وادیِ کشمیر کے دامن کو ایک بار پھر داغدار کرنے کی سازش سامنے آئی ہے۔ بزرگوںاور صوفیوں کی یہ سرزمین اپنے فطری حسن کے ساتھ ساتھ اخلاقی حسن کے لیے بھی
مشہور ہے۔ وادی کشمیر میں اخلاق سوز جرائم کا گراف کبھی بھی’’تشویشناک نہیں رہا لیکن ہمارے سیاستدانوں اور مجرموں کی ملی بھگت کا ایک اور ثبوت اس وقت سامنے آیا جب وادی میں ایک سیکس ریکٹ کا انکشاف ہوا۔ یہ انکشاف بھی پولس کی دیانتداری اور اخلاق پسندی سے نہیں بلکہ عوامی بیداری کے نتیجے میں ہوا۔ لیکن یہ بات پھر ثابت ہوگئی کہ سنگین سے سنگین سے جرم اور خطرناک ترین مجرم سیاست کے سیاہ دامن میں پناہ گیر ہوسکتا ہے اور کشمیر کی آبرو کا سودا کرنے والے مجرم بھی اس پناہ گاہ میں سکون حاصل کررہے ہیں۔ رہی عوام تو اس کے حصے میں ہمیشہ کی طرح صرف احتجاج، وعدے ، دلاسے اور پولس کارروائیاں آئی ہیں۔ اس انکشاف نے کئی بڑے سوالات کھڑے کیے ہیں جس کا جواب حکومت کو دینا پڑے گا اور عوام کو اس کے لیے اپنی حکمت عملی بنانی پڑے گی۔ ورنہ یہ جرائم منظم طور پر ہمارے معاشرے کو تباہ کردیں گے۔
٭ کیا حکومت کے نزدیک عزت و آبرو، عصمت و عفت کا سوال اتنا ہی اہم ہے جتنا روزی روٹی کا سوال ہے۔ ہماری حکومتیں آوارہ فلموں کو فروغ دینے کے لیے جس قدر فراخ دلی سے روپیہ بہاتی ہیں کیا وہ اس کا معمولی مظاہرہ عصمت و عفت کی برتری ثابت کرنے میں لگا سکتی ہیں۔ سچائی یہ ہے کہ حکومتیں کہیں کی بھی ہوں، وہ اس وقت جنسی آوارگی کو فروغ دینے والے ہتھکنڈوں کی حمایت کررہی ہیں۔ اخلاقی پستی جن ملکوں کی پالیسی کا حصہ بن جائے وہ ممالک سماجی بے چینی اور روحانی بے اطمینانی کا شکار ہوکر ہی رہتے ہیں۔
٭ کشمیر ایک پر فضا سیاحتی مرکز ہے۔ دوسرے سیاحتی مراکز کی طرح یہاں بھی سیاحوں کی کشش کا ہر سامان مہیا کرایا جارہا ہے۔ خاص طور پر سیکس ٹورزم کا دور دورہ ہے اور ہر سیاحتی مقام کو’’خوب پسندیدہ‘‘ بنانے والے اسباب میں ایک بڑا سبب یہ ہے کہ وہاں جنسی بے غیرتی کتنی زیادہ ہے۔ اس سے پہلے گوا کے بارے میں یہ انکشاف ہوچکا ہے کہ وہاں کچھ انگریز نیٹ ورک معصوم بچوں کے جنسی استحصال کا بزنس کررہے ہیں۔ شرمناک بات یہ ہے کہ حکومت نے اس انکشاف کے بعد بھی کچھ نہیں کیا ہے۔ کیوں کہ کوئی بھی قدم اٹھانے سے سیاحتی کشش میں کمی واقع ہونے کا اندیشہ ہے۔ ان حکومتوں کو نام نہاد دہشت گردی کا راگ الاپنے سے فرصت ملے تو انھیں پتہ چلے کہ اس ملک میں اخلاقی دہشت گردی نے کیا کیا کارنامے کرڈالے ہیں۔
٭ کہیں نہ کہیں وادیٔ کشمیر کا سماجی قلعہ کمز ور ہوا ہے اور اس میں جرائم پیشہ لوگوں نے سیندھ ماری ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ کشمیر کے اخلاقی حسن کو تار تار کرنے کے لیے منظم جرائم تیزی سے اپنا نیٹ ورک پھیلا رہے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ اگر حکومتیں سورہی ہیں اور سیاستدانوں کے پاس عصمت و عفت کا سوال اہم نہیں ہے تو کیا عوام بھی ویسی ہی ہوگئی ہے۔ اس لیے اس اسکینڈل میں اخلاقی حِس بہت دیر میں بیدار ہوئی اور جب بیدار ہوئی تو کافی تاخیر ہوچکی تھی:
ان لا تفعلوہٗ تکن فتنۃ فی الارض وفساد کبیر۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ اس سے پہلے کشمیر میں مقابلہ حسن میں اول آنے والی انارا گپتا کے بارے میں اخلاق سوز حرکتوں کا انکشاف ہوا تھا۔ معاملہ کافی اچھالا گیا اور نتیجہ یہ نکالا گیا کہ انارا گپتا پاک صاف تھی اور ساری غلطی میڈیا اور سی ڈی بنانے والوں کی تھی۔ لیکن باخبر لوگ اب بھی محسوس کرتے ہیں کہ اس آگ کے پیچھے کسی نہ کسی چنگاری کا ہاتھ ضرور ہے۔ یہاں بھی ہم اس معاملے کو ایسے ہی نظر انداز نہیں کرسکتے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ آگ گھر کے چراغ سے ہی لگوائی جارہی ہو۔
کشمیرمیں ہندوستان کی تاریخ کے مطابق مسلمانوں نے ہمیشہ اپنی اخلاقی برتری قائم رکھی ہے۔ اس اخلاقی برتری نے ہندوستان کے مسلمانوں کو اپنے برادرانِ وطن میں محبوب بنادیا۔ اپنے معاملوں میں وہ مسلمانوں سے رہنمائی لیتے تھے۔ انھیں اپنا منصف بناتے تھے لیکن جیسے جیسے ہمارا اخلاقی ریکارڈ خراب ہورہا ہے ملک کی عوام کا اعتبار بھی ہم سے اٹھتا جارہا ہے۔
آج ملک میں جتنی اخلاقی بے راہ روی اور مغرب پرستی کے نتیجے میں فحش کاری پھیل گئی ہے اس میں برصغیر کے مسلمانوں کو ایک موقع ملا ہے کہ وہ اپنی اخلاقی برتری کا مظاہرہ کریں ۔ پاک دامنی اور پاکیزگی کے انہی اصولوں کو بہر قیمت اپنا زیور بنائے رکھیں خواہ اس کے لیے ہمیں پسماندگی اور بنیاد پرستی کا لقب ملتا رہے اور خواہ اس کے لیے ہمیں اپنے دائروں میں مقید رہنے والی قوم قرار دے دیا جائے۔ کیونکہ آخر کار اس ملک کو اخلاقی بلندی کی ہی ضرورت پڑے گی۔
یہ بات محسوس کرنے کی ہے کہ آج دنیا میں اخلاقی اصولوں اور پاکیزہ معاشرے کا صحیح تصور صرف اور صرف قرآن و سنت میں اور ان کے ماننے والوں میں ہے۔ پوری دنیا میں کوئی بھی اخلاقی اصولوں کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ اس سے شخصی آزادی میں رکاوٹ آتی ہے۔ اسی لیے قرآن و سنت سے محبت کرنے والوں اور اس کو دستور زندگی ماننے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی ذات کو اور اپنے گھروں کو ان اصولوں کا پابند بنائیں۔ اگر اس معاشرے کی ایک اینٹ بھی کمزور ہوئی تو پوری عمارت کمزور ہوگی۔ پھر مسلم معاشرے پر تو دوہری ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ وہ صرف اپنے آپ کی حفاظت کے ہی نہیں بلکہ انہیں دوسروں کی حفاظت کا بھی ذمہ دار بنایا گیا ہے۔
قوا انفسکم و اہلیکم نارا۔
اگر مسلمانان عالم اخلاقی اصولوں کی برتری ثابت کرنے کے لیے ایک اور تحریک شروع کریں تو دنیا کو تھوڑی سی حیرت تو ضرور ہوگی لیکن کوئی شخص اس کی سچائی اور اس کے حق بجانب ہونے سے انکار نہیں کرسکے گا اور ہمارا خیال ہے کہ اس وقت یہی مسلمانوں کے لیے داخلی و خارجی سطح پر، اصلاحی تحریکوں کا سب سے بڑا ایجنڈہ ہونا چاہیے۔ کشمیر اسکنڈل سے اٹھنے والے سوالات کا یہی بہتر جواب ہوسکتا ہے۔