کتابیں پڑھنا اور اپنے گردوپیش کے ماحول اور حالات کامطالعہ اور تجزیہ تو عام بات ہے اور سبھی لوگ اس کی ضرورت اور اہمیت کے قائل بھی ہیں اور عمل پیرا بھی ہوتے ہیں لیکن اپنی ذات میں اتر کر جھانکنا اور خود اپنی شخصیت کا مطالعہ اور اس کی خوبیوں اور کمزوری کا شناخت کرنا کم ہی لوگوں کے حصہ میں آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنی ذات اور شخصیت کا مطالعہ و تجزیہ کسی قدر دشوار کام ہے اور خوبیوں و کمزوریوں کو پہچاننا خوبیوں کے فروغ پر توجہ دینا اور خامیوں سے پاک کرنے کی کوشش کرنا بہترین زندگی اور کامیاب شخصیت کی تعمیر و تشکیل کے لیے ضروری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شخصی ارتقاء اور کامیابیوں کا سفر اسی مقام سے شروع ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے: من عرف نفسہ عرف ربہ۔ (جس نے اپنے آپ کو جان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔)
اپنی ذات اور شخصیت کا فہم و ادراک مردوں کی طرح خواتین کے لیے بھی ضروری ہے۔ کیونکہ زندگی کے میدان میں کامیاب زندگی گزارنا، ان کے لیے بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا مردوں کے لیے۔ اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں پر انہیں بھی اسی طرح جواب دینا ہے جس طرح مردوں کو دینا ہے اور خوبیوں اور اچھائیوں کے نتیجہ میں بننے والی زندگی پر انہیں بھی اسی طرح انعام و ستائش ملنی ہے جس طرح مردوں کو دی جانے والی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے مرد و عورت دونوں یکساں طور پر جواب دہ ہیں اور دونوں کو اپنے برے اعمال کی سزا اور اچھے کاموں پر نیک بدلہ ملنے والا ہے۔ البتہ ایسے معاشرہ میں جہاں خواتین کودوسرے اور تیسرے درجہ کا فرد بنادیا گیا ہو، سماجی و معاشرتی زندگی میں اس کے وجود کی اہمیت اور اس کے رول کی فضیلت کو نظرانداز کردیا گیا ہو، اس بات کی ضرورت اور زیادہ ہوجاتی ہے کہ ایک عورت خوبیوں اور کمزوریوں کی شناخت کرکے اپنی شخصیت اعلیٰ مقام تک لے جاکر معاشرہ اور سماج سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوائے اور اپنی ضرورت، اہمیت اور اپنے رول کو تسلیم کرائے۔
اپنی شخصیت کو جانئے:
اپنی شخصیت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنے علم و صلاحیت، اپنی ذہانت و عقلمندی، سطح، اپنے مزاج، اپنی دینی و فکری سطح اور اپنے جذبات اور امنگوں اور زندگی کے مقاصد پر غور کرے اور دیکھے کہ شخصیت کے ان اہم پہلوؤں سے وہ کس مقام پر کھڑا ہے۔
(۱) علم کا مطلب کتابی معلومات اور گردوپیش کے حالات و واقعات وغیرہ کا علم ہے، اس کا مطلب کسی خاص شعبۂ زندگی سے متعلق آپ کی معلومات بھی ہیں جو درسی و غیر درسی کتابوں، اخبارات کے مطالعہ، مشاہدے اور دیگر ذرائع سے حاصل ہوتی ہیں، جبکہ ذہانت و عقلمندی حالات و مسائل کو سمجھنے اور انہیں بہتر انداز میں حل کرنے کی صلاحیت کا نام ہے۔
(۲) مزاج سے مراد انسان کی اپنی طبعی و اختیار کردہ خصوصیات کا نام ہے۔ ملنساری، غصہ و چڑچڑاپن، سنجیدگی و وقار، جذباتیت و جوشیلاپن، محبت و نرمی، صبر و ضبط اور تحمل، عجلت پسندی و مستقل مزاجی وغیرہ انسان کے مزاج کا حصہ ہوتی ہے۔
(۳) دینی و فکری سطح انسان کی زندگی اور مزاج پر گہرا اثر ڈالتے ہیں بلکہ انسان کی شخصیت کو بناتے ہیں۔ آخرت اور اللہ پر ایمان رکھنے والا جھوٹ اور برائی سے بچے گا، گہرا دینی علم اور فہم انسان کی شخصیت میں گہرائی پیدا کرنے، اخلاقی بلندی کو فروغ دینے اور بلند عزائم کے پروان چڑھانے کا ذریعہ ہوگا۔ دینی بصیرت و معرفت انسان کو سطحی مقاصد سے بلند کرکے فلاح انسانیت کے لیے جدوجہد کرنے اور اس کے لیے ہر مشکل و پریشانی کو برداشت کرنے کا جذبہ و حوصلہ دے گی۔
(۴) انسان کے ذاتی جذبات، اس کی امنگیں اور آرزوئیں انسان کی شخصیت بناتے ہیں۔ حوصلہ مند، پرعزم اور امنگوں اور آرزوؤں سے بھرے لوگ مایوسی، ناکارہ پن، کم ہمتی اور خوف کی نفسیات سے کوسوں دور ہوتے ہیں اسی طرح انسان کی زندگی کا مقصد جس قدر بلند ہوگا اسی کی شخصیت بھی اسی قدر عظیم ہوگی۔ نوکری تلاش کرکے صرف پیٹ کی فکر کرنے والے اور عیش و عشرت کے دلدادہ ملک، ملت اور انسانیت کی فلاح و بہبود پر سوچنے کے لیے وقت نہ نکال سکیں گے۔ جبکہ فلاح انسانیت کے بارے میں سوچنے والے ان تمام فکروں کے باوجود جو عام انسانوں کو لاحق ہوتی ہیں پوری انسانیت کے لیے خیر اور ترقی کے کام انجام دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
(۵) اپنی شخصیت کو پہچاننے کی اہم ترین چیز انسان کا اپنے رویہ پر نظر رکھنا بھی ہے۔ زندگی کے مختلف معاملات و مراحل میں اس کا رد عمل کیا ہے وہی اس کی شخصیت ہے۔ ناپسندیدہ بات پر غصہ ہوجانا، معمولی معمولی باتوں پر رو بیٹھنا، ذراسی پریشانی میں حوصلہ کھودینا ایک طرف تو انسان کے مزاج کا حصہ ہیں دوسری طرف اس کی شخصیت کا عملی مظہر بھی۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ مزاج کی شناخت کے باوجود اگر انسان اپنے رویے کا جائزہ نہ لے تو شخصیت کی کمزوریوں کی اصلاح ممکن نہیں۔
عورت کی شخصیت اپنی طبیعی خصوصیات، میلانات اور پسند و ناپسند کے اعتبار سے مرد سے مختلف ہوتی ہے اس لیے ایک خاتون کے لیے ضرور ہے کہ وہ اپنی پسند و ناپسند، اپنے رجحانات اور اپنی خاص دلچسپیوں کو پہچانیں، ان کے مطابق مطالعہ و سیکھنے کے عمل کو بڑھائیں اور اپنے کاموں میں تخلیقیت و ندرت پیدا کریں اور دیکھیں کہ
٭ میرا پسندیدہ مضمون کیا ہے؟
٭ میری دلچسپی کیا ہے؟
٭میرے شوق اور مشغلوں کی نوعیت کیا ہے؟
بہ حیثیت خاتون جو ذمہ داریاں اس پر ہیں یا مستقبل میں اس پر آنے والی ہیں ان کے لیے ہم نے کیا تیاری کی ہے۔ گھر کی دیکھ ریکھ اور گھر کے نظم و ضبط کو چلانے کے لیے، کچن اور کھانے پکانے کی انجام دہی کے لیے اور بچوں کی تعلیم و تربیت اور نگرانی کے لیے میرے اندر کیا معلومات اور رجحانات پائے جاتے ہیں۔ شوق اور دلچسپیاں جیسے سینا پرونا، گھر کی سجاوٹ وتنظیم اور صفائی و صحت کے سلسلہ میں کیا رجحانات ہیں۔
ایک عورت خواہ کتنی بھی تعلیم یافتہ اور کتنے ہی اونچے مرتبہ اور عہدے پر فائز ہو بہ حیثیت عورت اور بہ حیثیت گھر کی سربراہ کے اسے وہ ذمہ داریاں لازماً انجام دینی ہیں جن سے کسی عورت کو فرار ممکن نہیں اس لیے یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ علم و صلاحیت پیدا کرنے کے ساتھ اس عملی زندگی کے لیے میں کس مقام پر کھڑی ہوں اور ان کاموں کی انجام دہی کی صلاحیت کس حد تک پیدا کرلی ہے۔ اور وہ امور جو اس راہ میں دشواریاں پیدا کرتے ہیں ان سے کس حد تک دوری اختیار کرلی ہے۔
اپنا جائزہ لیجیے:
(۱) علم و صلاحیت کا اندازہ آپ کی ڈگری سے نہیں لگایا جائے گا بلکہ ان معلومات سے ہوگا جو آپ کے پاس ہیں اور جنھیں عملی زندگی میں آپ برتنے کے قابل ہیں۔ اس کے لیے درج ذیل سوالات کے جوابات حاصل کیجیے:
الف: آپ نے کالج یا کتابوں میں جو کچھ پڑھا ہے اس کا کتنا حصہ آپ عملی زندگی میں برتنے کے قابل ہیں؟
ب: اسکولی مطالعے کے علاوہ دیگر میدانوں اور زندگی کے عملی گوشوں کی کس قدر معلومات آپ کے پاس ہیں؟
ج: جنرل نالج اور حالات و واقعات کاکتنا علم آپ کے پاس ہے؟
د: دینی معلومات اور قرآن و حدیث کے بنیادی علم سے آپ کی واقفیت کا کیا عالم ہے؟
(۲) اپنی خوبیوں اور کمزوریوں کو نوٹ کیجیے اور ان کا ایک چارٹ بنائیے اور تجزیہ کیجیے۔ خوبیوں اور کمزوریوں کے اسباب اور عوامل کا پتا لگائیے اور کامیابیوں پر دیکھئے کہ کونسی خوبیاں اس کامیابی کا ذریعہ بنیں۔ اسی طرح ناکامیوں پر نظر ڈالیے اور اس کے پیچھے کے اسباب کا بھی پتہ لگا کر ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کیجیے۔ خوبیوں اور کمزوریوں کو جاننے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کھلے دل سے اپنے بہی خواہوں اور مخلصین کی آپ کے سلسلے میں ملنے والی رائے کی قدر کیجیے اور خامیوں پر ٹوکنے کے لیے شکریہ ادا کیجیے۔
خوبیوں اور کمزوریوں کے چارٹ پر نظر رکھئے اور ہر خوبی کو فروغ دینے کی کوشش کیجیے اور ایسے کام کیجیے جس سے خوبیاں پروان چڑھیں اسی طرح خامیوں پر نظر ڈالیے اور ہر رات طے کیجیے کل کے دن اس خامی سے نجات پانی ہے اور پھر دن بھر اس خامی پر نظر رکھئے اور اپنے رویے اور برتاؤ کو اس خامی سے نجات دلائیے۔ ہر روز ایک بڑی خامی سے چھٹکارے کی فکر آپ کی اصلاح کا زینہ ثابت ہوگی۔ ان شاء اللہ! اللہ کے رسول کا قول دیا رکھیے کہ ’’مومن کا آنے والا ہر دن گزرے ہوئے دن سے بہتر ہوتا ہے۔‘‘
رویوں کو جانئے
رویہ انسان کی شخصیت کو ناپنے کا پیمانہ ہے اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے رویے اور روز مرہ کے معمولات میں مختلف امور کے لیے اپنے ردعمل پر نظر رکھیں۔ رویہ اور ردعمل کا ایک پہلو اپنی خامیوں پر نظر رکھنے کا ہے۔ اور دوسرا پہلو ذات کے ساتھ ساتھ سماج، معاشرے اور خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔
(الف) شخصی ردعمل کو دیکھنے کے لیے درج ذیل سوالات پر غور کیجیے:
۱- خلاف طبیعت بات پر آپ ناراض ہوجاتی ہیں۔
۲- غلطی کو تسلیم کرنے کے بجائے اس پر اڑنے کی روش ہوتی ہے۔
۳- والد، بھائی یا شوہر کے ٹوکنے پر آپ کو غصہ آجاتا ہے۔
۴- بچوں کی غلطی پر آپ انہیں پیار سے سمجھاتی ہیں یا پٹائی کربیٹھتی ہیں۔
۵- اگر کوئی آپ کے بنائے کھانے یا آپ کے لباس پر تنقید کرے تو آپ کا رویہ کیا ہوتا ہے؟
۶- گھر کے بڑوں مثلاً ماں باپ یا ساس سسر کے ساتھ آپ کے معاملات کیسے ہیں؟
۷- گھر کے چھوٹے دیور، دیورانیاں اور نند وغیرہ آپ کو چاہتے ہیں یا نہیں؟
۸- گھر کے تمام افراد کے ساتھ آپ کا سلوک کیسا ہے اور ان کا آپ کے ساتھ سلوک کیسا ہے ؟ وغیرہ وغیرہ۔
ان سوالات کے جوابات سے آپ اپنے شخصی رویہ کو جان سکیں گی اور اصلاح کی جانب گامزن ہوسکیں گی۔ ساس سسر کے ساتھ آپ کا سلوک سخت ہوسکتا ہے لیکن اپنے بچوں کے ساتھ بھی آپ کا سلوک سخت گیر ہوا تو اس کا مطلب ہے نرم مزاجی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ دیور اور نند آپ کے مخالف ہوسکتے ہیں مگر سسرالی گھر کے تمام لوگ آپ سے شاکی ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ اپنے رویہ سے گھر کے لوگوں کی محبت جیت نہیں پائی ہیں۔
(ب) سماجی رویہ کا شعور ہماری سماجی اور تحریکی زندگی کو ظاہر کرتا ہے۔ اگر آپ کے اندر تحریکیت اور سماجی خدمت کا جذبہ ہے تو یقینا آپ لوگوں سے ملنا جلنا، ان کی مدد اور رہنمائی کرنا، تعلیم دینا اور سکھانا جیسے کاموں میں دلچسپی لیتی ہوں گی۔ اگر ایسا نہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنی ذاتی اور گھریلو زندگی ہی میں مطمئن ہیں اور اس سے باہر آنے کو ناپسند کرتی ہیں۔
گھریلو ذمہ داریوں کا بوجھ آپ کے لیے رکاوٹ ہوسکتا ہے، مگر یہ مناسب نہیں کہ آدمی اپنی ذات اور اپنی ہی گھریلو زندگی میں گم ہوجائے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایک خاتون کی حیثیت سے حسب سہولت ہی سہی آپ اپنے آپ کو سماج اور معاشرے سے جوڑیں اور لوگوں کی مدد اور ان کے کام آنے کا جذبہ پیدا کریں۔ خواتین کی سماجی حرکیت اور سماجی خدمت کے لیے تیار ہونا اس لیے بھی ضروری ہے کہ سماج میں پھیلی برائیاں کسی نہ کسی طرح ہمیں اور ہماری نسلوں کو متاثر کررہی ہیں اور کریں گی۔ چنانچہ صرف اپنے بچوں کی صالح تربیت کی فکر اس وقت کارآمد نہیں ہوسکتی جب تک آپ ان بچوں کی صالح تربیت کی بھی فکر نہ کریں جن کے ساتھ آپ کا بچہ رہتا اور کھیلتا ہے۔
آخری بات
انسانی شخصیت کی کامیابی اور اس کی تشکیل میں سب سے اہم رول اس بات کا ہے کہ زندگی کے سلسلہ میں خود ہمارا رویہ کیا ہے۔ ہم زندگی کو کس نقطۂ نظر سے دیکھتے اور اس کے لیے کیا اہداف و مقاصد رکھتے ہیں۔ جو لوگ محض عیش و عشرت، اونچے عہدے اور سماجی شہرت ہی کو زندگی کا حاصل سمجھتے ہیں وہ اپنی زندگی اور اپنی شخصیت کے لیے اسی قسم کے مقاصد رکھتے ہیں اور اسی سے میل کھاتی خوبیاں اپنے اندر پیدا کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ جبکہ زندگی کے لیے بلند نصب العین رکھنے والے اور اپنے آپ کو اپنی ذات کے خول سے باہر نکال کر دیکھتے ہیں ان کی شخصیت اسی قدر عظیم اور بلند کردار ہوتی ہے۔ ضروری ہے کہ اپنی ذات کے اندر چھپی بلندیوں کا انکشاف کیا جائے اور اپنی تربیت اسی نہج پر کرنے کی طرف توجہ دی جائے جہاں پہنچ کر انسان کی نظر میں اس کے بڑے بڑے اعمال بھی معمولی نظر آتے ہیں۔ ایک عربی شعر ہے جس کا ترجمہ ہے: ’’بڑے انسان کی نظر میں اس کے بڑے بڑے کارنامے بھی معمولی ہوتی ہیں جبکہ چھوٹے انسان کی نظر میں اس کے معمولی معمولی کام بھی کارہائے نمایاں معلوم ہوتے ہیں۔