خیر کا کام

ڈاکٹر ابنِ فرید

وہ عورتیں اور بچیاں جو گھروں پر کام کرتی ہیں ان کے ساتھ ہمارا رویہ بڑا عجیب سا ہوتا ہے۔ ان سے لاتعلقی اور ان کے معاملے میں بے حسی اس حد تک ہوتی ہے کہ ہم ان کے بارے میں اگر سوچتے ہیں تو صرف اس قدر کہ وہ خالی کیوں بیٹھی ہیں، یا وہ کام کیوں نہیں کررہی ہیں اور اگر کررہی ہیں تو سست رفتاری سے کیوں کررہی ہیں۔ معلوم نہیں ہمارے اس رویے کی وجہ سے یا اس معاشرتی ماحول کی وجہ سے جس میں وہ بے شمار محرومیوں کی زندگی گزار رہی ہوتی ہیں، ان کی اپنی روش بھی خاصی روکھی اور لین دین کی ہوتی ہے۔ اس روش میں اگر تھوڑا سا اپنائیت کا احساس پیدا کرلیا جائے تو دونوں طرف کے برتاؤ میں نمایاں تبدیلی پیدا ہوسکتی ہے۔
سب سے پہلا کام یہ ہے کہ آپ ملازمہ عورت یا بچی کو یہ احساس دلائیے کہ آپ کو اس کی ذات میں دلچسپی ہے اور یہ دلچسپی محض دکھاوے کے لیے نہ ہو، بلکہ حقیقتاً ہو، یعنی آپ اسے بھی انسان سمجھیں اور انسانوں جیسا سلوک کریں۔ بیشک، پہلے تو اسے یہ احساس ہوگا کہ یہ سب کچھ بالکل بناوٹی ہورہاہے، لیکن جلد ہی اسے یقین آجائے گا کہ آپ جو کچھ کررہی ہیں وہ اپنے فائدے کے لیے نہیں، بلکہ اس کے فائدے کے لیے کررہی ہیں۔ یہ احساس پیدا ہونے کے بعد آپسی برتاؤ میں خاصی تبدیلی پیدا ہوجائے گی۔
ان پڑھ جاہل عورت عام طور سے بڑی محرومی و مایوسی کا شکار ہوتی ہے۔ اس میں یہ احساسِ کمتری جاگزیں ہوتا ہے کہ وہ بے حد حقیر اور بے وقعت ہے اور جن کی وہ ملازم ہے ان کے مقابلے میں اس کی حیثیت کیڑے مکوڑوں جیسی ہے۔ وہ ان کے طور طریقے نہیں اپناسکتی۔ مثلاً ان کی طرح پڑھ لکھ نہیں سکتی۔ حالانکہ پڑھی لکھی ہونا اس کا بحیثیت مسلمہ، بنیادی حق ہوتا ہے۔ آپ بھی فراخ دلی کا مظاہرہ کیجیے۔ اس تک اس کا یہ بنیادی حق پہنچائیے۔
ان گھریلو ملازماؤں کو کام ہی کام میں پڑھنا لکھنا سکھایا جاسکتا ہے۔ میرے خیال میں انھیں پڑھانے کے لیے راست طریقۂ تعلیم(Direct Method of Teaching) ہی مناسب و موزوں ہوگا۔ مثلاً حروف شناسی کے لیے ان حروف کو اہمیت دی جائے جن کی فوری اور وقتی ضرورت پڑے۔ جیسے ’’پانی‘‘ کے چاروں حروف (پ ا ن ی) سے پہلے آشنا کرائیے۔ یہ ہر وقت استعمال ہوتا ہے اور ہر وقت اس کی ضرورت پڑتی ہے۔ اسی طرح، فرض کیجیے، اس بچی کا نام ’’امینہ‘‘ ہے۔ آپ اس نام کے حروف اسے الگ الگ بتائیں، یعنی ’’ا م ی ن ہ‘‘ اب یہ دیکھیے کہ ان دونوں ناموں میں تین حر وف مشترک ہیں۔ ان ی۔ اب کچھ لفظ اور انتخاب کیجیے جن میں اس کے مانوس حروف آجائیں، مثلاً اس کی ماں کا نام (شفیقہ) یا اس کے باپ کا نام (حمید) یا اس کے بھائی کا نام (نصیر) وغیرہ۔ اب آپ دیکھیں کہ اسے اپنا نام کے کتنے حروف دوسروں کے نام میں بھی مشترک مل جاتے ہیں۔ یہ ملتے جلتے حروف اس کی دلچسپی بڑھادیں گے اور اس کو پڑھنے لکھنے میں خاصی ذاتی دلچسپی محسوس ہوگی۔
ہر فرد کو اپنے دین وایمان سے غیرمعمولی دلچسپی ہوتی ہے۔ اگر اس کے بارے میں اسے بتایا جائے تو بندگی کا تقاضا اسے بہت کچھ سیکھنے پر آمادہ کردے گا۔ مثلاً اللہ کیسے لکھا جاتا ہے، ’’ایمان‘‘ میں ’’امینہ‘‘ کے چار حروف (ا م ی ن) موجود ہیں، وغیرہ۔ روز مرہ کے کام اور ان میں استعمال ہونے والی چیزوں کے نام بھی بہت جلد سیکھ لیے جاتے ہیں اور یاد بھی ہوجاتے ہیں۔ ہر نیا حرف سکھانے کے لیے اس کی مانوس چیزوں، ناموں یا کاموں کا حوالہ دیجیے۔ پڑھنا، سمجھنا اور لکھنا آسان ہوجائے گا۔
لکھنا سکھانے کے لیے کبھی بہت مشکل طریقہ اختیار نہ کریں۔ بہتر یہ ہے کہ اس میں دلچسپی پیدا کرائیں۔ خوش خطی کے بجائے ڈرائنگ کی تکنیک استعمال کریں۔ یعنی اسے دیکھو اور ایسا ہی بنانے کی کوشش کرو۔ یہ انداز اختیار کیا جائے تو حروف کو توڑنا، انھیں جوڑنا اور مکمل لفظ بنانا خود بہ خود آجاتا ہے۔ ممکن ہے آپ کو یہ بات مشکل محسوس ہو لیکن ہم دونوں (میں اور ام صہیب) نے یہ تجربے اکثر ناخواندوں پر کیے ہیں اور ہمیں اس سلسلے میں عموما کامیابی ہوئی ہے۔
ناخواندوں کو پڑھانا بہت صبر کا کام ہے اور بھی ایسے ناخواندوں کو جو بالغ بھی ہوں، یہ بچوں کی طرح نہیں پڑھتے۔ اس طریقۂ تعلیم میں انھیں اپنی سبکی محسوس ہوتی ہے۔ اس لیے ان کے عزتِ نفس کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے، جس کی خاطر مذکورہ بالا طریقہ ہی زیادہ مفید مطلب ثابت ہوتا ہے۔اور خواندگی سے میری خواہش اردو خواندگی ہے۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں