کردار
1- قاسم
2- سکینہ(قاسم کی بیوی)
3- حسین(قاسم کا دوست)
منظر: 1
[پردہ اٹھتا ہے۔ قاسم اور حسین ،ڈرائنگ روم میں بیٹھے چائے پی رہے ہیں۔]
حسین: تو پھر نئی ازدواجی زندگی خوش گوار ہے۔
قاسم: الحمدللہ۔
حسین: بھابی جان مرحومہ کو چھہ ہی مہینے میں بھلا بیٹھے۔
قاسم: (ہنس کر)نہیں، نہیں! اس کی یاد تو اب بھی میرے دل میں تازہ ہے۔ وہ بہت نیک اور سادہ دل عورت تھی۔ اللہ رب العزت اسے جنت الفردوس عطا کرے۔ اصل میں حیا اور پاکدامنی کی حفاظت کے لیے نکاح ضروری ہے۔
حسین : میں تو مذاق کر رہا تھا! نکاحِ ثانی کر کے تم نے واقعی بہت اچھا کیا۔ اللہ اس میں برکت عطا فرمائے۔
قاسم: آمین۔
حسین: (چائے کا کپ رکھ کر)پورا شہر جانتا ہے کہ تم ہر معاملہ کو نہایت خوش اسلوبی سے نمٹاتے ہو۔ اچھا میں چلوں، عشاء کا وقت ہورہاہے۔اللہ حافظ!
قاسم: اللہ حافظ۔
(حسین کے جاتے ہی، سکینہ کمرے میں آتی ہے)
سکینہ: آپ کے دوست نے بہت وقت لے لیا۔
قاسم: ہاں میرا کلاس فیلو ہے۔ ہمارے نکاح کے وقت شہر سے باہر تھا اس لیے آج ملنے چلا آیا۔
سکینہ: کھانا لگا دوں؟
قاسم : ہاں، ہاں کیوں نہیں،مجھے بھی بہت بھوک لگی ہوئی ہے۔
(دسترخوان بچھا کر کھانا نکالتی ہے۔)
قاسم: سبحان اللہ، آج کھانے میں گاجر کا حلوہ بھی ہے، بھئی واہ۔
سکینہ: آپ کو پسند ہے نا؟
قاسم: (ہنس کر )ضرور آپا نے بتایا ہوگا۔
سکینہ: اور کون ہے آپ کے بارے میں بتانے والا۔ (دونوں کھانا کھانے لگتے ہیں۔)
میں آپ سے کچھ کہنا چاہتی ہوں۔
قاسم: ہاں ضرور! تمھیں اس گھر میں آئے ایک ہفتہ ہوگیا اور تم نے اب تک کوئی فرمائش نہیں کی۔ کہو کیا چاہتی ہو۔
سکینہ: بس یہی کہ… مجھ سے پردہ کی پابندی نہیں ہوگی۔
قاسم: (کھانس کر پانی پینے لگتا ہے۔)
سکینہ: لمبا برقعہ پہن کرچلنا اور چہرہ بھی ڈھانپ کر رکھنا، اُف کتنا مشکل ہے!!
قاسم: (کھنکار کر )سکینہ! ہم عشاء بعد اس موضوع پر بات کریں گے۔
سکینہ: بہتر ہے۔
(سکینہ سلفچی میں قاسم کے ہاتھ دھلاتی ہے اور قاسم ٹوپی پہن کر نماز کے لیے چلا جاتا ہے۔ سکینہ برتن اٹھا کر رکھتی ہے اور نمازِ عشاء کے لیے کھڑی ہوجاتی ہے۔اس کی دعا ختم ہوتے ہی قاسم کمرے میں داخل ہوتا ہے۔)
سکینہ: ارے آپ جلدی آگئے ! آج دوستوں کے ساتھ چاے پینے نہیں گئے ؟
قاسم: نہیں، آج تمھارا معاملہ جو حل کرنا تھا۔ اس کے بعد ہم ساتھ چائے پئیں گے۔
سکینہ: ضرور!تو بتائیے آپ نے کیا سوچا؟
قاسم: میں چاہتا ہوں کہ تم دو باتوں میں سے کوئی ایک اپنے لیے پسند کرلو! پہلی بات یہ کہ اگر تم پردہ نہیں کرنا چاہتیں تو تمھیں کپڑے میری پسند کے پہننے ہوں گےاور اگر تم پردہ کرو تو اپنی مرضی کے کپڑے پہن سکوگی۔
سکینہ: (خوش ہو کر)شکریہ! مجھے پہلی بات منظور ہے۔میں آپ کی پسند کے کپڑے پہن کر آزادی سے گھومنا پسند کروں گی۔
قاسم: ٹھیک ہے! کل میں تمھارے لیے اپنی پسند کے کپڑے لے آؤں گا۔
سکینہ: (خوشی سے ہنس کر ) آپ کتنے اچھے ہیں! میں چائے بناکر لاتی ہوں۔
قاسم: جی نہیں! چائے میں بناؤں گا، تم بیٹھو۔(اور اٹھ کر اندرچلا جاتا ہے۔ )
[پردہ گرتا ہے۔]
منظر: 2
[پردہ اٹھتا ہے۔]
سکینہ: (قاسم کمرے میں کتاب پڑھ رہا ہے۔ سکینہ بہت بھدے لباس میںکمرے میں داخل ہوتی ہے اور تنک کر بیٹھ جاتی ہے)
قاسم: (کتاب سے نظریں اٹھاکر )کیا بات ہے سکینہ؟ تم پریشان دکھائی دے رہی ہو۔
سکینہ: یہ کپڑے …؟؟
قاسم: کیوں ، کیا ہواانھیں؟ بہت خوبصورت اور نہایت قیمتی ہیں ۔
سکینہ: جی خوبصورت اور قیمتی تو ہیں لیکن …
قاسم : لیکن کیا…؟
سکینہ: یہ کپڑے دیکھ کر میری سہیلیاں آپس میں اشارے کرتی ہیں، یہی نہیں بلکہ بڑی بوڑھیاں بھی ہنس پڑتی ہیں۔
قاسم: بھلا کیوں؟
سکینہ: شاید یہ کپڑے ان کے لیے دیدہ زیب نہ ہوں۔ میں یہ نہیں کہتی کہ آپ کی پسند بری ہے مگر…
قاسم: اب اس مگر کی بھی وضاحت کردو۔
سکینہ: (تردّد کے ساتھ) شاید آپ کو کپڑے خریدنے نہیں آتے۔کیامیں اپنا فیصلہ بدل سکتی ہوں؟
قاسم: صاف صاف کہو، کیا میرے لائے ہوئے کپڑے تمھیں اچھے نہیں لگے؟
سکینہ: میں نے کہا نا میں آپ کی پسند کو برا نہیں کہتی لیکن… اب میں اپنی پسند کے کپڑے پہننا چاہتی ہوں۔
قاسم: یہ تمھارا پختہ فیصلہ ہے؟
سکینہ: جی ہاں، بالکل۔
قاسم: اگر تم اپنی پسند کے کپڑے پہننا چاہتی ہو تو شرط کے مطابق تمھیں پردہ کرنا ہوگا ۔
سکینہ: مجھے پردہ کرنا منظور ہے، لیکن کپڑے میں اپنی پسند کے پہنوں گی۔
قاسم: (مسکراہٹ چھپاتے ہوئے) ٹھیک ہے ، جیسا تم مناسب سمجھو۔ تو بتاؤپیاری سکینہ، تمھیں کس قسم کے کپڑے چاہئیں؟
(اورسکینہ کپڑوں کے ڈیزائن بتانے لگتی ہے۔)
[پردہ گرتا ہے۔]