اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے جذبہ تفکر وتدبر کو متحرک کرکے انسانوں کو دعوت دی ہے اور قرآن نے سب سے زیادہ اسی بات پر ابھارا ہے کہ لوگ غور وفکر کو طریقہ زندگی بنائیں اس لیے داعیٔ دین کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اس طریقۂ دعوت کو اختیار کرے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے رہنمائی کی ہے۔ اور سامعین کے غوروفکر اور ان کے نظروتدبر کو ابھارنے کی جدوجہد کرے۔ اس طریقِ دعوت کو اختیار کرنے سے آپ کی باتیں عقل کے راستے سے ہوتی ہوئی دل میں اتر جائیں گی اور قیل و قال اور بحث و جدال کی راہیں خود بہ خود بند ہوجائیں گی۔
ہم یہاں آپ کے سامنے چند مثالیں نقل کررہے ہیں، جن کے ذریعہ ہدایت یافتہ اسلاف نے وعظ و نصیحت کا کام لیا ہے اور لوگوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کیا اور اللہ کے عجائب و غرائب پر انہیں غورورفکر کرنے کی دعوت دی ہے:
ایک بار اللہ کے رسول ﷺ نے لوگوں کو وعظ کہا۔ چنانچہ آپ نے اپنی ہتھیلی پھیلائی اور اس پر تھوک دیا اور اپنی انگلی اس کے ایک کنارے رکھ کر فرمایا:
’’اللہ تبارک و تعالیٰ کہتا ہے: اے آدم کے بیٹے! تم مجھے عاجز کیسے کرسکتے ہو جب کہ میں نے تم کو اس تھوک جیسی حقیر چیز سے پیدا کیاہے یہاں تک کہ جب تمہیں ٹھیک ٹھاک کردیا اور تمہارے نوک پلک درست کردیے تو تم دوچادروں میں چلنے لگے اور زمین ہی میں تمہیں دفن ہونا ہے پھر تم نے مال سینت سینت کر رکھا۔ اسے خرچ نہ کیا یہاں تک کہ جب جان ہونٹوں پر آلگی تو تم نے کہا، میں صدقہ کرنا چاہتا ہوں، بھلا اب صدقہ کا وقت کہاں رہا؟‘‘
اس حدیث پرآپ خودغور کریں اور دیکھیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے انسانوں کے ذہن کو غوروفکر کے لیے کس قدر تیار کرکے اپنی بات کو سادے سے انداز میں ان کے سامنے پیش کردیا۔
٭ایک مرتبہ لوگوں کو معلوم ہوا کہ امام ابوحنیفہؒ کسی معاملے کے سلسلے میں پریشان اور غوروفکر میں مشغول ہیں۔ جب آپ سے اس بارے میں دریافت کیا گیا تو فرمایا: مجھے ایک واقعہ کی خبر دی گئی ہے جس کے سلسلے میں سوچ رہا ہوں۔ لوگوں نے بتایا ہے کہ سمندر کے کنارے ایک کشتی تھی، جس کا کوئی نگراں تھا نہ ڈرائیور، اس کے باوجود سمندر میں آتی جاتی اور مسافروں کو سوار کرکے دوسری جانب پہنچاتی تھی، بڑی بڑی موجوں کے تھپیڑے اس پر چڑھ دوڑتے تھے اس کے باوجود وہ بچ نکلتی تھی۔ راستے میں چٹانیں بھی ٹکراتی تھیں لیکن وہ مطلوبہ سمت میں بچتی بچاتی نکل جاتی تھی حالانکہ اسے چلانے والا کوئی نہ تھا۔ لوگوں نے بیک وقت کہا: یہ ایسی خبر ہے جس میں آپ کا دلچسپی لینا درست نہیں ہے، اسے نہ کوئی عقلمند شخص کہہ سکتا ہے نہ اس کی تصدیق کرسکتا ہے۔ تب آپ نے فرمایا: اے لوگو! تم ہی لوگ اس طرح کی باتیں کہہ رہے ہو، زبان قال سے نہیں زبانِ حال سے ضرور کہہ رہے ہو۔
یہ عالم موجودات اور دنیا کی کشتی ہے جس میں محکم و مدلل چیزیں ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں تو کیا تم لوگوں نے کبھی سوچا کہ ان عجائبات کی تخلیق کیونکر ہوئی ہے اور ان کا منتظم و مدبر کون ہے؟ یا بغیر کسی حاکم و مدبر کے یہ کارخانۂ عالم چل رہا ہے؟ اس نصیحت سے لوگوں کے دل بھرگئے اور بہتوں کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ جو لوگ اب تک اسلام سے بہرہ ور نہیں ہوسکے تھے انھوں نے اسلام قبول کرلیا۔
٭ امام شافعیؒ نے اس طرح وعظ ونصیحت کی: یہ شہتوت کا درخت ہے اور یہ اس کی پتیاں ہیں، ان کارنگ ایک ہے، مزہ ایک ہے، لیکن ریشم کا کیڑا اسے کھاتا ہے تو ریشم پیدا کرتا ہے اور شہد کی مکھی اسے کھاتی ہے تو شہد تیار کرتی ہے، بھیڑ اور بکریاں کھاتی ہیں تو مینگنی نکالتی ہیں، ہرن کھاتے ہیں تو مشک پیدا کرتے ہیں حالانکہ سب کی خوراک ایک ہے۔ کتنی بابرکت ہے اللہ کی ذات جو بہترین تخلیق کرنے والا ہے۔
٭ امام احمد بن حنبلؒ نے اسی طریقہ کو یوں استعمال کیا: اپنے قریب میں رکھے ہوئے ڈھکنے سے بند ایک ڈبہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ ایک مضبوط قلعہ ہے، نہایت ٹھوس، نہ کوئی دروازہ ہے نہ گزرگاہ، اس کا ظاہری حصہ سفید، چاندی کی طرح ہے، اندرونی حصہ سونے کی طرح۔ اس مضبوط قلعہ کی دیوار ایک جگہ سے اچانک پھٹ جاتی ہے اور اس میں سے ایک حیوان نکلتا ہے جو سنتا اور دیکھتا ہے۔ بہترین شکل و صورت کا مالک ہے اور پیاری سی آواز نکالتا ہے۔ جب امام موصوف لوگوں کے شوق و رغبت کو ابھار چکے اور ان کے اندر اس چیز کو دیکھنے کی حرص پیدا کردی تو ڈھکنا ہٹایا۔ لوگوں نے دیکھا کہ ایک انڈا ہے جو ٹوٹ چکا ہے اور اس کی بغل میں ایک چھوٹا سا چوزہ ہے جو ابھی ابھی اس دنیا میں آیا ہے۔ پاک ہے وہ ذات جو مردہ سے زندہ کو نکالتی ہے اور زندہ سے مردہ کو اور وہ ہر چیز پر مکمل قدرت رکھتی ہے۔
یہ چند مثالیں تھیں جن سے غوروفکر کے مختلف پہلو سامنے آتے ہیں۔ اس کے بعد انشاء اللہ آپ کے لیے یہ آسان ہوجائے گا کہ اس اسلوب کو اختیار کرسکیں اور ان مثالوں سے بھر پور استفادہ کرسکیں۔ یہاں بصرہ کے ایک عالمِ دین کا ایک واقعہ بھی قابلِ ذکر ہے جو اپنے مریدوں کے حلقے میں بیٹھا کرتا تھا۔ ایک دن اُس نے سوچا کہ اپنے شاگردوں اور پیروکاروں کو غوروفکر کے سمندر میں پھینک دے کہ اس سے وہ عبرت و موعظت کے موتی نکال سکیں۔ چنانچہ اس نے چراغ گل کرنے کا حکم دیا جب پورے کمرے پر اندھیرے، سکوت اور گہرے سناٹے کا راج ہوگیا۔ تب اس نے کہا: میرے بیٹو! اس خاموش تاریکی میں ہم آسمان سے اپنی روحوں کو غذا اور اپنے دلوں کو زندگی فراہم کرسکتے ہیں۔ تو دیکھو یہ موقع تمہارے ہاتھ سے جانے نہ پائے۔ تم میں سے ہر شخص اپنے بارے میں غور کرے کہ وہ پیدا ہونے سے پہلے کیا تھا؟ اور جب اللہ نے اسے اس دنیا میں لانے کا فیصلہ کیا تو کیا نتیجہ نکلا؟ اور کس چیز سے اللہ نے اس کی تخلیق کی؟ وہ ان تمام مراحل پر غور کرے جن سے گزر کر تم میں سے ہر شخص عقلمند، مدبر، طاقت ور اور زیرک انسان بن گیا۔ پھر موت تک اپنے سفر پر نظر ڈالے یہاں تک کہ وہ جنت یا جہنم میں پہنچ جائے۔
چنانچہ تمام مرید خاموش ہوگئے اور غوروفکر میں مشغول ہوگئے اور حکمت و موعظت کی تلاش میں ڈبکیاں لگانے لگے۔ شیخ نے ان کے غوروفکر کی حالت جاننے کی خواہش کی چنانچہ یکے بعد دیگرے ان میں سے ہر ایک سے پوچھنے لگے: اے فلاں شخص! اس وقت تم کہاں تک پہنچے ہو؟ اس نے کہا: میں اس وقت نطفہ ہوں۔ جب دوسرے سے تھوڑی دیر بعد یہی سوال کیا گیا تو اس نے جواب دیا کہ: میں اس وقت قبر میں ہوں۔ اور تیسرے سے تھوڑی دیر بعد یہی سوال پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ: میں اس وقت پلِ صراط سے گزر رہا ہوں۔ اس طرح ہر مرید ان تمام کیفیات اور احوال کو بتاتا جارہا تھا جس سے وہ گزر رہے تھے۔ ہم یہاں بقیہ دو افراد کو چھوڑ کر صاحبِ نطفہ کے اقوال اور حالات کی طرف آتے ہیں۔ جب اس سے سوال کیا گیا تو اس نے کہا: میں اس وقت نطفہ ہوں۔ بہت ہی بدنما اور بدبودار حقیر پانی کا ایک قطرہ، میں اس کی حقارت اور کمزوری پر غور کررہا ہوں پھر میںاپنے آپ پر نگاہ ڈالتا ہوں جب کہ میں مردِ عاقل ہوچکا ہوں تو مجھے ان دونوں مراحل میں بڑا زبردست فرق نظر آتا ہے۔ مجھے یقین نہیں آتا کہ کسی دن میںنطفہ رہا ہوں گا۔ حضرت! وہ بس ایک بوند ہے۔ اگر اسے یونہی چھوڑ دیں تو وہ خراب ہوجائے اور اس میںبدبو پیدا ہو جائے، لیکن پاک ہے وہ ذات جس نے میری اس وقت حفاظت کی، جب میں اپنی حفاظت نہ کرسکتا تھا۔ اُس وقت وہ قطرہ سنتا تھا نہ سمجھتا تھا، لیکن کون ہے وہ ہستی جس نے اسے عقل عطا کی تاکہ وہ غورفکر کرنے والا انسان بن جائے، تدبیریں اور انتظامات کرنے لگے یا اپنے علم اور عقل سے لوگوں کو مبہوت کرنے لگے؟ اور کس نے اسے سماعت سے نوازا؟ اور کس نے اسے آنکھیں دیں؟ اور کیسے یہ پورا وجود مکمل ہوگیا؟ انہی سوالات میں غلطاںو پیچاں تھا کہ خدا تعالیٰ کے اس فرمان کی روشنی میرے دل و دماغ کو منور کرگئی:
وہوالذی انشالکم السمع و الابصار والافئدۃ قلیلا ما تشکرون۔ (مومنون:۷۸)
’’وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہیں سننے اور دیکھنے کی قوتیں دیں اور سوچنے کو دل دیے مگر تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو۔‘‘
یہ غوروفکر مجھے اور آگے لے گیا، یہاں تک کہ میں ایک دوسرے سوال سے دوچار ہوا: اگر اللہ نے اس نطفہ کو عقل سے نہ نوازا ہوتا تو کیا خود بخود یہ دانش ور بن سکتا تھا؟ اگر اسے سماعت و بصارت نہ دی ہوتی تو کون اسے ان صلاحیتوں سے ہمکنار کرسکتا تھا؟ یہ سوالات تھے جن سے میں پریشان تھا کہ قرآنِ کریم کی اس آیت نے اس گرہ کو بھی کھول دیا:
قل ارء یتم ان اخذ اللّٰہ سمعکم وابصارکم وختم علی قلوبکم من الہ غیر اللّٰہ یاتیکم بہ انظر کیف نصرف الایت ثم ہم یصدقون۔(الانعام:۴۶)
’’اے نبی! ان سے کہو، کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر اللہ تمہاری بینائی اور سماعت تم سے چھین لے اور تمہارے دلوں پر مہر کردے تو اللہ کے سوا اور کون سا خدا ہے جو یہ قوتیں تمہیں واپس دلاسکتا ہو؟ دیکھو! کس طرح ہم بار بار اپنی نشانیاں ان کے سامنے پیش کرتے ہیں اور پھر یہ کس طرح ان سے نظر چرا جاتے ہیں۔‘‘
میرے ذہن میں تمام انسان آنے لگے، عالم و جاہل، قوی و ضعیف سب اس نطفہ کے ارد گرد کھڑے ہوگئے اور ان میں سے ہر ایک دوسرے سے مدد لینے لگا شاید کہ وہ معمولی سی ہڈی بھی ترکیب دے سکیں یا کوئی باریک نس بناسکیں یا ایک ہی بال تخلیق کرسکیں لیکن یہ سب تھک ہار کر بیٹھ گئے حالانکہ پوری کائنات اُن کا ساتھ دے رہی تھی:
یایہا الناس ضرب مثل فاستمعوا لہ ان الذین تدعون من دون اللّٰہ لن یخلقوا ذبابا و لو اجتعموا لہ، وان یسلبہم الذباب شیئا لا یستنقذوہ منہ ضعف الطالب والمطلوب۔ (الحج: ۷۳)
’’لوگو! ایک مثال دی جاتی ہے، غور سے سنو۔ جن کو تم خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ سب مل کر مکھی بھی پیدا کرنا چاہیں تو نہیں کرسکتے۔ بلکہ اگر مکھی اُن سے کوئی چیز چھین لے جائے تو وہ اسے چھڑا بھی نہیں سکتے۔ مدد چاہنے والے بھی کمزور اور جن سے مدد چاہی جائے وہ بھی کمزور!‘‘
غوروفکر نے مجھے تھوڑی دیر اور روکے رکھا اور مجھ سے یہ سوال کیا: جب ایک معمولی سے قطرے میں اللہ کی یہ کاریگری اور اس کی صنعت ہے تو آسمان و زمین کی پنہائیوں میں اس کے اسرار اور عجائب کا کیا عالم ہوگا؟ یہ تو بے کنار سمندر ہے جس کی حقیقتوں کا خدائے بزرگ و برتر کے سوا کوئی احاطہ نہیں کرسکتا: بس میرے بیٹے، رہنے دو، یہ تمہارے لیے کافی ہے۔ تمہیں صحیح طریقہ کی ہدایت مل گئی اور تمام تعریفیں اس اللہ کی ہیں جس نے ہمیں اس کی توفیق وہدایت دی۔ اگر اس نے ہدایت نہ دی ہوتی تو ہم ہرگز راہ یاب نہ ہوسکتے تھے۔
یہاں کچھ خطوط واضح کردیے گئے ہیں جو ایک صحت مند عقل غوروفکر اور تعبیر و اظہار میں اختیار کرتی ہے اور اسی عقل و دانش کی ہر دعوتِ دین کا کام کرنے والے فرد کو ضرورت پڑتی ہے۔ اگر اس طرح کے غوروفکر سے آپ مالا مال ہیں تو اس پراللہ کا شکر ادا کیجیے اور اس کے مزید فضل کے لیے دعا کیجیے اور اگر صورتِ حال مختلف ہے تو ہم نے بعض محرکات وعوامل کو یہاں ذکر کردیا ہے، انہیں اختیار کیجیے، انہی کے انداز پر اپنی زندگی کو استوار کیجیے، ان کی مثالوں پر اپنے کو پرکھئے اور مشق و تربیت حاصل کیجیے تاآنکہ آپ کے اندر اس کی بعض منفعت بخش خصوصیات پیدا ہوجائیں اور آپ خود کو ایک بہترین انسان اور کامیاب داعی کی صورت میں ڈھال سکیں۔
——