خود کو کامیاب خاتون بنائیے!

مریم جمال

ایک مسلم خاتون عام خواتین کے مقابلے میں زیادہ ذمہ دار ، زیادہ باشعور اور عزم و حوصلے سے زیادہ بھری ہونی چاہیے۔ اس کی فکر کے دو خاص محاذ ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ کس طرح اپنی گھریلو اور دینی ذمہ داریوں کو زیادہ بہتر اور کارآمد طریقے سے انجام دے۔ دوسرے یہ کہ وہ اپنی ذات کو کس طرح ترقی دے کہ اس کی صلاحیتیں پروان چڑھ کر ملک و ملت کے لیے مفید ثابت ہوں۔
اپنی صلاحیتوں کو پہچانئے
ہماری اکثر خواتین کا موضوع غوروفکر صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ کس طرح اپنی گھریلو ذمہ داریوں کو انجام دے کر فارغ وقت تفریح طبع اور دیگر کاموں میںلگائیں اور اس طرح وہ اپنی شخصیت کو بنانے، سنوارنے اور نکھارنے کی طرف متوجہ نہیں ہوتیں۔ حالانکہ یہ ان کی بہ حیثیت خاتون ایسی ذمہ داری ہے، جس سے وہ نہ دینی اعتبار سے غافل رہ سکتی ہیں اور نہ اپنی دنیاوی مصروفیات کو بہتر طریقے سے انجام دینے کے لحاظ سے بے توجہ رہ سکتی ہیں۔ اس طرح یہ ہر خاتون کی ذمہ داری ٹھہرتی ہے کہ وہ خود کو ایک بہترین، باصلاحیت اور انقلابی خاتون کے سانچے میں ڈھالے کہ اس کا گھر، اس کا سماج، اس کا معاشرہ اور خود اس کی ذات کو اس کا فائدہ حاصل ہوسکے۔ ہمیں یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہیے کہ ہم ایک تعلیم یافتہ اور باشعور خاتون ہیں اور اسی وجہ سے ہماری ذمہ داریاں اور ہمارے کام بہت وسیع اور بہت زیادہ ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار صلاحیتیں اور خوبیاں بھی دی ہیں کہ اگر ہم حقیقت میں انہیں سمجھ لیں اور اپنی ان پوشیدہ صلاحیتوں کو جان لیں تو نہ صرف ہم اپنی ذات کو ارتقاء کے اعلیٰ درجوں تک لے جاسکتے ہیں بلکہ ملک و ملت کی بھی بڑی خدمت انجام دے سکتے ہیں۔ اس لیے اپنی ذات کا جائزہ لیجیے کہ:
٭ کیا آپ عام خواتین سے مختلف اور تعمیری سوچ رکھتی ہیں؟
٭ آپ اپنے کاموں کو کس طرح اور کس انداز میں انجام دیتی ہیں؟
٭ آپ گھر سے نکل کر کچھ انقلابی سرگرمیاں انجام کیوں نہیں دے پاتیں؟
اپنے رول کا جائزہ لیجیے
صحابیات اور عظیم مسلم خواتین کی زندگیاں ہمارے سامنے ہیں۔ وہ ضرورت پڑنے پر اپنے گھر بار اور کھیتی باڑی و تجارت میں بھی اپنے شوہروں کا ہاتھ بٹادیتی تھیں۔ اپنے بچوں کی بہترین تعلیم و تربیت بھی کرتی تھیں اور دین سیکھنے سکھانے کی سرگرمیوں میں بھی پیش پیش رہتی تھیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ آپ کی دن بھر کی مصروفیات محض گھر کے کاموں میں ہی ختم ہوجاتی ہیں۔ یادر کھئے زندگی میں توازن نہایت ضروری ہے۔ جہاں آپ پر بہ حیثیت خاتون خانہ، بہ حیثیت ماں، بہ حیثیت بیوی اور بہ حیثیت کارکن اور ذمہ دار ادارہ کچھ ذمہ داریاں ہیں، وہیں سماج، معاشرے اور دین اسلام کے لیے بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں اور ان ذمہ داریوں کی ادائیگی سے ہماری آخرت کی کامیابی براہِ راست جڑی ہوئی ہے۔ گھر، اولاد ان سے متعلق امور تو گرتے پڑتے سبھی خواتین انجام دیتی ہی ہیں۔ آپ کا امتیاز یہ ہے کہ آپ دوسروں سے زیادہ باشعور اور دینی فکر سے وابستہ ہیں، اس لیے اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کرنا ہے۔ محلے پڑوس کی خواتین کو دین سے واقف کرانا، رشتہ داروں کی رہنمائی کرنا اور ان کی زندگیوں کو اسلام کے رنگ میں رنگنا، غریب اور بیوہ و بے سہارا خواتین کی خبر گیری کرنا اور ان کے مسائل کو حل کرنا اور دعوت دین کے لیے فعال رول ادا کرنا بھی آپ کی ذمہ داری ہے۔
اپنے وقت کا حساب کیجیے
ہر انسان کو اللہ تعالیٰ نے دن رات میں چوبیس گھنٹے دیے ہیں۔ جو لوگ ان چوبیس گھنٹوں کا جتنا زیادہ مفید، مناسب اور بہتر استعمال کرتے ہیں وہ اسی قدر عظیم قرار پاتے ہیں اور اسی قدر عظیم کامیابیاں حاصل کرتے ہیں۔ ایک فقیر کے پاس بھی اتنا ہی وقت ہے جتنا ایک بادشاہ کے پاس۔ مگر بادشاہ اور حکمراں اسی وقت میں پورے امورِ مملکت انجام دیتا ہے اور فقیر صرف بھیک مانگنے میں ہی اسے گنوادیتا ہے۔ کتنی خواتین ایسی ہیں جو وہ کام تو انجام دیتی ہی ہیں جو ایک عام خاتون انجام دیتی ہے لیکن ان کاموں کے علاوہ وہ سماج میں انقلاب اور تبدیلی کا ذریعہ بھی ثابت ہورہی ہیں۔ یہ مثالیں نبوی دور سے لے کر آج تک جاری ہیں۔ آج درجنوں آدی باسی اور دلت عورتیں ایسی ہیں جنھوں نے اپنے اپنے علاقوں میں وہ خدمات انجام دی ہیں اور دے رہی ہیں جو حکومتیں انجام نہ دے سکیں۔ ایسا صرف اس وجہ سے ممکن ہوا ہے کہ انھوں نے اپنے وقت کا حساب کیا، ترجیحات متعین کیں اور اپنی سرگرمیوں کو ایک توازن کے ساتھ جاری رکھا۔
اس لیے اپنی مصروفیات اور اوقات کارکا جائزہ لے کر دیکھئے کہ:
٭ گھر کے کاموں میں کتنا وقت صرف ہوتا ہے؟
٭ بچوں اور شوہر کے لیے کتنا وقت نکالتی ہیں؟
٭ رشتہ داروں اور محلے پڑوس پر آپ کتنا وقت دیتی ہیں؟
٭ سماجی و دینی خدمات اور سرگرمیوں کے لیے آپ کے چوبیس گھنٹوں میں کتنا وقت ہے؟
علم و فکر کے ارتقاء کی فکر کیجیے
دوسروں سے شعوری اعتبار سے مختلف آپ اس لیے ہیں کہ آپ کے پاس علم ہے اور اپنی ذمہ داریوں کا شعور ہے۔ اسی لیے آپ انہیں انجام دینے کی فکر میں لگی ہیں اور لگنا چاہیے۔ مگراس شعور اور علم کا تقاضا یہ ہے کہ آپ اپنے آپ کو علم کے تمام سوتوں سے جوڑے رکھیں۔ اس لیے کہ جب آدمی اپنے رشتے کو علم سے کاٹ لیتا ہے تو اس درخت کی مانند ہوجاتا ہے جسے پانی نہ ملے اور پھر وہ خشک ہوکر مرجاتا ہے۔ اس لیے ایک باشعور اور بہترین خاتون کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے علم میں اضافہ اور فکر کی پختگی اور ترقی کے لیے مسلسل جدوجہد جاری رکھے، اس کے لیے حالات کا علم اور کتابوں کا مطالعہ ضروری ہے۔ اس کے بغیر نہ قیادت ممکن ہے اور نہ سرگرمیوں کی بہتر انجام دہی۔ علم سے مضبوط رشتہ ہمارے لیے ضروری ہے کیونکہ یہ ہماری صلاحیتوں کو نکھارتا، بڑھاتا اور ہمیں اس قابل بناتا ہے کہ ہم اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے زیادہ بہتر جدوجہد کرسکیں۔ یہ مطالعہ ہمیں عزم و حوصلہ اور مقصد کے حصول کے لیے مسلسل چارج کرنے کا ذریعہ بنتا ہے اس لیے ہمیں ہر وقت اس طرف متوجہ رہنا چاہیے اور روزانہ کی بنیاد پر دیکھتے رہنا چاہیے کہ ہم کس حد تک اس سے وابستہ ہیں۔
حسن و صحت کی حفاظت
اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ہے، اس لیے ہر فرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ اللہ نے اسے جو حسن و خوبی اور صحت دی ہے وہ اس کی حفاظت کے سلسلے میں ہمیشہ حساس رہے۔ خواتین کے لیے تو حسن و صحت کی حفاظت اس لیے از حد ضروری ہے کہ ان کی فطری ذمہ داریاں مردوں سے مختلف نوعیت کی ہیں جو زیادہ نگرانی اور حساسیت کی طالب ہوتی ہیں۔ ایک خاتون اپنے حسن و صحت کے ساتھ ہی مکمل خاتون قرار پاتی ہے اس لیے اسے ہرگز اس جانب سے غفلت نہیں برتنی چاہیے۔ ذمہ داریوں کے بوجھ، مصروفیات کی کثرت اور عزم و حوصلہ سے بھر پور ہونے کے باوجود صحت کی حفاظت نہایت ضروری ہے۔ ایسا اس لیے بھی ہے کہ صحت کے بغیر ہم دنیا میں کوئی بھی کام انجام نہیں دے سکتے۔ حضورﷺ نے ہمیں صحت کو بیماری سے پہلے غنیمت سمجھنے کی تلقین کی ہے، اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ ایک طاقت ور مومن اللہ کو کمزور مومن کے مقابلہ میں زیادہ محبوب ہے حالانکہ بھلائیاں دونوں میں ہیں۔
اپنی صحت کی حفاظت اور اس کو بہتربنائے رکھنے کے لیے جہاں ورزش اور دیگر چیزوں پر توجہ کی ضرورت ہے، وہیں اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ
٭ ایک عورت اپنی غذا پر خصوصی توجہ دے۔
٭ کام اورآرام میں مناسب تال میل قائم رہے۔
٭ مصروفیات میں توازن باقی رہے۔
ہم اپنی ذات کو ایک بہترین، مثالی اور انقلابی خاتون کے قالب میں اس لیے ڈھالنا چاہتے ہیں کہ ہم ان ذمہ داریوں کی مکمل ادائیگی کے لیے خود کو تیار کررہے ہیں جو مسلم خاتون اور سچے مومن کی حیثیت سے ہم پر اللہ تعالیٰ نے ڈالی ہیں۔ ہم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے اس فریضے کو انجام دینا چاہتے ہیں جس کی روانگی پر ہماری اس دنیا میں بقا، عزت و وقار اور غلبہ و ترقی منحصر ہے اور جوآخرت میں ہمارے لیے کامیابی کی بنیاد ہے۔ اس کے لیے ہمیں رہنمائی حضورﷺ کی زندگی، صحابیات کی زندگی اور عہد اسلامی کی عظیم عالمات و فاضلات کی زندگیوں سے ملتی ہے۔ وہ بہترین مربی بھی تھیں اور خاتون خانہ بھی، وہ علم و فضل کے بلند مرتبے پر بھی فائز تھیں اور مجاہدہ میدان بھی تھیں۔ وہ تجارت و معیشت میں بھی حصہ دار تھیں اور دعوت و تبلیغ کے میدان میں فعال کارکن بھی تھیں۔ وہی ہمارے لیے نمونہ ہیں اور انہی کی زندگی ہمارے عزائم و حوصلوں کے لیے مہمیز دینے والی بھی ہیں۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں