خیر خواہی ہر مومن پر دوسرے مومن کا حق ہے۔ یہ چھوٹوں پر بڑوں کا اور بڑوں پر چھوٹوں کا حق ہے، عوام پر خواص کا اور خواص پر عوام کا، امیر پر مامورین کا اور مامورین کا امیر پر حق ہے۔ گویا ہر انسان کا دوسرے انسان پر یہ حق ہے کہ وہ اس کی خیر خواہ ہو۔ خیر خواہی کا مفہوم بہت وسیع اور عام ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ ہم برابر یہ سوچتے رہیں کہ ہم اپنے مسلمان بھائی بہنوں کی خیر اور بھلائی کس طرح کرسکتے ہیں اورانہیں کس طرح زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچاسکتے ہیں۔ خیر خواہی کا تقاضہ ہے کہ کسی کا کوئی نقصان اور تکلیف آپ کو گوارا نہ ہو۔ دینی اور دنیاوی جس طریقے سے بھی ہم انھیں فائدہ پہنچاسکتے ہوں اس میں کوئی دریغ نہ کریں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: الدین النصیحۃ(دین سراسر خیرخواہی ہے)۔
اس خیرخواہی کا اصل معیار یہ ہے کہ مومن اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ کیونکہ آدمی خود کبھی بھی اپنی ذات اور اپنے نفس کا برا نہیں چاہ سکتا، بلکہ وہ اپنے لیے زیادہ سے زیادہ نفع بھلائی اور بہتری کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ اگر کوئی توہین یا بے عزتی کرے تو انسان اسے برداشت نہیں کرتا۔ بس ’’خیرخواہی‘‘ کے معنی یہی ہیں کہ انسان کی ذات میں یہ صفت پیدا ہوجائے کہ وہ لوگوں کے لیے سراپا ’’خیر خواہی‘‘ بن جائے اور اس کی ذات سے نہ تو کسی کا نقصان ہو اور نہ کسی کے عزت و وقار کو ہی نقصان پہنچے۔ حضور اکرم ﷺ نے مومن کی اس صفت کو ایمان کے لیے ایک لازمی شرط ٹھہرایا ہے۔ حضور کا ارشاد ہے:
والذی نفسی بیدہ لا یؤمن عبد حتی یحب لاخیہ ما یحب لنفسہ۔ (بخاری)
’’اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے۔ کوئی بندہ مومن نہیں ہوتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی کچھ پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔‘‘
حضرت جریرؓ بن عبداللہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی تھی۔ نماز قائم کرنے پر زکوٰۃ دینے پر اور ہر مسلمان کی نصح و خیر خواہی کرنے پر۔ (بخاری و مسلم)
اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے آپ نے خصوصیت سے تین باتوں کا عہد لیا تھا۔ ایک اہتمام سے نماز پڑھنے کا، دوسرا زکوٰۃ کی ادائیگی کا اور تیسرا ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کا۔ اس سے ہم بہ خوبی اندازہ کرسکتے ہیںکہ نبی کریم ﷺ کو مسلمانوں کے باہمی تعلقات کا کتنا خیال تھا۔ آپؐ نماز زکوٰۃ جیسے بنیادی ارکان کے ساتھ اس بات کی بھی بیعت لیتے تھے کہ اہلِ ایمان کی خیر خواہی کے علاوہ ہم کچھ نہ کریں گے۔ حضرت تمیم دارمیؒ سے روایت ہے کہ رسول خدا ﷺ نے فرمایا: دین نصح و خیر خواہی کا نام ہے۔ یہ آپؐ نے تین بار فرمایا۔ ہم نے عرض کیا کہ یہ (خیر خواہی) کس کے لیے؟ فرمایا: اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول، مسلمانوں کے امام اور عام مسلمانوں کے لیے۔
خیر خواہی کا یہ جذبہ جو حضورﷺ اپنے صحابہ کے اندرپیدا کرنا چاہتے تھے، اگر صحیح معنی میں ہمارے اندر پیدا ہوجائے تو ہر قسم کے رذائل اور بداخلاقیوں کا یکسر خاتمہ ہوجائے گا۔ مسلمانوں کے معاملات درست ہوجائیں گے، آپسی انتشار و افتراق ختم ہوجائے گا۔ اور ٹوٹے ہوئے رشتے پھر سے مستحکم ہوجائیں گے۔