شیلاکمرے میں آئی تو دیکھا کہ ماںجی آنکھیں بند کیے چپ چاپ لیٹی ہیں۔ شیلا ذرا گھبرائی اور ماں جی سے بولی ’’ماں جی آپ ابھی سے سورہی ہیں، کیا طبیعت خراب ہے؟ بڑی بھابھی صبح کہہ رہی تھیں کہ آپ گورنر ہاؤس گئی تھیں وہاں جاکر بہت تھک گئی ہیں، کیا آپ کے پیر دبادوں؟ چائے بنالاؤں، کچھ تو بولو ماں جی…‘‘
جب سے گورنر ہاؤس سے آئی ہوں تھکان محسوس ہورہی ہے بیٹی! کچھ کھانے کو بھی طبیعت نہیں چاہتی، جا چائے بنالا، ساتھ میں کچھ کھانے کے لیے بھی لے آنا۔‘‘پر بھا دیوی نے پیار بھرے انداز سے شیلا سے کہا۔
’’شیلا کتنا دھیان رکھتی ہے میرا۔ کتنا میں اس پر منحصر ہوگئی ہوں، بھلا ہو مادھو کا جو اس بچی کو میری پاس لے کر آیا۔‘‘
غریب گھر کی بیٹی پڑھنے کا بے پناہ شوق لیے میرے گھر آئی تھی، پھر یہاں کے چھوٹے بڑے کام کرنے لگی، جس کے عوض اسے کچھ ملنے بھی لگا لیکن کبھی اسے نوکرانی نہیں سمجھا گیا۔
شیلا چائے لانے گئی تو پربھا یادِ ماضی میں کھو گئیں۔غلام ہندوستان میں پربھا دیوی کی پیدائش ہوئی۔ ملک کی آزادی کی جدوجہد کی پاداش میں ان کے شوہر انگریزوں کے ذریعے ایک جیل سے دوسری جیل منتقل کیے جاتے رہے۔ گاندھی جی کی ہر ستیہ گرہ سے میاں بیوی جڑے رہے۔ پربھا دیوی شوہر کا سایہ بن کر گھریلو زندگی اور کچھ ملک کی خدمت کا کام بھی سنبھالتی رہیں۔ ملک تو آزاد ہوا مگر ان کے شوہر جیل کی صعوبتوں سے چور جسم کے ساتھ زیادہ وقت پربھا دیوی کے ساتھ نہ نبھا سکے اور اس دنیائے فانی سے کوچ کرگئے۔
پربھا دیوی کے دو بیٹے تھے۔ ایک تو امریکہ گیا وہیں شادی بھی کرلی اور وہیں کا ہو رہا۔ دوسرا بیٹا لکھنؤ میں بیوی اور دو بچوں کے ساتھ رہتا ہے اورماں کو کبھی اپنے سے جدا نہیں کرتا۔
بہو اپنے کاموں میں مصروف ہونے کے باوجود انہیں عزت و پیار دیتی ہے۔ ایک پوتا بنگلور میں پڑھ رہا ہے اور پوتی یہیں میڈیکل کالج کی طالبہ ہے۔ بچوں کا پیار ہی ان کی پہچان ہے اور یہ شیلا کبھی ان کی دوست بن کر گھل مل جاتی ہے تو کبھی بیٹی بن کر دیکھ بھال کرتی ہے۔اور کبھی ماں بن کر ڈانٹ ڈپٹ بھی کرتی ہے۔
شیلا چائے ناشتہ کی ٹرے لیے کھڑی مسکرا رہی تھی اسے دیکھ کر پربھا دیوی حال میں لوٹ آئی۔
ان کے گورنر ہاؤس جانے کی کہانی سننے کے لیے شیلا بہت بے چین تھی۔ یہ انھیں ان کی آنکھوں کی چمک سے لگ رہا تھا۔
’’آپ کو یہ شال وہیں سے ملا ہے نہ ماں جی؟‘‘ اس نے بات آگے بڑھائی۔
ان کے ’’ہاں‘‘ کہنے پر وہ ساری باتیں جاننے کے لیے بے چین تھی اس کی بے چینی اور جاننے کی چاہت دیکھ کر ان کا دل بھی مسکرا رہا تھا۔
تقریباً ۲۰ سال قبل ہم یہاں اس وقت آئے تھے جب میرے بیٹے سندیپ نے یہ مکان بنوایا تھا۔ کالونی میں رہنے کا یہ میرا پہلا تجربہ تھا، شام کو ٹہلتے وقت کب مجھے آس پاس کے لوگ پہچاننے لگے اور کیسے مجھے دعا سلام کرتے کرتے عزت دینے لگے اس کی تو مجھے خبر بھی نہ ہوئی۔مجھے بھی ان کا ساتھ اچھا لگنے لگا، سب کم عمر خواتین تھیں، چھوٹے چھوٹے بچوں کی مائیں تھیں اور اقتصادی طور پر مضبوط بھولی بھالی خواتین۔
ایک دن ریکھا نے مجھے کٹی پارٹی میں آنے کی دعوت دی، جسے کوئی بیس خواتین چلاتی تھیں، اگرچہ مجھے ان پارٹیوں میںجانے کا کبھی سابقہ نہیں پڑ رہا تھا لیکن میں نے ان کی دعوت قبول کرلی اس طرح میں مہمان بن کر ان کی اس پارٹی میں جانے لگی۔
ایک دن پارٹی میں بیٹھے بیٹھے میرے ذہن میں ایک خیال آیا کہ کیوں نہ اس پارٹی کے ذریعے کچھ خدمتِ خلق کا کام کیا جائے؟ یہ سبھی خواتین اس کٹی پارٹی میں صرف تاش اور ہاوزی کھیل کر اور کھاپی کر اپنے گھر چلی جاتی ہیں۔ یہ تو مناسب نہیں ہے۔ میرے ذہن میں یہ خیال گردش کر ہی رہا تھا کہ ایک دن سوامی جی کا ٹی وی پر ایک وعظ سنا۔
’’اگر ہر صاحبِ خانہ ایک مٹھی اناج بلاناغہ الگ رکھتا جائے تو اس دیش میں کوئی بھی شخص بھوکا نہیں رہے گا۔ ہر صاحبِ خانہ کا یہ مذہبی فریضہ ہے کہ کچھ نہ کچھ صدقے اور غریبوں اور حاجت مندوں کی مدد کے لیے الگ رکھے۔‘‘
’’ایک مٹھی اناج‘‘ سوامی کے یہ الفاظ رات بھر میرے ذہن میں چھائے رہے۔ تین چار دن بعد ہی سدھا کے گھر کٹی پارٹی تھی۔ میں اسی پارٹی میں گئی، لیکن اس فکر کے ساتھ کہ ان خواتین کو خدمتِ خلق کے لیے ضرور آمادہ کروں گی۔ میںنے انھیں سوامی جی کی بات بتائی۔
’’یہ تمہاری بیس خواتین کی پارٹی ہے تم سب ہر روز ایک مٹھی اناج الگ ایک ڈبے میں ڈالتی جاؤ اور مہینہ کے اختتام پر اسی اناج سے کھانا پکاکرغریب بستی یا یتیم خانے میں تقسیم کرآؤ۔‘‘
اس بات پر ساری خواتین راضی ہوگئیں اور یہ مشورہ سے طے ہوا کہ ۴؍خواتین دال جمع کریں اور ۸-۸ ممبر آٹا اور چاول اس طرح دال چاول روٹی بٹنے لگی۔ انھوں نے اپنی سہولت کے مطابق چار چار لوگوں کے گروپ بنالیے اور مشورے کے مطابق یہ کام شروع کردیا۔ بعد میں ایک بے سہارا بیوہ ایک گھر سے پابندی سے کھانا کھانے لگی یہاں تک یہ خدمت خلق کا سلسلہ دوسری کٹیوں میں بھی شروع ہوگیا۔ میرا لگایا ہوا یہ پودا پھل پھول رہا تھا۔ یہ میرے لیے بڑی خوشی کی بات تھی۔
شیلا کی مزید جاننے کی چاہت بڑھ رہی تھی ’’کیا اسی کام کے لیے آپ کو انعام ملا۔‘‘ شیلا چہکی۔
’’نہیں رے، شاید ایشور کو کچھ اور اچھا کرانا تھااسی کا نتیجہ یہ ہے۔ اچھا اب تو جا۔ رات بہت ہوگئی مادھو سے کہنا تجھے چھوڑ آئے گا اور جاتے ہوئے بہو سے اپنی کتابوں کے لیے روپئے لیتی جانا میں نے اسے کہہ دیا ہے۔‘‘
کل صبح شیلا جلدی جلدی کام کرکے پھر میرے پاس آبیٹھی’’بتاؤ ماں جی پھر کیا ہوا؟‘‘
پربھا دیوی نے شیلا کو دیکھاپھر بولی: ’’پھر کیا، یہ کام چل ہی رہا تھا کہ ایشور نے ایک نئی اسکیم میرے ذہن میں ڈالی۔ آئندہ والی کٹی پر میں نے سب سے کہا، میں نے ایک خواب دیکھا ہے جو تم سب کو مل کر شرمندئہ تعبیر کرنا ہے۔ ساری خواتین پورے دھیان سے میری بات سننے کے لیے تیار تھیں جس کی وجہ سے میں تذبذب میں تھی۔ مگر ان کا حوصلہ دیکھ کر میرے اندر خود اعتمادی پیدا ہوئی۔اور میں نے کہا : دیکھو کسی پر کوئی دباؤ نہیں ہے اگر میری اسکیم پسند نہ آئے تو انکار کرسکتی ہو۔‘‘
’’آنٹی آپ بتائیں تو۔‘‘ سبھرا نے بات کو آگے بڑھایا۔
بیس ممبران اور اکیسویں میں، ایک روپیہ روزانہ ایک گولک میں جمع کریں تو سال کے اختتام پر ۳۶۵ روپئے اورممبروں کی تعداد کے حساب سے آٹھ ہزار روپئے جمع ہوں گے میں نے اپنے بیٹے سے بات کی ہے وہ ان آٹھ ہزار روپیوں میں ۲ ہزار روپئے ملاکر دس ہزار کردے گا۔ اس طرح ایک بڑی رقم کسی خیراتی ادارہ یا ضرورتمند کو دے سکتے ہیں۔ کسی بیوہ یا غریب عورت کو روزگار سے لگاسکتے ہیں۔ تم سب لوگ صلاح کرلو اور گھر میں پوچھ لو اسی وقت فیصلہ ہوگا۔ یہ میری رائے ہے حکم نہیں، آئندہ کٹی پر فیصلہ ہوگا۔‘‘
اگلی کٹی پر سب میری رائے پر متفق تھیں مگر کچھ ترمیم کے ساتھ۔ آنٹی اسے ہم نیا نام دیں گے یہ سدھا کی رائے تھی۔ رما نے کہا اگر کسی کی یاد میں موسوم ہو تو اچھا ہے۔
اس طرح سب کے مشوروں سے ’’پریتی چیئرٹیبل سنستھا‘‘ کا نام پڑا۔ پریتی اس لیے کہ محترمہ شرما کی بیٹی کا انتقال گزشتہ سال ایک حادثہ میں ہوگیا تھا۔ اس طرح پریتی کی یاد میں ۲ غریب لڑکیوں کی فیس، کتابوں اور ڈریس کا نظم ان پیسوں سے ہونے لگا۔
اس طرح یہ فلاحی تحریک شروع ہوئی، دوسرے شہروں کے لوگوں نے بھی اس اسکیم کو اپنایا۔ اس طرح ایک شہر سے دوسرے شہر اور اخبارات تک یہ خبریں پہنچ گئیں اور گورنر تک یہ خبر پہنچنے کے نتیجے میں یہ شال اور سپاس نامہ مجھے ملا ہے۔
یہ سب بتانے میں ۹۰ سالہ پربھا دیوی ہانپنے لگیں۔ کروٹ لے کر لیٹ گئیں جیسے کہہ رہی ہوں کہ شیلا اب تو جا اور مجھے آرام کرنے دے۔
شیلا بھی یہ سب سن کر اس عزم محکم کے ساتھ لوٹ رہی تھی کہ ماں جی کے اس خدمت خلق کے سلسلہ کو منقطع نہیں ہونے دیں گے اس مشن کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری ہم نوجوانوں پر ہی ہے۔ شیلا نے ایک محکم عزم کے ساتھ اپنے گھر میں قدم رکھا مگر وہ سو نہ سکی اور رات بھر کروٹیں بدلتی رہی۔
ماں جی کی باتوں سے متاثر ہوکر شیلا اسکیمیں بناتے بناتے دیر رات سونے کی وجہ سے صبح جلدی نہیں اٹھ پائی۔ جلدی بھاگتی ہوئی پربھا دیوی کے گھر پہنچتے ہی بھیڑ دیکھ کر بھونچکی رہ گئی۔ بڑی بھابھی نے اسے بتایا کہ جب وہ چائے لے کر ان کے کمرے میں پہنچی تو وہ اس دنیا سے جاچکی تھیں۔ ماں جی اب زندہ نہیں رہیں اس تصور ہی سے شیلا دم بخود ہوگئی وہ بڑی بھابھی کے گلے لگ کر سسک سسک کر رو پڑی۔
جنگ آزادی کی مجاہدہ اور سماج کی خادمہ پر بھاجی کی آخری رسم کی ادائیگی کے لیے ضلع مجسٹریٹ کے ذریعہ گل پاشی اور گارڈ آف آنر دیا گیا۔
ماں جی کی اچانک موت نے جہاں شیلا کو اندر سے ہلا دیا وہیں اس کے عہد و عزم کو اور مستحکم کردیا، وہ خود اعتمادی سے بھرے قدموں سے اپنے گھر واپس آرہی تھی، یہ سوچتے ہوئے کہ ماں جی کے لگائے ہوئے اس پودے کو ہم نوجوان نسل مستقبل میں بڑا کریں گے۔
(ہندی ماہنامہ، میری سہیلی)
——