ہمارے ملک میں شادی رچالینا مشکل کام ہوتے ہوئے بھی کچھ زیادہ مشکل نہیں۔ لیکن بعد میں جو افتاد پڑتی ہے وہ ٹیڑھی کھیر ہے جسے نگلتے بنتی ہے نہ اگلتے… یہ جان سوز حالت میاں بیوی میں نا اتفاقی کے نتیجے میں ابھرنے والے جھگڑوں سے پیدا ہوتی ہے۔یہ دماغوں کو چٹخاتی اور دلوں کو بھونتی ہے۔ میاں خدا پر شاکر ہے تو بیوی دنیوی مال و جاہ کی طالب۔ پڑوسن کے گھر کے طور طریقوں پر اس کی نگاہیں مرکوز ہیں اور وہ اس کی ٹکر پر زندگی گزارنے کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگانے کے درپے ہے۔ دوسری صورت یہ بھی سامنے آتی ہے کہ بیوی پاکیزگی اور شرافت کی زندگی بسر کرنا چاہتی ہے اور شوہر جدیدیت کی رو میں حلال و حرام کی سرحدیں پھلانگنے میں مصروف ہیں۔ اب مطابقت اورمفاہمت ہو تو کیسے ہو؟
گھریلو جھگڑوں میں جہالت، ہٹ دھرمی اور مطلق العنان فرماں روائی کی فطرت کو بھی بڑا دخل ہے اور یہ سارے عذاب روح کی کثافت اور دماغوں کے زنگ سے نازل ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی شیطان بھی ہر عورت مرد کے ساتھ لگا ہوا ہے اور سلامتی اور آشتی کی راہ سے ہٹانے کے لیے کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ ازدواجی زندگی میں محبت اور سلوک پیدا کرنے ہی کے لیے دیندار اور نیک دل مسلمان کو نکاح کے بعد اس دعا کو لبوں کا وظیفہ بنالینا چاہیے:
اَللّٰہُمَّ اَلِّفْ بَیْنَ قُلُوْبِنَا وَاَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِنَا وَاہْدِنَا سُبُلَ السَّلَامِ وَ نَجِّنَا مِنَ الظُّلُمَاتِ اِلَی النُّوْرِ وَجَنِّبْنَا الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ۔
لیجیے اب ہم آپ کو خوشگوار ازدواجی زندگی گزارنے کے دس انتہائی اہم گر بتاتے ہیں۔ آج ہی سے ان پر عمل شروع کردیجیے:
۱- اچھی باتوں ہی پر نگاہ رکھیے
بیشتر بیاہتا جوڑے، جو ازدواجی تعلقات میں کشمکش اوراذیت کا شکار ہیں، اصل میں اس مرض میں مبتلا پائے گئے ہیں کہ وہ اپنی بیاہتا زندگی کے برے پہلوؤں ہی پر اپنی توجہ مرتکز رکھتے ہیں۔ میاں، بیوی میں خامیاں نکالتے ہیں اور بیویاں، شوہروں میں کیڑے ڈالتی ہیں۔ ایک ماہر نفسیات ایرین ووگل نے یہی پہلو پیش نظر رکھتے ہوئے بیاہتا جوڑوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ہر شام کم از کم پانچ منٹ ایک دوسرے کی تحسین و ستائش میں صرف کریں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ ایک اختراعی تدبیر معلوم ہوگی لیکن وہ جوڑے جنھوں نے ایک دوسرے کے متعلق عرصہ دراز تک کوئی اچھی بات نہ کی ہو وہ اس پر عمل کرکے دیکھیں تو انھیں حیرت ہوگی کہ ایک دوسرے میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جنھیں وہ پسند کرتے ہیں۔
۲- گڑے مردے مت اکھاڑیے
کچھ جوڑے ایسے ہوتے ہیں جو ایک ہی جھگڑے کو بار بار دہراتے رہتے ہیں اور ہر بار ایک ہی موضوع کو تنازع کا محور بنائے رکھتے ہیں۔ پروفیسر گوئڈ بالڈی کا مشاہدہ یہ ہے کہ جو باتیں انھوں نے ٹیپ کیں ان سے یہی ظاہر ہوا کہ میاں بیوی میں عموماً میکے سسرال کے معاملات اور پیسے اور جنس کے گھسے پٹے موضوعات ہی پر جھگڑے ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ اس بات کے شوقین ہوتے ہیں کہ شریک حیات سے کوئی کوتاہی یا لغزش سرزد ہوئی ہو تو وہ بات بات پر اسے مورد الزام ٹھہراتے اور چرکے دیتے رہتے ہیں۔ یہ روش چھوڑ دیجیے۔
ہمارا دین تو عفو درگزر سے کام لینے کی تلقین کرتا ہے تو فریقِ ثانی کی کسی لغزش کے حوالے سے آئے دن طعنہ زنی کرتے رہنے کی غیر اسلامی حرکت کیوں؟ حدیث میں آتا ہے: ’’تم زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔‘‘ اس حدیث کی روشنی میں شریکِ حیات کے معاملے میں عفوودرگزر اللہ کی رحمت کا باعث بنتا ہے۔اگر شریک حیات کی کسی بات سے زک پہنچی ہو تو زخم خوردہ کو چاہیے کہ وہ فریقِ ثانی پر یہ ظاہر کردے کہ اسے ایذا پہنچی ہے۔ لیکن خود اسے بھی حسنِ ظن سے کام لیتے ہوئے دوسرے کو معاف کردینا اور سوچنا چاہیے کہ فریقِ ثانی کو اپنے کیے پر ندامت ہے اور وہ دوبارہ ایسی غلطی نہیں کرے گا۔
۳- خیالی بھوتوں سے نجات حاصل کیجیے
یہ بڑی معنی خیز بات ہے۔ اس پر توجہ ضروری ہے۔ ایک مرتبہ ایک ازدواجی زندگی کے معالج کے پاس ایک جوڑا آیا جس کے مابین ایک نہایت چھوٹی سی بات پر جھگڑا برپا ہوگیا تھا۔ جھگڑا اس امر پر تھا کہ ناشتہ کون تیار کرے۔ شوہر نے بتایا کہ اس کی ماں اس کے باپ کے لیے ہمیشہ بڑا پرتکلف ناشتہ بنایا کرتی تھی۔ بیوی نے کہا کہ اس کی ماں علی الصبح کام پر روانہ ہوجاتی تھی اور اس کا باپ اپنے اور بچوں کے لیے ناشتہ تیار کیا کرتا تھا۔
غور کیجیے یہ جھگڑا پرانے خیالی بھوت کی بدولت تھا، جو ان دونوں کے ذہنوں پر سوار تھے۔ آخر دونوں نے کھل کر بات کی اور اسی نے انہیں یہ بصیرت بخشی کہ وہ موہوم اور گزری ہوئی باتوں سے ایک دوسرے کی زندگی خواہ مخواہ تلخ کرتے رہے ہیں۔
ایسے ازدواجی مناقشات لوگوں کی زندگی دوبھر کرتے رہتے ہیں۔ ان سے نجات پانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ اپنے آپ سے پوچھا جائے: ’’آخر ہم نے یہ روش کیوں اپنا رکھی ہے؟‘‘
۴- غصہ کم کرنے کا طریق کار وضع کیجیے
غصہ ختم کرنے یا اسے کم سے کم کردینے کے اصول وضع کرنا اشد ضروری ہے۔ یاد رکھئے اگر غصے کو دبالیا گیا تو اس کی آگ دھیرے دھیرے سلگتی رہے گی اورکسی بھی وقت دوبارہ شعلہ بن کر بھڑک سکتی ہے۔ اسی طرح اگر غصے کو بے لگام رکھا گیا تو یہ بے لگام غصہ تعلقات کو ہمیشہ کے لیے ختم بھی کرسکتا ہے۔ ان دونوں باتوں سے پہلو بچانے کے لیے ازدواجی معالج گورڈن کا مشورہ یہ ہے کہ غصے سے نبٹنے کے لیے ایک شعار وضع کرلینا چاہیے۔ اگر ایک فریق، مثلاً شوہر، یہ کہتا ہے کہ اس کے دل میں کوئی چیز کھول رہی ہے تو بیوی کی رضا مندی سے دل کی بھڑاس نکالنے کا کچھ وقت مقرر کرلینا چاہیے۔پانچ منٹ جن میں اپنے دل کا ابال نکالا جاسکے۔ اس مدت سے زیادہ ہرگز نہیں… ڈاکٹر گورڈن کہتے ہیں کہ یہ بھڑاس بیوی کی رضا مندی سے نکالی جاتی ہے۔ لہٰذا اس کے نقصان دہ ہونے کا امکان نہیں ہوتا۔ ازدواجی تنازعات کے معالج اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ جھگڑا اگر دھینگا مشتی، مار کٹائی کی حد کو نہ پہنچے تو اس کے اثرات ضروری نہیں کہ برے ہوں۔ اکثر جھگڑے کی وجوہات پر کھل کر بات چیت سے جھگڑے ختم ہوجاتے ہیں۔
۵- ایک دوسرے کے دل میں اتریے
اس بات پر افہام و تفہیم کرلی جائے کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔ ایک مؤثر کارروائی جھگڑا ختم کرنے کی یہ ہوسکتی ہے کہ آپ اپنے زندگی کے ساتھی سے پوچھیں کہ وہ اس کے بدلے میں کیا چاہتا یا چاہتی ہے۔ عموماً ایک شوہر جب تھکا ہارا گھر لوٹتا ہے تو وہ گھر میں فتنہ اور فساد پسند نہیں کرتا۔ فساد ختم کرنے کا ایک طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ بیوی شوہر کا سردبا دے تو اس قسم کی چھوٹی موٹی مداراتیں جھگڑے کو ختم کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔
۶- ناگوار صورتحال کا رخ موڑ دیجیے
اس کا ایک طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ فرض کیجیے بیوی شوہر کی ایک خاص وقت آمد کی منتظر ہے۔ اگر اسے آنے میں تاخیر ہورہی ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے دماغ میں یہ بات بٹھائے کہ وہ اپنے شوہر کی منتظر نہیں۔ ایسا کرنے کے بعد وہ یقینا گھریلو کام میں اطمینان سے لگ جائے گی اور انتظار کے اعصاب شکن بوجھ سے بچ جائے گی۔
۷- پس پردہ کارفرما عوامل پر غور کیجیے
کبھی یوں ہوتا ہے کہ زندگی کے دو شریک حتمی طور پر یہ جانتے ہیں کہ کیا نقص پیدا ہوگیا ہے۔ یہ نقص وظیفہ زوجیت میں عدم دلچسپی یا اس قسم کی کوئی بات ہوسکتی ہے لیکن یاد رکھئے یہ تو محض علامات ہیں۔ آپ کو ان باتوں پر غور کرنا چاہیے، جنھوں نے آپ کو اس صورتِ حال سے دوچار کیا اور یہی غور آپ کو صحیح سمت کی طرف لے جائے گا۔
۸- رائی کا پہاڑمت بنائیے
چھوٹی چھوٹی باتوں کو لحیم شحیم بنانے سے گریز کیجیے۔ مثلاً ٹوتھ پیسٹ کی ٹیوب کو کھلا چھوڑ دینا، پلیٹوں کا ڈھیر سنک میں لگا دینا وغیرہ۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں رشتہ ازدواج کو ختم کرسکتی ہیں، اگر انہیں ضرورت سے زیادہ بڑا بننے دیا جائے۔ فریقین کو اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے کہ آخر وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بتنگڑ بننے ہی کیوں دیتے ہیں۔
۹- ازدواجی تعلقات میں گرم جوشی کا جائزہ لیتے رہیے
ازدواجی زندگی کی خوشگواری میں سب سے بڑی رکاوٹ وقت کی کمی ہے۔ ازدواجی امور کی ایک معالج کا کہنا ہے کہ شوہر اور بیوی کو ہفتے میں کوئی وقت ایک دوسرے کے لیے مقرر کرلینا چاہیے۔ اس کا طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے سے پوچھیں کہ اس ہفتے میں کیا بات انھیں خاص محسوس ہوئی؟ کیا بات وہ سوچتے رہے؟ اس عمل سے آپ ایک دوسرے کی خواہشات سے واقف ہوجائیں گے اور کسی نہ کسی حد تک ان کا مداوا بھی ہونے لگے گا اور یوں خوشگوار زندگی کی طرف قدم بڑھانے لگیں گے۔
۱۰- اپنے کسی بزرگ سے مشورہ کیجیے
آپ اپنے نزاعی معاملات اپنے کسی ایسے بزرگ کے سامنے بھی رکھ سکتے ہیں جو اپنے فہم و ادراک کی بنا پر ان کا حل پیش کرسکتے ہوں۔ اگر ایک فریق خاندانی بزرگ سے رجوع کرنے میں ہچکچائے تو دوسرا اپنے طور پر رجوع کرلے اور بزرگ کی ہدایات پر کاربند ہوجائے مثلاً اگر بیوی ایسا کرے گی تو بعد میں خاوند کو خود بخود احساس ہوجائے گا۔
سب سے آخر میں یہ لازم ہے کہ خدا سے لو لگائی جائے اور اس سے باہمی الفت طلب کی جائے اور گھر میں پاکیزہ کتابیں زینت بنائی جائیں۔ ٹی وی پر فحش قسم کی فلمیں نہ دیکھی جائیں اور نیک اعمال کی کوشش کی جائے۔