ہمارے یہاں ایک عجیب و غریب صورت حال یہ ہے کہ بہت سے داعی اپنے گھروں میں اپنے بچوں کی تربیت میں ناکام رہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک وقفہ کے بعد داعیٔ دین اپنے سامنے، اپنے بچوں کے سامنے اور پورے معاشرے کے سامنے شرمندہ ہوتا ہے۔ رفتہ رفتہ وہ پیچھے ہٹنا شروع ہوتا ہے اور آخر کار میدان چھوڑ دیتا ہے۔
میں ایسے ہی ایک داعیٔ دین سے مصروفِ گفتگو تھا۔ ہمارے درمیان جو بات چیت ہوئی وہ یہ تھی:
میرے پاس ان معاملات کے لیے وقت نہیں رہتا۔ جب میں نے انھیں یاد دلایا کہ آپ کے بیوی بچوں کے آپ پر حقوق ہیں اور یہ درست نہ ہوگا کہ اپنے بچوں کو سڑکوں پر ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ کردوسروں کے بچوں کی تربیت میں دل چسپی لیں، تو آپ نے فرمایا:
بچے جب بڑے ہوجاتے ہیں اور سنِ طفولیت کو پار کرلیتے ہیں تو خود بخود اپنے والدین کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔
میں نے جواب دیا: اجتماعی ملاقاتوں سے بیوی کا کردار متاثر ہوتا ہے۔ بچیاں آداب سیکھتی ہیں، خاندان کے افراد ایک دوسرے سے قریب ہوتے ہیں اور ان میں محبت گہری ہوتی چلی جاتی ہے۔ فرمایا:
ان ملاقاتوں کے لیے وقت چاہیے اور داعیٔ دین کے لیے ان چیزوں میں ضائع کرنے کو وقت کہاں مل سکتا ہے؟
نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ ہر چیز فساد کا شکار ہوجاتی ہے۔ بچوں کا رویہ پورے گھر کے رویے کو بگاڑ دیتا ہے اور سب اس بدبختی اور نامرادی سے دوچار ہوجاتے ہیں۔
یہ صحیح ہے کہ اللہ جسے ہدایت نہ دے، اسے کوئی انسان راہ یاب نہیںکرسکتا۔ لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم گھروں میں اس انتظار میں بیٹھے رہیں کہ ہدایت نازل ہو؟ داعیٔ دین کا کام دور کے لوگوں سے پہلے قریبی لوگوں کو دعوت دینا ہے۔ اسی لیے میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں صحیح تربیت سامنے رکھنی چاہیے۔ اپنے بچوں اور بیوی کے لیے کافی وقت مخصوص کرنا چاہیے اور دعوتی عمل میں اجتماعی پہلوؤں پر توجہ دینی چاہیے۔ ہم مریضوں کی عیادت کریں۔ خاندان کے لوگوں سے ملاقات کریں۔ بدحال اور غریب لوگوں کے سر پردستِ شفقت رکھیں۔ضرورت مندوں کے کام آئیں۔ یہ معاشرتی رویہ ہمارے دلوں میں لطیف جذبات کو فروغ دے گا۔ آج انسانی قلوب ان جذبات سے خالی ہوچکے ہیں۔ اس سے امر واقعہ سے تعارف حاصل ہوگا۔ ہمارے اکثر داعی خیال و خواب کی دنیا میں رہتے ہیں اور ایسی باتیں کرتے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عوام اور ان کی مشکلات سے دور رہتے ہیں۔
بیس سال سے میری ایک شخص سے دوستی چلی آرہی تھی۔ میں اس کے حالات جاننے اور اس کے گھر جانے کا آرزو مند رہتا۔ پھر ایسا ہوا کہ ہمارے تعلقات رفتہ رفتہ ختم ہوگئے۔ وہ اپنے کاموں میں لگا رہا اور میری وہ مصروفیات ختم ہوگئیں جس کی وجہ سے اس سے ملاقات ہوجاتی تھی۔ میں نے دیکھا کہ اچانک کہیں ملاقات ہوجاتی ہے تو وہ کتراتا ہے۔ میں اس کے پاس گیا اور اس سے بات چیت کی تو اس نے کہا: تم لوگ پارٹی بازی کرتے ہو۔ اپنی پارٹی کے افراد کے سوا کسی سے محبت نہیں کرتے نہ دوسروں پر تمہیں بھروسہ رہتا ہے۔ میں نے کہا: نہیں! اسلام کا رشتہ سب سے اعلیٰ اور بلند ہے۔ کہنے لگا: باتیں میٹھی ہیں لیکن ان کے پیچھے عمل نہیں ہے۔
اس دوست کی بات صحیح تھی۔ ہمارے تعلقات دوسروں سے ختم ہوچکے ہیں اور ہم نے پارٹی کے دوستوں کے سوا دوسروں پر اعتماد کرنا چھوڑ دیا ہے۔ بغیر کسی بحث کے حق ہمارے ہی ساتھ رہتا ہے اور دوسروں کے دامن میں باطل ہی باطل ہے۔ ہدایات موجود ہیں، بیانات اور کتابیں ہیں جو اس غلط تصور کی تائید کرتی ہیں۔
اسلام کے لیے کام کرنے والے تمام گروہوں میں تعلقات بہتر نہیں ہیں بلکہ ہر فرقہ دوسرے فرقہ کی دشمنی پر تلا ہوا ہے۔ ایک دوسرے پر الزامات لگاتا اور اس کے پیروکاروں کی نیتوں پر حملہ کرتا ہے۔ سلام کیا جاتا ہے تو جواب نہیں ملتا اور یہ سب فی سبیل اللہ ہورہا ہے۔
کون ہے جو ان بیڑیوں کو کاٹ دے؟
ہم سب کو ان بیڑیوں کو کاٹنا ہے جو ہم نے تراش لی ہیں اور اپنے پیروں میں ڈال لی ہیں۔ ہم دوسروں سے محبت و اخوت کا معاملہ کریں گے تو انھیں بھی شریف النفس اور کریم الخلق پائیں گے۔ ہمیں نظر آئے گا کہ باہمی مفاہمت کی راہ کھلی ہے اور اختلافات بالکل فروعی ہیں۔ باہمی گفتگو تمام اختلافات اور تنازعوں کو پگھلا دے گی اور تمام مسلمانوں میں عام طور سے اور اسلام پسندوں میں خاص طور سے محبت اور اخوت کی عطر بیز ہوائیں چلیں گی۔
میں تاکید کے ساتھ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہر داعیٔ دین اپنے معاشرتی تعلقات کے لیے کافی وقت مخصوص کرے۔ یہی تعلقات اس کی رفتار درست رکھیں گے اور اس کی راہ کو آسان بنائیں گے۔ یہ کوئی ثانوی درجہ کی چیز نہیںہے۔ نہ غیر ضروری نکتہ ہے جیسا کہ بعض لوگ غلطی سے سمجھ بیٹھے ہیں۔
کیا آپ نے اپنے چھوٹے بچوں سے دل بہلانے اور انھیںپیار کرنے کا تجربہ کیا ہے؟ کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ رسول اللہ ﷺ سجدے میں جاتے تر دیر تک سجدے میں پڑے رہتے تھے تاکہ حسنؓ، یا حسینؓ لڑھک نہ جائیں اور اپنی مرضی سے پیٹھ سے اتر جائیں۔ آپؐ کا یہ عمل نفل نمازوں تک محدود نہ تھا بلکہ باجماعت نمازوں میں بھی آپؐ نے ایسا کیا، تاکہ امت کو تربیت کا درس دیتے چلیں۔
آپ نے سنا نہیں کہ ایک صحابی رسول نے نبی کریمﷺ کی اولاد سے محبت، ان سے پیارو محبت اور انھیں بوسہ لینے کی روش پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور عرض کیا: میرے دس بیٹے ہیں لیکن میںکبھی ان میں سے کسی کا بوسہ نہیںلیتا۔ نبیؐ نے جواب میں فرمایا: ’’تم ایسا کیوں کر کرسکتے ہو جبکہ اللہ نے تمہارے دل سے محبت کے جذبات نکال دیے؟‘‘
بچوں سے دل بہلانے سے وہ بڑوں سے مانوس ہوتے ہیں۔ خاندان کی تربیت ہوتی ہے اور محبت و شفقت کے اٹوٹ بندھن میں بندھ جاتے ہیں۔
کیا بچوں کے بالغ ہونے کے بعد ان سے آپ نے معاملات کیے ہیں؟
وہ بالغ ہوں تو ان کے معاملات میں اور اپنے معاملے میں بھی ان سے مشورہ لیجیے۔ آپ ان سے مطمئن رہیں وہ آپ سے مطمئن ہوں۔ آپ کے درمیان مصنوعی درشتی نہ ہو اور احکام و اوامر کی جگہ محبت پروان چڑھے۔ جس طرح ان پر ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اسی طرح ان کو کچھ حقوق بھی حاصل ہیں۔ جس طرح آپ چاہتے ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داریاں ادا کریں اسی طرح وہ بھی چاہتے ہیں کہ انھیں ان کا حق ملے۔
کیا آپ نے اپنی نوجوان لڑکی کے مسئلہ میں دلچسپی لی ہے؟
بھول جائیے کہ وہ پسماندہ جنس ہے اور باعـثِ عار ہے اور گھر سے باہر نہیں نکل سکتی سوائے بچپن کے، رخصتی کے وقت اور زندگی کے آخری مرحلے میں موت کے بعد۔ کسی کام میں اسے شریک نہ کریں، اس سے کوئی رائے نہ لیں اور کسی سرگرمی میں اس کا مشورہ شامل نہ ہو۔ کیا آپ نے سوچا کہ اس جاہلی تصور کی تصحیح کے لیے دوسروں سے پہلے آپ خود مخالف ہیں اور قول کی حد تک ہی نہیں بلکہ اپنے عمل سے اس نفسیاتی رکاوٹ کو منہدم کریں جو بلند اسلامی آداب کی راہ میں اور ذوقِ سلیم اور صحت مند روایات کے مکمل تحفظ کی راہ میں موجود ہیں۔
کیا اپنی بیوی کو آپ نے بہترین دنیوی سامان بنا رکھا ہے کہ اس کے جسم سے لطف اندوز ہوتے اور اس کی صحبت سے فائدہ اٹھاتے ہیں؟ اپنی زندگی میں اسے خوش منظر، خوبصورت شئے کی حیثیت سے جگہ دی ہے یا اپنے گھر اور بچوں کے لیے خادمہ بنا رکھا ہے؟ کیا اپنی رفیقۂ حیات کے ساتھ آپ کا یہ طرزِ عمل ہے یا اس سے شریفانہ معاملہ کرتے ہیں؟ اپنی زندگی اور اپنی خاندان میں مکمل شریک سمجھتے ہیں؟ اس سے اس طرح مشاورت کرتے ہیں جس طرح اللہ کے رسول ﷺ مشورہ کرتے تھے؟ اور رائے اگر صحیح ہو تو اسے قبول کرتے ہیں؟ اور اس کے ذہن میں اس غلط قول کا اثر مٹا دیتے ہیں کہ ’’عورتوں سے مشورہ کرو اور ان کی رائے کے خلاف عمل کرو؟‘‘ کیا تنگی اور پریشانی کی حالت میں اس کے پاس اس طرح پناہ لیتے ہیں جس طرح رسول اللہ ﷺ نے خوف زدہ ہوکر حضرت خدیجہؓ کے یہاں پناہ لی تھی اور انھوں نے غم خواری کی، صحیح مشورہ دیا اور درست رائے کی طرف رہنمائی کی؟
کیا آپ کے دل میں کبھی خیال آیا کہ رفیقۂ حیات کی دعوتی اور اجتماعی سرگرمیوں کا پروگرام بنائیں اور یہ کہ جس طرح ان سرگرمیوں کو انجام دینا آپ کا حق ہے اسی طرح ان کا بھی حق ہے؟ کیا آپ نے اپنے بچوں کو سنبھالنے کی کوشش کی کہ بیوی کو کچھ مناسب ماحول مل جائے جس طرح وہ آپ کے لیے اپنے تمام اوقات لگادیتی ہے؟
وہ غلط تربیت جس کا مظاہرہ ہم اپنے گھروں میں کرتے ہیں۔ اس کا اثر ہماری بیویوں اور بیٹیوں پر پڑتا ہے بلکہ میں کہہ سکتا ہوں کہ نوجوان لڑکی جو دوپٹہ اپنے سر پر ڈھکتی ہے، وہ آج اس کی اسلام پسندی کا عنوان نہیں بلکہ بسا اوقات اس کی پسماندگی کا نشان بن کر رہ گیا ہے۔
آپ نے اس دوشیزہ کا واقعہ نہیں سنا جس کا رشتہ اس کے چچا زاد سے اس کے باپ نے طے کیا تو اس نے انکار کردیا۔ بحث پر اتر آئی اور رسول اللہ ﷺ کی عدالت میں مقدمہ دائر کردیا۔ چنانچہ آپؐ نے اس کی عزت و کرامت کا خیال رکھتے ہوئے عقد فسخ کرنے کا فیصلہ سنا دیا اور جب اس نے نکاح قبول کیا تو کہا: میرا مقصد اپنی مسلمان بہنوں کو یہ تعلیم دینا تھا کہ اس مسئلہ میں وہ صاحب الرائے ہیں اور شریعت ان کی رائے کا احترام کرتی ہے۔
آپ نے دیکھا اور سنا نہیں کہ وہ مسلمان خواتین جنھیں دوام نصیب ہوا کس طرح انھوں نے زندگی گزاری؟ کیا انھوں نے فرمایا؟ کس طرح وہ شریکِ کار رہیں؟ کس طرح انھوں نے تربیت کی؟ ہم اسی طرح کی نسل چاہتے ہیں۔ داعیانِ دین کو اس کے لیے جدوجہد کرنی ہوگی اور کافی وقت اس مقصد کے لیے وقف کرنا ہوگا۔
کیا آپ اپنے والدین کے حالات سے باخبر رہتے ہیں؟ قریبی اعزّہ کے معاملات سے آپ کو دلچسپی ہے؟ اقارب تو آپ کی نیکی کے زیادہ مستحق ہیں، کیا آپ پڑوسیوں سے حسن سلوک کا معاملہ کرتے ہیں؟ جبکہ پڑوسی کی تکریم جزوِ ایمان ہے؟
رشتہ داروں کے غم و مسرت میں شریک رہتے ہیں؟ خوشی و غمی کے مواقع پر آپ کا تعاون انھیں حاصل رہتا ہے کہ زبان اور قول سے پہلے قلب و عمل کے ذریعہ ان کا دل جیت لیں؟
اگر ایسا نہیںہے تو ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ اپنے معاشرتی تعلقات کے لیے کافی وقت مخصوص کریں تاکہ آپ کا معاملہ بھی درست رہے اور کارِ دعوت بھی صحیح رہے اور پاکباز اسلامی معاشرہ باقی رہے۔