بیج میں مکمل درخت پوشیدہ ہوتا ہے۔ پھل، پھول، تنا، شاخیں غرض سبھی کچھ اس ذرا سے بیج میں مخفی ہے۔ ایک سرسری نظر سے دیکھنے والے کی سمجھ میں نہیں آسکتا کہ اس ننھے سے بیج سے اتنا تناور درخت کیوں کر پیدا ہوسکتا ہے۔ وہ شخص نہایت بدقسمت ہے جس کے پاس اعلی قسم کا بیج ہو، زمین اور آب و ہوا موافق ہو۔
نگہداشت اور تربیت کا پورا پورا انتظام کر سکتا ہو، پھر محض اپنی نادانی اور بے خبری سے اس بیج سے ایسا مفید درخت حاصل نہ کرے۔ ایک سمجھ دار اور دور اندیش شخص جو اس بیج کی خوبیوں سے آگاہ ہے اور جو اس کی قدر وقیمت جانتا ہے، اسے بوتا ہے، دن رات اس کی رکھوالی کرتا اور انجام کار اپنی محنت کا پھل پاتا ہے۔ وہ نادان شخص جس نے اسے بیکار شے سمجھ کر یوں ہی ضائع کر دیا تھا۔ جب اس قدر عظیم الشان او رمفید خلائق درخت کو دیکھتا ہے، تو حیران رہ جاتا ہے اور دست تاسف ملتا ہے کہ ہائے بدبختی! میں نے کیوں اس بیج سے فائدہ نہ اٹھایا۔ اگر میں نے اسے بویا ہوتا، تو میں بھی آج اس شخص کی طرح اس کے پھل سے، اس کے پھولوں سے، اس کے سائے اور لکڑی سے متمتع ہوتا۔ میں اکیلا نہیں بلکہ میری آیندہ نسلیں بھی اس سے فائدہ اٹھاتیں۔ لیکن اب جب کہ وقت ہاتھ سے نکل چکا تو کیا ہوسکتا ہے۔
ہم نے ادھر ایک ایسے بیج کی مثال بیان کی ہے جس کی صحیح تربیت سے انسان غیر معمولی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ در حقیقت دنیا کی باقی تمام چیزوں کا بھی یہی حال ہے۔ اگر ہم کسی شے کا صحیح استعمال جانتے ہیں تو ہم اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، ورنہ نہیں۔ دور کیوں جائیں، انسان ہی کو لے لو جس کی اپنی مثال بعینہٖ ایک اعلیٰ بیج کی سی ہے۔ اگر اسے صحیح تربیت دی گئی تو یہ ایسی شان پیدا کرے گا کہ اسے دیکھ کر ایک عالم محو حیرت رہ جائے گا۔ مشکل صرف ایک ہے اور وہ یہی کہ ہم اپنی قدر و قیمت نہیں جانتے۔ ہم نہیں جانتے کہ ہم کیا ہیں اور کیا کچھ کرسکتے ہیں۔ پست خیالی اور دون ہمتی ہمیشہ انسان کی سد راہ رہی ہے اور بڑے بڑے ہونہار انہی کا شکارہوکر رہ گئے ہیں۔ وہ اپنے سامنے بلند مقاصد تو رکھ لیتے ہیں لیکن جب مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، تو سب کچھ چھوڑ کر ایک طرف ہو بیٹھتے ہیں اور گوشہ گم نامی میں زندگی گزار دیتے ہیں۔ انہیں اپنی طاقت پر بھروسا نہیں ہوتا۔ انھیں اس بات کا یقین ہی نہیں آتا کہ استقلال اور پیہم کوشش مخالفت کی سخت سے سخت چٹان کو چور چور کرسکتی ہے۔ لوہے کو پگھلا سکتی اور پانی کو پھاڑ سکتی ہے۔ ایسے مایوس مریضوں کا بہتر علاج تاریخ ہے۔ ان کوتاہ اندیشوں اور کم ہمتوں کو دکھایا جائے کہ بدبختو! جن نامساعد اور ناموافق حالات کی تم شکایت کرتے ہو، جن مخالفین سے تم اپنے آپ کو شب و روز گھرا ہوا پاتے ہو، مصائب کے جیسے سربفلک پہاڑ تمھارے لیے سد راہ ہو رہے ہیں اور جنہیں دیکھ کر تمہاری کمر ہمت ٹوٹ گئی ہے، ان حالات سے بڑھ کر برے حالات اور تمہارے ان مخالفین سے بڑھ کر مخالفین نے تمہارے اسلاف کے جوش عزم کے دریا کا بہاؤ روکنا چاہا تھا لیکن ثابت قدمی کے ان مجسّموں نے اپنی ثابت قدمی سے ان تمام مخالفتوں کی ایک کاہ کے برابر پروا نہ کی اور سب کو خس و خاشاک کی طرح بہا دیا۔
وہی مخالفین جو ان کو ایک وقت میں حقیر سمجھتے تھے، ان پر پھبتیاں کستے اور مذاق اڑاتے تھے۔ جب انھوں نے ان غیر معمولی ہستیوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے اور اس قدر مخالفتوں کے باوجود کامیاب ہوتے دیکھ لیا، تو چاروناچار ان کے گرویدہ، ان کے مداح اور ان کے غلام ہوگئے۔ دنیا میں ایسی ہستیاں بھی گزری ہیں، جنہوں نے تن تنہا زمانے کے بہاؤ کو بدل دیا ہے اور اپنی ذات سے ایک مستقل تاریخ کی بنیاد رکھی ہے۔
نبی کریمﷺ کی زندگی بتاتی ہے کہ ایک مستقل مزاج اکھڑ سے اکھڑ، جاہل سے جاہل اور سرکش سے سرکش قوم کو صرف یہی نہیں کہ راہ راست پر لایا جاسکتا ہے بلکہ انہیں ترقی کی اس بلندی پر پہنچایا جاسکتا ہے کہ آیندہ نسلیں اور مہذب قومیں انہیں اپنے لیے مشعل ہدایت بنائیں۔
سکندر اعظم کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اس کے بلند ارادوں کے سامنے سارے عالم کی وسعت تنگ تھی۔ سارے جہان کو مسخر کرلینا اس کے لیے ایک ادنیٰ کام تھا۔ یہ خالی دعویٰ ہی نہیں بلکہ تاریخ شاہد ہے کہ اس نے صرف چند سال کے عرصہ میں یہ سب کچھ کر دکھایا اور بمشکل ۳۲ سال کا ہوگا کہ اس دار فانی میں اپنی شہرت اور بقا کی غیر فانی مثال قائم کر کے عالم بقا کو چلتا ہوا۔
نپولین اعظم کو کون نہیں جانتا۔ ایک یتیم بچے نے اپنے ذاتی جوہر سے وہ شان پیدا کی کہ یورپ کی مستحکم ترین سلطنتوں کو ان کی جڑ تک ہلا دیا اور ان کی صدہا سالہ عظمت کو یکسر خاک میں ملا دیا۔ وہ کہا کرتا تھا کہ کوئی شے نہیں کہ انسان کے لیے ناممکن ہو۔ کسی نے کہا آگے راستہ میں کوہ الپس پڑتا ہے جس کی چوٹیاں برف سے ڈھک رہی ہیں۔ اس پر سے عبور کرنے کا کوئی راستہ نہیں اس لیے اس راستہ کو چھوڑ دیں۔ کوئی معمولی دل و جگر کا آدمی ہوتا تو یقینا اپنے ارادے سے باز آتا اور ایسے مشورے کو غنیمت سمجھتا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر نپولین بھی اس مشورے پر عمل کرتا، تو پھر وہ نپولین ہی نہ ہوتا۔ اس نے اہل مشورہ کے جواب میں صرف اس قدر کہا: ع
ڈھونڈ لیں گے یا بنالیں گے ہم اپنی آپ راہ
طارق افواج لے کر بحیرہ روم کو پار کرتا ہے۔ جب ساحل اندلس پر اترتے ہیں تو کشتیوں کو آگ لگا دینے کا حکم دیتا ہے۔ فوج حیران ہے کہ یہ کیا نادانی ہے جو بچاؤ اور نجات کا ذریعہ ہے اسی کو اپنے ہاتھ سے تباہ کیا جا رہا ہے لیکن وہ جواں مرد ’’طارق‘‘ ان باتوں پر مسکرا دیتا ہے اور تلوار سونت کر ملک میں گھس پڑتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ملک اسپین میں ’’سلطنت مور‘‘ کی بنیاد رکھتا ہے۔
غرض یہ سب ہماری اپنی ذات کی تفسیریں ہیں۔ یہ سب جوہر ہم میں مخفی نہیں۔ لیکن ہم ان سے بے خبر ہیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہمیں یقین دلایا جائے کہ ہم ایک غیر معمولی ہستی ہیں اور دنیا کا نظام ہم سے وابستہ ہے۔
ہم اپنے آپ کو حقیر و ذلیل نہ سمجھیں بلکہ جو جوہر اور جو خوبی اللہ تعالیٰ نے ہم میں ودیعت کی ہے، اسے ترقی دیں اور پھر دیکھیں کہ مخالفتیں کس طرح دھواں ہوکر اڑتی ہیں اور کس طرح رکاوٹوں کی سخت چٹانیں روئی کے گالے بن بن کر ہوا ہوتی ہیں۔
مشکلے نیست کہ آساں نہ شود
مرد باید کہ ہراساں نہ شود