میں ابھی بتاتی ہوں آپ کو کہ آج مجھے دادا جان اور ان کاپانچ کا نوٹ کیوں اتنا یاد رآرہا ہے۔ اس نوٹ کے بارے میں جاننے کے لیے آپ کو ذرا سا پیچھے جانا پڑے گا۔ نہیں نہیں آپ کو اپنی جگہ سے اٹھنے کی ذرا سی بھی زحمت نہ ہوگی، بس ذرا تصور میں میرے ساتھ میرے ماضی میں چلیے!!!
دادا جان کے بڑے سے گھر کے مختلف حصے تھے۔ ہر حصے میں ایک ایک فیملی رہتی تھی۔ یعنی ایک حصے میں ایک تائی اماں اور تایا ابو اور ان کی فیملی، دوسرے حصے میں بڑے تایا ابو کی فیملی، ایک حصے میں دادی اماں اور دادا جان اور اوپر گھر میں ہم لوگ۔
جب ہم اسکول سے آتے تھے، یعنی میں اور میرا چھوٹا بھائی سمیر ایک ہی اسکول میں پڑھتے تھے، میںKGمیں، وہ نرسری میں، تو ہم دادا جان کے کمرے میں انہیں سلام کرتے ہوئے باہر نکل کر اوپر سیڑھیوں پر چلے جاتے تھے۔ امی وین کے ہارن کی آواز سن کر سیڑھیوں پر ہی آجاتی تھیں اور ہم سے بیگ لے لیتی تھیں۔ دادا جان کو اور کسی چیز سے دلچسپی تھی یا نہ تھی لیکن پڑھائی سے بہت دلچسپی تھی، کبھی ہمارے چہرے پر چاند، ستارہ پینٹ کیا ہوا دیکھتے تو بہت خوش ہوتے اور کہتے ’’بھئی واہ آج کیا کارنامہ کیا؟‘‘ تب ہم انہیں بڑے فخر سے روداد سناتے کہ ہم کلاس کے بچوں میں کیسے نمایاں رہے اور مس نے خوش ہوکر شاباش کے طور پر ہمارے منہ پر اسٹار دیا۔
میں نے پانچ کے نوٹ کا تو آپ کو بتایا ہی نہیں۔ جب ہمارے ماہانہ ٹیسٹ ہوتے تھے جن کا رزلٹ باقاعدگی سے گھر بھیجا جاتا تھا۔ دادا جان فرسٹ آنے پر پانچ روپے دیا کرتے تھے۔ جس دن ٹیسٹ کا رزلٹ ملتا، میں سارے راستے وین میں بھائی کو چھیڑتی کہ آج پانچ کا نوٹ دادا مجھے دیں گے۔ وہ رونے والا ہوجاتا اور کہتا: میں بھی لوں گا دادا سے۔ لیکن دادا صرف فرسٹ آنے پر دیتے، جس پر وہ رونے لگتا۔ دادا کہتے: تم اپنی امی سے لو۔ پھر وہ امی سے لے لیتا، امی کہتیں: یہ پانچ روپے دادا جان کے نوٹ جیسے نہیں ہیں، جو دادا جان سے نوٹ لے گا اور شاباشی لے گا، بڑا آدمی بنے گا، تم کیوں نہیں زیادہ محنت کرتے! وہ بغیر محنت کے بھی بہت اچھے نمبر لیتا تھا اور میں بہت محنت کرکے فرسٹ آتی تھی۔ یہ پانچ روپے دادا جان ماہانہ ٹیسٹوں میں امتیازی پوزیشن پر دیتے تھے، ورنہ سالانہ امتحانوں میں تو ہمیشہ دس کا نوٹ ہم دونوں کو دیتے تھے اور کہتے تھے: شام کو ابو سے مٹھائی منگانا۔ پھر ابو کا فون آتا تو ہم کہتے: شام کو دادا جان کے لیے مٹھائی ضرور لائے گا۔ ابو ان کی پسند کی مٹھائی الگ لاتے اور ہمارے لیے الگ۔ کبھی کبھی سمیر کہتا تھا: مٹھائی نہیں لائیے گا کیک لائیے گا تو ہم نیچے جاکر دادا کی مٹھائی بھی کھاتے تھے اور کیک بھی!!
دادا جان کے پانچ روپے میں گلک میں رکھتی تھی جو سامنے شوکیس پر رکھا رہتا تھا۔ میرے پاس دو گلک تھے، ایک مٹی کا، ایک چابی والی پلاسٹک کا۔ یہ اکثر خالی رہتے تھے۔ میں کہتی اب کیا ہوگا ان کا؟ امی کہتیں: اپنی جگہ پر رکھا رہنے دو، یہ تمہیں یاد دلاتے ہیں کہ فضول خرچ بچے اچھے نہیں ہوتے۔ پیسے احتیاط سے خرچ کرنے چاہئیں۔ جب کبھی پھوپھی جان آتیں یا تایا ابو وغیرہ، تو یہ جلدی ہی بھر جاتے۔ پھر جب میری دوستوں کی برتھ ڈے ہوتی اور میرا جی چاہتا کہ انہیں تحفہ دوں تو امی کہتیں: اپنے پیسوں سے دو، تو ان پیسوں کو جمع کیا جاتا، پھر ان پیسوں میں سے کبھی پینسل بکس منگالیتی، کبھی کلر پینسل، اور دو ستوں کو تحفے میں دیتی۔ امی اس بکس کو گفٹ پیپر میں پیک کرکے اس پر ربن سے پھول بناکر لگاتیں اور میرے ہاتھ سے اس پر دعائیہ کلمات لکھواتیں۔ میری دوست بھی تو مجھے گفٹ دیتی تھیں۔ ہاں سمیر کے گلک کے پیسے کھانے پینے پر خرچ ہوجاتے، اس لیے کہ وہ دادا کے ساتھ دکان پر جاتا، ببل لاتا اور کبھی چاکلیٹ … اور مجھے دکھا دکھا کر کھاتا۔ مجھے دکان جانے کا شوق نہیں تھا۔ ویسے چپکے سے بتاؤں، دادا جان لڑکیوں کو لے کر جاتے بھی نہیں تھے!!!
امی کہتی ہیں تم بچپن سے محنتی ہو۔ لیکن میں سچ بتاؤں آپ کو، میری اس محنت کی عادت میں دادا جان کے پانچ کے نوٹ کا بڑا دخل ہے۔ کیونکہ دادا ہر وقت پیسے نہیں دیتے تھے، صرف فرسٹ آنے پر دیتے تھے جو میں تایا ابو کے بچوں کو بھی فخریہ دکھاتی کہ یہ نوٹ دادا جان نے دیا ہے۔ وہ بڑی حفاظت سے رکھتے تھے پیسے۔ دادا جان کا جواسٹور تھا نا اس میں بڑا سا تالا لگا ہوتا تھا۔اور تالے کی چابی دادا جان کی بنیان کی جیب میں ہوتی تھی۔ دادا جان پہلے جیب سے چابی نکال کر اسٹور کھولتے،پھر بائیں ہاتھ کی کھونٹی پر ایک بیگ لٹکا ہوتا تھا۔ جس میں PIAلکھا ہوا تھا۔ میں نے پوچھا تھا کہ کیوںلکھا ہے یہ؟ تب دادا جان نے بتایا تھا کہ میری پیدائش سے قبل جب وہ حج پر گئے تھے دادی اماں کے ساتھ، تب ائیر لائن نے دیا تھا حاجیوں کو۔ ضروری سامان رکھنے کے لیے دیتے ہیں۔ ہاں تو اس پرس میں سے دادا دوسری چابی نکالتے پھر اپنا چھوٹا ہرے رنگ کا صندوق کھولتے۔ وہ بڑے صندوق کے اوپر انتہائی دائیں جانب رکھا تھا۔ اس ہرے چھوٹے صندوق سے دادا جان بڑا سا پرس نکالتے، پھر اس میں سے چھوٹا پرس، پھر پانچ کا نوٹ دیتے تھے، جسے لے کر میں خوشی سے نہال دوڑتی ہوئی سیڑھیاں چڑھ کر امی کے پاس جاکر بیگ ایک جانب پھینک کر نوٹ دکھاتی اور سمیر کو چھیڑتی۔
بس دادا جان کی یہ شفقت ساتویں کلاس تک ہی رہی۔ پھر انہیں اللہ میاں نے اپنے پاس بلالیا۔ اور کوئی بھی اس شفقت اور محبت سے پانچ روپے دینے والا نہ رہا۔ امی، ابو اور خاندان کے دوسرے لوگ تو دیتے تھے پیسے مختلف مواقع پر، لیکن وہ فخر اور اعزاز تو دادا کے پانچ کے نوٹ کے ساتھ ہی وابستہ تھا۔
میں آپ کو بتاؤں آج مجھے اس شدت سے کیوں یاد آیا ہے یہ سب! آج میڈیکل کالج کی لسٹ لگی ہے۔ دادا کی بڑی خواہش تھی کہ میں ڈاکٹر بنوں۔ کبھی کبھی مجھے ڈاکٹر یمنیٰ کہہ کر بلاتے تھے تو میں خوب ہنستی تھی اور امی بھی خوش ہوتی تھیں۔ کہتی تھیں دادا کے خوابوں کو تعبیر دینا ہے تمہیں، وہ یونہی نہیں دیتے تمہیں پانچ کا نوٹ، تم حق ادا کرنا اس نوٹ کا۔ اور واقعی میری محنت میں اس مقابلے کی فضا کا بڑا دخل تھا۔ نہ صرف دادا پیسے دیتے بلکہ میرے سامنے فون پر پھوپھی جان کو بتاتے ’’بھئی آج پھر فرسٹ آگئی، یمنیٰ ایک پانچ کا نوٹ چلا گیا میرا۔‘‘ پھر پھوپھی جان مجھے مبارک باد دیتیں اور بتاتیں کہ دادا کتنا خوش ہوتے ہیں میری پڑھائی ہے۔ میڈیکل کالج میں ٹیسٹ کے بعد جب میں نے Netپر لسٹ دیکھی اور Top Tenمیں اپنا نام دیکھا تو مجھے پس منظر میں دادا جان کی آوازیں آنے لگیں ’’ڈاکٹر بنے گی میری بیٹی، یونہی نہیں دیتا نوٹ۔‘‘ دادا جان آپ آئیے نا۔ آپ دیکھیں نا۔ آپ کیوں نہیں اس موقع پر۔ دادا جان آج میں پانچ روپے نہیں لوں گی، آج دس روپے دیں مجھے۔ آئیے نا دادا جان، آپ کہاں چلے گئے، آپ سنتے بھی نہیں بولتے بھی نہیں۔دادا کہاں ہیں آپ؟؟؟ میں کمپیوٹر کی ٹیبل پر سر رکھ کر سسک سسک کر رو دی، تو امی بھی روہانسی ہوگئیں، انھوں نے مجھے کرسی سے اٹھایا، گلے لگایا اور بولیں ’’خوشی کا موقع ہے، روتے نہیں ہیں۔ آج دادا کی روح بڑی خوش ہوگی، تم نے اس پانچ کے نوٹ کا حق ادا کردیا ہے، اسی دن کے لیے تو وہ حوصلہ افزائی کرتے تھے تمہاری۔ آؤ دادا، دادی کے لیے دعا کرتے ہیں مل کر، ان کی دعاؤں سے تو یہ دن دیکھا ہے تم نے، وہ نہیں تو کیا ہوا، ان کی دعائیں تو تمہارے ساتھ ہیں۔‘‘ پھر میں نے امی کے ساتھ دعا کی۔
اب سمجھ گئے نا آپ، آج مجھے کیوں دادا جان کا پانچ کا نوٹ اس شدت سے یاد آرہا ہے!!!
——