محمد رسول اللہ ﷺ کی امت اپنے رسول کے مشن اور ان کے کارِ دعوت کی جانشین امت ہے۔ آخری نبی کی پیروکار مسلمان امت کو قیامت تک کے لیے اس کام کی ذمہ داری دی گئی ہے، جسے انبیاء انجام دیا کرتے تھے اور جسے خاتم النبیین نے بھی انجام دیا۔ اور وہ ذمہ داری ہے لوگوں پر حق کی شہادت دینا اور حق کو لوگوں کے سامنے پیش کرنا اور اسے واضح کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ حج میں فرمایا ہے:
وَجَاہِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہٖ ہُوَ اجْتَبٰکُمْ وَمَاجَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ مِلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرَاہِیْمَ ہُوَ سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ قَبْلُ وَفِی ہَذَا لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَہِیْداً عَلَیْکُمْ وَ تَکُوْنُوْا شُہَدَائَ عَلَی النَّاسِ فَاَقِیْمُوا الصَّلوٰۃَ وَاٰتُوْا الزَّکوٰۃَ وَاعْتَصِمُوْا بِاللّٰہِ۔
’’اور اللہ کی راہ میں جدوجہد کرنے کا حق ادا کردو۔ اس نے تمہیں چن لیا ہے اور تمہارے لیے دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی تم اپنے باپ ابراہیم کی امت ہو انہی نے تمہارا نام مسلم رکھااب بھی اور پہلے بھی تاکہ رسول تم پر شاہد ہو اور تم لوگوں پر شہادت دو۔ پس نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرواور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو۔‘‘
اور ایک دوسری جگہ فرمایا:
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ۔
’’تم خیر امت ہو جو لوگوں کے لیے برپا کیے گئے ہو۔ تم نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو۔‘‘
مسلم امت یوں ہی خیرِ امت کے منصب سے سرفراز نہیں کی گئی ہے بلکہ اس کے خیر امت ہونے کی صفت اس کی ذمہ داریوں اور فرائض سے مشروط ہے اور وہ فرائض اور ذمہ داریاں یہ ہیں کہ وہ لوگوں کونیکیوں کا حکم دیں برائیوں سے روکیں اور دنیا میں نماز قائم کریں زکوٰۃ ادا کریں اور اللہ کی رسی اور اس کے احکام کو مضبوطی سے تھامے رہیں اور ان پر عمل پیرا رہیں۔ جب تک وہ ان ذمہ داریوں کی انجام دہی کے لیے کوشاں رہے گی اور اس کو بدرجہ احسن انجام دیتی رہے گی وہ خیر امت کے لقب کی حق دار اور اس منصب پر فائز رہے گی اور جب اسے چھوڑ دے گی تو یہ منصب اور اعزاز بھی اس سے جاتا رہے گا۔ اس حقیقت کو اللہ کے رسول نے ایک مرتبہ اس طرح بیان فرمایا:
’’خدا کی قسم تم ضرور لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے رہو گے اور برائیوں سے روکتے رہوگے (اگر ایسا نہ کرو گے) بصورت دیگر اللہ تعالیٰ تمہیں عذاب میں مبتلا کردے گا تم اسے پکاروگے مگر تمہاری پکار نہیں سنی جائے گی۔‘‘
بدقسمتی سے آج امت اپنی ان بنیادی ذمہ داریوں سے یکسر غافل ہوگئی ہے جن کے سبب اسے خیر امت ہونے کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔ جس طرح پچھلی امتوں، یہود و نصاریٰ نے الٰہی احکامات و ہدایات کو تو چھوڑ دیا مگر ’’ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں‘‘ کے دعوے کرنے لگے، اسی طرح یہ امت اپنے فرائض و ذمہ داریوں سے تو غافل ہوگئی ہے مگر خیرِ امت اور جنت کی حقداری کا دعویٰ زوروشور سے کرتی ہے۔ نتیجہ یہ امت حقوق و تحفظات اور مفادات کی کشمکش میں ایک فریق بن گئی ہے اور اس کے خیر امت ہونے کا تصور جاتا رہا ہے۔
ہمارے رہنما اور ہمارے آقا حضرت محمد ﷺ نے اپنی پوری زندگی میں انسانوں کے لیے سراپا خیر ہونے کی جو مثال پیش کی تھی اس کا تصور بھی ہمارے ذہنوں میں دھندلا گیا ہے۔ آپ نے فرمایا تھا:
خیر الناس من ینفع الناس
’’انسانوں میں بہترین انسان وہ ہے جو انسانوں کو نفع پہنچائے۔‘‘
اور آپ کی زندگی اس کی منھ بولتی تصویر تھی۔ آپ کی نبوت سے پہلی اور نبوت کی زندگی اس بات کی روشن دلیل ہے کہ آپ انسانوں کے لیے سراپا خیر تھے اور اس میں دوست دشمن، امیر غریب اور رشتہ دار وغیر رشتہ دار کی بھی تفریق نہ تھی۔ ذاتی اور انفرادی زندگی میں خیر الناس من ینفع الناس کی جو مثال آپ نے قائم کی تھی، اسی کا نتیجہ تھا کہ جب آپ نے اسلام کی دعوت پیش کی تو لوگوں کے دل اس کی طرف کھنچتے چلے گئے اور آپ کے دشمن اور اس نئے دین کی بنیاد پر نفرت کرنے والے بھی آپ کے جذبۂ خدمت و خبر گیری کی وجہ سے آپ کے پیش کردہ دین سے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکے۔ ایسا اس لیے تھا کہ اللہ کے رسول کی سوچ اور فکر آفاقی تھی آپ تمام انسانوں کی فلاح و بہبود کے بارے میں سوچتے اور غوروفکر کرتے تھے۔ جبکہ آج ہمارا معاملہ بحیثیت گروہ و اجتماعیت اور بحیثیت فرد اس آفاقیت سے مختلف ہے۔ اور امت کے افراد اس کی جماعتیں محدود ہوکر سوچنے کی عادی ہوگئی ہیں۔ اپنا مفاد، اپنے گروہ کا مفاد، اپنی تنظیم اور اپنے ادارے کا مفاد، اپنے ماننے والوں اور اپنے متبعین کا مفاد — اس سوچ نے ہمیں ایک خول میں بند کرکے عام انسانوں کی فلاح و بہبود کے بارے میں سوچنے اور اس کی راہیں تلاش کرنے کی فکر و صلاحیت سے محروم کردیا ہے۔ اور اس میں افراد و اجتماعتیں دونوں یکساں طور پر شامل ہیں۔ اور ایسا اس وجہ سے ہے کہ ہمارے پاس اپنی جماعتوں، اپنے گروہوںاور بالآخر مسلمانوں کے مفادات اور ان کے تحفظ کا تو ایجنڈا ہے مگر عام انسانوں تک رسائی اور ان کے لیے خیرثابت ہونے کے لیے ہمارے پاس جو بنیادی ایجنڈا تھااسے ہم نے نظر انداز کردیا جس کی وجہ سے آج ہماری شناخت مسلمانوں کے مفادات کے لیے لڑنے والے ایک گروہ کی ہوگئی ہے اور کہیں اس کا ہلکا سا تصور بھی لوگوں کے ذہنوں میں نہیں ملتا کہ یہ لوگ تمام انسانوں کے لیے خیروفلاح کے پیغام بر ہیں۔
وسیع اور آفاقی سوچ اور عام انسانوں کے لیے فلاحی ایجنڈا نہ ہونے کا ہی نتیجہ ہے کہ یہ امت گروہوں اور فرقوں میں تقسیم ہوکر ایک طرف تو خود کو بے اثر کرچکی اور کیونکہ عام انسانوں کے لیے کچھ دینے کی تعمیری سوچ کا فقدان ہے اس لیے باہمی کشمکش اور اندرونی انتشار کا شکار ہوکر منفی راستوں میں اپنی تمام تر جدوجہد صرف کررہی ہے۔
تعمیری ایجنڈا، آفاقی سوچ اور تمام انسانوں کی خیرو فلاح کے لیے فکرمند ہونا ہی دراصل نبوی زندگی کا بنیادی ایجنڈا تھا اور یہی ایجنڈا امت مسلمہ کا ایجنڈا اور مشن ہونا چاہیے۔ یہی خیر امت ہونے کا مطلب ہے اور یہی تقاضہ ہے اللہ تعالیٰ کی منتخب امت ہونے کا جس کے بارے میں فرمایا گیا ’ہو اجتبٰکم‘ (اس نے تمہیں چن لیا ہے۔) یہی اس امت کا فرض منصبی ہے اور یہی اس کا مشن بھی۔ اور یہی وہ ذمہ داری ہے جو خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کے بعد ان کی امت یعنی ہم مسلمانوں پر عائد ہے اور جسے ہمیں بہرحال انجام دینا ہے۔ اسی کی ادائیگی میں ہماری خیروفلاح ہے اور اسی سے وابستہ رہنے میں ہمارے لیے غلبہ وسربلندی بھی۔
جیسا کہ اللہ کے رسول کی حدیث سے واضح ہوا کہ’’خدا کی قسم تم ضرور لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے رہو گے اور برائیوں سے روکتے رہو گے بہ صورت دیگر اللہ تعالیٰ تم پر عذاب بھیج دے گا۔ پھر تم اسے پکاروگے اور تمہاری پکار نہیں سنی جائے گی۔‘‘
قرآن نے اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
’’اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو ایمان لے آئے اور نیک اعمال کیے کہ وہ ان کو زمین میں خلیفہ بنائے گا، جس طرح ان لوگوں کو بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے۔ اور یقینا ان کے لیے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جمادے گا، جسے ان کے لیے وہ پسند کرچکا ہے اور ان کے خوف کی حالت کو امن میں بدل دے گا… اور… نماز کی پابندی کرو، زکوٰۃ ادا کرو اور اللہ کے رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘ (النور:۵۵-۵۶)