داغدار

مصطفی کمال (مرحوم)

ساجد ہر روز اپنی ماں کے پاس بڑے شوق سے دن بھر کی روداد سننے بیٹھ جاتا۔ ماں بھی بیٹے کی دلدہی کے لیے نئی دلہن کی دید کا حال بیان کرتی۔

ناشتہ میں انواع و اقسام کی چیزیں تھیں! کیا کیا بتائیں؟

ہم جو پوچھ رہے ہیں امی وہ بتائیے! لڑکی کیسی ہے؟

’’لڑکی گریجویٹ ہے…قبول صورت ہے … نقشہ بھی ٹھیک ہے…مگر ناک ذرا بڑی ہے … پکوڑا جیسی۔‘‘

پھر قبول صورت کیسے ہوئی؟

ارے سب ٹھیک ہونا چاہیے۔

’’اچھا… اچھا… ہم سمجھے ہاں۔ ماں لڑکیوں کا حال آپ جانتی ہیں۔‘‘

’’اماں تم جہاں جاتی ہو انتخاب کیوں نہیں کرپاتیں۔ ا بھی دو روز پہلے جس کے وہاں گئی تھیں اس کا صرف دوپٹہ پھٹا تھا، وہ پتہ نہیں کیسے آپ نے دیکھ لیا۔ یہ اچانک آپ کے پہنچ جانے کے سبب تو نہیں ہوا۔ ماں کا کپڑا بھی ذرا گندہ تھا۔ ہیں!‘‘

’’بیٹا دیکھنے میں لوگ گندے لگتے تھے۔‘‘

’’گندے یعنی غریب… یہی معنی نا!، یعنی وہ لڑکی کو ٹھیک سے پہنا بھی نہیں سکتے۔‘‘

’’بیٹا پتہ تو ایسا ہی چلتا ہے… ایک کپ چائے ہوٹل سے منگوا کررکھ دی۔ ایک سوکھا سموسہ، پتہ نہیں کب سے رکھا تھا۔ ایک کٹوری میں دو سوکھی مٹھائی۔ یہ کوئی خاطر داری ہے۔‘‘

’’یعنی ناشتہ بھر پیٹ ملنا چاہیے۔ چیز بھی بہتر سے بہتر ہوناچاہیے۔‘‘

’’چل ہٹ ! کیا اپنے اکلوتے بیٹے کی دلہن تلاش کرنے جاؤں اور اتنی بھی خاطر داری نہ ہو۔‘‘ یہ کہہ کر انھوں نے چٹ پٹ بیٹے کی بلائیں لے لیں۔

’’اماں یہ نہیں بتایا … وہ پورا کپڑا پہنے ہوئے تھی…‘‘

’’ہاں بیٹا! زرق برق جوڑا پہنے تھی۔ بڑا ہی بھڑک دار سوٹ تھا۔ جسم کی رنگت سے مناسبت رکھتا تھا۔‘‘

’’پھر کسر کیا تھی…؟‘‘

’’بتا دیا… اب تمہارے سمجھ میں آنے لگے۔ پھر کیا! چپ رہ! اندر دیکھنے پر سب بھید کھلتا ہے۔ ان کی ایک پڑوسن راستہ میں ملی تھیں۔ ہم نے نہیں پہچانا۔‘‘ اس نے نقاب الٹ کر کہا:

’’آپ فلاں کے وہاں لڑکی دیکھنے گئی تھیں… وہاں مت کیجیے گا، کچھ ملے گا نہیں!‘‘

’’ایسا کیوں؟ ‘‘میں نے پوچھا۔

بس شو ہے شو… کچھ ہے نہیں… بس اتنا کافی تھا۔

’’اور آپ کی اس نقاب والی سے ان کی دشمنی ہو تب!‘‘

’’چلو ہٹو! ہر بات کو مت کاٹا کرو۔ کہنے والے کا انداز دیکھا جاتا ہے۔ ہم نے پتہ لگایا۔ وہ ہماری بھلائی کے لیے کہہ گئی تھیں۔ ورنہ ان کو کیا پڑی تھی کہ راستہ چلتے بتائیے۔‘‘

کانا کوّا بھی راستہ میں مل جائے…

کانا کوا… اس رشتہ دار کو کانا کوا کہتے ہو۔ عزیز رشتہ داروں کو تم کیا جانو۔ میں خاندان میں سب کی نسبت جانتی ہوں۔ بڑا چلا ہے اعتراض کرنے۔ شادی کی بات کیا چلائی تم نے کرید کرید کر میرا ناطقہ بند کردیا ہے۔ آنکھ کیسی، رنگت کیسی، بال کیسے، پردہ ہے یا بے پردہ گھومتی ہے۔ کس بازار میں خریداری کرتی ہے‘‘

’’امی ایک جگہ اور چلی جاؤ… ناشتہ اچھا ملے گا… ایک صاحب بتا گئے ہیں۔‘‘

کہاں مکان ہے؟

وہ بغل والے محلہ … کی پہلی گلی کے نکڑ کا پختہ مکان ہے۔ ان کی دو دکانیں ہیں۔

او سمجھ گئی، قریب میں تمہاری خالہ کی نند بیاہی ہے۔ اس سے سب پتہ چل جائے گا۔ کل ہی جاؤں گی۔ کیا اکیلی لڑکی ہے؟

کئی لڑکیاں ہیں؟

ہوں! ماں نے منھ بنایا۔

منھ کیوں بناتی ہوں؟

ارے اکیلی ہوئی، ذرا اپنا گھر بن جاتا۔

اپنا گھر بن جائے گا۔ اس کی چنتا مت کرو۔ کچہری کی نوکری معمولی نہیں۔ ٹھیک سے بتاتی ہو نا! کہ اوپری آمدنی بہت ہے۔

ارے بیٹا ! بلاوجہ لوگ تمہیں پوچھنے آتے ہیں میرے لعل! اس بات کا چرچا بہت ہے۔

گھبراؤ نہیں… اس ٹوٹے گھر کی ری موڈلنگ کرواؤں گا۔فرسٹ کلاس ہوجائے گا

ماں نے آنکھ پھیلا کر تعجب سے دیکھا۔

اس کے کیا معنی بیٹا؟

ارے یہ پلاسٹر جھڑ رہا ہے… یہ باہری جنگلے پر چھاجن نہیں، چونا کلی بھی کب کی پرانی ہوگئی۔ دروازیہ پر پالش نہیں۔ اندر کی دیواریں پختہ نہیں، پیخانہ بھی پرانا خستہہے، ہمارے جج صاحب کا پیخانہ دیکھو… دکا دک رہتا ہے۔ اسی کا نام ہے ری موڈلنگ۔ یعنی اپنی خستگی کو دور کرکے نیا کردینا۔ یعنی عمدہ ملمع سازی۔

ماں کو بیٹے کی بات پر یقین آگیا۔ ان کی ساری الجھن دور ہوگئی۔ وہ سب کام چھوڑ کر اس لڑکی کو دیکھنے چلی گئیں۔

ارے بیٹا کیا کہتے ہو… ناٹی ہے۔ وہ تو میرے کندھے تک بھی نہیں پہنچتی۔ منہ … پتہ چلا… وہ جو دوکان ہے… کئی حصہ داروں کا مار کر قبضیائے ہوئے ہیں، چھوٹی والی ٹھیک ہے۔ مگر وہ اس کے لیے راضی نہیں!

مجھے جھگڑے، ٹنٹے والا خاندان نہیں چاہیے۔ کون ایسی جائداد لے گا۔ میں کچہری میں روز دیکھتا ہوں، بڑے بڑے اس میں ملوث ہیں۔ ہڑپ لینے میں کوئی عیب نہیں سمجھتے۔ بس دن رات دنیا کی فکر میں رہتے ہیں۔

پھر کیا جواب دو گی؟

تم کیوں پریشان ہو… چپ رہو… وہ خود ہی سمجھ جائیں گے۔‘‘

ارے کچہری ہی میں کام کرتے ہیں۔ ان کے تال میل سے آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے۔ کہہ دینا لڑکی پسند نہیں؟

پھر وہ کوئی اور رشتہ بتادیں گے۔ پتہ چلا وہ رشتہ لگانے کا کام کرتے ہیں۔

’’تفصیل معلوم کرلینا،ذرا سیکھو، شرمانے کی ضرورت نہیں۔ لڑکی میں دیکھ لوں گی۔‘‘

ایک نے محلہ میں ہی رشتہ بتایا ہے۔ ماں نے غور کیا اور بولیں۔ اچھا دو لڑکیاں ہیں۔ اب یاد آیا۔ ماں بہت خوبصورت ہے، گھر دوار دیکھ رہی ہوں، باپ کہیں تنخواہ دار ہیں۔

کچہری سے واپسی پر اسے ماں بہت خوش نظر آئیں۔ وہ بول پڑا۔

اما آج بہت خوش نظر آرہی ہو، آج پان کی سرخی لبوں پر چمک رہی ہے۔

چل ہٹ… میرا پان دیکھ رہا ہے… آج تمہارے لیے دلہن پسند کر آئی ہوں۔ انکار مت کرنا۔

ایسا میں کیوں کروں گا! ماں…

گورا رنگ ہے۔ ماں کی ہو بہو تصویر… ناک کھڑی… آنکھیں خوب بڑی بڑی۔ بس ذرا ہونٹ موٹے ہیں۔ گھر میں خوب رکھ رکھاؤ ہے۔ آسائش بھی ہے۔ پہلے وہ بہت چونکیں۔ پھر وہ ناشتہ پانی میں لگ گئیں۔ میں نے بہت منع کیا۔ مگر لڑکیوں نے جھٹ پٹ ناشتہ پیش کردیا۔ طبیعت خوش ہوگئی۔ اتنی جلدی انتظام میں نے کسی کے یہاں نہیں دیکھا تھا۔ تعلیم بھی ٹھیک ہے۔ بی۔ اے۔ ہے۔ سگھڑ نظر آتی ہے۔ ماں بیمار رہتی ہے، بیٹی ہی گھر کا انتظام دیکھتی ہے۔ ایک بھائی اس کا کام میں لگا ہے۔ دو بھائی چھوٹے ہیں۔ باپ کی ملازمت ابھی کئی سال رہے گی۔

ساجد کی شادی بڑی دھوم دھام سے ہوئی۔ مہینوں تک ادھر ادھر سے آنے جانے کی دھوم رہی۔ دلہن نے جس دن پہلی بار باورچی خانہ میں قدم رکھا۔ اسی دن سے ساس نے ٹوکنا شروع کردیا۔ جتنی دیر وہ پکاتی رہی، تھوڑی تھوڑی دیر پر وہ اس کی نگرانی کرتی رہیں۔ نتیجتاً وہ پلاؤ صحیح اتار نہیں پائی۔ زردہ کا چاول بھی کچا رہ گیا۔ اس دن گھر میں آفت آگئی۔ بیٹے کے آتے ہی دل کی کلفت نکال ڈالی۔ کھانا پکانے کاذرا بھی شعور نہیں۔ پتہ نہیں اپنے یہاں کیسے پکاتی تھی۔ سمدھن نے بڑی تعریف کی تھی۔

بیٹا… کھانے بیٹھا… اسے پلاؤ اچھا نہ لگا۔ وہ منھ بناکر چپ رہا۔ زردہ بھی چکھا۔ ایک ہی لقمہ میں کئی چاول کچے تھے۔ اس نے بیوی کی روشن آنکھوں میں جھانکا۔ خجالت سے اس کا سر جھکا ہوا تھا۔

تخلیہ میں اس نے شوہر سے کھانے کے سلسلے میں معافی مانگی۔ ساجد اس دن چپ چاپ کچہری چلا گیا،جبکہ ماں کا غصہ عروج پر تھا۔ یہ چاند سا چہرہ! یہ کھانے کی درگت۔ زردہ کا ایک دانہ بھی نہ کھل سکا۔ پلاؤ بھی ٹُھرّی ہوگیا۔ خیر سے بیٹا گوشت اچھا لایا تھا۔ ورنہ سب کھانا پھینکنا پڑجاتا۔ دیکھ لو دلہن، وہ دل مسوس کر کمرہ میں چلی گئی۔ کسی صورت آنسو بہا بہاکر اپنی کلفت دور کرتی رہی۔

اے اللہ ایسا منحوس دن نہ دکھا۔

ساجد کی دلہن کو دیکھنے کے لیے عورتوں کا آنا جانا جاری تھا۔ ایک دن ایک عزیزہ آئی۔ جس کا جسم داغدار تھا۔ اس کا جسم تو جسم چہرہ پر بھی داغ نمایاںتھا۔ اس نے دلہن کو دیکھا۔ ساجد کی والدہ کو مبارک باد دی۔ دلہن کو منھ دکھائی کے پیسے دئے۔ مگر اس کے چہرہ پر بشاشت نہ آئی۔ کیا بتاؤں… دوسرے کی لڑکیاں دیکھ کر اپنی لڑکیاں یاد آجاتی ہیں۔ کیا اللہ نے بدنصیبی لکھ دی۔

’’اس داغ کا علاج کیوں نہیں کراتی‘‘ ساجد کی ماں بولی۔

’’کیا نہیں کرایا۔ ساری کمائی اسی میں خرچ ہورہی ہے۔ یہ داغ پھیلتا ہی جارہا ہے۔‘‘

’’اللہ سے گناہوں کی معافی مانگ!‘‘

وہ بھی کرکے تھک چکی ہوں۔ سب کی لڑکیاں اٹھ رہی ہیں۔ میری صاف ستھری نہیں اٹھ رہی ہیں۔

شبہ میں ایسا ہوتا ہوگا۔

ننگا کرکے دکھایا… کوئی یقین نہیں کرتا!

کیسے یقین نہیں کرتا؟

تم سے بھی کہا تھا… تم نے کہاں یقین کیا؟

چل ہٹ… میں اکیلے پوت کے لیے داغدار لاؤں گی!

داغدار لائی تو ہو!

میری بہو کو کہا۔ زبان کاٹ لوں گی۔ ساجد کی ماں تڑخ اٹھی۔

زبان کاٹ لو یا گردن! کئی جگہ سن کی آرہی ہوں۔ یہ کہہ کر اس نے نقاب اٹھایا اور چل دی۔

یہ موئی… کہاں سے منحوس آگئی… آگ لگاکر چلی گئی۔ دلہن بھی کمرہ سے سن رہی تھی۔ وہ بھی سناٹے میں آگئی۔

گھر کے اندر ہلچل مچ گئی۔ ماں نے بہو کو کریدا… دیکھا بیٹا! یہ کیسی داغدار ہے… تمہیں داغدار بتاگئی۔ کہیں تمہارے خاندان میں کوئی ایسا تو نہیں؟

نہیں امی… نہیں… ایسا کوئی نہیں… ابو…امی…بھائی بہن … اللہ کے شکر سے سب بے داغ ہیں۔

پھر یہ عورت! ایسا کیوں کہہ گئی؟

حسد و جلن میں! کہ آپ نے اس کی بیٹی کو کیوں نہیں بہو بنایا۔

بیٹا سچ سچ بتا… اس سے تسلی نہیں ہورہی ہے۔

سچ کہہ رہی ہوں۔ حسد و جلن کا کوئی علاج نہیں امی! کیسے یقین دلاؤں۔

کیا اپنا بدن دکھا سکو گی!

جب چاہیے دیکھ لیجیے… یہ کہتے ہوئے … وہ کانپ گئی۔ ساس کی پینی نگاہ اس کے لرزتے جسم میں چبھ گئیں۔

برا مت مان… بدن دکھا دے۔

اسی وقت ساجد گھر میں داخل ہوا۔ اس نے ماں کے چہرہ پر تشویش دیکھی۔

بیوی کا چہرہ بھی اسے خوش آمدید کہنے کے لیے تیار نہ تھا۔ وہ فوراً کمرہ میں چلی گئی۔

کیا بات ہے امی! کچھ آپ!

وہ سفید داغ والی ہے نا محلہ میں! داغ کی بات کرتی تھی!

کیا مطلب… کیسا داغ… وہ یہ سنتے ہی بوکھلا گیا…! کیا دلہن کو! میں دیکھوں گا… میں دیکھوں گا… وہ ناشتہ پانی بھی بھول گیا۔

وہ کمرہ میں جاکر دلہن پر برس پڑا۔ تم داغدار ہو۔

نہیں… قطعی نہیں… میرے خاندان تک میں ایسا کوئی نہیں۔ بیوی نے بڑی قطعیت سے جواب دیا۔

کیسے یقین کروں!

آپ میرا پورا جسم دیکھ چکے ہیں! اب کیا…؟

آج پھر دیکھوں گا۔

دیکھ لیجیے گا… اس نے بے پروائی سے جواب دیا۔

یقین بے یقینی میں بدل چکا تھا… سب کچھ دیکھنے کے بعد بھی شک نہ جاسکا۔ صبح ہی صبح ماں نے ساجد کے چہرہ پر تردد کی لکیریں دیکھیں۔

کیا پایا… ماں نے برملا پوچھا۔

نہیں… مگر اک ذرا سا کچھ نظر آیا ہے… وہ کہتی ہے کبھی پھوڑا تھا۔ اسی کا نشان ہے۔ اسی کو کہا ہوگا… میں بھی آج دیکھوں گی۔

ساس نے اتنا ہی نہیں کیا۔ اس کے بدن کو پھر سے دیکھا۔ بلکہ وہ سمدھن سے پوچھنے اس کے گھر پہنچ گئی۔ وہاں کہرام مچ گیا۔ سمدھن نے اللہ و رسول کا حوالہ دیا۔ اللہ کی قسمیں کھائیں۔ میری بیٹی میں کوئی عیب نہیں۔ میری بیٹی بھی بے داغ ہے۔ مگر ساجد کی ماں کے لیے اللہ و رسول کا حوالہ بھی بیکار گیا۔ بہو میکے بھیج دی گئی۔ ساجد نے اسی شبہ میں اسے بہت دن تک معلق رکھا پھر ایک دن ڈاک سے طلاق نامہ لکھ کر بھیج دیا۔

ساجد کی ماں نے دل کی کلفت نکال لی۔ ساجد خالی ہوگیا۔ اس کی ماں نے نئے سرے سے نئی دلہن کی مہم شروع کردی۔ ہر لڑکی کا داغ دھبہ دیکھا جانے لگا۔ چاہے وہ چہرے پر ہو یا کہیں اور۔

ساجد نے اپنے مکان کو دو منزلہ بنوانا شروع کردیا۔ تاکہ اس کی حیثیت دوبالہ ہوسکے۔

اس کی ماں جس گھر میں جاتی۔ وہ ضرور پوچھتے کہ بیوی کو طلاق کیوں دے دی۔ وہ کہاں چپ بیٹھتیں وہ برملا کہہ دیتیں ’’اسے سفید داغ تھا۔‘‘

پھر ہم کیسے آپ کو تصدیق کرائیں کہ میری بچی کو داغ نہیں ہے؟

آپ کہیں گی مان لیں گے۔

بس اتنے پر مان لیں گی بعد میں معمولی پھوڑا پھنسی کے داغ کو برص مان کر میری بیٹی کو ہمیشہ کے لیے داغدار بنادیں گی۔

ایسے جواب پاکر وہ بہت آزردہ ہوتی۔ گھر میں بڑبڑاتی داخل ہوتی مگر اسے جلد ہی بھول جاتی۔

دو منزلہ مکان کی شان بڑھ گئی تھی۔ لوگ ساجد کی حیثیت کا اندازہ تعجب سے لگاتے۔ کچہری کی آمدنی پر عش عش کرتے۔ یونہی بڑبڑاتے گزرجاتے۔

’’ایک کو تو داغ دار بناکر چھوڑ دیا… اب دیکھو کہاں لڑکی پاتا ہے۔‘‘

سالا خود ہی داغ دار ہوجائے گا۔ بہت حرام کھا رہا ہے۔

پردہ کی آڑ سے کبھی ماں کے کانوں میں بھی ایسی باتیں پڑجاتیں۔ وہ چاہتی کہ پردہ پھاڑ کر ان مردودوں کو جواب دے دے۔ اور یہ کہے…

سو لڑکیاں ملیں گی۔ دیکھیں میرے بیٹے کو کوئی کیسے رشتہ نہیں دیتا۔

اس چیلنج کے بعد بھی ماں بیسیوں گھروں سے واپس آچکی تھی۔ وہ ڈر کی وجہ سے بیٹے کو انکاری جواب نہ سناتی۔

ساجد کی آمدنی کے ساتھ ساتھ اس کی مصروفیات صبح و شام بڑھ گئی تھیں۔ جج موافق مل گیا تھا۔ اس لیے دونوں وقت جج صاحب کے یہاں کی ڈیوٹی دینی پڑ رہی تھی۔ وہ بعض مقدمات میں ثالثی کا کام بھی انجام دینے لگا تھا۔ اس لیے اس کا اثر و رسوخ مستحکم ہوگیا تھا۔

اسی دوران اس کے پاؤں کی انگلیوں میں زخم ہوگیا۔ وہ اسے ایک پھنسی سمجھ کر ایک سرجن سے علاج کراتا رہا مگر وہ دن بدن بڑھتا گیا۔ اس کی تکلیف اتنی بڑھی کہ وہ لنگڑا کر چلنے لگا۔ ڈاکٹروں نے بتادیا کہ یہ زخم ہوائی چپل پہننے سے ہوگیا ہے۔ علاج کرتے رہیے ٹھیک ہوجائے گا۔

اس نے اسے چھپانے کے لیے اوپر سے موزہ پہننا شروع کردیا۔ کبھی کبھی انگلیوں میں نناؤ بڑھ جانے کے سبب گلٹیاں نکل آتیں جس سے اس کا چلنا مشکل ہوجاتا۔ وہ لنگڑانے لگتا۔ اس نے ایک ہلکی گاڑی خرید لی۔ اس سے کچہری آنے جانے لگا۔

اس کے زخم سے ماں زیادہ پریشان لگنے لگی۔ مگر بیٹے کے گھر سے نکلنے کے بعد دلہن تلاش کرنے کی مہم پر نکل پڑتی۔

ایک دن ایک گلی میں داخل ہوتے ہی، اس کے کانوں میں آواز پڑی۔ لو ’’داغدار‘‘ آگئی۔ آگے پیچھے دیکھ کر وہ چوکنا ہوئی۔ مگر وہ دل ہی دل میں اپنی طرف منسوب کرکے چپ رہی۔ اس مہم کے دوران یہ نام اس سے چپک کر رہ گیا تھا۔ وہ چپ چاپ اسی گھر میں داخل ہوگئی جہاں سے اس نے یہ آواز سنی تھی۔

ان کے یہاں بھی کئی لڑکیاں تھیں۔ انھوں نے بڑھیا کے لیے خاطر خواہ ناشتہ لگایا۔ اس نے خوب جی بھر کر کھایا۔ گھر والوں نے اپنی لڑکی کو خوب بنا سنوار کر پیش کیا۔ لڑکی خوبصورت تھی، اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے بات کرتے لڑکی کو دھیان سے دیکھا۔

مجھے ایسی ہی خوبصورت لڑکی چاہیے۔ جہیز کی مجھے کوئی ضرورت نہیں۔ اللہ کا دیا بہت ہے۔ لڑکا خود ہی اتنا کماتا ہے کہ کوئی کھانے والا نہیں۔ مگر اصل خدشہ اس کے دل ہی دل میں رہ گیا۔ وہ داغ کی بات زبان پر لاتے لاتے دباگئی۔

اسی دوران لڑکی کا بھائی لنگڑاتا گھر میں داخل ہوا۔ پورے کنبہ نے چیخ کر اسے گھیر لیا۔

یہ کیا ہوا؟ ایک موٹر سائیکل والا پیر کو کچلتا نکل گیا۔ لڑکے نے جواب دیا۔

’’کہاں پٹی بندھوائی‘‘

جہاں ان کے لڑکے پٹی بندھواتے ہیں۔ اس نے بڑھیا کی طرف اشارہ کرکے بتایا۔

بڑھیا چونکی، لڑکے نے ڈاکٹر کا نام بتادیا۔

کیا آپ کے لڑکے کو بھی کچھ ہوگیا ہے؟ عورتوں نے بڑھیا سے پوچھا۔

ہاں ذرا سی پھنسی پیر میں نکل آئی ہے۔ وہی تکلیف دئے ہوئے ہے۔ دو چار دن کی بات ہے ٹھیک ہوجائے گی۔ بڑھیا نے جواب دیا۔

نہیں … نہیں امی آج ڈاکٹر نے کہا ہے کہ کسی بڑے ڈاکٹر کو دکھائیے۔ سفید داغ ہوگیا ہے۔ وہ بڑھتا جارہا ہے۔

کیا کہتے ہو بیٹا… پھوڑا، پھنسی کس کے گھر میں نہیں ہوتا۔ اللہ شفا دینے والا ہے۔ جلدی ہی ٹھیک ہوجائے گا۔

میں انہیں روز دیکھتا ہوں، نہ جانے کب سے وہ پٹی بندھوا کر کچہری جاتے ہیں۔ انھیں کوئی بڑا مرض ہے۔ اب ہلکی گاڑی پر چلنے لگے ہیں۔ منھ پھٹ لڑکے نے بات کو گمبھیر بنادیا۔

’’ارے بیٹا بات کا بتنگڑ مت بناؤ۔ پھوڑا پھنسی بہت معمولی چیز ہے۔ اچھا بہن چلتی ہوں۔ بیٹے کو لٹاؤ۔ معلوم ہوتا ہے خون زیادہ گرا ہے۔ تکلیف زیادہ ہے۔ اس نے اتنا کہہ کر نقاب اٹھالیا۔ اور اتنا کہہ کر رخصت ہوئی کہ ہمیں لڑکی پسند ہے۔ آپ اپنی رضا مندی سے آگاہ کیجیے گا۔‘‘

ان کے گھر سے نکلتے ہی ماں نے بیٹے کو ڈانٹا۔ یہ تم نے کیا کہہ دیا۔ یہ تمہاری بہن کے لیے رشتہ لے کر آئی تھیں۔ یہ سب ہمیں بتانے والی بات تھی۔

مجھے کیا معلوم! ڈاکٹر نے جو کہا وہ بتادیا۔

شام کو جب ساجد کچہری سے لوٹا تو اس نے ماں کے سامنے نوٹوں کی ایک گڈی رکھ دی ۔ ماں نے پوچھا ! بیٹا تمہارا زخم کیسا ہے؟

امی زخم ٹھیک نہیں ہے کسی بڑے ڈاکٹر کو دکھانا ہوگا؟

بیٹا! پھوڑا پھنسی دوچار دن میں ٹھیک ہوجاتا ہے۔ کچھ اور تو نہیں۔ ماں نے تشویش کا اظہار کیا۔

اماں! کیا تم نے کسی سے کچھ سنا ہے۔ آج ایک دوست سے اسی بات پر تکرار ہوگئی۔ وہ بولا… ابے کوڑھ ہے کوڑھ! کسٹ آشرم میں دکھا۔‘‘

میں نے بھی اسے جھاڑ دیا۔ جب دیکھو جہاں دیکھو جملے کستا رہتا ہے۔ اماں!

کیا لڑکی پسند آگئی۔

ہاں! ہاں، زبان دے آئی ہوں۔ دیکھو کیا جواب ملتا ہے۔

امی بات کوٹالئے نہیں! بتائیے… آپ نے کوئی بات سنی ہے کیا؟

یہ کس قسم کا داغ ہے۔ بیٹا!

داغ یہ کس نے بتادیا بالکل غلط۔

شاید لڑکی کا بھائی وہیں پٹی بندھوانے گیا تھا جہاں تم بندھواتے ہو۔

ہاں… ہاں ایک لڑکا بندھوانے گیا تھا۔ موٹر سائیکل سے اس کا پیر کچل گیا تھا۔

کیا وہ بھی لڑکی نہ دیں گے۔ یہ زندگی کیا داغدار ہوجائے گی۔ وہ یہی جملہ بڑبڑاتا کمرہ میں داخل ہوگیا۔ اس نے زوروں سے دروازہ کی چٹخنی چڑھالی۔

بیٹا! زیادہ نہ سوچو۔ دروازہ کھلا رہنے دو۔ میں ناشتہ لارہی ہوں۔ سنو ! آج دلہن کی تفصیل تمہیں نہیں سنائی۔

ماں زور زور سے دروازہ پیٹنے لگی۔ وہ پیٹتی رہی۔ یہاں تک کہ پڑوسیوں کے کان بھی کھڑے ہوگئے۔

پڑوسنیں گھر میں گھس آئیں۔ کیا ہے چچی! کیا کوئی بات ہوگئی؟

پتا نہیں کیوں بیٹا پریشان ہے آتے ہی میرے سامنے نوٹوں کی گڈی پھینکی اور اندر چلا گیا۔ اب دروازہ کھولتا ہی نہیں۔ ناشتہ بھی نہیں کیا۔ معلوم ہوتا ہے کوئی خاص بات ہے۔

نہیں …نہیں… نہیں … ایسا کچھ نہیں!

داغ دھبے والی بات ہوگی چچی! کئی لڑکی والے ہمارے گھر پوچھنے آئے تھے۔

تمہیں اللہ رسول کا واسطہ بیٹی! جو آئے اسے صحیح صحیح بتانا کہ میرے بیٹے کو کوئی داغ دھبہ نہیں۔ تم پشتوں سے ہماری پڑوسن ہو، میرے بیٹے کو بچپن سے جانتی ہو، للہ سچ بولنا … غلط نہ کہنا۔

اللہ گواہ ہے…میرا بیٹا داغدار نہیں … داغدار نہیں… آنسوؤں اور سسکیوں کے ساتھ یہ کلمات دہرائے چلی جارہی تھی۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146