خود غرض کوّا

وسیم احمد

کسی جنگل میں بہت سارے کوے رہتے تھے۔ ان سب کی آپس میں بہت میل محبت تھی۔ ان کوؤں میں سے ایک کوّا چھوٹو کے نام سے مشہور تھا، کیوں کہ اس کے دونوں پنکھ دوسرے کوؤں سے کچھ چھوٹے تھے۔

چھوٹو خود کو سب سے زیادہ چالاک اور عقلمند سمجھتا تھا۔ایک دن وہ اپنے دوستوں کے ساتھ اڑتا ہوا کہیں جارہا تھا کہ نہر کے کنارے اسے کوئی گول چیز نظر آئی۔ وہ اپنے دوستوں سے بہانہ کرکے وہیں رک گیا۔

دوستوں کے جانے کے بعد گول چیز کوقریب سے چھوٹو نے دیکھا تو وہ ایک بڑا سا گھڑا تھا، جس میں شہد بھرا ہواتھا۔

شہد دیکھ کر چھوٹو بہت خوش ہوا۔ اس نے دل میں سوچا، اپنے دوستوں کو اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتاؤں گا۔جی بھر کر شہد کھانے کے بعد چپکے سے چھوٹو اپنے گھر چلا گیا۔اب چھوٹو روزانہ اس گھڑے کے پا س آتا اور شہد کھا کرچلاجاتا۔

دھیرے دھیرے چھوٹو کی صحت اچھی ہونے لگی مگر جب دوست احباب موٹاپے کا سبب پوچھتے تو وہ بہانا بناکر ٹال جاتا۔

ہر روز شہد کھانے کی وجہ سے گھڑے میں شہد کم ہوگیا۔ چنانچہ شہد پینے میں اب چھوٹو کو دشواری ہورہی تھی۔

ایک دن چھوٹو نے سوچا’کیوں نہ یہ دشواری ہمیشہ کے لیے ختم کردی جائے۔‘ پھر گھڑے میں نیچے سے چونچ مار مار کر اس نے اس میں سوراخ کردیا۔ لیکن یہ کیا سوراخ ہوتے ہی شہد بہنے لگا۔ یہ دیکھ کر چھوٹو زمین پر پھیلتے ہوئے شہد کو جلدی جلدی پینے لگا۔ اسے یہ خیال ہی نہ رہا کہ اس کے دونوں پنکھ شہد میں لت پت ہوچکے ہیں۔ جب چھوٹو کا پیٹ بھر گیا تو اس نے اڑنا چاہا، مگر اس کے پنکھ اڑنے کے قابل نہیں تھے۔

جب اڑنے کی تمام کوششیں ناکام ہوگئیں تو چھوٹو نے اپنے دوستوں کو آواز دینا شروع کردی۔ اس کی آواز سن کر تمام دوست جمع ہوگئے۔

چھوٹو کو مصیبت میں دیکھ کر کوؤں کو سارا ماجرا سمجھ میںآگیا اور سب اس کو اس مصیبت سے نکالنے کی تدبیریں کرنے لگے۔

ایک بوڑھے کوے نے سب کو ایک ترکیب نظر آئی۔ وہ اپنے دوستوں سے بہانہ کرکے وہیں رک گیا۔
دوستوں کے جانے کے بعد گول چیز کوقریب سے چھوٹو نے دیکھا تو وہ ایک بڑا سا گھڑا تھا، جس میں شہد بھرا ہواتھا۔
شہد دیکھ کر چھوٹو بہت خوش ہوا۔ اس نے دل میں سوچا، اپنے دوستوں کو اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتاؤں گا۔جی بھر کر شہد کھانے کے بعد چپکے سے چھوٹو اپنے گھر چلا گیا۔اب چھوٹو روزانہ اس گھڑے کے پا س آتا اور شہد کھا کرچلاجاتا۔
دھیرے دھیرے چھوٹو کی صحت اچھی ہونے لگی مگر جب دوست احباب موٹاپے کا سبب پوچھتے تو وہ بہانا بناکر ٹال جاتا۔
ہر روز شہد کھانے کی وجہ سے گھڑے میں شہد کم ہوگیا۔ چنانچہ شہد پینے میں اب چھوٹو کو دشواری ہورہی تھی۔
ایک دن چھوٹو نے سوچا’کیوں نہ یہ دشواری ہمیشہ کے لیے ختم کردی جائے۔‘ پھر گھڑے میں نیچے سے چونچ مار مار کر اس نے اس میں سوراخ کردیا۔ لیکن یہ کیا سوراخ ہوتے ہی شہد بہنے لگا۔ یہ دیکھ کر چھوٹو زمین پر پھیلتے ہوئے شہد کو جلدی جلدی پینے لگا۔ اسے یہ خیال ہی نہ رہا کہ اس کے دونوں پنکھ شہد میں لت پت ہوچکے ہیں۔ جب چھوٹو کا پیٹ بھر گیا تو اس نے اڑنا چاہا، مگر اس کے پنکھ اڑنے کے قابل نہیں تھے۔
جب اڑنے کی تمام کوششیں ناکام ہوگئیں تو چھوٹو نے اپنے دوستوں کو آواز دینا شروع کردی۔ اس کی آواز سن کر تمام دوست جمع ہوگئے۔ چھوٹو کو مصیبت میں دیکھ کر کوؤں کو سارا ماجرا سمجھ میںآگیا اور سب اس کو اس مصیبت سے نکالنے کی تدبیریں کرنے لگے۔
ایک بوڑھے کوے نے سب کو ایک ترکیب سمجھائی سب کوے چھوٹو کو اپنی چونچ میں پکڑ کرشہد والی زمین سے دور لے گئے۔ پھر نہر سے پانی لاکر اس کے جسم پر بہایا۔ تھوڑی دیر بعد سارا شہد دھل گیا اور چھوٹو اڑنے کے قابل ہوگیا۔ اب اس کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ مصیبت کی گھڑی میں دوست ہی کام آتے ہیں، لہٰذا ان سے خود غرضی کے بجائے اعتماد و بھروسے کا معاملہ کرنا چاہیے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں