنیا کی قیادت کررہے ہیں وہ خودکشی کی شرح میں بھی’’قائد‘‘ہیں۔

اس سلسلہ کے عالمی اعدادوشمار پر نظرڈالنے سے ہمارایہ تصوربھی ہوا ہوجاتاہے کہ خودکشی زیادہ تر خواتین میں عام ہے۔یہ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ مردوں کے مقابلے خواتین میںیہ شرح کئی گناکم ہے۔ یہاں تک کہ خودہندوستان اوریوروپی ممالک میں بھی جہاں یہ شرح کافی زیادہ ہے۔خواتین میں خودکشی کی شرح مردوں کے مقابلے کم کیوں ہے اس سلسلہ میں ایک ماہرنفسیات خاتون کاخیال ہے کہ:

’’خواتین اگرچہ جذباتی ہوتی ہیں مگر وہ چیزوں کو اِتنی گہرائی میں جاکر نہیں دیکھتیں جتنی گہرائی میں جاکرمرددیکھتے ہیں۔ایک اوربات یہ ہے کہ خواتین جتنی جلدی جذبات میں آجاتی ہیں اتنی ہی جلدی وہ نارمل بھی ہوجاتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ خودکشی جیسی اِنتہائی چیزکو اختیارنسبتاًکم کرتی ہیں۔‘‘

خودکشی کا عالمی رُجحان

نمبرشمار      ممالک          سال             مرد          خواتین

۱             ہندوستان         98             12.2          9.1

۲             اِسرائیل          97             10.5           2.6

۳              ایران              –               0.3           0.1

۴              کویت              –               1.6           1.6

۵          سری لنکا             –              44.6         16.8

۶            مصر                –               0.1           0.0

۷           روس              2000           63.6          9.6

۸           ہنگری              01               47.1       13.0

۹           جاپان               99               36.5       14.1

۱۰      قزاکستان              99              46.4         8.6

۱۱        لاٹیویا              2000             56.6       11.9

۱۲       لتھوانیا              2000             75.6       16.1

۱۳ روسی فیڈریشن         2000              70.6       11.9

۱۴     سالوینیا                 99                47.3       13.4

۱۵   سوئٹزرلینڈ               99                26.5       10.0

۱۶   تاجکستان                 99                 4.2         1.6

۱۷    یوکے                    99               11.8         3.3

۱۸    یوایس                    99               17.6         4.1

۱۹    یوکرین                 2000             52.1        10.0

۲۰     سیریا                   85                 0.2          0.0

۲۱    اِسٹونیا                  2000             45.8       11.9

۲۲    فن لینڈ                   2000             34.6       10.9

۲۳    فرانس                    99                26.1        9.4

خودکشی کا رُجحان اُنھی معاشروں میں زیادہ ہے جہاں لوگوں کی سماجی زِندگی اِنتشار اوربدامنی کا شکارہے۔متحد اورمستحکم سماج میں یہ بیماری فروغ نہیں پاسکتی جب کہ خودغرض اوراِنتشار کے شکار معاشرے میں اِنسان کو جذباتی سہارا میسرنہیں آسکتا۔ غم بانٹنے اورسہارادینے والے لوگ نہیں ہوتے اور سخت حالات سے جنگ میں اِنسان تنہاپڑجاتا ہے۔ ایسے میں ناکامی اورشکست کی صورت میں وہ لوگ موت کو گلے لگانے ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔ فیملی کونسلر ریتااُپادھیائے کا کہنا ہے کہ’’آج کے دورمیں ہراِنسان اکیلا سا ہوگیا ہے۔

روزگار کے لیے دور دراز میں رہنا اور وہاں کی پریشانیوں کو برداشت کرنا اور مقابلہ کرنااب کیلے ہی ہوتاہے۔ پھر سماج میں اِنسانوں کے رِشتے اورتعلقات بھی پہلے کی طرح مضبوط اورمستحکم نہیں رہے۔جب کہ اِسٹریس بڑھ گیاہے۔‘‘

وہ مزیدکہتی ہیں: ’’نیوکلیئرفیملی (تنہافیملی) کے مقابلے میںمشترک خاندان زیادہ بہترہے کیوں کہ وہاں اِسٹریس اورپریشانی کی صورت میں سہارا دینے والے لوگ مل جاتے ہیں جب کہ آج کی شہری زِندگی میں تویہ نایاب ہے۔‘‘

ماہرسماجیات ڈاکٹر ساجد کی رائے کے مطابق ’’اِنسانی فطرت میں نرمی اورشدت پسندی کی بنیادی اور اہم وجہ معاشرے کے بہت سے عناصر ہوتے ہیں۔ اگر ایک اِنسان مایوسی کی اِنتہاکو پہنچ کراپنی زندگی کا خاتمہ کررہاہے توایسی صورت میں معاشرے کا عمومی رُجحان جاننے اوردرست کرنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ معاشرے میں موجودافراد کے رویوں ہی سے معاشرہ تشکیل پاتاہے۔یہی وجہ ہے کہ شدت پسندی اوراِنتہاپسندی کے باعث آج کا معاشرہ خودکشیوں کی طرف مائل ہے۔‘‘

اِس سلسلہ میں یہ کہاجاسکتاہے کہ خودکشی ایک ذاتی گناہ ہے،ایک فعل ہے جس کی ذمہ داری حکومت وقت سے زیادہ زندگی سے مایوس فرد پر عاید ہوگی، کیوںکہ بھوک سے مرجانے والے فرد کی ذمہ دار تو حکومت ہے لیکن اِقتصادی بدحالی یا معاشی تنگی سے تنگ آکرزندگی کا خاتمہ کرنے کا ذمہ دارخود وہ فرد ہے،اس طرح تو معاشرے میںجرائم کا دروازہ کھل جائے گا اورلوگ گناہ کرنے کے بعد حکومت کو موردِاِلزام ٹھہرائیںگے،لیکن جس نے خودکشی جیساحرام فعل کیا وہ خود اس کامرتکب ہے۔

’’اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میںبارہااس بات کا ذکر کیاہے کہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو،اس کی رحمت سے توبس کافرہی نااُمیدہوتے ہیں۔ اِسلامی تعلیمات کے مطابق مشکل وقت اورتنگی کی حالت میں صبر کے ساتھ رب کی رحمت کے سایے میں پناہ لے کر مشکلات و مصائب کا مقابلہ کرناچاہیے۔ان مشکلات کو رب کی رضاکے لیے برداشت کرناہی اوالعزم لوگوں کا خاصہ ہواکرتاہے۔

خودکشی حقیقت میں زندگی کا خاتمہ نہیں بلکہ مہلت عمل کو اپنے ہاتھوں ختم کرناہے۔جس زندگی کی مصیبتوں اورپریشانیوں سے گھبراکر ہم خودکشی کا سوچتے ہیں اگروہ مرنے کے بعد بھی ختم نہ ہوئیں بلکہ مزید بڑھ گئیں توکیاہوگا۔اسی لیے شاعر نے کہا۔ع

اب توگھبراکے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیںگے

مرکے بھی چین نہ پایاتوکدھرجائیںگے

یعنی ماہرین کی رائے کی روشنی میں ہم یہ بات بہ آسانی کہہ سکتے ہیں کہ چاہے جتنے بھی برے حالات آئیں خودکشی جیسافعل کسی صورت میں جائز نہیں ہوسکتا،اورذمہ داری ہر صورت میں خودکشی جیسا فعل کرنے والے پر ہی عایدہوگی۔اس لیے شرعی طورپر وہ خدا کے ہاں بھی گناہ گارٹھہرااورآئینی وقانونی طورپر بھی اس نے خودکشی جیسافعل کرکے اپنے آپ کو معاشرے میں مجرم کی حیثیت سے پیش کیا،جبکہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں وہ خائن اور بدعہد ٹھہرا کہ اس نے اللہ کی عطاء کردہ زندہ کی حفاظت نہیں کی اور یہ کہ اس نے اللہ پر توکل و بھروسہ کرنے کے بجائے، جو اصل میں مشکل کیا ہے اور جس کے ہاتھ میں سب کچھ ہے، اس کی تقدیر سے نکل بھاگنے کی کوشش کی۔ ایسے لوگوں کو کیا سزا ہوگی یہ رسولؐ نے واضح طور پر بتادیاہے۔

——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں