خوشبو کا سفر

ریکفرٹ لینس/ محمد اسحاق میر

منیجر نے پہلے اپنی انگلیوں کے نوتراشیدہ ناخن ایک کھلے رجسٹر کے صفحے پر پھیرے، پھر معذرت کا اظہار کیا۔
’’بس صرف یہی ایک کمرہ ہے۔‘‘ اس نے کہا ’’اتنی رات گئے آپ کو کسی بھی ہوٹل میں یک بستری کمرہ نہیں ملے گا۔ آپ شوق سے کسی اور جگہ قسمت آزمائی کرسکتے ہیں، لیکن یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیں، جب آپ ہر طرف سے مایوس ہوکر دوبارہ یہاں آئیں گے تو پھر ہم بھی آپ کی کوئی خدمت کرنے کے قابل نہ رہیں گے۔ اس ڈبل بیڈ کمرے کی خالی جگہ، جو خدا جانے آپ کیوں پسند نہیں کررہے، یقینا آپ کی واپسی سے پہلے ہی پُر ہوچکی ہوگی۔ اس پر آپ کے بجائے کوئی دوسرا تھکا ماندہ مسافر محوِ استراحت ہوگا۔‘‘
’’اچھا! تو پھر ٹھیک ہے۔‘‘ شوام بولا ’’یہ بستر آپ میرے لیے مختص کردیں، لیکن اگر آپ برا نہ مانیں تو میں یہ پوچھنا چاہوں گا کہ اس کمرے میں دوسرا مسافر کون ہے؟ یہ بات میں کسی خوف یا شبہے کی بنا پر نہیں پوچھ رہا۔ ایسی کوئی بات نہیں، میں صرف یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ کیا میرا ساتھی اس وقت کمرے میں موجود ہے؟ دیکھئے نا، میں اسے ’ساتھی‘ کہنے میں بالکل حق بہ جانب ہوں، آخر مجھے آج کی ساری رات اسی کے ساتھ گزارنی ہے۔‘‘
’’جی ہاں۔‘‘ منیجر نے کہا ’’آپ کا ساتھی کمرے میں موجود ہے اور غالباً سورہا ہے۔‘‘
’’سورہا ہے…‘‘ شوام نے الفاظ دہرائے۔ پھر اس نے ضروری فارم مانگے، انہیں پُر کیا اور منیجر کے حوالے کرکے بالائی منزل پر چلا گیا۔
وہ اپنے کمرے کا نمبر دیکھتے ہی فوراً رک گیا۔ اس نے سانس روک کر دروازے سے کان لگا کر کچھ سننا چاہا، مگر اسے کچھ سنائی نہ دیا۔
اس نے دروازے کا ہینڈل گھمایا اور کمرے میں داخل ہوکر دروازہ بند کردیا۔ بجلی کا بٹن ڈھونڈنے کے لیے اس نے ہاتھ سے دیوار ٹٹولنی شروع کردی، لیکن اچانک رک گیا۔ کسی شخص نے اسے مدھم مگر پروقار آواز میں مخاطب کرکے کہا: ’’دیکھئے صاحب! بلب جلانے کی زحمت نہ فرمائیے۔ اگر آپ یہ کمرہ تاریک ہی رہنے دیں تو آپ کی نوازش ہوگی۔‘‘ کمرے میں ایک ناگوار سی بو پھیلی ہوئی تھی جو غالباً اس کے ساتھی کے بوسیدہ کپڑوں سے اٹھ رہی تھی۔
’’شاید آپ میرا انتظار کررہے ہیں۔‘‘ شوام کھسیانا سا ہوکے بولا۔ اس نے سوچا کہ جس کے لباس سے اتنی بدبو اٹھ رہی ہے وہ خود کیسی کراہیت آمیز شخصیت کا مالک ہوگا، لہٰذا اس نے دل ہی دل میں شکر ادا کیا کہ اسے اجنبی کے ساتھ تاریکی میں ہی شب گزارنی ہوگی۔
اجنبی مسافر نے جواب دینے کی بجائے کہا : ’’بڑی احتیاط سے قدم اٹھائیے، ایسا نہ ہو کہ میری بیساکھی سے آپ کو ٹھوکر لگ جائے اور آپ دھڑام سے میرے سوٹ کیس پر گرپڑیں، یہ سوٹ کیس کمرے کے بالکل بیچ میں رکھا ہوا ہے۔ خیر، میں آپ کی رہنمائی کیے دیتا ہوں، پہلے آپ دیوار کے ساتھ ساتھ تین قدم آگے بڑھیں، پھر بائیں جانب مڑکر مزید دو قدم چلیں، اس کے بعد آپ بستر اپنے سامنے پائیں گے اور ہاتھ بڑھا کر اسے چھو بھی سکیں گے۔‘‘
شوام نے ایسا ہی کیا۔ بستر تک پہنچ کر اس نے اندھیرے میں کپڑے تبدیل کیے اور بستر پر لیٹتے ہی رضائی اوڑھ لی۔ اب اسے اپنے ساتھی کے سانسوں کی آواز بالکل قریب سے سنائی دے رہی تھی۔ اس نے محسوس کیا کہ فوری طور پر سوجانا اس کے بس کی بات نہیں۔
’’غالباً آپ کسی کانفرنس کے سلسلے میں یہاں آئے ہیں۔‘‘ ساتھی نے پوچھا۔
شوام نے کہا: ’’میرے یہاں آنے کا مقصد بہت انوکھا ہے۔ مجھے یقین نہیں آتا کہ کبھی کوئی شخص اس غرض سے یہاں آیا ہو۔‘‘
’’بات دراصل یہ ہے کہ میرا ایک ضدی سا لڑکا ہے، میں آج محض اس کی خاطر یہاں آیا ہوں۔‘‘
’’کیا وہ یہاں کسی اسپتال میں زیرِ علاج ہے۔‘‘
’’آخر کیوں؟‘‘ شوام حیران ہوکر بولا: ’’وہ تو خیر سے بالکل تندرست ہے۔ ہاں، البتہ اس کے چہرے کی رنگت قدرے زردی مائل ہے، وگرنہ وہ بالکل بھلا چنگا ہے۔ میں تو آپ کو صرف یہ بتانا چاہتا تھا کہ میں آج اس شہر میں کیوں آیا ہوں اور اس کمرے میں آنے کی وجہ کیا ہے۔ میں آپ کو بتاچکا ہوں کہ میرے یہاں آنے کا باعث میرا لڑکا ہے۔ دراصل وہ ضرورت سے زیادہ حساس اورانتہائی نازک مزاج ہے۔ اگر اس پر کسی ناگوار چیز کاسایہ بھی پڑجائے، تو اس کی طبیعت مضمحل ہوجاتی ہے۔‘‘
’’اگر یہ بات ہے تو پھر آپ اسے کسی اسپتال میں کیوں داخل نہیں کرادیتے؟‘‘
’’آخر کس لیے؟‘‘ شوام نے آواز بلند کرکے کہا۔ ’’جناب! میں آپ کو پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ میرا لڑکا بالکل تندرست ہے۔ ہاں، اسے صرف ایک خطرہ لاحق ہے اور وہ ہے اس کا شیشے سے بھی نازک دل… بس یہی چیز اس کے لیے خطرے کا باعث بن گئی ہے۔‘‘
’’آخر وہ اتنا نازک کیوں ہے؟‘‘ ساتھی نے پوچھا۔
’’سنیے! پہلے آپ ایک مرتبہ میری بات پوری طرح سن لیجیے۔ میں بار بار کہہ رہا ہوں کہ میرا لڑکا بالکل معصوم اور کم سن ہے۔ آپ کا سوال مجھے بہت عجیب سا لگا ہے۔ خیر، میں صرف یہی کہوں گا کہ آپ کا یہ قیاس بالکل غلط ہے۔جو خطرہ میرے بچے کو درپیش ہے، اس کی تفصیل کچھ یوں ہے: ہمارے گھر کے سامنے ریل کی پٹری واقع ہے۔ صبح مخصوص وقت پر وہاں سے ایک ریل گزرتی ہے۔ وہ ہر روز ریل کو وہاں سے گزرتے ہوئے دیکھتا ہے۔ جب گاڑی قریب آتی ہے تو اپنا ہاتھ ہلا ہلاکر مسافروں کو سلام کرتا ہے۔ لیکن پھر اس کی طبیعت مرجھا جاتی ہے۔‘‘
’’اچھا… تو پھر؟‘‘
’’پھر…‘‘ شوام نے کہا’’پھر وہ اپنے اسکول چلا جاتا ہے، لیکن جب وہ گھر واپس آتا ہے تو اس کا مزاج بدستور غمگین ہوتا ہے، وہ بے حد مغموم اور کسی گہرے خیال میں مستغرق نظر آتا ہے۔ بعض اوقات بلا وجہ رونے بھی لگتا ہے۔ اسکول کے کام میں وہ بالکل دلچسپی نہیں لیتا، کھیلنا کودنا بھی اس نے ترک کردیا ہے۔ حتیٰ کہ وہ کسی سے بات کرنے کا بھی روادار نہیں۔ کئی مہینوں سے اس کی یہی حالت ہے۔ ہر روز ہمارے گھر میں یہی تماشا ہوتا ہے۔ یاد رکھئے! میرے بچے کی زندگی خطرے میں ہے۔‘‘
’’لیکن آخر وہ ایسا کیوں کرتا ہے؟‘‘
’’یہ بھی سن لیجیے۔‘‘ شوام نے جواب دیا: ’’اس عجیب رویے کی وجہ بھی بالکل انوکھی ہے۔ جب سامنے سے ریل گزرتی ہے تو میرا لڑکا ہاتھ ہلا ہلا کر مسافروں کو سلام کرتا ہے۔ مگر کوئی مسافر بھی اس کی دل جوئی کی خاطر ہاتھ سے اشارہ کرکے جواب نہیں دیتا۔ انسانوں کی یہ سرد مہری دیکھ کر میرے لڑکے کا دل ٹوٹ جاتا ہے۔ میں مانتا ہوں کہ مسافر اس کے سلام کا جواب دینے کے پابند نہیں۔ اگر کوئی اس قسم کا قانون بنایا بھی جائے تو وہ میرے نزدیک انتہائی مضحکہ خیز ہوگا۔‘‘
ساتھی بولا: ’’غالباً آپ اپنے لڑکے کی یہ ذہنی الجھن دور کرنے کے لیے بہ نفس نفیس اسی گاڑی سے سفر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
’’شاید آپ کو برا لگے، لیکن یہ سچ ہے کہ مجھے بچے اچھے نہیں لگتے، بلکہ میں ان سے نفرت کرتا اور ان سے کوسوں دور بھاگتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ میں نے محض ایک بچے کی وجہ سے اپنی بیوی کی جان گنوادی۔ وہ بے چاری پہلی زچگی کے دوران ہی خدا کو پیاری ہوگئی۔‘‘
’’یہ سن کر مجھے سخت دکھ ہوا ہے۔‘‘ شوام نے بے ساختہ کہا۔ پھر اس نے انگڑائی لی، اب اس کا بدن اچھی طرح گرم ہوچکا تھا اور اس کی آنکھوں میں نیند کا خمار آگیا تھا۔
’’میرا اندازہ ہے کہ کل آپ صبح کی ریل سے، کورس باغ جائیں گے؟‘‘ ساتھی نے کہا۔
’’آپ کا اندازہ بالکل درست ہے۔‘‘ شوام نے جواب دیا۔
’’لیکن کیا آپ کو اس حرکت پر شرم نہیں آئے گی؟ حق بات تو یہ ہے کہ اپنے بچے کو اس طرح دھوکا دینا ایک قابلِ افسوس بات ہے۔ آپ اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ آپ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں، وہ سراسر فریب اور مکر ہے۔‘‘
یہ سن کر شوام غصے میں آگیا، بولا: ’’دیکھئے صاحب، آپ حدسے بڑھنے کی جرأت نہ کریں۔ مجھے آپ کی دیدہ دلیری پر سخت تعجب ہے۔‘‘
یہ کہہ کر شوام نے چپ سادھ لی۔ اس نے پھر بھرپور انگڑائی لی، اپنا سر رضائی سے ڈھانپ لیا اور چند لحظے کچھ سوچنے کے بعد سوگیا۔
صبح اس کی آنکھ کھلی تو اس کا ساتھی کمرے میں موجود نہ تھا۔ کمرے سے وہ بدبو بھی دور ہوچکی تھی۔ جب اس کی نگاہ گھڑی پر پڑی تو اس کے چہرے کا رنگ فق ہوگیا۔ ریل کی روانگی میں اب صرف ۵ منٹ باقی تھے اور اتنے قلیل وقت میں اسٹیشن پہنچ کر گاڑی میں سوار ہونا ناممکن تھا۔
شہر میں مزید ایک رات کا قیام اسے گوارا نہ ہوا اور وہ مایوس و ناکام ہوکر دوپہر کے وقت اپنے گھر پہنچ گیا۔
اس کے لڑکے نے دروازہ کھولا، وہ آج غیر معمولی طور پر خوش وخرم نظر آرہا تھا۔ باپ کو دیکھتے ہی وہ اس کی ٹانگوں سے لپٹ گیا۔ اس کی رانوں پر لاڈ سے مکے مارتے ہوئے وہ چلایا۔ ’’ابا! آج مجھے سلام کا جواب مل گیا، ایک مسافر دیر تک میری جانب اشارے کرتا رہا۔‘‘
یہ سن کر شوام حیرت زدہ ہوگیا۔ لیکن پھر اچانک اس کے ذہن میں ایک خیال آیا، اس نے تیزی سے بیٹے سے دریافت کیا ’’کیا اس کے ہاتھ میں بیساکھی تھی؟‘‘
’’ہاں تھی، اس نے بیساکھی ہلا ہلاکر ہی میرے سلام کا جواب دیا۔ بیساکھی کے سرے سے ایک سفید رومال بھی بندھا ہوا تھا۔ وہ بیساکھی کھڑکی سے باہر نکال کر مسلسل ہلاتا رہا، یہاں تک کہ وہ میری نظروں سے اوجھل ہوگیا۔‘‘
شوام سر پکڑ کر وہیں بیٹھ گیا۔ اس لمحے اسے اپنے نتھنوں میں بہت تیز خوشبو آتی محسوس ہوئی تھی۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146