قدیم عبرانیوں کا یہ عقیدہ تھا کہ دل خیالات کا مرکز اور آئینہ ہوتا ہے۔ اسی لیے یہ کہا گیا تھا کہ آدمی دل میں جس قسم کے خیالات رکھتا ہے وہ خود ایسا ہی ہوتا ہے۔ اسی نکتہ کو پیغمبر اسلام حضرت محمدرسول اللہ ﷺ نے اس طرح بیان فرمایا ہے: ’’مومن ہشاش بشاش اور مسکراتا رہتا ہے۔‘‘ ایک مرتبہ لوگوں نے حضرت عائشہؓ سے دریافت کیا کہ کیا حضور اکرمﷺ مزاح فرمایا کرتے تھے؟ آپؓ نے فرمایا: ’’ہاں لیکن مخاطب کے ذہن اور استعداد کو دیکھتے ہوئے۔‘‘ رسول اکرم ﷺ اعلیٰ اور پاکیزہ ترین اوصاف کے مالک تھے اور اس کے علاوہ آپ ﷺ حسنِ ظرافت سے بھی آراستہ تھے۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺاکثر ہم سے خوش طبعی فرمایا کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن حارثؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ صاحبِ مزاح کوئی نہیں دیکھا۔
زندگی کے تجربات بتاتے ہیں کہ اچھی صحت کا کسی اور بات پر اتنا دارومدار نہیں ہے جتنا ذہنی شگفتگی اور دل کی خوشی پر ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’خلق خدا کے ساتھ نیکی کے سوا اور کوئی چیز عمر کو نہیں بڑھاتی۔‘‘ درحقیقت نیکی اور بھلائی کرنے سے انسان کو جو خوشی و مسرت نصیب ہوتی ہے وہ اس کے بلڈ پریشر کو درجۂ اعتدال پر رکھتی ہے۔ کئی صدی قبل مشرق کے ایک دانا بادشاہ نے کہا تھا کہ ’’زندہ دلی وخوش مزاجی دوا کی مانند نفع بخش اور تریاق کی حیثیت رکھتی ہے۔‘‘
آج ہر جگہ یہ بات تسلیم کرلی گئی ہے کہ دماغ او رجسم اس طرح باہم مربوط ہیں کہ اپنا اپنا ردعمل مسلسل ایک دوسرے پرمرتب کرتے رہتے ہیں۔ اگر معدے یا جگر میں خرابی ہو تو ذہن اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا اور نتیجتاً آدمی کی سوچ اور اندازِ فکر بدل جاتے ہیں۔ اس کی طبیعت میں افسردگی داخل ہوکر ہر چیز کو بے کار اور ہر منظر کو بے کیف بنادیتی ہے۔
بہت سی جسمانی تکالیف کے آغاز کی بنیادی وجہ بھی محض اعصاب یا مریضانہ جذبات اور ذہنی حالت ہے۔ چونکہ ذہنی حالت جسم پر اس قدر شدید ردعمل مرتب کرتی ہے کہ وہ اس کا اثر قبول کرنے سے محفوظ نہیں رہ سکتا لہٰذا ہمارے لیے انتہائی لازمی ہے کہ ہم اپنی تمام تر توجہ نیک خیالات و اعمال اور عمدہ مشاغل و افکار پر مرکوز رکھیں۔ جن لوگو ںکی صحت اچھی نہیں رہتی وہ ایک دن کے لیے تہیہ کرلیں کہ انہیں سارا دن صرف ایسی باتوں کے متعلق سوچنا ہے جو تابندہ درخشاںاور حسین و دل آویز ہوں۔ ذہن کے سارے دروازے اور کھڑکیاں کھول کر خوشگوار، مسرور کن، امید افزا اور صحت مند خیالات کو مدعو کرلیں۔ دن بھر جن لوگوں سے ملاقات ہو ان سے خندہ پیشانی و کشادہ دلی سے ملیں۔
حتی کہ جن لوگوں سے آپ عموما ً عاجز رہتے ہوں ان سے بھی خوش کلامی و خوش اخلاقی سے پیش آئیں۔ آپ محسوس کریں گے کہ اپنی خوش طبعی برقرار رکھ کر آپ نے کیا لطف حاصل کیا ہے۔ صرف ایک ہی دن میں متبسم صورت اور ملنساری و شگفتہ مزاجی کی بدولت آپ کے پورے جسمانی نظام پر ایک صحت بخش و خوشگوار اثر پڑا ہے۔ کسی دن تو ہم خوش ہوتے ہیں اور ہماری شخصیت دل نشین بنی رہتی ہے۔ لیکن دوسرے ہی روز جب حالات ہمارے ناموافق ہوجائیں تو ہم پر اداسی اور افسردگی غالب آجاتی ہے۔ یوں ان مفید اثرات پر جو کل ہم نے حاصل کیے تھے پانی پھر جاتا ہے۔ خوش مزاجی سے پورا فائدہ اٹھانے کے لیے اس بات کی مستقلاً اور مسلسل مشق کرتے رہنا چاہیے حتیٰ کہ یہ امر ہمارے لیے اس طرح فطری اور آسان ہوجائے جیسے سانس لینا ہماری فطرت ہے۔
خوش دلی صحت قائم رکھنے کا ایک ایسا علاج ہے جسے ہر شخص اپناسکتا ہے۔ ہم میں سے اکثر جیب ان اخراجات کے متحمل نہیں ہوسکتے جو سمندری تفریحی سفر کے لیے درکار ہوتے ہیں یا من پسند پرفضا آب و ہوا میں طویل عرصے تک رہ کر قدرتی طریقہ علاج سے بہرہ ور ہوسکیں لیکن یہ بات تو غریب سے غریب آدمی کے لیے بھی ممکن ہے کہ وہ اپنے ذہن کو خوش فکر اور مسرور انداز میں ڈھال کر مثالی صحت بخش فوائد حاصل کرسکے۔ چونکہ اس پر ہمارا خرچ نہیں آتا، شاید اسی لیے ہم اس علاج کی قدر نہیں کرتے۔
اس پر سنجیدگی سے غور کرنا تو درکنار، اسے درخورِ اعتنا ہی نہیں گردانتے۔ بہت سے لوگ ذہن کی خوش طبعی کے فطری رجحان کے باعث ہر بات کے تاریک پہلو پر حد سے زیادہ غوروفکر کرتے ہیں اور اپنے اس رویے کو مذہب کا حکم قرار دیتے ہیں۔ ایسے آدمی بہت آسانی سے افسردہ اور غمگین بن جاتے ہیں۔ اگر ہمارے دلوں میں قرآن کی سورئہ الحجرات کی آیت ۱۴ کے مطابق واقعی ایمان داخل ہوجائے تو ہم خود بخود خوش مزاج ہوجائیں گے۔ اولیاء اللہ اس حقیقت کی روشن مثال ہیں جن کی قربت میں کچھ وقت گزارنے والوں نے خوشی اور طمانیت کی لہریں ان سے نکلتی محسوس کی ہیں۔