خوف کی بندہ گری

اعجاز احمد فاروقی

اس کے بعد یکبارگی یوں ہوا کہ عیاض، اجمل اور آثار احمد کی باہمی باتوں کا موضوع بدل گیا اور نیا موضوع گفتگو خوف تھا۔ اب تینوں کے تینوں خوف کے موضوع پر بلا خوف باتیں کرنے لگے۔

اس سے قبل وہ محض ادھر ادھر کی باتیں کررہے تھے کہ عیاض کا بارہ سالہ بیٹا کاشف ربڑ اور پنسل خریدنے کے لیے پیسے لینے آیا اور لے کر چلا گیا۔ اجمل نے خاص طور پر نوٹ کیا کہ کاشف آتے وقت اور جاتے وقت ڈرا اور سہما ہوا تھا۔

’’عیاض، کیا کاشف تم سے ڈرتا ہے؟‘‘

’’کاشف مجھ سے نہیں اپنے کلاس ٹیچر سے بہت ڈرتا ہے۔‘‘

’’کیوں‘‘

’’ہوم ورک کرکے نہ لے جائے تو مار پڑتی ہے۔‘‘

’’مار کھانے سے تو تمام لڑکے ڈرتے ہیں۔‘‘

’’اگر ان کو سزا کا خوف نہ ہوتو وہ ہوم ورک ہی نہ کریں۔‘‘

تینوں کو اپنا لڑکپن اور اسکول کا زمانہ یاد آگیا کہ کبھی وہ بھی کاشف ہی تھے اور اپنے اساتذہ سے بہت ڈرتے تھے اور سزا کے خوف سے ہوم ورک کیا کرتے تھے۔ بچپن گیا، لڑکپن گیا طالب علمی کا زمانہ بھی ختم ہوگیا۔ بہت سی باتیں ان ادوار کے ساتھ ختم ہوگئیں لیکن خوف نہیں گیا۔ گرچہ احساسِ خوف کی نوعیت تو بدل گئی لیکن وہ اپنی جگہ قائم رہا۔ اب وہ ان چیزوں سے نہیں ڈرتے جن سے گزشتہ ادوار میں ڈرتے تھے، اور اب ایسی باتوں سے ڈرتے تھے جن کا سابقہ ادوار میں گزر ہی نہیں تھا۔

اب ان کی باتوں کا موضوع خوف اور اس کی نیرنگیاں تھیں۔ ابھی انھوں نے اس موضوع پر کچھ کہنا سننا شروع ہی کیا تھا کہعمران آگیا۔ اس کا چہرہ دہشت زدہ تھا ایسا لگتا تھا جیسے اس کا کوئی نقصان ہوگیا ہے۔

سب نے عمران سے پوچھا کہ وہ ڈراہوا اور سراسیمہ کیوں ہے؟

عمران نے کہا کہ وہ گھر سے سبزی منڈی جانے کے لیے نکلا تھا کہ کالی بلی اس کا راستہ کاٹ گئی اور مشہو ر ہے کہ کالی بلی جس کا راستہ کاٹ جائے اسے کوئی نہ کوئی تکلیف یا نقصان پہنچ جاتا ہے۔

تینوں نے اس کو وہمی اور خبطی قرار دیا، لیکن خبطی اور وہمی کے ذہن سے کالی بلی کا خوف زائل نہیں ہوا۔ یہ بھی خوف ہی کی ایک نیرنگی تھی۔ اگرچہ خوف توہماتی اور بے اصل تھا۔

اس بے بنیاد اور توہماتی خوف سے آثار احمد کو ایک برسوں پرانی بات یاد آئی جب وہ ابھی کالج میں زیر تعلیم تھا۔ اس یاد نے اس کو سوگوار کردیا۔ اس کو اپنے دو ہم جماعت یاد آئے وکٹوریا اور پال- ان کے عشق کے چرچے پورے کالج میں مشہور تھے۔ پھر سنا گیا کہ وکٹوریا کا پاؤں بھاری ہوگیا ہے اور پال اس واردات کے بعد کہیں چمپت ہوگیا ہے۔ جب وکٹوریا نے محسوس کیا کہ آنے والے سے چھٹکارے کی کوئی سبیل نہیں ہے تو اس نے اپنی رسوائی کے خوف سے، اپنے والدین کی رسوائی کے خوف سے اور اپنے خاندان کی رسوائی اور تذلیل کے خوف سے خود کشی کرلی۔

وکٹوریا کا خوف گرچہ ایک گناہ کا نتیجہ تھا لیکن اپنی نوعیت کے اعتبار سے کوئی مفروضہ خوف نہیں تھا بلکہ حقیقی خوف تھا۔ آثار احمد، عمران ا ور وکٹوریا کے مفروضہ خوف اور حقیقی خوف کا تقابل کرتا رہا۔

اسی دوران اس کا ایک چشم کشا مضمون یاد آیا جو اس نے ہفتہ عشرہ قبل کسی رسالے میں پڑھا تھا۔ اس کے مصنف نے انسان کی کوتاہ بینی اور دور اندیشی کا تقابل کیا تھا اور اپنی بات کو موثر اور مدلل بنانے کے لیے امام غزالی کے تجربات کا حوالہ دیا تھا۔ ایک بار امام غزالی نے کسی شخص سے کہا کہ اس کے فرغل کی پشت پر ایک بچھو رینگ رہا ہے، وہ شخص اس خبر سے ایسا بدحواس ہوا کہ اس نے چشم زدن میں اپنا فرغل اتار پھینکا اور اس کو جھاڑ پھٹک کر اس وقت دوبارہ پہنا جو اس کو یہ تسلی ہوگئی کہ اب اس پر کوئی بچھو نہیں ہے۔ پھر امام غزالی اسی فرغل والے سے باتیں کرتے رہے اور اس کو خبردار بھی کیا کہ اس کی باتوں سے شرک کی بو آتی ہے اور اس کا ذہن ایک مشرکانہ ذہن کی اٹھان پر ہے۔

مشرکانہ ذہن والا یہ سن کر محض کندھے اچکا کر رہ گیا اور اس نکتے کی اتنی سے بھی پروا نہ کی گویا اس کے نزدیک یہ کوئی بات ہی نہیں تھی۔

مشرکانہ ذہن تو انسانی شخصیت کا ستیاناس کردیتا ہے اور اس کو دریوزہ گر بناکر دم لیتا ہے۔ عجیب آدمی تھا وہ بھی جو بچھو کے خوف سے تو بدحواس ہوگیا تھا لیکن شرک کی خلل اندازی سے بھی ہوش میں نہیں آیا۔ گویا اس کو اپنی شخصیت کے مسخ ہونے کی کوئی پروا نہیں تھی۔

اتنے میں اجمل نے کہا کہ یہ خوف ایک طرفہ تماشا ہے۔ گزشتہ رات میری بیوی، اسٹور روم سے کوئی چیز لینے گئی، بلب جلایا تو وہ فیوز تھا، اور اسٹور روم میں گھپ اندھیرا تھا۔ وہ اندھیرے میں اس قدر ڈری ہے کہ بدحواس ہوکر آئی۔ اس کا بدن تھر تھر کانپ رہا تھا۔ اسی اسٹور روم میں وہ دن میں کئی بار آتی جاتی رہتی ہے۔

اندھیرا بھی خوف کا ایک مخزن ہے، انسان کو ڈرا کر بے دم کردیتا ہے۔

اجمل کی بات سن کرعیاض نے ایک شعر سنادیا۔

تھے اندھیرے سے کس قدر مانوس

چاند نکلا تو ڈر گئے ہم لوگ

آثار احمد نے کہا کہ یہ شعراس کو پسند آیا ہے، یہ بھی خوف کی ایک نیرنگی بیان کرتا ہے۔ لامتناہی مظالم، مظلوم کی ذہنی ساخت کی کایا ایسی پلٹ دیتے ہیں کہ مظالم کے خاتمے کی خبر بھی اس کے لیے الٹا ہی اثر لاتی ہے۔ آثار احمد نے اپنی بات ختم نہیں کی تھی کہ اجمل نے ایک شوشہ چھوڑ دیا اور پوچھا:

’’یارو یہ عورتیں چوہوں سے اتنا کیوں ڈرتی ہیں؟‘‘

اجمل کے سوال کا جواب کسی نے نہیں دیا، تاہم آثار نے اتنا ضرور کہا کہ انسان بھی کیا چیز ہے کہ نہ ڈرے تو شیر اور چیتے سے بھی نہ ڈرے اور ڈرنے پر آئے تو چوہے کو دیکھ کر بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔

یہ خوف بھی عجیب چیز ہے کہ آدمی کو حواس باختہ کردیتا ہے، بزدل بنادیتا ہے، کم ہمت اور بے زبان کردیتا ہے۔ خوف تو انسان کا دشمن ہے جو اس کے اندر سانپ کی طرح کنڈلی مار کر بیٹھا رہتا ہے۔ اسے اپنا حق لینے سے روکتا ہے اسے بے بس اور لاچار کردیتا ہے۔ اسی لیے دلیر و دبنگ اور نڈر لوگ ہمارے ہیرو بن جاتے ہیں۔ کوئی خوف ایسا بھی ہے جو انسان کو دلیر، دبنگ، راستباز اور حق کوش بنادیتا ہے؟

’’ہاں ایک خوف ایسا بھی ہے۔‘‘

’’آثار کیا تم بھی ڈرتے ہو؟‘‘

’’ڈرنے کو تو میں مکھی، مچھر، پسو اور کھٹمل سے بھی ڈرتا ہوں۔‘‘

’’یہ تو محض جملے بازی ہے، یہ بتاؤ کہ اللہ کے علاوہ اور کس سے ڈرتے ہو؟‘‘

اجمل، یہ میں سوچ کر بتاؤں گا۔

’’بھولنا نہیں۔‘‘

’’تم بھی یہ مت بھولنا کہ میں ڈرتا تو ضرور ہوں لیکن ڈرپوک نہیں ہوں۔‘‘

’’تم تو عجیب آدمی ہو ڈرتے بھی ہو اور ڈرپوک بھی نہیں ہو۔‘‘

عجیب آدمی نے اپنی بات کی وضاحت نہیں کی اور یہ کہتے ہوئے چل دیا کہ وہ بینک جارہا ہے اور اب تین دن کے بعد خان ایلم کی شادی اور ولیمے پر شاید ملاقات ہوجائے۔

آثار احمد بینک گیا اور وہاں ایک داستان چھوڑ کر آیا۔

وہ گزشتہ روز بھی بینک آیا تھا۔ گیارہ سو روپے کا چیک کیش کرانا تھا۔ چیک دینے کے بعد مینیجر کے پاس چائے پینے کے لیے بیٹھ گیا۔ چلتے وقت منیجر نے گیارہ سو روپے ایک خالی لفافے میں ڈال کر اسے دے دئے۔ گھر آنے پر اس نے دیکھا کہ لفافے میں گیارہ سو کی بجائے گیارہ ہزار روپے تھے۔

آثار احمد سمجھ گیا کہ یہ کیشئر کی غلطی ہے۔ اب وہ اسی غلطی کی درستی کے لیے آیا تھا، بینک کے حساب کی درستی کے لیے کیشئر کو ۹۹۰۰ روپے اپنی جیب سے دینے پڑگئے تھے اور وہ ٹوٹ پھوٹ گیا تھا۔ اس ٹوٹ پھوٹ کے شکار کیشئر نے آثار احمد کو گلے لگالیا۔ ایک بھیگی ہوئی لیکن شاداں و فرحاں آواز میں اس کا شکریے پر شکریہ ادا کیے جارہا تھا۔

جملہ ملازمین بینک کی نگاہ میں وہ ایک مکرم اور معتبر ہستی بن گیا تھا۔

اس کے جانے کے بعد اس کے بارے میں ایسی باتیں ہوتی رہیں:

’’اگر آثار احمد کے دل میں خوف خدا نہ ہوتا تو وہ فالتو رقم ڈکار گیا ہوتا۔‘‘

’’یہ خوفِ خدا بھی کیا چیز ہے کہ بندے کو جامۂ بندگی سے باہر نہیں ہونے دیتا۔‘‘

’’رب العزت اسے اس کی جزائے کثیر سے نوازے گا۔‘‘

’’آثار احمد جیسے لوگ ہمارے روگوں کا توڑ ہیں۔‘‘ وغیرہ وغیرہ

خان ایلم کی شادی ایک شادی ہاں میں ہورہی تھی۔ آثار احمد وہاں اپنے دوستوں سے مل رہا تھا۔ اس کے ساتھ وہ دیکھ رہا تھا کہ ایلم کی شادی چہ میگوئیوں کی زد میں تھی۔ چہ میگوئیاں کیا تھیں۔ دھیمے سروں میں ایک واویلا تھیں۔ آثار احمد سنتا پھر رہا تھا اور حیران بھی ہورہا تھا:

’’یہ ایلم خاں کی تیسری شادی ہے۔‘‘

’’ہاں یہ تیسری اور سیاسی شادی ہے۔‘‘

’’کس لیے؟‘‘

’’اپنا سیاسی قد بڑھانے کے لیے‘‘

’’اس کی پہلی دو بیگمات کا کیا حال ہے؟‘‘

’’وہ ایلم کی جان کو روہی ہیں۔‘‘

’’کیا وہ اس کو روک نہیں سکتیں؟‘‘

’’نہیں، وہ روکنا تو چاہتی ہیں لیکن روک نہیں سکتیں۔‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’اس لیے کہ وہ ایلم سے ڈرتی ہیں۔‘‘

’’ان کا خوف ہی ایلم کی بے خوفی ہے۔‘‘

’’ان کے خوف کا نتیجہ کیا ہے؟‘‘

’’یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے، بھلا۔‘‘

’’یہ ایلم کی تیسری شادی تو ہے لیکن آخری شادی نہیں ہے۔‘‘

’’کوئی نہ کوئی شادی اس کے لیے پورس کا ہاتھی بن جائے گی۔‘‘

ایلم خان کی شادی کے ساتھ اس کی دیگر باتوں کا بھی تذکرہ ہورہا تھا۔

ایک بات یوں کہی سنی جارہی تھی کہ حکومت نے ایلم کے گاؤں میں مڈل اسکول بغرض تعلیم کھولا ہے، ایلم نے اس پر اپنی مطلب براری کے لیے قبضہ کیا ہواہے۔ اسکول میں نہ کوئی پڑھنے آتا ہے نہ پڑھانے آتا ہے۔ اسکول کے کمروں میں ایلم خان نے مرغیاں اور بکریاں پال رکھی ہیں۔

’’یار یہ تو عجیب تماشا ہے حکومت باز پرس نہیں کرتی، کیا؟‘‘

’’حکومت باز پرس کرے تو پھر تیتر اور بٹیر کہاں سے کھائے۔‘‘

’’گاؤں والے بھی کچھ نہیں کہتے؟‘‘

’’کہتے ہیں، بہت کچھ کہتے ہیں، جب بھی کوئی کچھ کہتا ہے تو اس کے مویشی کم ہوجاتے ہیں، گم ہوجاتے ہیں، پولیس والے بھی گم سم ہوجاتے ہیں۔ ایلم خان کی چڑیا گم ہوجائے تو وہ پولیس والوں کو نظر آجاتی ہے لیکن کسی غریب کا بیل گم ہوجائے تو وہ پولیس کو نظر نہیں آتا۔ اس لیے گاؤں والے اب خوف زدہ ہیں اور مارے خوف کے بے بس، کمزور اور بے زبان ہوگئے ہیں۔‘‘

’’اس سے تو پتہ چلتا ہے کہ ایلم بڑا عیار اور بزدل آدمی ہے۔‘‘

’’عیار اور مکار تو وہ ہے لیکن بزدل کیسے ہے؟‘‘

’’ایلم بزدل اس لیے ہے کہ وہ علم اور تعلیم سے ڈرتا ہے۔ خواندہ لوگوں پر اس کی بالادستی قائم نہیں رہ سکتی۔ اس کی چودھراہٹ ان پڑھ لوگوں پر چل سکتی ہے۔‘‘

وہ خواندہ لوگوں سے ڈرتا ہے اس کا یہی خوف ناخواندگی کا باعث ہے۔

’’ٹھیک کہا ہے تم نے۔‘‘

’’عجیب آدمی ہے۔‘‘

’’نہیں، خبیث آدمی ہے۔‘‘

اس عجیب اور خبیث آدمی کے بارے میں اور بھی بہت کچھ کہا سنا جارہا تھا۔ گاؤں کا نمبردار ایک اور حکایت سنا رہا تھا:

’’صاحب! میں تو بس نام کا ہی نمبردار ہوں، اصلی نمبردار تو ایلم خان جی ہیں۔‘‘

’’ہاں جی! گاؤں میں چوری چکاری، بدمعاشی اور دادا گیری سب ختم ہوگئی تھی ، وہ جی تھانیدار علی بڑا اچھا آدمی تھا۔ اس نے بدمعاشوں کی بولتی بند کردی تھی۔ اب پھر سب بدمعاش شیر ہوگئے ہیں۔‘‘

’’اوہ جی! اس لیے کہ ایلم خان نے علی کا تبادلہ کرادیا ہے، نیا تھانیدار تو خود بھی بدمعاش ہے اور بدمعاشوں کا یار بھی ہے۔‘‘

’’یار یہ ایلم خان اللہ سے بھی نہیں ڈرتا۔‘‘

’’نہیں، اسی لیے تو یہ سب کچھ کیے جارہا ہے۔‘‘

’’میرا خیال ہے بلکہ مجھے یقین ہے کہ ایلم کسی نہ کسی دن وہ اپنے ان کرتوتوں کے طفیل پٹ جائے گا۔‘‘

’’ہوسکتا ہے۔‘‘

’’نہیں یہ ہونا شرو ع ہوگیا ہے۔‘‘

’’کیسے شروع ہوگیا ہے؟‘‘

’’سنا ہے کہ ایلم کی پہلی بیوی نے اس پر خلع کا دعویٰ کردیا ہے، یا کرنے والی ہے۔‘‘

’’ہاں یہ میں نے بھی سنا ہے کہ اے ایس آئی کے کہنے پر اس نے یہ ہمت کی ہے۔‘‘

’’راؤ کو تو ایلم نے ہی اے ایس آئی کرایا تھا۔‘‘

’’جی ہاں ایلم نے کرایا تھا ایک لاکھ بیس ہزار روپیہ لے کر۔‘‘

’’اتنے پیسے لے کر؟ میں تو سمجھا تھا کہ راؤ اپنے میرٹ پر ہوا ہے۔‘‘

’’جی ہاں راؤ کو اپنا میرٹ ایک لاکھ بیس ہزار میں ملا ہے۔ اس نے بھی قسم کھائی تھی کہ وہ موقع ملتے ہی ایلم کو منہ کے بل گرائے گا۔‘‘

’’اگر اس کی بیوی خلع کا مقدمہ جیت گئی تو ایلم کے ہاتھ سے سونے کا انڈا دینے والی مرغی جاتی رہے گی، اور وہ باں باں کرتا پھرے گا۔‘‘

آثار احمد ایسی باتیں سن رہا تھا اور اندازہ لگا رہا تھا کہ ایلم کی حقیقی عزت کی اوقات کیا ہے، راؤ کی کارروائی اس کے لیے کوئی عجوبہ نہیں تھی۔ ایلم گزیدہ لوگ تو ایسی کئی ایک کارروائیاں کرنے کی حسرتیں دل میں چھپائے ہوئے تھے۔

ہوتے ہوتے کھانا شروع ہوگیا۔

ابھی لوگوں نے کھانا شروع ہی کیا تھا کہ چھت کے ساتھ آویزاں جھاڑ فانوس ہلنے لگے، فرش ہلنے لگا، میزیں ہلنے لگیں۔ ان پر رکھے ہوئے برتن، طشتریاں اور گلاس ہلنے لگے۔

ایک آواز آئی۔ ’’زلزلہ‘‘

لوگ کھانا پینا بھول گئے۔ باتیں کرنا بھول گئے۔ ان کے چہروں کے رنگ فق ہوگئے، زبانیں گنگ ہوگئیں۔ جو باہر نکل سکتے تھے وہ باہر کھلے آسمان تلے آگئے۔ ایک بھگدڑ مچ گئی جو بڑھتی ہی چلی گئی۔ کلمۂ طیبہ، آیت کریمہ اور درود شریف پڑھنے کی آوازیں آنے لگیں۔

موت کے خوف نے لوگوں کی حالت خراب اور متغیر کردی تھی۔

سب سے زیادہ قابل رحم حالت ایلم خان کی تھی۔ اس کی حالت اس روٹی سے بھی خراب تھی، جو توے پر پڑی پڑی جل جاتی ہے۔ زلزلے کے جھٹکے آئے اور چلے گئے لیکن ایک داستان چھوڑ گئے۔

جب لوگوں کو یہ اطمینان ہوگیا کہ زلزلہ ختم ہوگیا ہے تو ایک اور بے اطمینانی ان کے اعصاب پر سوار ہوگئی۔ جن اشیاء خوردونوش کے لیے وہ باؤلے ہورہے تھے۔ اب ان کی رغبت اور خواہش ختم نہیں تو سرد ہوگئی تھی۔ جس نے بھی کھایا خوف اور بددلی سے کھایا اور کم کھایا۔ ایلم خان جس کی ابھی تک گھگھی بندھی ہوئی تھی، اب پھر چمکنے لگا تھا اور اپنی خفت مٹانے کے لیے بہانے تراش رہا تھا۔ لوگوں کے دلوں میں اس کے خلاف نفرت اور حقارت کے پیمانے بھرنے لگے تھے۔

ایک دن سکینہ خانم کے گھر میں اس کی ہم عمر سہیلیاں آئی ہوئی تھیں اور اس سے باتیں کررہی تھیں۔ ’’خانم تیری صحت کی کیا بات ہے، بوڑھی ہوکر بھی جوان لگتی ہے۔‘‘

’’بس یہ اللہ کا کرم ہے۔‘‘

’’کوئی خاص چیز کھاتی ہے کیا؟‘‘

’’نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ہے، بس میرا مطمئن اور سکھی دل ہے، اس کی وجہ میرا خدمت گزار اور فرمانبردار بیٹا ہے۔‘‘

’’خانم تیرے آثار احمد کی کیا بات ہے، وہ معلوم نہیں کس کس کا خادم ہے۔ اگر وہ نہ ہوتا تو ایلم خان اس بے چاری زبیدہ کی چالیس ایکڑ زمین ہڑپ کرگیا ہوتا۔‘‘

’’آثار کی بیوی بھی اس سے خوش ہے یا نہیں؟‘‘

’’فریدہ اب تو اس کا کلمہ پڑھتی ہے۔‘‘

’’پہلے تو بڑی نک چڑھی، کام چور اور منہ پھٹ تھی۔‘‘

’’ایسی ہی تھی لیکن اب آثار نے اس کا قبلہ درست کردیا ہے۔‘‘

’’کیسے؟‘‘

’’بس آثار نے فریدہ کے ذہن میں خوف خدا کو اوراس کے ساتھ احساس جواب دہی کو گہرا اور پختہ کردیا ہے۔‘‘

’’میرا خیال تھا کہ آثار نے فریدہ کو مارا پیٹا ہوگا۔ خرچہ نہیں دیا ہوگا اس کے ساتھ قطع تعلق کرلیا ہوگا۔ لیکن آثار تو بڑا سیانہ نکلا سانپ بھی ماردیا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹی!‘‘

’’عجیب بات ہے کہ لوگ خوف سے مرجاتے ہیں، بزدل ہوجاتے ہیں کمزور اور دبو ہوجاتے ہیں، ٹھٹھر جاتے ہیں، ہوش و حواس گم کر بیٹھتے ہیں لیکن یہ خوفِ خدا تو نہ جانے کیسی اکسیر شے ہے کہ اس سے لوگ خیر اندیش اور دور ااندیش ہوجاتے ہیں۔ خوف خدا سے لوگ دانا، دلیر اور نڈر ہوجاتے ہیں۔ تیرا آثار احمد بھی ایسا ہی ہے۔‘‘

’’جب تک آثار احمد میں خوف خدا ہرا بھرا رہے گا وہ ایسا ہی رہے گا۔ اگر وہ خوفِ خدا سے بے نیاز ہوگیا تو وہ بھی ایلم خان بن جائے گا، خود غرض، مکار اور خلق آزار۔‘‘

’’اللہ نہ کرے کہ آثار احمد بھی ایلم خان بن جائے۔‘‘

آثار احمد اپنے گھر میں بیٹھا ہوا اقبال کی کتاب ’’جاوید نامہ‘‘ پڑھ رہا تھا۔ اس کے معنوں سے بھرے ہوئے اشعار اس کے اعصاب پر چھائے ہوئے تھے کہ اتنے میں عیاض اور اجمل آگئے۔ ان کو دیکھتے ہی آثار نے کہا: ’’ وہ منکر نکیر آگئے ہیں۔ ‘‘ منکر نکیر نے کہا کہ وہ اس کا احتساب کرنے آئے ہیں۔ آثار نے کہا کہ وہ حساب و احتساب کے لیے تیا رہے۔

’’ہاں یاد ہے وعدہ تو کیا تھا۔‘‘

’’پھر بتاؤ کہ کس سے ڈرتے ہو۔‘‘

’’ایلم خان سے‘‘

’’ہیں! اس غنڈے، بدمعاش سے‘‘

’’ہاں‘‘

’’کیوں! اس لیے کہ وہ بڑا جاگیر دار ہے۔‘‘

’’نہیں‘‘

’’اس لیے کے ایلم بڑا جابر اور ظالم آدمی ہے۔‘‘

’’نہیں‘‘

’’اس لیے کہ وہ دشمنوں کا جینا حرام کردیتا ہے۔‘‘

’’نہیں‘‘

اس لیے کہ حکومت بھی ایلم نواز ہے۔‘‘

’’نہیں یہ وجہ بھی نہیں ہے۔‘‘

’’پھر کیا وجہ ہے۔ ایلم تو کہتا ہے کہ میں کسی سے نہیں ڈرتا، صرف اس مردود آثار احمد سے ڈرتا ہوں۔ اس کی توبلیاں میرے خون خوار کتوں کو بھگا دیتی ہیں۔ جب یہ بات ہے تو پھر ایلم سے کیوں ڈرتے ہو؟‘‘

’’ایلم مجھ سے اس لیے ڈرتا ہے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور میں ایلم سے اس وجہ سے ڈرتا ہوں کہ وہ اللہ سے نہیںڈرتا۔‘‘ اس جواب کو سن کر عیاض اور اجمل چپ ہوگئے، شاید ان کو اطمینان ہوگیا تھا، ورنہ وہ ضرور باتیں کرتے۔

’’سیدنا علیؓ نے اپنے بیٹے حسنؓ کو کہا تھا کہ حسنؓ اللہ سے ڈرو اور اس سے ڈرو جو اللہ سے نہیں ڈرتا۔ اس جملے نے اس موضوع کی معنوی تکمیل کردی تھی۔ سب کو سیراب کردیا تھا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146