دارچینی کھانوں کو اشتہا انگیز خوشبو عطا کرنے کے علاوہ صدیوں سے مختلف امراض کے علاج کے لیے بطورِ دوا بھی استعمال کی جارہی ہے۔ یونانی اسلامی اور آیورویدک طریقہ ہائے علاج میں بھی دارچینی بطور دوا مستعمل ہے۔ حال ہی میں دارچینی کے طبی خواص پر ہونے والی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ذیابیطس کے علاج کے لیے بھی دارچینی اکیسر کا حکم رکھتی ہے۔ دارچینی اور اس کے مرکبات انسانی خون میں لبلبے سے شامل ہونے والی انسولین کی کارکردگی بڑھانے میں بے مثال کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہے۔
دارچینی میں پائے جانے والے بعض کیمیائی مرکب ہائیڈرو کسی کیلکون خون میں گلوکوز کی مقدار کو کم کرتا ہے، ایل ڈی ایل کولیسٹرول (ناپسندیدہ چکنائی) اور ٹرائی گلائسرائڈز کو اعتدال میں رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طبی ماہرین ذیابیطس کے مریضوں کو دارچینی کی ایک مخصوص مقدار کو اپنی خوراک کا حصہ بنانے کا مشورہ دیتے ہیں۔
دارچینی کے متعلق ماہرین کا خیال ہے کہ یہ خون میں موجود چکنائی کے خلیوں میں گلوکوز کو جذب کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کرتی ہے تاہم اس حوالے سے ابھی مزید تجربات جاری ہیں۔
غیر صحتمندانہ خوراک اور اندازِ زندگی کی وجہ سے عمر کے کسی بھی حصے میں یہ بیماری حملہ آور ہوسکتی ہے۔ نیز اس کی موروثی وجوہات بھی موجود ہیں، درمیانی عمر کے افراد کو اپنا نشانہ بناتی ہے۔ ایک بار یہ موذی مرض لاحق ہوجائے تو پھر یہ دیگر کئی امراض کا باعث بن جاتی ہے۔ اسی لیے اطباء کرام اسے ’’ام الامراض‘‘ بھی قرار دیتے ہیں۔ اس بیماری میں مریض کا لبلبہ سرے سے کام کرنا ہی چھوڑ دیتا ہے یا اس کی کارکردگی بہت حد تک کم ہوجاتی ہے اور جسم کو انسولین کی مطلوبہ مقدار میسر نہیں آتی، نتیجے کے طور پر خون میں گلوکوز کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔
عام طور پر ذیابیطس کا علاج مریض کی غذا میں تبدیلی کرکے، مصنوعی طریقے سے انسولین فراہم کرکے یا انسولین کے اخراج کا باعث بننے والی ادویات کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ جہاں تک ایلوپیتھک ادویات یا مصنوعی طریقے سے فراہم کی جانے والی انسولین کا تعلق ہے تو ان کے ناپسندیدہ اثرات کافی زیادہ ہیں۔ بسا اوقات یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ مریض ذیابیطس کے علاوہ اس کو کنٹرول کرنے والی ایلوپیتھک کے ناپسندیدہ اثرات سے بھی بہت سی پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس صورتحال میں اگر کوئی ایسی دوا میسر آجائے جو خورا ک کا حصہ ہوتے ہوئے طبی نکتہ نگاہ سے بھی افادیت کی حامل ہو تو بہت سے مریضوں کی مشکلات کو قابلِ ذکر حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔
غیر صحتمندانہ خوراک اور جسمانی ورزش کی کمی کی وجہ سے آنے والے چند برسوں میں ذیابیطس ایک سنگین صورتحال کا باعث بن سکتی ہے۔ اس صورتحال میں جڑی بوٹیوں اور ان کے مرکبات سے مختلف امراض کے علاج کو فروغ دینا اشد ضروری ہوجاتا ہے۔
برصغیر کو طب کا وطن قرار دیا جاتا ہے لیکن مقام افسوس ہے کہ ایک طرف ہم ایلوپیتھک طریقہ علاج کے مہنگا ہونے کی وجہ سے اس سے محروم ہیں۔ دوسری طرف طب کے شعبے جڑی بوٹیوں اور ان کے مرکبات سے بیماریوں کے علاج کی روایات دم توڑ رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج معاشرے میں مریضوں اور امراض کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔
دارچینی کے ذریعے ذیابیطس کے علاج کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ دارچینی کا استعمال جہاں خون میں گلوکوز کی مقدار کو اعتدال میں رکھتا ہے وہیں مریض ایلوپیتھک ادویات کے مضر اثرات یا مصنوعی طریقے سے انسولین لگانے کی اذیت سے بھی چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ ایلوپیتھک ادویات سے فائدے کے ساتھ ساتھ ان کے مضر اور ناپسندیدہ اثرات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن دارچینی کو ذیابیطس کے علاج کی غرض سے استعمال کرنے والوں کو اس سے ذیلی فوائد حاصل ہوتے ہیں جن میں دل کی بیماریوں سے بچاؤ، بلڈپریشر کو اعتدال میں رکھنا، گردوں کی کارکردگی میں بہتری اور انھیں پیچیدگیوں سے محفوظ رکھنا اور مختلف قسم کے انفیکشن سے بھی محفوظ رکھنا شامل ہے۔
تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مریض ایلوپیتھک ادویات کے ساتھ ساتھ دارچینی یا اس کے مرکبات کا استعمال بھی شروع کردیں بلکہ اس مقصد کے لیے انہیں کسی مستند اور تجربہ کار طبیب سے مشورہ کے بعد ہی دارچینی کا بطور دوا استعمال شروع کرنا چاہیے۔ دوا کی مقدار کا تعین صرف مستند اور تجربہ کار طبیب ہی مرض کی شدت، مریض کی عمر اور جسمانی حالت کو مدنظر رکھ کر ہی کرسکتا ہے۔ اس لیے ذیابیطس کے مریض پریشان ہوکر بیٹھ رہنے کے بجائے اپنے طبیب سے رجوع کریں تاکہ ان کی بیماری کا علاج ایک ایسی دوا سے کیا جاسکے جو صدیوں سے انسانی خوراک کا حصہ ہے۔
——