ایک وقت تھا جب موٹاپے کو امارت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ آج خوراک اور طرزِ زندگی نے موٹاپے کو ایک بین الاقوامی مسئلہ بنادیا ہے۔ عہد جدید نے جہاں تہذیب کو بہت سے تحفے دیے ہیں، وہیں ایک تحفہ کھانا پینا اور ہر وقت کھاتے رہنا لائف اسٹائل بنادیا ہے اور اس ہمہ وقت کھانے پینے نے منہ کو ہر دم رواں دواں پہیوں والی ایسی گاڑی بنادیا ہے جس کی کوئی منزل نہیں، درحقیقت ضرورتاً عادتاً منہ چلاتے رہنا ہمارے صحت کی بربادی کے کٹہرے میں کھڑا ایسا ملزم ہے جس نے نوجوان نسل کو بھی وقت سے پہلے مختلف امراض کا شکار بنادیا ہے۔ صحت کی ایک کتاب میں درج ہے۔ سادہ اور دوٹوک الفاظ میں پیٹ کی ہوس بجھانے کے لیے اسے بھرنا ایسا ہی ہے جیسے اپنے ہی دانتوں سے اپنی قبر کھودنا۔ دیر تک پڑھ رہے ہوں یا کام کررہے ہوں تو اس وقت کے لیے بھی لوازمات درکار ہوں گے۔ گویا کہ کھانے کے لیے جی رہے ہیں جو بھی الم غلم سامنے آیا منہ کی مشین کے سپرد کردیا اور وہ مسلسل چل رہی ہے۔ اس طرح مسلسل کھانے پینے کو ہم نے زندگی کا حصہ بنالیا ہے اور صحت جیسی نعمت کو قبر میں دھکیل دیا ہے اور بین الاقوامی مرض موٹاپے کا کمبل اوڑھ لیا ہے۔ کم کھانے سے آدمی نہیں مرتا، بیماری دور بھاگتی ہے اور عمر دراز ہوتی ہے۔ دوسری طرف ان غریبوں اور محتاجوں کے لیے بھی بہت کچھ بچ جاتا ہے جو ایک وقت کا کھانا پیٹ بھر کر نہیں کھاسکتے۔ دوسرا ملزم ہمارے خیال میں فریج ہے جس نے انسانی صحت کو تو متاثر کیا ہی ہے ہماری اقدار وروایات اور تہذیب و شائستگی کو بھی ضرب لگائی ہے۔ اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ ہماری صحت، اخلاقیات، دریادلی، سخاوت، فیاضی اور نفس کے غنا پر ہمارا فریج حاوی ہوگیا ہے۔ اس کا بھر پور مظاہرہ عید قربان کے موقع پر بالخصوص خواتین کے رویے سے ہوتا ہے۔ گوشت فریج کی وسعتوں اور ڈیپ فریزر کی گہرائیوں میں سماسکتا ہے اسے رکھ کر بقایا تقسیم کے زمرے میں آتا ہے اور پھر مہینوں یہ باسی گوشت کھاکر جان کو روگ لگائے جاتے ہیں۔ سوچنے کا مقام یہ ہے کہ کیا ہمارے معیارات جدید تہذیب اور اس کے تحفوں یعنی ایجادات کے مرہونِ منت ہوں گے۔ خواتین سے درخواست ہے کہ خدارا صحت کا خیال رکھیں اور ٹی وی فیشن سے نکل کر سادہ لیکن تازہ کا شعار اپنائیں۔
——