خود کشی

آقائے محمد حجازی، فارسی سے ترجمہ: پروفیسرجلیل نقوی

ابھی چند روز پہلے کی بات ہے کہ میرے ایک پرانے اور بہت عزیز دوست مجھ سے ملنے کے لیے آئے۔ ملاقات کافی عرصہ کے بعد ہوئی تھی، اس لیے مجھے بڑی مسرت ہوئی اور میرا دل ان کے لیے ممنویت کے احساس سے سرشار ہوگیا کہ انہیں میری محبت نے ملاقات پر آمادہ کیا۔ مگر گفتگو کے دوران میں نے محسوس کیا کہ ان کے چہرے سے ایک اندرونی رنج اور بے چینی عیاں ہورہی ہے اور ان کی حرکات و سکنات مسلسل اضطراب اور پریشانی کی عکاس ہیں۔ ان کی نظر مسلسل خلا میں بھٹک رہی تھی۔ دونوں ابرو ایک دوسرے میں پیوست تھے۔ پیشانی پر کئی لکیریں ابھر آئی تھیں، رخساروں پر زردی بکھری ہوئی تھی۔ وہ بڑی بیزاری کے عالم میں کرسی پر بیٹھے تھے اور بار بار شدید سر درد کی شکایت کررہے تھے۔ اس بیزاری کے عالم میںانہیں کسی پہلو قرار نہیں تھا۔ مسلسل پہلو بدل بدل کر حرکت اور تلاطم کی کیفیت میں مبتلا تھے۔

جب میرے لیے شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہ رہی تو میں نے پوچھ لیا:’’آپ پر ایسی کیا افتار آپڑی ہے کہ یہ حالت بنا رکھی ہے۔ میرا خیال ہے کہ بلا کسی تمہید کے آپ ساری بات مجھے بتادیجیے تاکہ پتہ چل سکے کہ زمانے نے آپ پر کیا آفت ڈھا دی ہے۔‘‘

وہ ذرا دیر خاموشی سے کچھ سوچتے رہے۔ اس کے بعد پھٹی پھٹی نگاہوں سے مجھے دیکھتے ہوئے بولے: ’’میں آپ کے پاس صرف اس لیے آیا ہوں کہ معلوم کرسکوں کہ خود کشی کے لیے کونسا طریقہ سب سے بہتر ہوسکتا ہے؟‘‘

میں نے حیران ہوکر تامل کے بعد کہا: ’’سب سے پہلے تو مجھے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ خود کشی کا خیال آپ کے دماغ میں کس وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ آپ نے مجھے علم خود کشی کا ماہر تصور کرکے مجھ سے مشورہ کرنے کی زحمت کی ہے۔ اب مجھے بھی اس مقصد کے لیے ویسا ہی ذریعہ تجویز کرنا چاہیے جو زندگی سے بیزاری کے سبب کے عین مطابق ہو۔

انھوں نے اپنے ہونٹوں کو اکٹھا کرکے ایک لمحہ کے لیے اوپر کی جانب بلند کیا اور بڑی بے اعتنائی اور بیزاری کے ساتھ گویا ہوئے:

’’میں یہ توقع نہیں کرتا تھا کہ میری مصیبت کے اس موقع کو بھی آپ مذاق کا موضوع بنائیں گے۔ میرا خیال تھا کہ آپ کی نظر میں میری کچھ نہ کچھ وقعت ضرور ہوگی۔ مگر لگتا ہے کہ آپ مجھے مدرسے کے طالب سے زیادہ حیثیت نہیں دیتے۔ کتنے افسوس کا مقام ہے۔ یہ کیا دور آگیا ہے کہ یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ آدمی اپنا دکھ درد کس سے جاکر بیان کرے۔ دوستوں کے بارے میں تو سنتے ہیں کہ دوست کی ہستی کو وہی اہمیت دیتے ہیں جو اپنی ہستی کودیتے ہیں اور دوست کے خیالات کی قدروقیمت اپنے خیالات سے بڑھ کر رکھتے ہیں۔ مگر یہ سب باتیں ہی باتیں ہیں ، شاید …‘‘

اس کے بعد ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور آواز بیٹھ گئی۔ میں نے فوراً اپنے اندر ادھر ادھر سے جس قدر رنج و غم مل سکا اکٹھا کیا اور انتہائی کوشش کے ساتھ اسے اپنے چہرے سے ظاہر کرتے ہوئے گہری سنجیدگی کے ساتھ کہا: ’’آپ اس بات سے ذرہ برابر رنجیدہ نہ ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ اس وقت اپنے بہترین دوست کے سامنے بیٹھے ہیں۔ یقین جاننے کہ آپ کی سمجھ داری اور قوتِ فیصلہ کا معترف مجھ سے بڑھ کر اور کوئی نہیں ہے، لیکن آپ نے اچانک جو سوال کرڈالا ہے اس کا جواب اتنا آسان نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ ذاتی طور پر مجھے خود کشی کا کوئی تجربہ نہیں۔ اس لیے میں یقینی طور پر نہیںکہہ سکتا کہ اس کام کے لیے کونسا طریقہ آسان اور بہتر ہوسکتا ہے، افسوس کی بات یہ ہے کہ خود کشی کا تجربہ کرنے والا کوئی شخص بھی واپس آکر اپنے تجربہ کی کیفیات بیان کرکے ہماری رہنمائی نہیں کرسکتا۔ میں تو صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ طریقہ سب سے بہتر ہوگا جس سے موت جلد از جلد واقع ہوجائے۔ اس مقصد کے لیے سب سے زیادہ آسان شاید پستول کی گولی ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ اس کا نشانہ براہِ راست مغز یا دل بنے۔ ورنہ میں ایک ایسے شخض کو جانتا ہوں جس نے اپنے کان پر پستول کی نال رکھ کر فائر کیا، گولی اس کان کے اندر جاکر سیدھی دوسرے کان سے باہر نکل گئی۔ اس بیچارے کو باقی تمام عمر بہرے پن میں گزارنی پڑی۔ اس کا یہ فائدہ تو ضرور ہوا کہ وہ رات دن دنیا کی خرافات سننے سے محفوظ ہوگیا مگر خود کشی کا مقصد حاصل نہیں ہوا اور دوبارہ اس کوشش کی ہمت نہیں کرسکا، چنانچہ اس کا تجربہ ہمارے لیے مثال نہیں بن سکتا۔ پستول کے استعمال میں یہ خرابی ضرور ہے کہ عین موقع پر ہاتھ کانپ سکتا ہے اور نشانہ خطا ہوسکتا ہے۔ اگر کسی طرح اس خدشہ سے محفوظ ہوا جاسکے تو پھر کوئی مشکل نہیں ہے۔‘‘

ایک لمحہ توقف کے بعد میں نے ان کی جانب جھک کر کہا: ’’میرے پاس ایک پستول موجود ہے۔ آپ چاہیں تو آپ کو دے سکتا ہوں۔‘‘

کہنے لگے: ’’میں آپ کی اس عنایت کا انتہائی ممنون ہوں گا۔‘‘

میں اٹھ کر اپنی خواب گاہ میں گیا اور پستول لاکر ان کے سامنے رکھ دیا۔ پھر اسے استعمال کرنے کا طریقہ انہیں بتاتا رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا کرتے وقت میرا اپنا ہاتھ کانپ رہا تھا۔ اس کام سے فارغ ہونے کے بعد میں نے ان سے کہا: ’’یہ تو آپ کے سوال کا جواب تھا تاکہ آپ یہ نہ سمجھیں کہ میں بھی عام دوستوں کا سا دوست ہوں لیکن بات یہ ہے کہ آپ بھی میری دوستی کو کچھ وقعت دیتے ہیں تو مجھ پر اعتماد کرتے ہوئے اس عظیم مصیبت سے مجھے آگاہ کیجیے جس نے آپ کو اس ناخوشگوار فیصلہ پر مجبور کیا ہے۔‘‘

’’کوئی تازہ واقعہ تو پیش نہیں آیا۔ ‘‘انھوں نے جواب دیا: ’’لیکن آپ ہی ایمانداری سے بتادیجیے کہ دنیا میں دکھوں اور مصیبتوں کے سوا ہے کیا؟ ہر قدم پر رنج و آلام کا ایک نیا پہاڑ راستہ روکے کھڑا ہوتا ہے۔ یہ پہاڑ کھود کر راستہ بناتے ساری عمر گزرجاتی ہے اور نتیجہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔ آخر اس کا فائدہ کیا ہے۔ مصائب و آلام قدم قدم پر لہو لہان کردیتے ہیں۔ دھوکہ، دغا، دشمنی، کینہ، قتل و غارت، خود غرضی، حسد، غرض ہر طرف ایک سے ایک بڑی مصیبت کا راج ہے۔ ایک ایک لمحہ دہشت اور خوف میں گزرتا ہے۔ کسی آن سکون نہیں ہے۔ ان سارے دکھوں کو برداشت کرلینے کے بعد بھی انجام کار وہی موت کی آغوش ہے تو پھر اس سب کچھ کا کیا فائدہ ہے۔ آدمی بلا وجہ کیوں ساری عمر بھگتان بھگتتا رہے۔ کیوں نہ جلد سے جلداس سے چھٹکارا حاصل کرلیا جائے۔آپ سچ پوچھیں تو زندگی سے میرا دل بالکل بھر گیا ہے۔ یہ سب کچھ مجھے بالکل بے معنیٰ قطعاً بے فائدہ نظر آتا ہے۔‘‘

’’مگر دنیا میں صرف دشمنی، مصیبت اور برائی ہی تو نہیں ہے۔‘‘ میں نے سمجھانے کی کوشش کی: ’’یہ زندگی کا صرف ایک پہلو ہے۔ وقتی طور پر آپ نے اس تاریک پہلو کا اثر لے لیا ہوگا۔ مگر اس وقتی کیفیت کو بنیادی حقیقت تو نہیں سمجھ لینا چاہیے۔ ایسی وقتی کیفیت میں تو آپ درست فیصلہ پر کبھی نہیں پہنچ سکتے کیونکہ ایسی حالت میں آپ حقائق کو درست حالت میں دیکھنے کے قابل نہیں ہوتے ہیں۔‘‘

وہ ایک دم بھڑک اٹھے اور کرسی پر کئی دفعہ پہلو بدلنے کے بعد غمگین اور مضطرب آواز میں گویا ہوئے: ’’یہاں دشمنی اور برائی کے سوا اور ہے کیا۔ دشمنی اس کے سوا اور کیاہوتی ہے کہ ایک گروہ بغیر کسی وجہ اور بلا کسی بنیاد کے مسلسل میرے ساتھ دشمنی کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہے اور میری ترقی کے راستے میں پے در پے روڑے اٹکا رہا ہے۔ میں نے ان کے ساتھ کوئی برائی نہیں کی۔ پھر آخر وہ کیوں میرے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ ان کی وجہ سے میں ہروقت پریشان اور تشویش کا شکار رہتا ہوں۔ انھوں نے میری زندگی حرام کرکے رکھ دی ہے۔ آخر میں نے ان کا کیا بگاڑا ہے۔ ان کے رویہ سے میرے اندر بھی دشمنی اور انتقام کے جذبات پیدا ہوتے ہیں جو میرے لیے بہت تکلیف دہ ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ جیسے کو تیسا بن کر بتانا چاہیے تبھی جینے کا حق ملتا ہے۔ مگر میں کہتا ہوں کہ اس طرح جینا ہے تولعنت ہے اس جینے پر۔ یعنی برائی کرو اور زندگی کا ثبوت دو۔ کیا بیہودہ طریقہ ہے۔ ادھر دوستوں کا یہ حال ہے کہ ایک لمحہ یا ایک قدم کی رفاقت کی بھی تمنا کی جائے تو زیرِ لب تبسم کے ساتھ جھوٹی تسلی کے چند الفاظ سے بہلا کر اپنی راہ چلے جاتے ہیں۔ میں تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ انسان دنیا میں قطعاً تنہا اور بے سہارا ہے لیکن یہ تنہا ہی ہوتا تب بھی غنیمت تھا۔ یہاں تو حال یہ ہے کہ لوگ گروہ کی صورت میں بھڑوں کی مانند اس کی جان کے در پے رہتے ہیں اس کی زندگی میں جو شیرینی ہوتی ہے، اسے چاٹ جاتے ہیں او رجاتے جاتے ڈنک مار جاتے ہیں۔ اب بتائیے کہ زندگی وبال ہے کہ نہیں۔ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ اس دنیا کی لذت آخر ہے کس چیز میں؟ آخر یہاں ہمیں ملتا کیا ہے جس پر ہم خوش ہوسکیں۔ حال تو یہ ہے کہ کولہو کے بیل کی طرح ہم صبح سے شام تک چلتے رہتے ہیں اور جہاں کے تہاں رہتے ہیں۔ یہا ںتو زندہ رہنے کا وسیلہ ایک ہی ہے کہ آدمی کے پاس خوب ساری دولت ہو، پھر ہر لذت خریدی جاسکتی ہے۔ پیسے سے یہ خوشی مہیا ہوجاتی ہے۔ لیکن دولت کتنے فیصد لوگوں کے پا س ہے، اکثریت تو مجھ جیسے خالی ہاتھ لوگوں کی ہے، ہمارا اس دنیا میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ ہم کچھ بھی کرنے کے قابل نہیںہیں۔‘‘

ان کی طویل اور جذباتی تقریر میں مداخلت میں نے مناسب نہیں سمجھی۔ آخر وہ خود ہی خاموش ہوئے۔ پستول کو اٹھا کر جیب میں رکھتے ہوئے واپسی کے لیے تیار ہوئے تو میں بڑی اپنائیت کے ساتھ ان سے بغلگیر ہوا۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے میں نے محبت سے ان کا ہاتھ دباتے ہوئے کہا۔

’’آپ کے فیصلہ پر اثر انداز ہونے کا نہ تو میں ارادہ رکھتا ہوں اور نہ ایسا کرسکتا ہوں۔ صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ اب پستول آپ کے پاس ہے۔ مرجانے کا موقع توکسی وقت بھی ہاتھ سے جانے والا نہیں۔ اس کے بعد ایک عرصہ تک موت کی نیند سوتے رہنا ہے۔ اس لیے میری درخواست ہے کہ اپنے اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کا ارادہ صرف دو دن کے لیے ملتوی کردیجیے۔ ان دو دنوں میں آپ چاہیں تو اس دنیا سے اور اس دنیا والوں سے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا انتقام لے لیں یا ان دو دنوں میں صرف میری خاطر زندہ رہنے کا وعدہ کرلیجیے۔‘‘

انھوں نے کچھ سوچتے ہوئے مردہ سی آواز میں کہا: ’’آپ کی خاطر میں اس مصیبت کو دو دن مزید برداشت کرلوں گا۔‘‘

’’اب جبکہ آپ نے اپنی زندگی کے دو دن مجھے عنایت کردیے ہیں تو اس عرصہ میں آپ کو میں جو زحمت بھی دوں وہ برداشت کرنی پڑے گی۔‘‘ میں نے کہا۔

’’مجھے کوئی اعتراض نہیں۔‘‘ وہ بولے ’’لیکن مجھے کم از کم یہ تو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ زحمت کس مقصد کے تحت اور کس کی خاطر برداشت کررہا ہوں۔‘‘

’’بالکل درست بات ہے۔‘‘ میں نے تسلیم کیا ’’اصل مقصد یہ ہے کہ آپ کے اس طرح اچانک دنیا سے چلے جانے سے آپ کے دشمنوں کو خوش ہونے کا موقع ملے توکتنے افسوس کی بات ہے۔ انہیں یہ موقع نہ دینے کے لیے ضروری ہے کہ آپ ان دو دنوں میں ان سب سے ملاقات کریں اور اتنی گرم جوشی کے ساتھ ملیں گویا ناراض محبوب سے صلح کے بعد مل رہے ہیں۔ ظاہری طور پر پورے خلوص اور محبت کا اظہار کیجیے اور محبت آمیز گفتگو کے ذریعے ان کے دلوں کو جیتنے کی کوشش کیجیے۔ ظاہر ہے کہ آپ کو زندہ تو رہنا نہیں ہے۔ اس لیے اپنے اس رویہ کے اثر اور بدلہ کی توقع کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ ان میں سے اگر کوئی جواب میں کسی بھلائی کا اظہار بھی کرے تو شکریہ ادا کرکے وہاں سے اٹھ آئیے کیونکہ آپ کو کسی کی رفاقت اور دوستی کی احتیاج باقی نہیں رہی ہے۔ اس انکسار اور خوش خلقی کا مقصد تو صرف یہ ہے کہ آپ کے دنیا سے چلے جانے کے بعد وہ لوگ آپ کو یاد کریں اور اس نقصان پر دلی تکلیف محسوس کریں۔‘‘

وہ بڑی حیرت اور دلچسپی کے ساتھ میری بات سن رہے تھے۔ اب ان کے اضطراب اور بے چینی میں کسی حد تک سکون پیدا ہوگیا تھا۔ میں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا:

’’دشمنوں کے ساتھ اس طرح کے رویے کا اظہار کرنے کے بعد اپنے دوستوں کو تلاش کیجیے۔ ان کے ساتھ خلوص و محبت کا اظہار کیجیے اور گپ شپ کی محفل جمائیے۔ اب آپ کسی کے محتاج نہیں ہیں بلکہ سب کے ہم رتبہ اور برابر ہیں۔ اگر کسی دوست کو کسی قسم کی مدد یا خدمت کی ضرورت ہے تو اس کی ذمہ داری از خود قبول کرلیجیے۔ سمجھئے کہ تمام زحمتیں برداشت کی ہیں تو اسی طرح ایک زحمت اور سہی۔ اس طرح کم ازکم یہ تو ہوگاکہ آپ کے دنیا سے چلے جانے کے بعد وہ اپنے دلوں میں بہت غم اور اندوہ محسوس کریں گے اور ہمارا اصل مقصد یہی ہے۔‘‘

ان کی توجہ پوری طرح میری جانب تھی۔ میں نے اپنی بات جاری رکھی۔

’’ایک اور تکلیف آپ کو برداشت کرنی پڑے گی۔ وہ تھوڑی سی دشوار ضرور ہے۔ مگر یہ سوچ کر اسے انجام دے لیجیے کہ اب اور کتنے دن تکالیف برداشت کرنا ہیں۔ دو ہی دن تو ہیں۔ اور ان دو دنوں کی چند ساعتیں بھی میرے اختیار میں ہیں۔ اس لیے اس کی انجام دہی پر میں آپ کو مجبور کرسکتا ہوں وہ تکلیف یہ ہے کہ کل صبح سویرے جاگ اٹھیے اور اپنے مکان کی چھت پر چلے جائیے۔ گھبرائیے نہیں بہار کا موسم ہے اور سردی لگ جانے کا قطعاً خطرہ نہیںہے۔ بس یہ دیکھئے آپ کو سورج طلوع ہونے سے ایک گھنٹہ قبل چھت پر ہونا چاہیے۔ غم و غصہ، بیزاری و دشمنی کے جو خیالات آپ کے ذہن میں ہوں انہیں ذرا دیر کے لیے ایک طرف رکھ دیجیے اور صرف میری باتوں کو یاد کیجیے اور صبح کے طلوع ہونے کا نظارہ کیجیے۔ یہ دیکھئے کہ اس پاکیزہ وقت میں فضا کس طرح رنگ بدلتی ہے۔ پہاڑوں کی جانب نظر کرکے فطری مناظر کی اس دلفریبی کو دیکھئے جو اس وقت کیساتھ مخصوص ہے۔ پرندوں کی آوازوں کے جادو پر دھیان دیجیے اور ہوا کی نظافت میں تیرتی ہوئی پاکیزگی کو محسوس کرنے کی کوشش کیجیے۔‘‘

میں نے اپنی بات کو ذرا واضح کرنے کی خاطر کہا:

’’میری نظرمیں تو صبح کی روشنی اس نور کی مانند ہے جو آغازِ عشق میں دل کے اندر چمک پیدا کرتا ہے۔ یہ بے لوث دوستی کا حسن ہے، گلزارِ محبت و وفا کا موسم ہے۔ وہ پرُ خلوص آنسو ہے جو دوسروں کے دکھ دیکھ کر ہماری آنکھوں میں آجاتا ہے، اس آہ کی رقت ہے جو محروم لوگوں کی بے چارگی پر بے اختیار ہمارے سینے سے نکلتی ہے۔ اس دل کی پاکیزگی ہے جو محروم لوگوں کو تسلی دینے میں مشغول ہے۔ اس نالہ کی لطافت ہے جو ہم اپنے اعمال کی شرمندگی پر بلند کرتے ہیں۔ اس خجالت کی خوبصورتی ہے جو اپنی خوش قسمتی کا مقابلہ بے سہارا اور مجبور لوگوں کی پریشان حالی سے کرنے کے بعد پیدا ہوتی ہے۔ ان لمحوں کی آزادی کا نام ہے جب ہم اپنے آپ کو ذرا دیر کے لیے خاموش کرپاتے ہیں۔ غرض یہ کہ صبح سویرے کا وقت ایک ناقابلِ بیان کیفیت کا حامل ہوتا ہے۔ آپ اس وقت کے ساتھ اپنے آپ کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کیجیے، اس کا طریقہ یہی ہے کہ اس وقت کا نظارہ کرتے وقت میری ان باتوں پر غور کیجیے اور دیکھئے کہ آپ بھی میری طرح محسوس کرتے ہیں یا نہیں۔‘‘

ان کے چہرے کا تشنج کافی حد تک کم ہوگیا تھا۔ پیشانی کی لکیریں مدھم پڑنے لگی تھیں۔ اضطراب کے بجائے تجسس کی کیفیت غالب آرہی تھی اور وہ مہر بہ لب میری جانب متوجہ تھے۔ میں نے اپنی بات جاری رکھی۔

’’صبح کے وقت کا نظارہ طلوعِ آفتاب کی حسن کاری کے ساتھ ختم ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد آپ اپنی روز مرہ کی مصروفیات میں لگ جائیے اور اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی پر توجہ دیجیے۔ مگر آپ کی مصروفیت روزانہ کے لگے بندھے ڈھرے پر نہیں ہونی چاہیے۔ دو دن کے لیے اس کی نہج بھی تبدیل کردیجیے۔ ان دو دنوں میں اپنے ہر کام اور خدمت کو پورے ذوق وشوق، پورے جوش و جذبہ سے انجام دے کر ایسی انفرادی مثال قائم کردیجیے کہ آپ کے بعد آپ کو یاد رکھنے کا ذریعہ بن جائے۔ ہر شخص کے دل میں آپ کی کارکردگی کا ایسا نقش ثبت ہوجائے کہ آپ کے چلے جانے کے بعد ہر شخص اس نقش کو ایک یادگار کے طور پر محفوظ رکھنا چاہے اور آپ کے لیے ایک تڑپ محسوس کرے۔‘‘

میں نے ان کے تجسس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مزید بتایا: ’’سورج طلوع ہونے تک آپ کو بھوک ضرور محسوس ہونے لگے گی۔ اس لیے ہلکا پھلکا ناشتہ کرلیجیے۔ ناشتہ میں نان، پنیر، دہی کھائیے یا اور جس چیز کو بھی آپ کا جی چاہے لے لیجیے۔ شرط صرف یہ ہے کہ وہ بہت مہنگی نہیں ہونی چاہیے۔ اس کے بعد آپ اپنی معمول کی مصروفیات میں مشغول ہوجائیے۔‘‘

آپ کو جتنا بھی وقت ملے اپنے گھر کے افراد کے ساتھ گھل مل کر باتیں کیجیے، ہنسی مذاق سے ماحول کو خوشگوار بنانے کی کوشش کیجیے اور کسی بھی بات پر کسی فرد سے ناراض مت ہوجائیے۔ زندگی کے دو ہی دن تو باقی رہ گئے ہیں، ان میں کسی سے ناراض ہونے کا فائدہ بھی کیا ہے۔ اس وقت کو پوری کوشش سے اس طرح گزارنے کی کوشش کیجیے کہ آپ کے چلے جانے کے بعدان لوگوں کا غم و اندوہ بے حد وحساب ہوجائے اور وہ آپ کی کمی شدت سے محسوس کریں۔‘‘

اب وہ پھر سے کچھ بے چینی محسوس کرنے لگے تھے، جیسے اتنی دیر تک خاموش رہ کر میری باتیں سنتے سنتے اکتا گئے ہوں، اس لیے میں نے اپنی بات کو مکمل کرتے ہوئے کہا: ’’صرف ایک بات اور عرض کرنی ہے کہ دن کی مشغولیات سے اگر آپ کو چندفرصت کے لمحات میسر آجائیں تو یکسوئی کے ساتھ مثنوی یا دیوانِ حافظ کے چند صفحات کا مطالعہ کرلیجیے۔ یہ آپ کا دن بھر کا پروگرام ہے۔ امید ہے کہ اس پر عمل میں آپ کو زیادہ دقت پیش نہیں آئے گی۔ اس مصیبت بھری اور دکھوں سے لبریز زندگی کے دوسرے دن کو بھی میری خاطر اسی پروگرام کے مطابق گزارئیے۔ اس کے بعد تیسرے دن آپ مختار ہیں جو آپ کا جی چاہے بخوشی اس پر عمل کیجیے۔‘‘

میرے دوست کے لبوں پر ایک گہری طنزیہ مسکراہٹ ابھری۔ وہ بولے: ’’آپ بھی کیا بچوں کو بہلانے والی باتیں کرنے بیٹھ گئے ہیں۔‘‘

میں نے انتہائی سنجیدگی سے کہا: ’’بالکل درست کہا آپ نے۔ یہ بچوں کو بہلانے والی باتیں ہی ہیں۔ میں تردید نہیں کرتا۔ مگر آپ نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ کل صبح سے اڑتالیس گھنٹے تک آپ پوری طرح میرے اختیار میں ہوں گے اور جو کچھ میں کہوں گا اس پر عمل کریں گے ظاہر ہے کہ اب آپ کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ہے۔‘‘

انھوں نے سمجھ لیا کہ بحث کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے اسی لیے خاموشی سے اٹھے۔پستول جیب میں ڈالا اور خدا حافظ کہہ کر رخصت ہوگئے۔

دو دن تک مجھے ان کی کوئی خبر نہیں ملی۔ تیسرے دن میں نے سیاہ ماتمی لباس پہنا، غمگین صورت بنائی اور بوجھل دل کے ساتھ ان کے گھر گیا۔ دستک کے جواب میں وہ خود باہر نکلے تو ان کا چہرہ کھلا ہوا تھا اور خوش و خرم نظر آرہے تھے۔ میں نے بدستور سنجیدہ رہتے ہوئے کہا:

’’میں تعزیت اور سوگواری کے اظہار کے لیے آیا ہوں۔‘‘

وہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑے اور کہنے لگے: ’’مرنے کے لیے بہت دن پڑے ہیں۔ فی الحال میں نے فیصلہ کیا ہے کہ کچھ عرصہ آپ کے بتائے ہوئے طریقہ پر عمل کرکے زندگی گزاروں۔‘‘

اس پر ہم دونوں بغل گیر ہوگئے اور ہماری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ خوشی کے آنسو۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146