ہیر رانجھا کی کہانی تو ہمارے معاشرے کے ہر شخص کو معلوم ہے۔ ہماری اس کہانی کا اصل کردار یعنی رانجھا بھی پہلے والے میاں رانجھا سے کم رنگین مزاج نہ تھا۔ اس دوسرے میاں رانجھے کا نام تو کچھ اور تھا لیکن میں اسے میاں رانجھا ہی کہوں گا۔ میں نے اسے ۱۹۵۰ء کے شروع میں دیکھا جب اس کی عمر انیس بیس برس تھی اور میں بارہ تیرہ سال کا لڑکا تھا۔
اونچا لمبا، گورا چٹا، ستواں ناک، باریک ہونٹ اور موٹی سیاہ آنکھیں، سفید دانت، گھنے ابرو، کشادہ پیشانی، سیاہ گھنے بال دیسی پٹوں کی شکل میں گردن کی زینت اور سیدھی مانگ… یہ تھا میاں رانجھا جسے میں نے پہلی بار دیکھا تو دوبارہ دیکھنے کی تمنا رہی۔ وہ اکثر اوقات زیرلب مسکراتا رہتا۔ بہت کم گو، شرمیلا اور نیچی نگاہیں رکھنے والا نیک چلن نوجوان تھا۔ وہ حسن و جمال سے ہی مالا مال نہ تھا بلکہ سیکڑوں بیگھے زرخیز زمین کا واحد مالک بھی تھا اور تلوار بازی کا ماہر، شاہسوار اور کبڈی کا اعلیٰ کھلاڑی تھا۔
اسے پنجابی شاعری اور موسیقی سے بھی خاصا شغف تھا لیکن وہ پرائمری سے آگے نہ بڑھ سکا کیونکہ اس کے والدین فوت ہوگئے اور وہ چچا کے سائے میں پرورش پانے لگا۔ اسے حقے سے شغف تھا جو اسے اپنے ڈیرے پر آنے جانے والوں کے لیے تازہ رکھنا پڑتا۔
۶۰-۱۹۵۰ء کی دہائی میں اس کا مجھ سے بے حد ملنا جلنا رہا حتیٰ کہ میں سات سال کے لیے جیل یاترا پر چلا گیا۔ رہائی کے بعد دو تین برس لا کالج میں پڑھتا رہا۔ پھر برسوں بعد میاں رانجھا سے میری ملاقات مارچ ۱۹۷۰ء کے ابتدائی دنوں میں ہوئی۔
میں اس کے کھیتوں میں واقع پکے ڈیرے پر گیا جہاں اس کے رہائشی مکانات بھی تھے اور پختہ مویشی خانہ بھی۔ بیٹھک بڑی دیدہ زیب تھی۔ گاؤں گاؤں پہنچنے والی ترقیاتی اسکیموں نے اس کے ڈیرے کو خوبصورت ماحول عطا کیا تھا۔ شمال مغرب کی طرف اس کا ذاتی باغ تھا جس میں اس نے مور پال رکھے تھے۔ سنگترہ، لیچی، آم وغیرہ کے پودے پھلوں اور پھولوں سے لدے کھڑے تھے۔ کھیتوں اور باغ کی منڈیروں کے ساتھ گلاب، موتیا، چنبہ اور رات کی رانی کے پودے بہار دکھاتے اور خوشبوؤں کے جھونکے دیتے تھے۔ میں یہ دلفریب ماحول دیکھ کر مبہوت ہوگیا کہ جنت ارضی کا یہ ٹکڑا میاں رانجھا نے کیسے فراہم کرلیا؟
وہ بڑے تپاک سے ملا۔ ادھیڑ عمر ہونے کے باوجود اس کی رعنائی اور خوبصورتی میں کوئی خاص فرق نہ آیا تھا۔ اب اس کے دو تین ننھے منے بچے بھی تھے۔ بیوی بھی اس نے لاکھوں میں ایک انتخاب کی تھی۔ جب میاں رانجھا سے ملاقات ہوئی تو میں نے اپنے قرآنی مطالعے کی بنا پر گفتگو کے دوران اسے توجہ دلائی کہ یہ جنت ارضی دائمی نہیں، اس لیے بہتر ہوگا کہ وہ ایسے اعمال اختیار کرے کہ یہ عیش، عیش دوام بن جائے۔ میں نے افسوس کا اظہار کیا کہ جہاں اس نے اتنے خوبصورت مکانات اور باغات کا اہتمام کیا ہے، خوبصورت جانور پالے ہیں، ہر جانب سبزہ اور شادابی ہے،وہاں اس ڈیرے پر مسجد نہیں۔ اس پر وہ بے اعتنائی سے مسکرا دیا اور ساتھ ہی ناگواری کے آثار اس کے چہرے پر ہویدا ہوگئے۔ میں نے بات بدل دی اور اس کے مزاج کے مطابق گپ شپ کرنے لگا۔
اس دوران جہاں کہیں ہم ملے، میں نے اس کے مردانہ حسن اور خوش ذوقی کی بڑھ چڑھ کی تعریف کی لیکن ساتھ ہی یاددلایا کہ یہ دنیا فانی ہے، یہاں کے خوبصورت نقش و نگار کو ایک دن مٹ کے رہنا ہے۔ اس لیے اسے ایسے عمل کرنے چاہئیں جن کی بنا پر جنت ارضی، دائمی جنت کی شکل اختیار کرجائے۔ یہ طرزِ گفتگو اس نے کبھی پسند نہ کیا، اس لیے میں بھی صرف یاددہانی پر اکتفا کرتا۔
پھر میں نے محسوس کیا کہ اسے پولیس افسروں، تحصیلداروں اورمنتخب عوامی نمائندوں سے دوستی کے رشتے استوار کرنے کا خبط بھی ہے۔ اسے غریبوں اور کمین لوگوں سے بات کرنا بھی پسند نہ تھا۔ وہ ہر وقت اپنے سے برتر لوگوں کی خوشامد میں مگن رہتا اور اپنے سے کم تر معاش کے لوگوں کو اتنی مہلت بھی نہ دیتا کہ وہ بے چارے اس کی خوشامد کرسکیں۔
ہائی کورٹ گرمی کی چھٹیوں میں بند تھا۔ میں گاؤں میں مقیم تھا۔ اتفاقاً کسی کام سے میں میاں رانجھا کے ڈیرے سے گزرا تو معلوم ہوا کہ میاں رانجھا رات حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کرگیا ہے۔ وہاں ایک ہجوم جمع تھا، تاہم اکثر لوگ اس کے ہم چشم ہی تھے۔ میں بھی جنازہ میں شریک ہوا۔ مجھے گہرا قلق ہوا کہ اتنے خوبصورت انسان کو نہ قابل رشک صحت، مال و دولت کے انبار اور بہشت آسا ماحول موت سے بچاسکے نہ اس کے دوست اعلیٰ افسر اور منتخب عوامی نمائندے ملک الموت سے اس کو تھوڑی سے مہلت دلا سکے۔ اس کی موت کا مجھے بڑا رنج ہوا۔ میں نے محسوس کیا کہ انسان حوادث اور امراض کے حملوں سے نہیں مرتا بلکہ ذہنی صدمے اور روحانی حادثے اس کی موت کا سبب بنتے ہیں۔
میاں رانجھا کی موت سے بھی بڑا صدمہ مجھے اس وقت ہوا جب اس کے امیر دوستوں نے اس کا جنازہ اٹھانے سے اجتناب کیا۔ غریب محنت کش ہی اسے کندھوں پر اٹھا کر تین میل دور قبرستان لے گئے۔ میں نے دیکھا کہ میاں رانجھا کو قبرستان کے اس حصے میں قبر نصیب ہوئی، جس کے ارد گرد کمہاروں، مسلم شیخوں، ترکھانوں،لوہاروں اور جولاہوں کی قبریں تھیں۔ جنھیں عمر بھر وہ اپنے قریب نہ پھٹکنے دیتا تھا۔ آج مجبوراً دائمی رفاقت میں انہی کے پہلو میں آن لیٹا تھا۔
اس رات مجھے نیند نہ آئی۔ اونچا لمبا اور سرخ و سپید میاں رانجھا خاک میں مل گیا۔ اپنے خوبصورت مور سرسبز و شاداب باغات میں رقص کرتے چھوڑ گیا۔ اس کے لیچی اور آموں کے باغ اسی دنیا میں رہ گئے اور وہ خالی ہاتھ غریب محنت کشوں کے کندھوں پر سوار کچی قبر میں جا سویا۔ اس کے فراخ ڈیرے پر سب کچھ تھا، مگر مسجد نہ تھی۔ اس کے دستر خوان پر تھانیداروں، تحصیلداروں اور ارکان اسمبلی کے لیے انواع و اقسام کے کھانے موجود تھے لیکن غریبوں ، محتاجوں اور زیردستوں کے لیے کچھ نہ تھا۔ اس کا انجام کیا ہوگا؟اس کا واسطہ اب غفور ورحیم ذات سے ہے، شاید وہ گوارا نہ کرے کہ اتنا خوش ذوق اور خوش وضع آدمی عذاب الیم سے دوچار ہو! انہی تصورات میں آخر کار آنکھ لگ گئی۔
سپیدہ سحر نمودارہورہا تھا۔ اذان سے ذرا پہلے میں سویا تھا۔ خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بہت بڑا میدان ہے جس میں ایک گروہ جمع ہے۔ میں نے دیکھا لوہار، ترکھان، جولاہے، مسلم شیخ اور کمہار کمخواب اور اطلس میں ملبوس ہیں۔ ان کے سروں پر سنہری تاج ہیں اور ان کی پیشانیوں پر مسجدوں کے نشان جگمگ جگمگ کررہے ہیں۔ انہی خوش بخت لوگوں کے بیچوں بیچ مجھے مرحوم میاں رانجھا نظر آیا جس نے پھٹے پرانے کپڑے پہن رکھے تھے جو بمشکل اس کی ستر پوشی کررہے تھے۔ وہ بے حد خوفزدہ اور بے چین نظر آرہا تھا جبکہ نیک اور متقی محنت کش جو آخرت میں نوازے گئے، اللہ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہورہے تھے۔
میں میاں رانجھا کو مفلسوں کے لباس میں بے چین دیکھتے ہوئے ہڑبڑا کر اٹھا تو مؤذن کہہ رہا تھا :
الصلوٰۃ خیر من النوم
میں مسجد کی جانب ننگے پاؤں دوڑ پڑا۔ مجھے میاں رانجھا کی غفلت اور اس کے انجام نے ڈرا دیا تھا۔ مسلسل ساٹھ سال تک ہر روز موذن صبح کو پکارتا رہا کہ ’’نماز نیند سے بہتر ہے‘‘ لیکن میاں رانجھا نے سن کر نہ دیا اور آج وہ مفلسوں جیسا لباس پہنے قبر کی تنہائیوں اور گہرائیوں میں مدفون پڑا تھا۔
جاگنا ہے جاگ لے افلاک کے سائے تلے
حشر تک سوتا رہے گا خاک کے سائے تلے
آج میاں رانجھا قبر کی اندھیری تنہائیوں کے سپرد ہے۔… وہ تنہائیاں جن کے اندھیروں کا علاج رسالت مآب ﷺ نے یہ بتایا ہے کہ ’’جسے قبر کے اندھیرے سے وحشت ہو اسے عشاء اور فجر کی جماعت میں شرکت کے لیے اندھیروں میں مساجد کی طرف جانا چاہیے۔ اللہ اس کی قبر کو روشن کردے گا۔‘‘
میاں رانجھا اندھیروں میں موذن کی پکار پر کیسے لپکتا جبکہ اس کے آباد ڈیرے پر سب کچھ تھا لیکن مسجد نہ تھی:
حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں