ہال حاضرین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ تقریباً ہر عمر کے مرد و خواتین اس سیمینار میں شریک تھے۔ ان میں دانشور، ڈاکٹرس، انجینئرس، وکلاء، ٹیچرس، طلباء و طالبات، مزدور اور ہر پیشے سے وابستہ افراد تھے۔ ہر دھرم، مذہب و مسلک کا ماننے والا یہاں شریک تھا۔ منتظمین نے پوری کوشش کی تھی کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس قسم کے جداگانہ سیمینار میں شرکت کرکے استفادہ کریں۔ کیوں کہ یہ وقت کا تقاضہ تھا۔
اسٹیج پر شہر ہی کی نہیں بلکہ ملک بھر کی نامور و معزز ہستیاں، جن میں امراء، سیاسی لیڈران، دانشور اور سوشل ورکرس شامل تھے، اپنی اپنی نشستیں سنبھالے ہوئے تھے۔ کرسی صدارت پر مسٹر سمیر شاہ براجمان تھے۔ ہال کی پہلی صف میں جو مخصوص خواتین، معزز و معروف وی آئی پی حضرات تشریف فرما تھے۔ ان ہی میں’’جاگرن‘‘ نامی سوسائٹی کے ڈائریکٹر اور آج کے جلسے کے صدر مسٹر سمیر شاہ کی محبوبہ ریشما جو خود بھی ایک وکیل اور سوشل ورکر تھیں، سفید رنگ کے شرارہ قمیص میں لپٹی ہوئی جلوہ افروز تھیں اور حاظرین کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھیں۔ ریشما کے بغل میں ایک معروف سیاسی لیڈر ریشما سے بڑی بے تکلفی سے محوِ گفتگو تھا۔ اس سمینار کا انعقاد جاگرن نامی سوسائٹی نے کیا تھا۔
خواتین رنگ برنگی قیمتی ساڑیوں اور جدیدقسم کے لباسوں میں ملبوس، جگمگاتے اور کھنکھناتے زیورات سے آراستہ اپنی مکمل نمائش میں مصروف تھیں۔ مرد بھی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق لباس زیب تن کیے ہوئے تھے۔ لوگوں کی چہ میگوئیوں سے پورا ہال شہد کی مکھیوں کی، بھنبھناہٹ جیسی آواز سے گونج رہا تھا۔
وقتِ مقررہ پر مسٹر شامیؔ اسٹیج پر نمودار ہوئے اور مائک سنبھالا۔ اپنے انوکھے انداز میں وہ سامعین سے مخاطب ہوئے۔ ہال میں اچانک خاموشی چھاگئی۔ سب سے پہلے اسٹیج پر براجمان معزز مہمانوں کا تعارف اور اُن کی گلپوشی کی گئی۔ پھر سمینار کے مقصد ’’خود کشی کے خلاف بیداری‘‘ مہم پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ اپنی پراثر آواز میں انھوں نے کہنا شروع کیا: ’’زندگی خدا کا دیا ہوا ایک بیش قیمت اور انمول تحفہ ہے، اسے ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ذرا ذرا سی بات سے مایوس ہوکر لوگ اپنی قیمتی زندگی کا خاتمہ کرلیتے ہیں۔ خود کشی، سوسائڈ، آتم ہتیا ایک گناہِ عظیم ہے۔ خود کشی بذاتِ خود اپنے آپ میں ایک قتل ہے، لہٰذا جس کسی نے خود کشی کی خواہ کسی ذریعہ سے کی ہو اُس نے ایک نفس کو قتل کردیا جس کا ناحق قتل اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرایا ہے۔انسان اپنی زندگی کا آپ مالک نہیں ہے۔ زندگی تو اللہ کی امانت ہے لہٰذا انسان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس معاملے میں کسی زیادتی کا مرتکب ہو… مسٹر شامی نے جذباتی انداز میں سامعین سے مخاطب ہوکر فرمانِ خداوندی کا حوالہ دیا ’’اپنی جانوں کو قتل نہ کرو اللہ تم پر بڑا مہربان ہے۔ اللہ کے پیارے رسول نے فرمایا جو شخص خود کشی کا مرتکب ہو وہ اللہ کے غضب کا مستحق ہوگا۔‘‘ شامی صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں تقریر جاری رکھتے ہوئے مزید ایک حدیث کا مفہوم لوگوں کے سامنے پیس کیا ’’جس نے اپنے آپ کو پہاڑ سے گرا کر خود کشی کرلی وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گرتا رہے گا اور جس نے زہر کھا کر خود کشی کی وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ زہر کھاتا رہے گا۔ اور جس نے لوہے کی کسی چیز سے خود کشی کی وہ جہنم کی آگ میں لوہے کی اس چیز سے ہمیشہ اپنے آپ کو زخمی کرتا رہے گا۔‘‘ جلسہ گاہ میں جیسے ہیبت طاری تھی۔ قبرستان کا سناٹا چھایا تھا کہ اچانک کہیں کسی گوشے سے سسکیوں کی آواز ابھر آئی۔ سسکیاں جاری تھیں۔ شاید کسی نے اپنا کوئی عزیز کھویا ہوگا۔
اپنی تقریر ختم کرنے سے قبل مسٹر شامی نے ہر ایک سے عہد لیا کہ ہم پر کیسے بھی حالات آئیں ہم کسی بھی مصیبت اور پریشانی اور الجھنوں میں گھر جائیں مگر ہم خود کشی نہیں کریں گے۔ پیچیدہ سے پیچیدہ حالات کا سامنا کریں گے۔ سبھی نے ایک آواز ہوکر حامی بھری۔ مسٹر شامی کی استقبالیہ تقریر کے بعد، یکے بعد دیگرے ڈاکٹرس، دانشور، وکلاء اور سیاسی لیڈروں نے گرما گرم خود کشی مخالف تقریریںکیں اور ’’خود کشی مخالف مہم‘‘ سیمینار منعقد کرنے پر جاگرن سوسائٹی کے نوجوان و ہینڈسم ڈائریکٹر مسٹر سمیر شاہ کو مبارکبادیاں پیش کی گئیں۔
آخر میں اپنے خطبۂ صدارت میں نوجوان ڈائرکٹر سمیر شاہ نے بھی خود کشی کے بڑھتے ہوئے رجحان پر تشویش ظاہر کی۔ سمیر شاہ اسٹیج پر پھیلی ہوئی قمقموں کی روشنی میں زیادہ ہی حسین و جمیل نظر آرہا تھا۔ اپنی رعب دار آواز میں اس نے کہا: ’’ہم نے حال ہی میں ’جاگرن سوسائٹی‘ کی بنیاد رکھی ہے اور ہمارا یہ پہلا سمینار ہے جو خود کشی مخالف مہم کا یومِ آغاز ہے۔ اس مہم کے ذریعے ہم ہر ایک کو بیدار کرنا چاہتے ہیں کہ خود کشی کرنا ایک بزدلانہ عمل و حرکت ہے۔ خود کشی کے ذریعے اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے والا انسان ذہنی طور پر اس قدر مایوس ہوجاتا ہے کہ وہ خود کشی میں ہی اپنی نجات سمجھ لیتا ہے۔ اپنی آخرت کی لامحدود زندگی کو بھول جاتا ہے۔ ابھی سمیر شاہ تقریر کرہی رہے تھے کہ اُن کی نظر اپنی محبوبہ ریشما پر پڑی جو چہک چہک کر اپنے برابر میں بیٹھے ہوئے لیڈر سے ہنسی مذاق کررہی تھی۔ تھوڑی دیر کے لیے سمیر شاہ ڈسٹرب ہوئے۔ پھر ٹھہر ٹھہر کر رک رک کر کہنے لگے: ’’خود کشی کرنے والوں میں وہ غیور افراد بھی ہوتے ہیں، جو بدنامی کے ڈر سے اپنی زندگی کا خاتمہ کرتے ہیں۔‘‘
سمیر شاہ نے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور انٹرنیشنل ایسوسی ایشن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سال میں قریباً ایک لاکھ افراد خود کشی کرتے ہیں جن میں شوہر بیوی، سائنسداں، ڈاکٹرس، انجینئرس، بوڑھے و جوان، عاشق معشوق اور خصوصاً دل برداشتہ طالبِ علم ہوتے ہیں۔
سمیر شاہ کی تقریر جاری ہی تھی کہ انہیں محسوس ہوا کہ ان کی محبوبہ ریشما اور نوجوان لیڈر جلسہ گاہ سے غائب ہیں۔ انھوں نے ہال میں چاروں طرف نظر دوڑائی اورپھر سامعین سے مخاطب ہوئے، ’’خود کشی کے بڑھتے ہوئے گراف اور رجحان کو دیکھتے ہوئے ہم نے طے کرلیا ہے کہ ہم جاگرن سوسائٹی کی خود کشی مخالف مہم کو جاری رکھیں گے۔ سمیر شاہ نے بھی حاضرین سے وعدہ لیا کہ مایوسی کے عالم میں دل برداشتہ ہوکر خود کشی نہ کریں۔اور خود کشی کے خلاف ماحول تیار کریں۔ اور پھر جلسہ برخواست ہوا۔
دوسرے روز صبح کے روزناموں میں پہلے صفحے پر اس سمینار کی کامیابی کی تفصیل مع تصویروں کے شائع ہوئی اور اس مہم کو سراہا گیا۔دو روز بعد روزناموں میں ایک خبر شائع تھی: ’’جاگرن سوسائٹی‘‘ کے نوجوان ڈائریکٹر اور خود کشی مخالف مہم کے روح رواں مسٹر سمیر شاہ اپنے دولت کدے سے لاپتہ، ان کے کمرے سے ایک چٹھی ملی ہے جس پر بس اتنا لکھا تھا:
ذرا بھی جس کی وفا پر یقین آیا ہے
قسم خدا کی اسی سے فریب کھایا ہے
——