آج سے قریباً سات آٹھ برس قبل ایک معمولی سے حادثے میں میرے دائیں بازو کی ہڈی ٹوٹ گئی اور کلائی سے کہنی تک پلاسٹر چڑھ جانے کے باعث میں گھر کی چار دیواری میں قید سا ہوکر رہ گیا۔ بہت سی کتابیں جنھیں پڑھنے کی خواہش ایک زمانے سے تھی لیکن زندگی کے ہنگاموں نے مہلت ہی نہ دی تھی، اب انھیں پڑھنے کے ارمان خوب دل کھول کر نکالے، تاہم اس طویل بیٹھک نے جسم پر ایک سستی اور کاہلی سی طاری کردی۔پلاسٹر کھلنے کے قریباً ڈیڑھ ماہ بعد میں بازو کے درد کی شکایت لیے ڈاکٹر کے ہاں گیا، تو اس نے ہلکی مالش کے ساتھ ساتھ پورے جسم کی ورزش کا مشورہ دیا اور اس کے لیے بلاناغہ لمبی سیر تجویز کی۔
سیر ایسی شے نہ تھی جو میں نے کبھی کی نہ ہو۔ گرمیوں اور معتدل موسم کے آٹھ نو مہینے صبح کی سیر ہمیشہ سے کرتا تھا، البتہ سردیوں کے تین ماہ کا ناغہ گزشتہ چند سال سے ہورہا تھا کیونکہ جسم اب شدید سردی برداشت نہیں کرپاتا تھا۔ اب ڈاکٹر نے بلاناغہ سیر کا مشورہ دیا تو فروری کا وسط تھا۔ صبح سویرے ہنوز خاصی خنکی بلکہ سردی ہوتی تھی اور بازو کا درد ابھی باقی تھا، لہٰذا سیر کے لیے میں نے عصر کے بعدکا وقت چنا۔
چند برس قبل تو میرے گھر سے چالیس پچاس قدم ہی پر کھیتوں اور پھر باغات کا سلسلہ شروع ہوجاتا تھا، لیکن اس دوران آبادی کے بڑھتے ہوئے سیلاب نے قریبی کھیتوں اور دو ایک باغات کو نگل لیا تھا۔ اب کھیتوں کی ہریالی اور باغات کی بہار گھر سے چار پانچ سو قدم دور ہوگئی تھی۔ سیر کے آغاز میں بھی چار پانچ سو قدم طے کرنے مشکل ہوتے، لیکن جوں ہی سب سے پہلے باغ کے درخت نظر آنے لگتے، میرا دھیان آبادی سے ہٹ کر درختوں میں جالگتا اور میرے قدم تیز تیز آگے کی طرف بڑھتے چلے جاتے۔ باغ کے بعد گیہوں کے ہرے بھرے کھلیان، دوسرا باغ اور گیہوں کے سرسبز کھیت، پھر تیسرا باغ اور لہلہاتی فصلیں اور یہ سلسلہ میلوں تک چلا گیا تھا۔
میں ان کھیتوں میں نئے نئے ابھرتے باغ دیکھتا تو ان باغوں کے غم اور زخم مندمل ہونے لگتے جنھیں آبادی کے بڑھتے ہوئے سیلاب نے نگل لیا تھا۔ برسوں پرانے وہ تناور درخت جن سے میرا بچپن شناسا تھا، چولہوں کا ایندھن بن گئے اور پھولوں کی وہ کیاریاں نابود ہوگئی تھیں جن سے لڑکپن اور جوانی میں پھول چنا کرتا تھا۔
پھولوں سے مجھے دیوانگی کی حد تک پیار تھا۔ یہ پھول ہی تھے جن سے مجھے اس دنیا میں سب سے پہلے لگاؤ ہوا۔ ہر موسم کے پھول باقاعدگی سے ہمارے ہاں آیا کرتے تھے۔ آغاز بہار میں ’’کرنے‘‘ یا کھٹی کے پھول، پھر مارچ سے مئی تک دیسی گلاب، ان کے بعد موتیے کے پھول تو خاصے دنوں تک آتے۔ سردیوں میں گل صد برگ کے ساتھ چنبیلی کی کلیاں اور پھول آغاز بہار تک آتے۔
ہمارے قدیم شہر میں رسم تھی کہ کھاتے پیتے گھرانوں میں محلے کی مالن نوبیاہتا دلہنوں کو موسم کے پھول مہیا کرتی اور یہ سلسلہ بہت برس تک چلتا۔ یہ گھرانے وقتاً فوقتاً مالن کو کچھ نہ کچھ دے دیا کرتے مگر عیدوں اور بسنت کے تہواروں پر تو مالن کو ایک خاص رقم ضرور ملا کرتی اور شادی بیاہ پر خدمت گزاروں میں سب سے زیادہ حصہ اسی کا ہوا کرتا۔
جب میں بچپن میں الگ سونے لگا تو چند پھول میرے سرہانے رکھے جانے لگے اور یہ سلسلہ میرے میٹرک پاس کرنے تک جاری رہا۔ اس کے بعد میں کالج میں داخل ہوا۔ جب چھٹیاں ہوتیں تو میں گھر چلا جاتا۔ صبح کی سیر کے دوران پھول چن لاتا جن میں سے کچھ والدہ کی نذر کردیتا جنھوں نے ہمیشہ میرے سرہانے پھول رکھے تھے۔ ان کی یہ عادت تھی کہ پھول میرے ہاتھ سے لیتیں اور ایک بار سونگھ کر لوٹا دیا کرتیں۔
جب میں اٹھارہ انیس برس کاتھا، ایک صبح سیر کے بعد موتیے کے پھول چن رہا تھاکہ ایک نوجوان لڑکی نے منع کردیا۔ اس کی یہ بات اس لیے بری لگی کہ میں انہی پھلواریوں سے گزشتہ کئی سال سے پھول چن رہا تھا مگر کسی نے مجھے منع نہیںکیا تھا۔ میں نے اس اجنبی لڑکی سے تکرار مناسب نہ سمجھی اور پھلواری سے باہر نکل گیا اور اس کے ساتھ ہی اس مالن کی آواز میرے کان میں پڑی جو برسوں سے ہمارے ہاں پھول دیا کرتی تھی۔ اس نے مجھے بتایا کہ یہ لڑکی جس نے تمھیں پھول چننے سے منع کیا ہے اس کا نام ’’کنیز‘‘ ہے جو کچھ دن پہلے ہی دوسرے شہر سے بیاہ کر آئی ہے اور یہاں کے لوگوں سے ناواقف ہے۔ مالن نے مٹھی بھر پھول خود چن کر مجھے دئیے اور لڑکی کی نادانی کی معافی چاہتے ہوئے کہا کہ تم حسبِ سابق پھول لے جایا کرو، کوئی منع نہیں کرے گا۔
ہر دوسرے تیسرے دن کنیز سے میرا سامنا ہوجاتا لیکن پھر کبھی اس نے منع نہیں کیا، بس ایک نظر دیکھا ضرور کرتی۔ کالج کی چھٹیاں ختم ہوگئیں تو میں شہر چلا آیا۔ سردیوں میں گھرلوٹا تو گل صد برگ کا موسم تھا یہ مجھے کچھ زیادہ پسند نہ تھے۔ مگر چنبیلی کے پھول مٹھی بھرپور ضرور لے جاتا۔
ایک صبح میں چنبیلی کی جھاڑیوں کی طرف گیا تو وہ پھولوں سے خالی تھی۔ میں گل صد برگ کے دوچار پھول توڑ کر لے آیا۔ دوسری صبح بھی یہی ہوا۔ میں کیاری سے دوچار گل صد برگ توڑ کر لوٹنے لگا تو کنیز نے ایک درخت کے پیچھے سے سرنکالتے ہوئے مجھے پکارا اور چنبیلی کے مٹھی بھر پھول دیتے ہوئے کہا: ’’میں جان گئی تھی کہ تم شہر آگئے ہوگے جو چنبیلی کے پھول غائب ہونے لگے ہیں، سو اب میں ذرا جلدی آجاتی ہوں۔‘‘
’’تم اپنی نیند خراب نہ کیا کرو، میں چنبیلی کی جھاڑیوں کو ہاتھ نہیں لگایا کروں گا۔‘‘
’’پھر تو تم شاید سیر کو بھی نہیں آیا کروگے؟‘‘
’’شاید ایسا ہی ہو۔ یہ تو پھولوں کی محبت ہے جو سردی کے اس شدید موسم میں بھی مجھے صبح سویرے اٹھا دیتی ہے۔‘‘
’’ایسی شدید سردی میں میرا تو بستر سے نکلنے کو دل نہیں چاہتا مگر مجبوری ہے۔ یہی پھول پروکر ہمیں پیٹ پالنا ہوتا ہے لیکن تمہاری کیا مجبوری ہے؟‘‘
’’میری مجبوری پھولوں سے محبت ہے جو مجھے ورثے میں ملی ہے۔‘‘
’’عجیب قسم کی مجبوری ہے۔ میں نے آج تک کسی کو ایسا کہتے نہیں سنا۔‘‘
اس دوران دوسری مالنیں پھولوں کی کیاریوں میں داخل ہونا شروع ہوگئیں، اس لیے کنیز سے مزید باتیں نہ ہوسکیں۔
دسمبر کی چھٹیاں مختصر تھیں، گزر گئیں اور میں شہر چلا گیا۔ یہاں میں ہفتے میں دو بار نرگس کے پھول ضرور خریدا کرتا۔ کالج کے چار برس نرگس کی چار بہاروں میں گزرگئے۔ بی اے کرنے کے بعد میں والد صاحب کے ساتھ کاروبار پر آن بیٹھا۔
یہ محض اتفاق تھا کہ میری شادی گرمیوں کے ان دنوں میں ہوئی جب موتیے کی بہار ہوتی ہے۔ شادی کی پہلی رات بستر کیا تھا، پھولوں کی سیج تھی۔ حسب عادت فجر کی اذان کے ساتھ میں اٹھ گیا۔ نہا کر نماز پڑھی اور حسب معمول سیر کو نکل گیا۔ پھول چن رہا تھا کہ کنیز موتیے کی کیاری میں داخل ہوئی اور اس نے میرے قریب پہنچ کر پھول چنتے ہوئے کہا: ’’رات میں نے پھول سجانے میں کوئی کسر تو نہیں چھوڑی تھی؟ کیا تمہاری بیوی کو بھی پھولوں سے محبت ورثے میں ملی ہے؟‘‘
’’ایسا نظر تو نہیں آتا۔ رات پھولوں کی تیز خوشبو سے تو وہ نیم بے ہوش سی ہوگئی تھی اور کہتی تھی خوشبو میرے دماغ کو چڑھ گئی ہے، چنانچہ پھول مجھے بستر پر سے ہٹانے پڑے۔‘‘
’’تو کیا شام کو گجرے، ہار اور پھول لے کر نہ آؤں؟‘‘
’’کیوں نہ لے کر آؤ؟ میں تو بے ہوش نہیں ہوا تھا۔‘‘
’’ظاہر ہے اگر بے ہوش ہوجاتے تو آج اتنی سویرے پھول اور کلیاں نہ چن رہے ہوتے۔‘‘
’’اپنے ہاتھوں سے پھول چننے میں مجھے ایک لطف حاصل ہوتا ہے اور میرے ہاتھوں میں پھولوں کی خوشبو رچ بس جاتی ہے۔ اگر میری بیوی مالن ہوتی اور پھول چن کر آیا کرتی تو میں اس کے ہاتھ بار بار سونگھا کرتا۔‘‘
میں نے دیکھا کہ کنیز اپنے ہاتھ سونگھ رہی ہے اور پھر اس نے ایک دم وہی ہاتھ میری ناک کی طرف بڑھا دیے اور میں نے وہ عطر بیز ہاتھ سونگھ لیے۔ اس دن کے بعد کنیز جب شام کو پھول لاتی تو میری بیوی سے باتیں کرتے کرتے اپنے ہاتھوں کو سونگھ کر مسکرا دیا کرتی۔
کنیزپھول لاتی رہی۔ آہستہ آہستہ ان کی خوشبو میری بیوی کے دماغ میں گھر کرتی چلی گئی اور بات یہاں تک پہنچی کہ پھولوں کے موسم میں جب کنیز ایک دو ناغے کرتی تو بیوی کسی بچے کو بھیج کر پھول منگوالیا کرتی اور کہتی: ’’خوشبو بھی ایک نشہ ہے۔ پہلی رات تو خوشبو کے سیلاب نے مجھے بے ہوش کردیا تھا۔‘‘
کچھ عرصے بعد وہی ہوا جو میرے بچپن میں ہوا کرتا تھا۔ جب میرا بیٹا الگ بستر پر سونے لگا تو میری بیوی چند پھول سونگھ کر اس کے سرہانے رکھنے لگی۔ پھر چند برس بعد جب وہ چوتھی جماعت کا طالب علم ہوا تو گرمیوں میں میرے ساتھ سیر کو جانے لگا اور مجھے پھول چنتے دیکھ کر وہ بھی پھول چننے لگا ۔ ایک صبح کنیز کو کیاری میں آتے دیکھ کر اس نے اپنا ہاتھ روک لیا، تو کنیز نے ہنستے ہوئے اس سے کہا: ’’پھولوں کی محبت تمہیں ورثے میں دینے میں میرا بھی ہاتھ ہے اور اب میں تمہیں کیسے روک سکتی ہوں کہ تم باپ کی طرح پھول چننے سے باز آنے والے نہیں ہو…‘‘
اس نے آگے بڑھ کر میرے لڑکے کے ننھے ننھے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے، سونگھے اور پھر چومتے ہوئے کہا: ’’ذرا تم بھی تو سونگھو، دیکھو کیسے مہک رہے ہیں۔‘‘
میرے لڑکے نے جب اپنے ہاتھ سونگھے تو ہم دونوں نے ایک ساتھ قہقہہ لگادیا۔ پہلے تو وہ حیران سا ہوا، پھر خدا معلوم کیوں اس نے بھی قہقہہ لگادیا۔ گھر پہنچ کر اس نے اپنے ننھے ہاتھ اپنی ماں کی ناک سے لگادیے تو اس نے ایک لمبی سانس لے کر انھیں سونگھا۔
’’امی! انہیں چومیں بھی!‘‘
’’وہ کیوں؟‘‘
’’باغ میں خالہ مالن نے میرے ہاتھ سونگھ کر چوم لیے تھے۔‘‘ میرے بیٹے نے حقیقت بیان کرڈالی۔
’’ہیں، خالہ مالن نے! وہ کیوں؟‘‘
’’اس لیے کہ میرے ساتھ یہ بھی پھول چن رہا تھا جب وہ پھول چننے کے لیے آئی۔‘‘ میں نے وضاحت کی۔
’’کہیں تمہارے ہاتھ بھی تو نہیں سونگھے تھے اس نے؟‘‘ بیوی نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’اس کے تو اپنے ہاتھ ہی پھول ہیں۔‘‘
’’یہ تمہیں کب سے معلوم ہے؟‘‘
’’اپنی شادی کے دن سے۔‘‘ میں نے حقیقت کو مجاز کا رنگ دیتے ہوئے قہقہہ لگایا، تو بیوی اور بچے نے بھی قہقہے لگادیے۔
اب جب کہ وہ بچہ ایم اے کا طالب علم ہے، میری بیوی نے ایک روز میرے ہاتھوں سے ’کرنے‘ کے پھول لیتے ہوئے کہا:’’ان پھولوں کی طرح تمہارے بال سفید ہوگئے مگر ان سے تمہارا عشق نہ گیا۔‘‘
’’وراثت میں ملا عشق بھی کہیں جاتا ہے۔‘‘ میں نے اپنے ہاتھ بیوی کی ناک سے لگاتے ہوئے کہا۔
اس نے ایک لمبی سانس لے کر سونگھا اور انہیں چوم لیا، پھر کہا: ’’کاش! خوشبو کی یہ وراثت ساری دنیا کی وراثت بن جائے۔‘‘ ——