میاں بیوی کے تعلقات میں عام طور پر تلخیاں اور ناگواریاں اس وقت پیدا ہوتی ہیں جب باہمی حقوق کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور ان کی رعایت ملحوظ نہیں رکھی جاتی۔ قرآن و حدیث میں دونوں کے متعدد حقوق بیان کیے گئے ہیں۔ اگر ان کی پاس داری کی جائے تو عام حالات میں تعلقات خوش گوار رہتے ہیں۔ دوسری صورت میں بگڑ جاتے ہیں اور پھر تلخیوں تک بات جا پہنچتی ہے۔ پھر اس کے بعد مودت ورحمت کی وہ فضا قائم نہیں ہوپاتی، جس کی ازدواجی زندگی میں سخت ضرورت ہوتی ہے۔ قرآن و حدیث کے مطالعے سے بیوی کے درج ذیل حقوق کا پتا چلتا ہے:
۱- اس کو تشدد کا نشانہ نہ بنایا جائے۔ ایک حدیث میں نبی کریمؐ کا ارشاد ہے:
’’تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کو، غلام کو مارنے کی طرح نہ مارے اور پھر دن کے آخری پہر اسی بیوی سے جماع کرے۔‘‘
۲- اس کا مہر ادا کیا جائے۔ مہر عورت کا حق ہے جسے دخول سے پہلے ادا کردینا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اور عورتوں کے مہر خوش دلی کے ساتھ ادا کرو۔‘‘ (النساء:۴)
۳- اس کا نان و نفقہ ادا کیا جائے۔ عورت کا نان و نفقہ شوہر کی ذمے داری ہے، وہ اپنی حیثیت کے مطابق بیوی کو نان و نفقہ ادا کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اور باپ پر معروف طریقے سے ان ماؤں کا کھانا کپڑا دینا واجب ہے۔‘‘ (البقرہ:۳۳۲)
۴- اس کو گھر میں مقید کرکے نہ رکھا جائے۔ بلکہ نقل و حرکت اور عمل کی آزادی ہو۔ رسول کریمؐ کا ارشاد ہے:
’’اللہ نے تمھیں اجازت دی ہے کہ تم اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے گھروں سے نکلو۔‘‘ (بخاری)
۵- اس کو ملکیت کا حق دیا جائے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اور جو مردوں نے کمایا اس کے مطابق اس کا حصہ ہے اور جو عورتوں نے کمایا اس کے مطابق ان کا حصہ ہے۔‘‘ (النساء:۲۳)
۶- اس کو باعزت زندگی گزارنے کا موقع دیا جائے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اور وہ لوگ جو پاک دامن عورتوں پر الزام تراشی کرتے ہیں اور اس پر چار گواہ کھڑے نہیں کرپاتے انھیں اسی کوڑے لگاؤ۔‘‘ (النور:۴)
۷- اس کو وراثت میں حصہ دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’والدین اور اقرباء نے جو کچھ وراثت میں چھوڑا ہے اس میں مردوں کا بھی حصہ ہے اور عورتوں کا بھی چاہے وہ کم ہو یا زیادہ، حصہ طے شدہ ہے۔‘‘ (النساء:۷)
۸- اس کو اظہار رائے کی آزادی دی جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے ولی و نگہبان اور سرپرست ہیں، جو معروف کا حکم دیتے ہیں اور منکر سے روکتے ہیں۔‘‘ (التوبہ:۱۷)
یہ بیوی کے قانونی حقوق ہیں جن کو وہ عدالت کے ذریعے بھی حاصل کرسکتی ہے۔ اس پر کچھ فرائض بھی عائد ہوتے ہیں جن کی ادائی کی صورت ہی میں زوجین کے تعلقات میں توازن پیدا ہوگا۔ یک طرفہ حقوق کی پاس داری سے وہ نتیجہ بر آمد نہیں ہوگا۔ دونوں طرف سے حقوق کی ادائی ضروری ہے۔ شوہر کے حقوق یہ ہیں:
۱- عورت ازدواجی زندگی میں اپنا رویہ درست رکھے۔ ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:
’’مومن مرد کے لیے تقویٰ کے بعد صالح عورت سے بڑھ کر کوئی چیز نفع بخش نہیں کہ شوہر اس کو جو کہے وہ مانے، شوہر اس کی طرف دیکھے تو وہ مسکرا پڑے اور اگر شوہر اس کو قسم دے کر کچھ کہے تو وہ اس کی قسم پوری کردے اور شوہر گھر پر نہ ہو تو اپنے آپ کی اور ان کے مال کی پوری حفاظت کرے۔‘‘ (ابن ماجہ:۷۵۸۱)
۲- وہ شوہر کی اطاعت کرے۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے:
’’اگر میں کسی کو کسی مخلوق کے لیے سجدہ کی اجازت دیتا تو عورت کو اس کے شوہر کے سجدہ کی ضرور اجازت دیتا۔‘‘ (ابو داؤد بخاری)
۳- وہ شوہر کی امانتوں کی حفاظت کرے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں۔‘‘ (النساء:۴۳)
ایک حدیث میں نبی کریمؐ کا ارشاد ہے:
’’عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچے کی نگراں ہے اور وہ اس کے بارے میں جواب دہ ہے۔‘‘ (بخاری)
ایک دوسری روایت میں ارشاد ہے کہ عورت شوہر کی اجازت کے بغیر کسی کو گھر میں نہ بٹھائے:
’’اور شوہر کے گھر میں کسی کو داخل ہونے کی اجازت نہ دے مگر اس کی اجازت سے۔‘‘ (بخاری)
۴- ازدواجی زندگی کو صبر کے ساتھ نباہے۔عورت کی عادت میں سے ہے کہ ذرا ذرا سی بات کے لیے وہ اکھڑ جاتی ہے اور اپنے شوہر کو کوسنے لگتی ہے اور اگر شوہر کی طرف سے حقوق کی ادائی میں تھوڑی کوتاہی ہوجائے تو اس کو وہ بات کا بتنگڑ بنا ڈالتی ہے۔ حدیث میں عورت کو اس سے منع کیا گیا ہے۔ ارشاد ہے:
’’اور میں نے دیکھا کہ اکثر جہنمی عورتیں ہیں۔ صحابہ نے عرض کیا ایسا کیوں ہے؟ آپؐ نے فرمایا ان کے کفر کرنے کی وجہ سے عرض کیا گیا کہ اللہ کا کفر کرنے کی وجہ سے؟ آپؐ نے فرمایا نہیں بلکہ شوہروں کا کفر کرنے کی وجہ سے اور ان کی ناشکری کرنے کی وجہ سے اگر تم ان پر ایک عرصہ تک بھلائی کرو اور پھر ذرا سا تم سے کوتاہی ہوجائے تو جھٹ کہہ پڑتی ہے کہ میں نے تمھارے پاس کبھی بھلائی نہیں دیکھی۔‘‘ (بخاری)
ایک دوسرے کی کم زوریوں کو نظر انداز کرنا
میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق چاہے جتنی ذمے داری کے ساتھ ادا کر رہے ہوں مگر ان سے ایک دوسرے کے تعلق سے بعض ایسی کوتاہیوں کا سرزد ہوجانا فطری بات ہے جن سے ان کو شکایت کا موقع مل جائے خاص طور سے بیوی کی طرف سے ایسا ہوجانا عین ممکن ہے کیوں کہ عورت تخلیقی طور پر جذباتی ہوتی ہے اور اس کے اس حوالے سے بہت سی کم زوریوں کا اظہار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن و حدیث میں خصوصی طور پر عورتوں کی کم زوریوں کو نظر انداز کرنے کی تلقین کی گئی ہے کیوں کہ اس کے بغیر ازدواجی تعلقات خوش گوار نہیں رہ سکتے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اور ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو، اگر وہ تمھیں ناپسند ہوں (یا ان کی کوئی ادا ناپسند ہو) تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمھیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔‘‘ (النساء:۹۱)
نبی کریمؐ نے عورت کی تخلیقی کم زوریوں کو ایک تمثیل کے ذریعے سمجھایا ہے کہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلی ٹیڑھی ہوتی ہے اگر تم اس کو مکمل سیدھی کرنی چاہو تو وہ ٹوٹ جائے گی لیکن اگر اس کو اس کی حالت پر چھوڑدو تو وہ باقی رہے گی۔ حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں:
’’عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو کیوں کہ وہ پسلی سے پید ا کی گئی ہے اور پسلی کی سب سے ٹیڑھی اس کے اوپر کا حصہ ہوتا ہے۔ اگر تم اسے سیدھی کرنے لگو تو توڑ ڈالوگے اور اگر اسے چھوڑدو تو ٹیڑھ پن باقی رہے گا۔ پس عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔‘‘ (بخاری)
عورت کے اندر جو کم زوریاں ہوتی ہیں ان میں سے ایک وہ کم زوری بھی ہے، جس کا ذکر ایک حدیث کے حوالے سے آچکا ہے کہ اس کے ساتھ چاہے جیسا حسن سلوک کرلو اگر اتفاق سے اس کے حقوق کی ادائی میں کوتاہی رہ جائے تو وہ فوراً گلہ شکوہ لے کر بیٹھ جائے گی اور شوہر کے تمام احسانات اور بھلائیوں کا یکبارگی انکار کرنے لگے گی ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں مرد کی طرف سے رد عمل ہوسکتا ہے ایسے ہی مواقع کے لیے نبی کریمؐ نے مذکورہ بالا حدیث میں ان باتوں کو نظر انداز کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔
کم زوریوں کا اظہار ہمیشہ عورت کی طرف سے نہیں ہوتا، مرد کی طرف سے بھی ہوسکتا ہے اور اس کی طرف سے ایسی کم زوری کا اظہار ہو کہ جس کو آسانی کے ساتھ نظر انداز نہ کیا جاسکے۔ عام طور پر مردوں کی طرف سے عورتوں کے اخلاق و کردار سے متعلق شکوک و شبہات کا اظہار ہوتا ہے اور یہ بات ایسی ہے کہ تمام خوش گوار ازدواجی تعلقات پر پانی پھیر سکتی ہے۔ بنابریں اس بارے میں زوجین کو ہمیشہ چوکنا رہنا چاہیے اور کسی قسم کے شک و شبہے کو پیدا ہونے کا موقع نہیں دینا چاہیے۔ مرد کو چاہیے کہ بلا ٹھوس ثبوت کے وہ اپنی بیوی کے کردار پر شک و شبہ نہ کرے ،جیسا کہ ایک روایت میں واردہے:
’’حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میرا ایک کالا کلوٹا لڑکا پیدا ہوا ہے (لہٰذا وہ میرا نہیں ہے)۔ آپؐ نے فرمایا کیا تمھارے پاس اونٹ ہیں اس نے عرض کیا کہ ہاں ہیں۔ آپؐ نے فرمایا ان کے رنگ کیسے ہیں؟ اس نے کہا کہ سرخ، آپؐ نے فرمایا کہ کوئی بھورا بھی ہے اس نے کہا کہ ہے۔ آپؐ نے فرمایا وہ کیسے ہے؟ اس نے عرض کیا کہ ہوسکتا ہے کسی رگ نے اسے بھورا کردیا ہو۔ آپؐ نے فرمایا کہ ہوسکتا ہے کہ تمھارے بیٹے کو بھی کسی رگ نے کالا کردیا ہو۔‘‘ (بخاری)
اس بارے میںعورتوں کو بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ وہ ایسے مواقع سے بچیں جہاں شکوک و شبہات پیدا ہونے کے امکانات ہوں۔ انھی باتوں کی وجہ سے نبی کریمؐ نے شوہر کی اجازت کے بغیر کسی کو گھر میں بٹھانے سے منع کیاہے۔(بخاری)
ایک روایت میں حضرت عائشہ صدیقہؓ کے حوالے سے مذکور ہے کہ ایک بار انھوں نے اپنے ایک رضاعی بھائی کو گھر میں بٹھا لیا تو نبی کریمؐ نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ ارشاد ہے:
’’حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ان کے پاس ایک شخص آیا اسی وقت نبی کریمؐ تشریف لائے ،آپؐ کا چہرہ مبارک بدل گیا۔ میں سمجھ گئی کہ آپؐ کو ناگوار گزرا ۔میں نے وضاحت کی کہ یہ میرا رضاعی بھائی ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ تم اپنے رضاعی بھائیوں کو دیکھو رضاعت بھوک سے ثابت ہوتی ہے۔‘‘ (بخاری)
بعض حالات میں پردے کا اہتمام کرنا دشوار طلب ہوتاہے۔ جیسے گھر کی عام زندگی میں عورت کا ہر وقت پردہ لگائے رہنا ممکن نہیں ہے، جب کہ شوہر کے علاوہ اس کے قریبی اعزہ واقارب کا گھر میں موجود ہونا یا ان کی آمد و رفت لگا رہنا معمول ہوسکتاہے۔ ایسی صورت میں بھی شریعت نے سخت احتیاط برتنے کی تاکید کی ہے۔ ایک حدیث میں نبی کریمؐ کا ارشاد ہے:
’’عورتوں کے پاس بیٹھنے سے بچو، ایک انصاری مسلمان نے عرض کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دیور کے بارے میں کیا حکم ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ دیور تو موت ہے۔‘‘ (بخاری)
مردوں میں ایک کم زوری بخل کی ہوسکتی ہے۔ بعض لوگ گن گن کر پیسے جمع کرتے ہیں اور گن گن کر خرچ بھی کرتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے اہل و عیال کی ضرورتوں کا پورا خیال نہیں رکھتے، جس کی وجہ سے ان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسی صورت میں عورت کو اجازت ہے کہ وہ معروف کے ساتھ حکمت سے اپنے شوہر کی رقم میں سے بہ قدر ضرورت لے لے۔
ایک روایت میں حضرت ابو سفیان کے حوالے سے وار دہے: ’’حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ ہندہ بنت عتبہ رسول اللہؐ کے پاس حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ میرے شوہر ابو سفیان بخیل آدمی ہیں وہ ہمیں کفایت بھر خرچہ نہیں دیتے۔ کیا میں ان کو بتائے بغیر ان کے مال میں سے لے لوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جتنا تمھارے لیے اور تمھارے بچے کے لیے کافی ہو معروف کے ساتھ لے لو۔‘‘ (بخاری)
زوجین میں ایک کم زوری ضد کی ہوسکتی ہے۔ جو بات منہ سے نکل گئی وہ پتھر کی لکیر ہوگئی اس کے خلاف نہیں ہوسکتا۔ وہی ہوگا جو میری مرضی ہے۔ یہ سوچ اور رویہ اسلامی طرز زندگی کے خلاف ہے اس سے زوجین کو بچنا چاہیے۔ دوسری صورت میں ان کے ازدواجی تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں اور ان میں تلخیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وسعت اور اعلیٰ ظرفی کو پسند کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات کا از حد خیال رکھتے تھے۔ ان کی پسند و ناپسند کو آپؐ ٹالنے کی کوشش نہ فرماتے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا ہے کہ تم میں بہتر وہ ہے، جو اپنے اہل و عیال کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے اہل و عیال کے لیے بہتر ہوں۔
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں نبی کریمؐ نے فرمایا کہ تم میں بہتر وہ ہے، جو اپنے اہل و عیال کے لیے بہتر ہوں۔‘‘ (ابن ماجہ)
ایک دوسری روایت میں حضرت عائشہؓ کے حوالے سے مروی ہے کہ نبی کریمؐ ان کو ان کی سہیلیوں کے ساتھ کھیلنے کی بھی اجازت مرحمت فرمادیتے تھے۔ (ابن ماجہ:۲۸۹۱)
اللہ تعالیٰ سے دعا کی جائے
مومن ہر چیز میں اللہ تعالیٰ سے مدد و نصرت کا طلب گار ہوتا ہے۔ خوش گوار ازدواجی تعلقات بھی ایسی چیز ہے کہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کی جائیں اور خوش گواری کی توفیق مانگی جائے۔ جب کہ شادی کے موقعے پر دولہا دولہن کو خیر و برکت کی دعائیں دینے کا مسنون طریقہ بتایا گیا ہے، ایسے ہی خود زوجین کو اپنے باہمی تعلقات کی خوش گواری کی دعائیں مانگنی چاہیے۔ قرآن مجید میں مومن کی ایک صفت یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اس کی دعا مانگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اور جو دعائیں مانگا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہماری بیویوں اور ہماری اولاد کو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنا اور ہم کو پرہیزگاروں کا سردار یعنی بڑا پرہیزگار بنا۔‘‘ (الفرقان:۴۷)