وہ ’’دادا‘‘ تھا۔ چھ فٹ کا چوڑا چکلا، ہٹا کٹا آدمی، بڑی بڑی مونچھیں، میان سے نکلی ہوئی تلواروں کی طرح ہونٹوں کی ہر جنبش پر تن سی جاتیں۔ پان کی سرخی سے رنگے ہوئے دانت اور زبان، وہ قریب ہو اور پورا منھ کھول کر قہقہہ لگائے تو ایسا لگتا تھا جیسے پیک سے بھرے ہوئے اگال دان میں بہت سے کنکر اور مٹی ڈال کر رگڑا جارہا ہے۔ آنکھوں میں ایک عجیب سی خوفناک چمک، تیزی، تجسس، اور ایک گریز سا بھی، گلے تک شیروانی کے بٹن لگائے ہوئے کسی شریف زادے کو دیکھ کر وہ اس بے نیازی سے منہ موڑ لیتا تھا جیسے شرافت ایک سرسری نگاہ ڈالنے کے لائق بھی کوئی چیز نہیں ہے۔
اس کے موٹے موٹے ہاتھوں کی انگلیاں کھردری چھال والے درخت کی شاخوں کی طرح سخت تھیں، کبھی وہ دونوں ہاتھ ایک دوسرے پر مار کر انھیں پورا پھیلا کر کھول کر بڑے فخر سے دیکھتا… ان ہاتھوں سے اس نے چھ آدمیوں کا خون کیا تھا۔ انہی ہاتھوں سے۔ پہلا ایک پنواڑی تھا، جو اس کے گھر کے پیچھے رہا کرتا تھا، اس کی عمر اس وقت مشکل سے اٹھارہ برس کی ہوگی، جب اس نے پنواڑی کا گلا مرغی کی طرح مروڑ کر پھینک دیا تھا۔ اس دن پہلی اور آخری دفعہ اسے ایک جھرجھری سے آئی تھی، اور اس کے بعد تو دل فولاد کی طرح سخت ہوگیا تھا۔ سال بھر ہوا، اس نے دو آدمیوں کو قتل کیا تھا۔ خون آلود کپڑے اتار کر ٹھنڈے پانی سے نہایا۔ اور ہوٹل میں جاکر چھ پیالیاں گرم چائے کی پیں۔ وہ چائے پیتا رہا اور اس کے سامنے دو آدمیوں کا قتل کا پرچار ہوتا رہا۔ دونوں شہر کے متمول آدمی تھے۔ ایک بار اس نے ساتھ کی میز پر بیٹھے ہوئے بابو سے ضرور پوچھا تھا:
کہاں قتل ہوا؟ کیوں ہوا؟ قاتل پکڑا گیا؟
ان سب باتوں کا جواب پاکر ایک ہلکی سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر آئی، جس کی پردہ داری اس کی گھنی مونچھوں نے بڑی خوبی سے کرلی۔ اور پھر وہ قہقہہ لگانے لگا کسی اور بات پر۔ اس رات اس نے سیکنڈ شو میں فلم دیکھی اور اسی سڑک کو جہاں دو آدمیوں کا خون ہوا تھا پار کیا۔
’’یہ زندگی اسی کی ہے جو کسی کا ہوگیا‘‘
وہ گا رہا تھا۔ رات کے سناٹے میں بھاری سی پرسوز آواز گونج رہی تھی، کوئی کہہ سکتا تھا یہ ایک قاتل کی آواز ہے؟ اس وقت وہ دو لاشیں اس کے تصور سے کوسوں دور تھیں جو پولیس کے ذہن پر چھائی ہوئی تھیں، اخباروں کی سرخیاں بن رہی تھیں… اس کے ذہن میں ایک بہت پرانا سا ہلکا ہلکا سا خاکہ ابھر رہا تھا، یہ خاکہ ہمیشہ اتنا ہی ہلکا سا خاکہ رہا تھا۔ آج بھی، آج سے دس سال پہلے بھی جب وہ سترہ اٹھارہ سال کا نوجوان تھا۔ یہ خاکہ اکثر اسی طرح ابھرتا اور پھر تاریکی میں کھوجاتا۔ جب وہ کوئی فلمی گیت گاتا، پیار کا، انتظار کا یا کوئی فلم دیکھتا جس میں ایک خوبصورت آدمی، ایک خوبصورت لڑکی سے محبت کرتا دکھائی دیتا۔
وہ بد صورت تھا۔ موٹی سی ناک، موٹے موٹے ہونٹ، سیاہ رنگت۔ اس کے تصور میں جو خاکہ ابھرا کرتا تھا، وہ کسی خوبصورت لڑکی کا نہیں تھا۔ یوں تو وہ بمبئی کی سڑکوں پر ایک سے ایک خوبصورت چہرے دیکھا کرتا تھا۔ مگر یونہی بے مطلب وہ خوبصورت نہ ہوتے ہوں گے تو بھی خوبصورت دکھائی دیتے تھے۔ڈھلکتی پھسلتی سرسراتی ریشمی ساریاں، پہاڑی میں ڈھکے ہوئے سبزے کی طرح رنگین ملبوسات، طرح طرح کے جوڑے، بال، سرخ سرخ دہکتے ہوئے ہونٹ، گلابی گال، ساحر نگاہیں… مگر اس کے ذہن میں دس سال سے وہی چہرہ ابھرا کرتا تھا۔ وحشی ہرنی کی طرح بڑی بڑی آنکھیں، شام کے دھندلکے کی طرح رنگت، موٹے موٹے سے ہونٹ، بھرے بھرے ہاتھ جو پیتل کی تین کنڈیاں پانی سے لبالب بھرے سر پر سنبھال کر چل سکتے تھے۔ پاؤں میں سوا روپئے والی چپل، کنڈلیوں کے بار سے پھسلتے ہوئے بازو… اور اس بوجھ میں سے جھانکتی ہوئی ہلکی سی مسکراہٹ…
پہلے تو وہ اسے روز نل پر گھنٹوں پانی بھرنے کے انتظار میں بیٹھا دیکھا کرتا تھا۔ یونہی! پھر وہ غور سے دیکھنے لگا۔ پھر اس نے یہ بھی دیکھا کہ کتنی پیاسی نگاہیں پانی کے نل کے بجائے اس کی طرف جمی رہتی ہیں، کتنے برتن اس کے برتنوں سے ٹکراتے ہیں، اور کتنے جسم اس کے جسم سے ٹکرا جاتے ہیں۔ اور پھر نہ معلوم کیوں ایک دن وہ اپنے برتن لے جاکر بیٹھ گیا۔ اور پھر جیسے ہی وہ آتی وہ اپنا الگ برتن رکھ دیتا۔ اور اسے ہٹا کر اس کا برتن بھردیتا… اور پھر اپنا برتن یونہی آدھا بھرا بے بھرا لے آتا۔ اس کی ماں چلاتی:
’’جب تجھے پانی بھرنا نہیں آتا تو برتن لے جاکر میرا کام کیوں کھوٹا کرتا ہے۔‘‘
مگر یہ ہوتا رہا … یہاں تک کہ وہ اسے اسی طرح دیکھتی جیسے اس کی آنکھوں میں ایک سوال ہو … کیوں جی، تم ہمارا پانی کیوں بھرتے ہو؟ یہاں اور بھی تو سب بیٹھے رہتے ہیں۔ جوان لڑکیاں بھی بوڑھی مائیں بھی۔‘‘
اور پھر ایک رات اس کے سامنے والی کھولی میں بڑا دنگا ہوا۔ پنواڑی شراب پی کر آیا تھا۔ اور یہ بھول گیا تھا کہ اس کے گھر میں جو عورت ہے وہ اس کی بھانجی ہے۔ اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی… آنکھوں میں خون اتر آیا… اتنا گناہ اتنا اندھیر؟ اس کی انگلیوں میں اس وقت تک لاوا سا دوڑتا رہا۔ جب تک وہ پنواڑی کے گلے میں پیوست نہیں ہوگئیں۔
پنواڑی کی بھانجی اپنے ماما کی لاش پر گر کر رونے لگی… اب وہ لاش تھی… انسان بھی مرگیا اور شیطان بھی…
’’تم بھاگ جاؤ۔‘‘ وہ چلائی… اور وہ بھاگ گیا۔
پورے تین برس بعد وہ گھر لوٹا۔ چوری چھپے۔ اس کے باپ نے اسے موٹی سی گالی دے کر کہا: ’’بزدل! بھاگ گیا کوئی تیرا کیا بگاڑتا۔ رستم دادا کا بیٹا تھا یا کسی گھسیارے کی اولاد۔‘‘
اس دن اس نے اچھی طرح سمجھ لیا، وہ کس کا بیٹا ہے۔ اور اب تو وہ خود دادا تھا۔ ایک خون، ایک چوری، ایک ڈاکہ، … دادا… اور وہ دادا نہ بنتا تو کیا بنتا۔
جب وہ پانچ سال کا تھا۔ ایک شخص کا بٹوہ سڑک پر گر پڑا۔ وہ بٹوا اٹھا کر دوڑا: ’’بابو جی، بابوجی‘‘ اور بٹوہ دے دیا۔ مگر جب اس نے اپنے باپ کو یہ قصہ سنایاتو وہ خوش نہیں ہوا۔ اس نے گالی دے کر کہا: ’’باپ دادا کی ناک کٹوائے گا۔‘‘
اس کے بعد وہ سمجھ گیا۔ اس کا پیشہ کیا ہے۔ چوری، پاکٹ کاٹنا، پھر خون، مارپیٹ۔
اس کا باپ دادا تھا، دادا ، دادا تھا۔ جس کے نام سے ابھی شہر کے اونچے اونچے فلیٹ اور کوٹھیاں تھرتھراسی جاتی ہیں۔
اس کے باپ کو فخر تھا اس کے بیٹے نے ایک خون کیا ہے۔ اور اسی شام وہ نل کے پاس سے آرہا تھا، تو دو عورتیں اسے دیکھ کر راستہ کاٹ گئیں۔
’’ہتھیارا… پاپی… دشٹ…‘‘
اینٹیں پتھر اس کی چھاتی پر لگے اور جب اس نے پہچانا یہ وہی تین برس پہلے والی چھوکری تھی، تو چھاتی کے گھاؤ نمک سے بھرگئے۔
اور دوسری صبح اس نے دیکھا، وہی لڑکی گود میں بچہ لیے اسے دودھ پلارہی ہے۔ بس اس کے بعد اس نے اس کی طرف نہیں دیکھا۔ مگر وہی لڑکی وہی خاکہ ہمیشہ اس کے ذہن میں ابھر آیا کرتا تھا، وہ سوچتا… وہ ذات کی ہندو تھی اور وہ رستم کا بیٹا شیر علی دشٹ پاپی ہتھیارا نہ ہوتا، تو بھی شیر علی تو تھا۔
دو سال بعد اس کا باپ مرگیا۔ مرنے سے پہلے وہ اپنے سارے راز، گر، سارے وسیلوں کا پتہ اسے بتاگیا۔ اب وہ سڑکوں پر اکڑ کر چلتا تھا۔ اس نے مونچھیں رکھ لی تھیں، اس کے نیفے میں چاقو رکھا تھا، وہ جانتا تھا،اس کی طاقت، اس کا اثر کہاں کہاں پھیلا ہوا ہے۔
سیٹھ، بنئے، مہاجن اپنے دشمنوں سے جتنے انتقام لیتے ان کا ذریعہ وہ تھا، نوٹوں کی گڈیاں بکھر جاتیں۔ وہ خود کو شریف جانتے تھے۔ عزت والا سمجھتے تھے، پولیس سے سماج سے، اخباروں سے ڈرتے تھے، گلاب کی ٹہنیوں کی طرح نازک تھے، وہ انھیں صرف بزدل سمجھتا تھا اور اپنی بہادری سے خریدتا تھا، تھوڑے ہی عرصے میں وہ سارے معززین کا راز داں تھا، کتنے ہی روپیوں کی ضرورت ہو ایک باراشارہ کیا اور کام پورا ہوا۔ پچھلے برسوں اس نے دو خون دس دس ہزار کے عوض کیے تھے۔ ان میں سے چار ہزار روپئے تو اس نے خیرات ہی میں بانٹ دئے تھے۔ یہ دونوں ایک عورت کے پیچھے ہوئے تھے۔ ایک سیٹھ اس عورت کو حاصل کرنا چاہتا تھا مگر اس کا شوہر اور دیور بری طرح حائل تھے۔
یہ معاملہ محبت کی رقابت تک ہی محدود نہیں تھا، سیاسی اور سماجی رقابتوں میں بھی اس کا بڑا ہاتھ تھا۔ کسی کو مروادیا کسی کو پٹوادیا، کسی کے یہاں چوری کرادی، یہی کاروبار پھیلا ہوا تھا۔ کئی بڑے بڑے گھرانوں سے اس کی ماہانہ تنخواہ بندھی ہوئی تھی۔ ’’دادا‘‘ بڑے آدمیوں کے لیے اس سانپ کی طرح ہوتا ہے جسے دودھ پلائے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتے۔ اور دودھ پلانے کے باوجود یہ خوف نہیں جاتا کہ کب وہ ڈس لے اور یہی وہ انسان تھا جو سانپ کا زہر چوس کر زہریلا اژدہا بن جاتا ہے۔ ’’دادا‘‘ جس کی پھنکار سے بھی لوگ بچتے ہیں ’’دادا‘‘ جس کی رگوں میں سماج کا سارا زہر جمع ہوجاتا ہے۔ یہ زہر اسے کڑوا بنادیتا ہے۔ خوفناک بنادیتا ہے۔ وہ یہ زہر پئے رہتا ہے، پئے جاتا ہے جس کے اگلنے سے نہ معلوم کتنے بھولے بھالے سفید بگلے اپنے اصلی روپ میں ناگ بن کر آجائیں۔ وہ غنڈہ نہ کہلائیں تو کتنے ہی ایسے شریف ہیں جن کی شرافت خطرے میں پڑجائے اور یہ بات اسے چھاتی پھیلا کر چلنے پر مجبور کرتی، اس لیے وہ شریفوں کو ایسی نگاہوں سے دیکھتا ہے جیسے خیرات کرنے والا بھکاری کو…
رات کو جب ہوا بند ہوجاتی، کھولی میں دم گھٹنے لگتا تو وہ مسجد میں جاکر سوجایا کرتا۔ پچھلے سال حاجی کرم علی نے اپنے سیاسی حریف کو پچھاڑنے کے لیے اس کی مدد چاہی اور دو ہزار روپیہ نقد دیا تو اسی سے اس نے مسجد میں بجلی لگوائی، جاء نمازیں خرید کردیں۔ اور سو روپے مؤذن کی تنخواہ کے کئی مہینے سے چڑھ گئے تھے وہ ادا کیے۔ امام کو بقایا اور پیشگی ملاکر سو روپیہ دیا۔ یہ کام نہ اس نے نیکی کے لیے کیا تھااور نہ اللہ میاں یا بندوں کو خوش کرنے کے لیے، یہ اس کی عادت تھی، اس کے پاس روپیہ جب تک رہتا وہ بے چین رہتا۔ جب ایک ایک پائی خرچ ہوجاتی آرام کی نیند سوتا، بس اس عادت سے مجبور ہوکر وہ بہت سے کام ایسے بھی کردیا کرتا تھا، جنھیں وہ ضروری نہیں سمجھتا تھا۔ اور جب وہ مسجد کے صحن میں ٹھنڈے ٹھنڈے فرش پر چت لیٹ کر آسمان کی طرف تکنے لگتا تو اسے مؤذن اور امام سے لے کر اللہ میاں تک پر ترس آتا، جو سب کے سب حاجی کرم علی سیٹھ دادا بھائی کے محتاج ہیں۔ ان کی بلیک کی، جوئے کی آمدنی کے محتاج ۔
ایک شام یونہی راستہ چلتے چلتے اس نے ایک نوجوان کی جیب خالی کردی۔ مذاق ہی مذاق میں اسے سو روپیہ ’’ایک خط‘‘ جو ماں نے اپنے بیٹے کو لکھا تھا۔ دوسرے شہر سے:
’’سلمیٰ بیمار ہے۔ اسے دق ہوگئی ہے، ڈاکٹروں نے کہا ہے ۔ بیٹا! تم روپیہ پیسہ نہیں بھیج سکتے میں جانتی ہوں، مگر تم لوٹ آؤ کسی طرح میرے بچے وہاں تم فاقے کرکے مرجاؤ۔ یہاں یہ دم توڑ دے، کیا یہی میرے ماں ہونے کی سزا ہے، اتنی بڑی سزا مت دو۔ کام نہیں ملتا، میں جانتی ہوں یہ تمہارا قصور نہیں۔ پھر کیوں یوں منہ چھپاتے ہو کہ خط بھی نہیں لکھتے۔‘‘
اور اس سے آگے وہ نہ پڑھ سکا۔ خط ایک ماہ پہلے کا تھا… یہ روپے اس نے اسی لیے جمع کیے تھے، یہ منی آرڈر فارم… اس کی آنکھیں ہمیشہ تنور کی طرح آگ ہی سے بھری رہی تھیں، مگر آج نہ معلوم کہاں سے دو بوندیں ٹپک پڑیں… اڑتیس برس سے دہکتی ہوئی آگ ٹھنڈی ہوگئی… تیزی سے قدم اٹھاتا ہوا آگے بڑھا، گھنٹوں مجمع کو چیرتا پھاڑتا ایک ایک کو گھور گھور کر نوجوان کو ڈھونڈتا رہا، مگر وہ نہ ملا۔ پھر دھیرے دھیرے چلتا آگے بڑھا، اور ایک ٹیکسی رو کی اور سیٹھ عبداللہ بھائی کے ڈرائنگ روم میں جاکر کھڑا ہوگیا۔
’’کیوں بھائی‘‘ سیٹھ نے پریشان سی کھسیانی سی ہنسی ہنس کر کہا:
’’روپیہ چاہیے؟‘‘
’’روپیہ؟ … روپیہ تو…‘‘ سیٹھ سرکھجانے لگا۔
’’روپیہ تو ملنا ہی چاہیے۔‘‘
سیٹھ نے آنکھیں لال پیلی کرنے کی کوشش کی، لیکن اس کا چہرہ زرد ہی رہا۔
تیز چمکتا ہوا چاقو سامنے تھا، سیٹھ کی آنکھوں کی چمک ماند ہوگئی۔ اور پھر سکے چمکنے لگے۔ کھن کھن… چم چم چاندی کے سکے…
’’کتنے چاہئیں؟‘‘ مری سی آواز نے کہا۔
’’پانچ سو…‘‘ منی آرڈر کے پیسے بھی دو۔
’’پانچ سو دس۔‘‘ سیٹھ نے روپیہ گن دیا… وہ تھیلی جیب میں ڈال کر باہر آیا۔
ٹیکسی جاچکی تھی… سیٹھ عبداللہ بھائی کی موٹر تیار کھڑی تھی۔
’’سنٹرل پوسٹ آفس۔‘‘
تیز دوڑتی ہوئی کار ایک چیخ مار کر اچانک رک گئی۔ ا س کا سر کھڑکی میں جا لگا شیشہ چور چور ہوگیا۔ ماتھے سے خون ابلنے لگا اس نے دروازہ کھولا۔ اور لپک کر سامنے آیا… ایک نوجوان… پہیوں کے بیچ میں دبا ہوا تھا۔ خون ہی خون بھیڑ جمع ہوگئی نوجوان کو نکالا… اس نے غور سے دیکھا… اور اس کے خون آلود کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا، وہ کٹی ہوئی تھی۔ اسپتال لے جاتے لے جاتے نوجوان مرگیا۔
اور اسی شام وہ بمبئی سے دور ایک چھوٹے سے انجانے شہر کی طرف جارہا تھا۔ ایک بوڑھی ماں اور دق زدہ لڑکی کے پاس، جس کے بارے میں وہ کوئی فیصلہ نہیں کرسکا تھا کہ وہ اس نوجوان کی بیوی تھی یا بہن۔ اس کی جیب میں پانچ سو روے کی تھیلی تھی۔
شام نے رات کی چادر اوڑھ لی، نئی گلیوں میں بھٹکتے بھٹکتے اس کے پیر شل ہوگئے۔ اور بڑی مشکل سے جاکر پتہ لگا ایک چھوٹے سے کچے مکان کے اندر ایک دیا جل رہا ہے، ایک لڑکی کھانس رہی تھی۔ ایک بچی رو رہی تھی ایک بڑھیا نماز پڑھ رہی تھی۔
’’کون ہے؟‘‘ کھانسی رک گئی۔
’’میں‘‘… اور آج اسے سوچنا پڑاوہ کون ہے۔ اور اس وقت اس کو وہ نہیں ہوناچاہیے جو وہ تھا۔ اڑتیس سال سے ’’دادا‘‘۔
’’میں، بمبئی سے آیا ہوں بہن۔‘‘ آج اس کے لہجہ میں اتنی مٹھاس سی گھل گئی کہ اس کی ساری شخصیت کھردری بھیانک، خونی، مجرم شخصیت موم ہوگئی۔
’’بمبئی سے…‘‘
ایک سکوت ، پھر ’’آجاؤ دادا‘‘
’’دادا؟‘‘ وہ ٹھٹھک گیا۔
’’اندر آجاؤ دادا۔‘‘
جیسے کسی نے پیچھے سے لٹھ گھما کر مارا۔
’’بیٹھ جاؤ دادا۔‘‘
مگر یہ تو پھولوں کی چھڑی ہے۔
دادا… دادا… یہ کیسا دادا؟… اتنا میٹھا، اتنا نرم… یہ وہ تلخ، وہ کریہہ لفظ تو نہیں تھا، جو آج تک اس کی شخصیت کی نمائندگی کرتا آیا تھا۔ وہ بمبئی کی سڑکوں پر سنتا آیا تھا۔ دادا جو اس کا باپ تھا، دادا تھا…
’’منّی، تیرے ابّا نے دادا کو بھیجا ہے سلام کر۔‘‘
’’تلام دادا۔‘‘
وہ کانپ گیا
’’ماں نماز پڑھ لی؟ انھوں نے انہی دادا کو بھیجا ہے؟‘‘
’’دادا‘‘ جیسے تسبیح کے دانوں پر پڑھا جارہا تھا۔
’’دادا! ابا نے لوپئے بھیدے ہیں؟‘‘
’’ہاں بیٹی! بہت سارے…‘‘ اس نے بچی کو گود میں اٹھالیا۔
’’بیٹا، تم شہامت کو جانتے ہو۔ اس کے دوست ہوگے؟ یہاں کیسے آنا ہوا؟ ٹھیک سے بیٹھو بیٹا، کھانا لاؤں، ہاتھ منہ دھولو۔‘‘
’’ہاں دادا! تھکے ہوئے آرہے ہو، معلوم ہوتا ہے سیدھے اسٹیشن سے آئے ہو یا گھر ہے یہاں؟‘‘
’’نہیں بہن یہیں آیا ہوں۔‘‘
’’ماں کھانا کھلاؤ پہلے۔ پھر بات کرنا۔ جا منّی، دادا کو پانی لادے۔‘‘
’’پھر دادا‘‘ مٹھاس بڑھتی گئی، نرمی بڑھتی گئی۔
ایک دادا کے اندر دوسرا دادا جنم لے رہا تھا۔ پتھر کی چٹان ٹوٹ رہی تھی۔
’’شہامت کیسا ہے بیٹا؟ مہینوں گزرگئے، چٹھی بھی نہیں لکھی۔ لاکھ لکھا کہ کام نہیں ملتا، بیٹا لوٹ آئے، بہو کی حالت تم نے دیکھی؟ یہ معصوم بچی دیکھتے ہو، بیٹا سلائی اورپرائی محنت مزدوری سے دو وقت کی روٹی بھی نہیں جڑتی۔‘‘
’’ماں شہامت تو نہیں آسکے گا… اسے کام مل گیا ہے۔ وہ رک رک کر کہہ رہا تھا…یہ پانچ سو روپیہ بھیجے ہیں۔‘‘
’’پانچ سو؟ اتنے کہاں سے مل گئے اسے؟‘‘
’’پیشگی لے لیے ہیں۔‘‘
’’مگر بھیا، ایسا پیشگی دینے والا بھی کون ہوسکتا ہے؟ تم کچھ چھپاتے ہو۔ کوئی برا کام تو نہیں کیا، اس نے؟ قید تو نہیں ہوگیا۔‘‘ ماں کے ہاتھ تھیلی پکڑ کر کانپ رہے تھے…
’’نہیں ماں ایسا کچھ نہیں۔‘‘
اور دوسری صبح جب وہ واپس ہورہا تھا، بچی نے اس کے گلے میں باہیںڈال کر کہا:
’’دادا، اب تب آؤدے؟‘‘
ماں نے کہا: ’’دو دن رہ جاتے بیٹا، روکھی سوکھی کھاتے، تم نے بڑا احسان کیا ہے ہم پر۔ شہامت کی خیر خبر رکھنا۔‘‘
اور بہو نے کہا: ’’ہم نے تو یہی سنا تھا، بمبئی میں بڑے بے رحم، بے حس، لوگ ہوتے ہیں۔ آج معلوم ہوا۔ تم جیسے فرشتے بھی رہتے ہیں دادا… اب ان کی طرف سے فکر نہ ہوگی۔‘‘
اور جب اس نے ٹانگے والے کو آواز دی تو اس نے آتے ہی پوچھا: ’’کہاں جانا ہے دادا؟‘‘
دادا…؟ کیسی آسانی سے ہر ایک کہہ دیتا ہے دادا۔ اسٹیشن سے قریب آکراس نے پوچھ ہی لیا۔ کیوں بھائی تمہارے شہر میں ’دادا‘ کسے کہتے ہیں؟‘‘
ٹانگے والے نے پان کی پیک تھوک کر قہقہہ لگایا : ’’دادا، بمبئی سے آئے ہو؟‘‘
’’ہاں‘‘
’’بمبئی میں تو دادا غنڈے کو کہا جاتا ہے۔ گھبراؤ نہیں دادا، ہمارے یہاں دادا غنڈے کو نہیں کہتے۔ اپنے بڑے کو اپنے پیار ے کو کہتے ہیں۔ دوست کو بھائی کو کہتے ہیں۔‘‘
اور اب تین سال گزر گئے ہیں۔ ہر مہینے بمبئی سے پچاس روپے کا منی آرڈر سلمیٰ کے نام جاتا ہے اور ماں کے نام چٹھی۔
اور کتنی بار وہ ارادہ کرچکا ہے ایک کارڈ میں وہ راز کھول دے جو تین برس سے اس کے سینے میں گھٹ رہا ہے۔ ایک ماں، بیوی اور بیٹی کی زندگی کا کبھی پورا نہ ہونے والا انتظار ختم کردے۔ لیکن اس کے ہاتھ کانپ جاتے ہیں۔ اور وہ سوچتا ہے پھر یہ پچاس کا منی آرڈر کس طرح جایا کرے گا؟ کس رشتہ سے؟
اور اب وہ پرچون کی دکان کرتا ہے۔ اس کے نیفے میں کوئی خنجر، ماتھے پر کوئی تیور نہیں۔ اس کی چٹان سی سخت اور کھردری شخصیت موم کی طرح نرم و نازک ہوگئی ہے۔ اب وہ، وہ دادا نہیں جو خوفناک غنڈہ ہوتا ہے۔ اور اب وہ، وہ دادا ہے جو بڑا ہوتا ہے، اپنا پیارا ہوتا ہے دوست ہوتا ہے۔
——