دعوت ایک طرح سے ایمان میں دوسروں کو شریک کرنے اور اسے ان تک منتقل کرنے کا عمل ہے۔ کوئی شخص کسی چیز میں دوسروں کو اسی حد تک شریک کرسکتا ہے جس حد تک وہ چیز خود اس کے اپنے پاس ہے۔ ایک ایسا شخص جو ایمان سے عاری ہے یا اس کا ایمان کمزور ہے وہ اس میں دوسروں کو حصہ دار کس طرح بنا سکتا ہے۔ اسی طرح کوئی شخص اسلام کو موثر انداز سے نہیں پھیلا سکتا۔ نہ لوگوں کو اس پر ایمان لانے کی دعوت دے سکتا ہے، جب تک کہ وہ اسلام کی صداقت اور اس کی تعلیمات پر محکم اور غیر متزلزل ایمان نہ رکھتا ہو۔ در حقیقت داعی کے لیے جس ایمان کی ضرورت ہے کوئی معمولی درجہ کا ایمان نہیں ہوسکتا۔ اسے اوسط درجہ کے ایمان سے بلند ہونا چاہیے۔ ایمان کی روشنی ایک داعی کے قلب میں اتنی تیز ہونی چاہیے کہ وہ شک اور جہالت کی تاریکی میں بھٹکنے والوں کے قلوب تک پہنچ کر انہیں منور کردے۔
مسلمانوں کے ایمان کی سب سے زیادہ اہم چیز ایمان باللہ ہے۔ اللہ پر ایمان اس کا سب سے بڑا اثاثہ اور سب سے بڑی قوت بھی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
اب جو کوئی طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آیا اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں۔‘‘ (البقرۃ:۲۵۶)
ایک سچا مومن اور اچھا داعی ہمیشہ اللہ پر مکمل اعتماد رکھنے والا ہوتا ہے، وہ سارے ہی معاملات میں اللہ پر بھروسا کرتا ہے۔ ایک مسلمان اللہ پر ایمان اور اعتماد ہی نہیں رکھتا، بلکہ اس سے گہری محبت کا جذبہ بھی اپنے اندر رکھتا ہے۔
اور جو لوگ مومن ہیں وہ اللہ کو ہر چیز سے زیادہ محبوب نہ رکھنے والے ہیں۔ (البقرۃ:۱۶۵)
جو لوگ اللہ سے محبت کرتے ہیں اس کے خواہش مند بھی ہوں گے کہ اللہ بھی ان سے محبت کرے۔ ایسی صورت میں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ کی خوش نودی کس کام میں ہے اور اس کی محبت کے مستحق قرار پانے کے لیے انہیں کیا کرنا چاہیے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے بعض صفات کا تذکرہ فرمایا ہے جو اسے محبوب ہیں، مثال کے طور پر:
’’ اللہ محسنوں کو پسند کرتا ہے۔ ‘‘
’’پرہیزگار لوگوں کو اللہ کو پسند کرتا ہے۔ ‘‘
’’اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘
ان صفات کے علاوہ چند عملی خوبیاں بھی داعی کے لیے لازمی ہیں:
٭ اللہ کا خوف: ایک سچا صاحب ایمان اللہ سے محبت اور اس سے اپنی ساری امیدیں وابستہ کرتے ہوئے اس کے غضب سے ڈرتا بھی ہے۔ اس لیے وہ ہر اس چیز سے پرہیز کرتا ہے جو اللہ کو ناپسند ہو، قرآن کہتا ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔‘‘ (آل عمران:۱۰۲)
اللہ کے خوف کا مطلب ہے کہ اللہ کی ناراضگی کا خوف اور اس کے احکام کی نافرمانی کے نتائج کا خوف ایسا خوف انسان کے لیے اللہ کے احکام کی پابندی اور اسلام کی تعلیمات کے بنائے ہوئے طریقے کے مطابق زندگی بسر کرنے میں معاون ہوتا ہے۔ ہمیں اسلام کے ساتھ اپنی وفاداری کو عمر بھر نبھانا چاہیے، قولاً بھی اور فعلاً بھی صرف یہی ایک طریقہ ہے اس بات کو یقینی بنانے کا کہ اسے موت اسلام پر قائم رہتے ہوئے ہی آئے گی۔
٭ قرآن سے لگاؤ: دعوت کا خاص سرچشمہ جسے پیش کرنا داعی کا مقصود ہے قرآن ہے۔ داعی کو قرآن کے معاملے میں بہت حساس ہونا چاہیے۔ اسے اس کے ہر لفظ سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ اسے قرآنی احکام کو خود اپنی زندگی میں اور اپنے خاندان اور بھرپور معاشرے کی زندگی میں نافذ کرنا چاہیے۔
٭ آخرت کا شعور: اس کا شعور بھڑکیلی زندگی کے محدود ہونے کا احساس اور حیات بعد ممات کی اہمیت کا شعور ایک اچھے داعی کی زندگی کی ایک اہم خصوصیت ہے۔ قرآن کہتا ہے:
’’(وہ) اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ کہیں ان سے بری طرح حساب نہ لیا جائے۔‘‘ (الرعد:۲۱)
ایک داعی کو دوسروں کی نسبت اس حقیقت سے زیادہ باخبر رہنا چاہیے کہ اس دنیا کی زندگی محض عارضی ہے اور حقیقی طویل زندگی تو اس امتحانی مدت کے ختم ہونے کے بعد آنے والی ہے۔ اسے ایک لمحہ کے لیے بھی یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے سارے اعمال کے لیے جواب دہ ہے۔
٭ علم: ایک طرح سے دیکھا جائے تو دعوت علم سے بہرہ ور کرنے کا ایک عمل ہے۔ یہ ضروری ہے کہ داعی کو کم از کم مندرجہ ذیل باتوں کا علم ہو:
(۱) جس پیغام کو پہنچانا ہے اس کے مختلف پہلو
(۲) اس معاشرے کے مختلف پہلو جہاں وہ دعوتی کام انجام دے رہا ہے۔
(۳) دنیا میں رائج مختلف مذاہب اور نظریات، خصوصاً وہ مذاہب اور نظریات جن سے علاقے کے ان لوگوں کے ذہن اور زندگیاں متاثر ہوتی ہوں، جن کے درمیان وہ دعوتی کام کرنے کا خواہش مند ہے۔
(۴) عمومی مسائل اور حالات حاضرہ۔lll